مالک کی شان نرالی ہے اوراس کے رنگ انوکھے ہیں۔کہیں توحدِنظرتک پھیلے ہوئے سرسبزمیدان اورکہیں جھاڑجھنکاڑسے اٹے ہوئے۔کہیں سربلند کوہسار ،بے آب وگیاہ تپتے صحرااورکہیں ہری بھری شاداب کھیتیاں۔کہیں ننھے ننھے سے پودے اورکہیں بلندوبالاجھومتے اشجار، کہیں گنگناتی ندیاں اورکہیں خاموش جھیلیں، کہیں دوڑتا بھاگتا، شور مچاتا دریا اور کہیں بپھرا ہوا سمندر، کہیں خوبصورت بولیوں والے رنگارنگ پرندے اورکہیں چیرپھاڑکرنے والے درندے….. .ہزار رنگ لئے ہوئے ہے یہ کائنات اوراس کااسرار!عقل حیران ہوجاتی ہے!دیکھئے کیا یاد آ گیا!
اس سے مجھے انکارتوپہلے بھی نہ تھا
روشن کوئی مینارتوپہلے بھی نہ تھا
خالق کی مخلوق ایک جیسی نہیں ہوسکتی جیسے مصورکی تصویر۔ہم سب مختلف خدوخال لئے ہوئے ہیں،اورسب کے سوچنے کاانداز بھی ایک جیسانہیں ہے۔ کہیں معصومیت،سادگی،اپناپن،ایثاراورقربانی ہے،کہیں مکاری،عیاری،چھیناجھپٹی اورسینہ زوری ہے۔ایسی ہی ہے،ایسی ہی تھی اورایسی ہی رہے گی دنیا ۔مالک کے رنگ انوکھے ہیں،کبھی رحیم وکریم،کبھی جباروقہار،خالق و مصور،ودود،ستار، اورلطیف وغفار۔اب آپ چلتے چلے جائیں،دنگ رہ جائیں گے آپ۔ کچھ لوگوں کوبولنے کابڑاشوق ہوتاہے اوراپنی گفتگوسے لوگوں کو مرعوب اورمسحورکرلیتے ہیں اوربعض افرادکولفظوں کی جادوگری پربڑاکمال ہوتاہے اوراپنی تحریروں سے پڑھنے والوں کودیوانہ بنالیتے ہیں۔مجھے مفتی صاحب کی بات یادآگئی،بہت بڑے صاحبِ طرزادیب تھے۔بابااشفاق اوراسی قبیل کے اوربہت سے افرادبھی وہاں موجودتھے۔یہ میری ان سب سے پہلی ملاقات تھی۔”یہ بڑے بڑے ادیب،لکھاری اپنی کتابوں اورتحریروں میں بڑے بڑے مینار لیکن عملی زندگی میں”بونے”ہوتے ہیں۔”یہ لکھ کراپنی کتاب پراپنے دستخط ثبت کئے اورایک دعاکے ساتھ میرے حوالے کردی۔
ربِ کریم کالاکھ لاکھ شکرہے کہ قارئین کی ایک بڑی تعدادمجھے اپنے موضوعات سے ہٹنے نہیں دیتی۔جہاں دعاؤں اوربے پناہ محبتوں کااظہارہوتاہے وہاں محاسبہ بھی جاری رہتاہے اوربہت کچھ سیکھنے کوملتارہتاہے۔اہل ِفکرودانش بھی اپنے قیمتی آراسے نوازتے رہتے ہیں۔میری کوشش ہوتی ہے کہ ان قیمتی آراء کی روشنی میں اپنی اصلاح بھی جاری رکھوں۔ میں نے اپنے کئی مضامین میں اس زمانے کی مجاہدہ ڈاکٹرعا فیہ صدیقی،آمنہ مسعودجنجوعہ اوردیگرایسے کئی کرداروں کاذکراپنی تحریروں میں اس لئے کیاکہ قارئین کوبتایاجاسکے کہ ابھی یہ زمین بانجھ نہیں ہوئی اورموجودہ حکمرانوں کے ضمیروں کوبھی جھنجھوڑتارہاکہ یہ قوم کی بیٹیاں کس حال میں ہیں اوران کے تعذیب اورابتلاکادورکب ختم ہوگا؟
“ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ بیٹیاں ایک ایسی پھلواری کی مانندہوتی ہیں جن کے بغیرکوئی بھی گھرسجتانہیں۔بچیاں جینے کا سہاراہوتی ہیں،آنکھوں کی ٹھنڈک،راحتِ جاں بیٹیاں ہیں پھلواری،خوبصورت الفاظ کی مالاہیں”میرے ایک کالم میں یہ پڑھ کرایک ماں نے جومیرامحاسبہ کیاہے اورجس دکھ اوردرد کا اظہار اس نے کیاہے،میری شدیدخواہش تھی کہ یہ ٹیلیفون بندہوجائے اورمیں مزید شرمندگی سے بچ جاؤں لیکن دوبچیوں کی محترمہ اورحساس ماں نے شائد طے کررکھا تھاکہ وہ اپنے ترکش کے تمام تیرچلائے بغیر میدان سے ہٹنے والی نہیں !میں نے سوچاکہ قارئین کوبھی شریک کرلوں۔
“آپ کی سچائی اورمحبت سے لکھی ہوئی تحریرنے میرے دل کودکھی کردیاہے اورنہ معلوم کتنی ماؤں نے بین کئے ہوں گے،اشک بہائے ہوں گے،اپنے دلوں کودکھی کیاہوگا۔کس زمانے کی بات کررہے ہیں آپ!ہوں گی کسی زمانے میں بچیاں جینے کاسہارا….آج کے دورمیں بچیاں والدین کیلئے خوف اوردکھ کی علامت بن کررہ گئی ہیں۔بیٹیوں کے والدین کس طرح خوش نصیب ہیں؟ اندیشے،وسوسے ،جلتے بجھتے امیدوں کے دیئے،معاشرے میں عورت کے حوالے سے ہرطرف تباہی،بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے ہمہ وقت والدین سولی پرلٹکے رہتے ہیں۔ہم تواپنی بچیوں کومحبت سے سیراب کرناچاہتے ہیں ،ہم تو انہیں محبت اوراہمیت دینا چاہتے ہیں لیکن یہ معاشرہ ایسے کرنے نہیں دیتا۔یہ بہت لاڈچاہتی ہیں،درست ہے،مگران کی اس چاہت کی پاسداری کون کرے گا؟ماں باپ کے گھراٹھارہ یابیس سال رہناہوتاہے،محبت سے سیراب ہونے والوں کومحبت ہی چاہیے ہوتی ہے۔اس کے بعدمجازی خدا کی مرضی ،حقیقی خدابن کرجب چاہے اس محبت کی دیوی کاجیناحرام کردے۔
صبرورضا کی پیکر،محبت کی طالب،ایثاروقربانی کے جذبے سے سرشارکوکاروکاری کی بھینٹ چڑھاکراس کی زندگی کے دیئے کو بجھادیاجائے۔کیاآپ کومعلوم ہے کہ یہ مردوں کامعاشرہ ہے اورمردجزاوسزااورانصاف کاٹھیکیدارہے۔جوقانون مردتوڑے اس کی سزا بھی عورت کومل رہی ہے۔مردعورت کیلئے سحر ہونے ہی نہیں دیتا۔ مختاراں مائی کی عزت تارتار کردی گئی ۔وہ اٹھارہ سال تک انصاف کیلئے عدالتوں میں دھکے کھاتی رہی اوردوسری طرف ڈکٹیٹرمشرف نے عالمی میڈیاکویہ کہہ کرپاکستانی خاتون کوشرمسار کردیاکہ مغرب میں سیاسی پناہ یامالی مددحاصل کرنے کیلئے ایسے ڈرامے رچائے جاتے ہیں،کتنے باپوں نے احتجاج کیا؟کیابلوچستان میں زندہ درگورکردی جانے والی لڑکیوں کی چیخیں کسی کوآج تک سنائی دیں ہیں؟جب قبل ازاسلام والی تاریخ دہرائی جارہی تھی؟میں نے ان زندہ درگورہونے والی بچیوں پرآپ کے وہ تمام کالم بھی پڑھے تھے،لیکن آپ کی تمام مساعی بھی اس معاشرے میں بے گناہ بیٹیوں کی فریادمحبت کرنے والے باپوں کے ضمیر کوجھنجھوڑنے کیلئے ناکافی رہے!ان بچیوں نے قصدِجرم کیاتھا،جرم نہیں کیاتھا۔ ملک کے سب سے بڑے ادارے سینیٹ میں کھڑے ہوکرطاقتوربلوچ رہنماؤں نے اسے اپنی اقدارسے تعبیرکرتے ہوئے ریاست کوکسی بھی قسم کی کاروائی پرتنبیہ کی اورآپ جیسے لکھاریوں کواس معاملے پراحتجاج کرنے پرکھلم کھلادہمکیوں سے خوفزدہ کرنے کی کوششوں پرملک کے کسی قاضی نے بھی توکوئی نوٹس نہیں لیا،آخرریاست اوردیگرادارے کیوں خاموش رہے؟
ایک جنرل جواپنے آپ کوکمانڈوبھی کہتاتھااوراپنی طاقت کااظہاربرملااپنے دونوں ہاتھوں کے مکو ے دکھاکرقوم کوڈراتارہتاتھا،جو پاکستان کے سب سے بڑے منصب پربھی ناجائز اپنی طاقت کے بل بوتے پرقبضہ کئے بیٹھاتھا،وہ ایک بیٹی کاباپ بھی تھا،اس نے قوم کی ایک بیٹی عافیہ صدیقی کوچندہزارڈالروں کے عوض مکاردشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا۔کیاکسی بیٹی کاباپ آرام سے گہری نیندسولیتا ہو گا؟کیاعافیہ کادکھ ،کرب،اذیت،بے توقیری پرسکون نیندسونے دیتی ہوگی؟آٹھ سال کی بچی چالیس سالہ مرد کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہے ،خون بہاکے طورپرچھ سالہ بچی بلکہ اس سے چھوٹی بچیوں کودشمنوں کے گھربھیج دیتے ہیں،بیوی بناکر یا داسی بناکر۔ایک زندہ بیٹی تسنیم سولنگی کابھوکے کتوں کے آگے تڑپتاہواجسم،اس کی کوکھ میں پلنے والے معصوم بچے کوقبل ازوقت پیداکرواکرممتا کی ماری کو جو اذیت دی گئی،انسانیت بھی روپڑی ہوگی۔یہ سب کچھ اس کے سگے ماں باپ کے سامنے کیاگیا،جواللہ سے اپنے لئے صرف موت مانگتے رہے،کیونکہ انصاف کی امید نہیں تھی اورآج تک انصاف نہیں مل سکا۔اس غمزدہ ،دکھی،زخموں سے چورچوربدن لئے ماں باپ کے ساتھ کتنے باپوں نے احتجاج کیاہے آج تک؟
بچی ذراسی بڑی ہوتی ہے توخوف کی لہررگ رگ میں سرایت کرجاتی ہے اوروالدین کی دعاہوتی ہے کہ یاللہ!اسے اچھاگھرملے،اس کامستقبل اچھاہو۔اللہ جانتا ہے کہ اچھے مستقبل سے مرادبچی کی تعلیم وتربیت،ذہانت،سگھڑپن نہیں بلکہ صرف اورصرف اس کی شادی شدہ زندگی میں کامیابی ہوتی ہے،کہ اچھا محبت وقدرکرنے والاشوہرملے جواسے خوش رکھ سکے اوربس!ماریہ شاہ24دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلارہنے کے بعدزندگی کی بازی ہار گئی۔ایک نوجوان نے شادی سے انکارکی وجہ سے اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیاتھا۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ کوئی بیٹی مستقبل کے حسین خواب اپنی آنکھوں میں سجائے قبرمیں جاسوئی ہے۔کیاایسی کوئی مثال ہے کہ شادی سے انکارپرکسی بیٹی نے کسی بیٹے پرتیزاب ڈال دیاہو،باوجوداس کے کہ اس لڑکے نے لڑکی کی عزت کا جنازہ نکال دیاہو۔قصورکی معصوم زینب کاکیاقصورتھاکہ اسے درندہ صفت نے اپنی ہوس میں بھنھوڑکررکھ دیا۔لاہورسیالکوٹ موٹرپر بچوں کے ہمراہ سفرکرنے والی خاتون سے مبینہ زیادتی اورلوٹ مارکے واقعے کی ہوسناکی کوکیسے بھول جائیں کہ زخموں پرمرہم رکھنے کی بجائے پولیس کے اعلیٰ عہدیدار سی سی پی اولاہورعمرشیخ کے شرمناک بیان کاعدالت عالیہ کوبھی نوٹس لیناپڑا۔ کیاکسی مہذب ملک میں کسی پولیس افسرنے ایساغیرذمہ داربیان دیا ہوتاتوکیاوہ اس عہدے پرمزیدفائزرہ سکتاتھالیکن وہ تودھڑلے سے اپنی فرعونی فطرت کے مظاہردکھاتارہا۔
بیٹی کاایک المیہ مجھے یادآرہاہے کہ:میں اگربیٹی نہ ہوتی تومیراباپ اس قدرتھکتانہیں،اس قدرجھکتانہیں،بلکہ اس قدرتکلیف دہ حالات میں تویہ کہنابہترہوگاکہ بیٹیوں کوپیداہوتے ہی دفن کردینے کی رسم کوقانون کاکوئی حصہ بنادو۔بچیوں کی معصومیت سے خونخوار بھیڑیئے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اورپھریہ بیچاریاں نہ ادِھرکی نہ ادْھرکی۔اگرآپ بیٹیوں کوسچائی کادرس دیں گے تووہ مزیددھوکہ کھائیں گی۔جھوٹ کے سمندرمیں سچائی کوتلاش کریں گی اوریوں اندھیروں میں گم ہوجائیں گی۔ باپ کا دیا ہوا اعتماد، پیار، توجہ، لاڈ، سب دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے، اور اگر بیٹی سسرال میں باپ کی محبت کا تذکرہ کرے تو اور مشکل۔اس پراسے طعنہ ملتاہے کہ ہم توایسے ہی ہیں جوکرناہے کرلو،نہیں بدلیں گے ہم!ایک معزز خاتون مجھے ہمیشہ یادآتی ہیں جنہوں نے برملاکہاتھاکہ”بیٹیاں دشمن کے گھر بھلی لگتی ہیں”۔
پروین شاکر،ایک خوبصورت شاعرہ،ذہین بیٹی،ساری زندگی شوہرکی محبت کوترستی رہی،یہاں تک کہ قبرمیں جاسوئی۔بیٹیوں کے ماں باپ تواتنے مجبورہوتے ہیں کہ رخصتی کے وقت اپنی بیٹیوں کودرازی عمرکی دعاتک نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں:ہماری بیٹی سدا سہاگن رہے۔سوکیا فائدہ اللہ سے بیٹیاں مانگنے کا!میرے آقاو مولااپنی لختِ جگرسے بہت پیارکرتے تھے،آنکھوں کی ٹھنڈک کہتے تھے ۔آج خودغرضی کے دورمیں،درندوں کے ہجوم میں ہم علی جیساکہاں سے لائیں جن کواپنی فاطمائیں دے سکیں۔
دل سے جوبات نکلتی ہے اثررکھتی ہے
پرنہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
سنومیری بہن!میں آپ کی بات اوردکھ کوآگے بڑھاتے ہوئے ایک دلخراش واقعہ بھی بیان کرناچاہتاہوں۔میں بھی ایک ایسی ہی معصوم بچی سے واقف ہوں۔اس نے میرے سامنے چلنااوربولناسیکھا،ہمیشہ جھکی نگاہ اورجھکاہواسر،کم سنی میں ماں باپ نے نسبت طے کر دی۔بس اسی کے خواب دیکھتی ہوئی جوان ہوئی۔یونیورسٹی کی ادھوری تعلیم میں پیاکے گھرپاکستان سدھارگئی۔ماں باپ کی اکلوتی بیٹی،لاکھوں نہیں کروڑوں روپے شادی پراٹھ گئے۔وہ بری طرح کانپ رہی تھی اورمجھ سے ضبط کے باوجود بلک بلک کراپنے ماں باپ کاخیال رکھنے کی استدعاکررہی تھی۔خودمیں نے اپنے ہاتھوں سے اس کوکارمیں بٹھاکر رخصت کیالیکن رخصتی کے چند گھنٹوں کے بعدجس کے سہانے خواب اس نے ساری عمراپنی آنکھوں میں سجائے رکھے،صاف صاف کہہ رہاتھاکہ تم میرے ماں باپ کی پسندہواورتمہارے ماں باپ کی ساری جائدادہتھیانے کیلئے انہوں نے میری شادی تم سے رچائی ہے وگرنہ میں تو کسی اورکودل دے چکاہوں۔آخر وہی ہوا۔بمشکل دومہینے گزرے کہ اس کو واپس لندن لوٹناپڑا۔چنددن بعدنہ صرف طلاق اس کے ہاتھوں تھمائی بلکہ اس ناہنجارنے اپنی دوسری شادی کے کارڈ بھی سارے شہرمیں تقسیم کئے۔کبھی کبھاردل دہلادینے والے سوالات پوچھ کرلاجواب کردیتی ہے۔اس دن تواس کاسوال سن کرکانپ اٹھاکہ ایساطریقہ بتائیں کہ اس زندگی سے نجات بھی مل جائے اوراسے خودکشی بھی نہ سمجھا جائے کہ مرنے کے بعدمیری خودکشی میرے ماں باپ کوجہاں جیتے جی ماردیں گے وہاں میرے اعمال کوہی موردِ الزام دیا جائے گا۔اسے معلوم ہے کہ اس کے ماں باپ توجیتے جی مرچکے،وہ تواس کوخوش دیکھنے کیلئے اب بھی ہرقربانی کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ اب مجھ میں ہمت نہیں کہ اس سے آنکھیں ملاسکوں۔
گزشتہ دنوں مجھے ملنے آئی توپہچانی نہیں جارہی تھی۔زورسے جب بھی ہنستی ہے اس کی آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔اس کااصراربڑھتا جارہاہے کہ میں دوبارہ آپ کے ساتھ اللہ کے گھرکی زیارت کرناچاہتی ہوں۔میں کعبے کے سایہ میں بیٹھ کراپنے رب سے اپنے دل کی باتیں کرناچاہتی ہوں۔مجھے معلوم ہے کہ وہ کیاکہنا چاہتی ہے۔اس سے پہلے کئی مرتبہ مجھ سے پوچھ چکی ہے کہ جس اسلامی معاشرے کی آپ باتیں کرتے ہیں وہ اس دھرتی پرکہاں ہے؟جس پاکستان کے قصے آپ سناتے رہے،وہ پاکستان دنیاکے کس حصے پرموجودہے؟
میری بہن!آپ نے ٹھیک کہا کہ ہم سب لفظوں کی جادوگری کررہے ہیں،اسے آپ لفظوں کی بازی گری بھی کہہ سکتی ہیں۔لیکن ایک بات توآپ مان گئیں ناں کہ آپ نے گلہ کیاتھااورآپ کاحق بھی ہے کہ شکوہ کریں،اس لئے کہ شکوہ اپنوں سے ہی توکیاجاتاہے۔لیجئے آپ کاایک شکوہ توکم ہوا۔ میرامالک آپ کو ڈھیر ساری خوشیاں دکھائے اورآپ مردوں کویونہی آئینہ دکھاتی رہیں،رہنمائی کرتی رہیں۔ہم انسان ہیں،خطاکارہیں۔مجھے اپنی کوتاہیوں کااعتراف کرنے میں ذرہ برابرہچکچاہٹ نہیں ہے۔میں آپ کابے انتہامشکورہوں۔آپ خوش رہیں،شادرہیں،کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گامیرے رب کاجوالحیی القیوم ہے۔
فضامیں پھیل چلی میری بات کی خوشبو
ابھی تومیں نے ہواؤں سے کچھ کہابھی نہیں