Trump's foreign policy: global protests and criticism

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی:عالمی احتجاج اورتنقید

:Share

امریکاکی تجارتی پالیسی میں حالیہ ترامیم نےبین الاقوامی معیشت میں ہلچل مچا دی ہے۔ٹرمپ کی جانب سے چین،کینیڈااورمیکسیکوسےدرآمدات پراضافی ٹیرف عائدکرنےکے فیصلے نےتجارتی شراکت داروں کوناراض کردیاہےاور عالمی منڈی میں عدم استحکام پیداکردیاہے۔ٹرمپ کے ان اقدامات سے عالمی ماہرین کوخدشہ پیداہوگیاہےکہ دنیاایک نئے مہنگائی کے طوفان میں مبتلاہونے جارہی ہے جس سے خودامریکی عوام کے ساتھ ساتھ یورپ بھی اس سے شدید متاثرہوسکتاہے۔

مزید براآں ٹرمپ کی قیادت میں امریکاکی خارجہ ودفاعی پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کاامکان ظاہرکیاجارہاہے۔کیاآئندہ مستقبل میں ٹرمپ انتخابی وعدوں کے مطابق نیٹوسے بھی لاتعلقی کا اظہارکرسکتاہے؟اگرایساہواتو یورپی یونین سے پہلے ہی ڈنمارک کے جزیرہ گرین لینڈکے حوالے سے تعلقات کشیدہ ہورہے ہیں اورنیٹوممبرہونے کی بناءپرتمام نیٹوممبران ڈنمارک کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔اس حوالے سے امریکاکی دفاعی اورخارجہ پالیسی کوکس قدرنقصان ہوسکتاہے اوربالخصوص یوکرین کی جنگ میں ٹرمپ کیا کرداراداکرنے جارہاہے جبکہ مشرقِ وسطٰی میں ٹرمپ کے غزہ کے بارے میں بیانات پرعرب ممالک کوشدیدتشویش ہورہی ہے۔ نیٹوسے ممکنہ لاتعلقی،یوکرین جنگ میں امریکی کرداراورمشرق وسطیٰ میں پالیسی میں تبدیلیاں عالمی سطح پرسفارتی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔خاص طورپرڈنمارک کے جزیرہ گرین لینڈپرکشیدگی،نیٹوکے مستقبل،اورمشرق وسطیٰ میں غزہ کے معاملے پرٹرمپ کے بیانات نے دنیابھرمیں تشویش پیداکردی ہے اوراب ٹرمپ کی نئی جاری کردہ پالیسیوں سے جوعالمی تجارتی بحران پیداہو گیاہے،یہ کس قدرخودامریکا،اس کے اتحادیوں اوردنیاکے دیگرممالک پراثرانداز ہو سکتاہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے چین،کینیڈا،اورمیکسیکوسے درآمدہونے والی اشیاءپربالترتیب25فیصداور10فیصداضافی محصولات عائدکیے ہیں ۔ اس کابنیادی مقصد امریکی معیشت کوتحفظ دینااورغیرملکی مصنوعات پرانحصارکم کرناہے۔تاہم،اس کے نتیجے میں عالمی تجارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں اورمختلف ممالک کی معیشتوں پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ،امریکی صارفین پربھی قیمتوں میں اضافے کے دباؤکاامکان ہے،جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوسکتاہے۔

جسٹن ٹروڈونے کہاہے کہ کینیڈاٹرمپ کی جانب سے کینیڈین درآمدات پرعائدکیے جانے والے محصولات کے جواب میں اپنے محصولات متعارف کرا دئے ہیں۔ان کاکہناتھاکہ کینیڈا ایسانہیں چاہتالیکن وہ امریکی اقدامات کاجواب دینے کیلئے تیارہے۔کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے امریکی فیصلے کوغیرمنصفانہ قراردیتے ہوئے155ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات پر جوابی25فیصد محصولات لگانے کااعلان کردیاہے۔30ارب ڈالرکی مصنوعات پرمنگل سے نافذالعمل ہوں گے جبکہ21دن میں مزید125ارب ڈالرکا اطلاق ہوگاتاکہ کینیڈین فرموں کو ایڈجسٹ ہونے کاوقت مل سکے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیاوہ کینیڈین حوالہ دے رہے ہیں یا امریکی ڈالرکا۔اس حوالے سے وہ جلدہی میکسیکوکے صدرکلاڈیاشین بام سے بھی مشاورت کریں گے اورکینیڈین عوام سے خطاب کریں گے۔

ان کاکہناہے کہ یہ ردعمل”دوررس”ہوگااوراس میں امریکی بیئر،شراب،بوربون،پھلوں اورپھلوں کے جوس بشمول نارنجی کاجوس، سبزیاں، پرفیوم، کپڑے اورجوتے شامل ہوں گے۔اس میں گھریلوسامان اورفرنیچراورلکڑی اورپلاسٹک جیسے سامان بھی شامل ہوں گے۔جسٹس ٹروڈوکاکہناہے کہ انہوں نے20جنوری کوٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعدان سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم ابھی بات نہیں ہوئی۔ٹروڈونے دسمبرمیں فلوریڈاکے اپنے ریزورٹ مارلاگومیں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جب انہوں نے محصولات کوروکنے کی کوشش کی تھی۔

یادرہے کہ جسٹن ٹروڈواورٹرمپ کے درمیان کئی بارمتنازع تعلقات رہے ہیں لیکن ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران دونوں نے مل کر کام کیاتھا۔یہ پوچھے جانے پرکہ کیاان کے خیال میں امریکی محصولات واقعی امریکامیں فینٹانیل کے بہاؤکوکم کرنے کی خواہش کی وجہ سے ہیں،جیساکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیاہے،ٹروڈونے کہاکہ امریکااورکینیڈاکی سرحد “دنیاکی سب سے مضبوط اورمحفوظ سرحدوں میں سے ایک ہے۔امریکاجانے والے فینٹانل کاایک فیصدسے بھی کم حصہ کینیڈاسے آتاہے جبکہ امریکاجانے والے غیرقانونی تارکین وطن میں سے ایک فیصدسے بھی کم کینیڈاسے آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ “اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ مزیدکچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔کینیڈاکے خلاف یہ تجارتی کارروائی زندگیاں بچانے کیلئے مل کرکام کرنے کابہترین طریقہ نہیں ہے۔آئندہ چندہفتے کینیڈین اورامریکیوں کیلئے مشکل ہوں گے۔امریکیوں کی اس تجارتی کارروائی اورہمارے ردعمل کے حقیقی نتائج ہماری سرحدکے دونوں طرف کے لوگوں اورکارکنوں پرمرتب ہوں گے۔ہم یہ نہیں چاہتے تھے لیکن ہم کینیڈاکے لوگوں کے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اورنہ ہی کینیڈااورامریکاکے درمیان کامیاب شراکت داری سے پیچھے ہٹیں گے۔

ادھرچین کی وزارت تجارت نے بھی ٹرمپ کی جانب سے تمام چینی مصنوعات پر10فیصد محصولات عائد کرنے ناراضگی کااظہارکرتے ہوئےاس غیر منصفانہ تجارتی پالیسی کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں مقدمہ دائرکرنے کااعلان کیاہے۔ چین کی جانب سےجاری بیان میں کہاگیاہے کہ”چین اس سے سخت عدم اطمینان کاشکارہے اوراس کی سختی سے مخالفت کرتاہے، اس طرح کے اقدامات چین اور امریکا کے درمیان معمول کے اقتصادی اور تجارتی تعاون کیلئے نقصان دہ ہ اورعالمی تجارتی تنظیم(ڈبلیوٹی او)کے قوانین کی”سنگین خلاف ورزی ” ہے۔چین اس امریکی غلط اقدام کے خلاف ضروراپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے جوابی اقدامات کرے گا۔چین امریکاپرزوردیتاہے کہ وہ اپنی غلط سوچ کودرست کرے اوراس مسئلے کا سامناکرنے کیلئے چینی فریق کے ساتھ مل کرکام کرے،کھل کربات چیت کرے،تعاون کومضبوط بنائے اورمساوات،باہمی فائدے اورباہمی احترام کی بنیادپراختلافات کو حل کرے۔

چین کی وزارت تجارت کے ترجمان ہی یاڈونگ کے مطابق ٹیرف کے معاملے پرچین کامؤقف مستقل ہے اورمحصولات کے اقدامات نہ توچین،امریکااورنہ ہی باقی دنیاکے مفادات کیلئے سازگارہیں۔چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی ژنہواکے مطابق چین نے شدید ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ چین اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے جوابی اقدامات کرے گا۔

یادرہے کہ امریکی صدرنے کینیڈااورمیکسیکوسے درآمدات پر25فیصداورچین سے درآمدات پر10فیصداضافی ٹیرف لاگوکرنےکے حکم نامے پردستخط کردیے ہیں۔امریکی صدرکاکہناہے کہ ان محصولات کو”غیرقانونی غیرملکیوں اورمہلک منشیات کے بڑے خطرے کی وجہ سے نافذکیاہے،جس میں فینٹانل بھی شامل ہے”۔

میکسیکونے بھی اس اقدام پراحتجاج کیاہے اورممکنہ طورپرجوابی تجارتی اقدامات اٹھانے کاعندیہ دیاہے۔میکسیکوکی صدرکلاڈیا شین بام نے کہاہے کہ امریکاکی جانب سے میکسیکوکی تمام درآمدات پر25فیصدمحصولات عائدکرنے کے اعلان کے بعدوہ امریکا پرمحصولات سمیت دیگرجوابی اقدامات متعارف کرائیں گے۔انہوں نے وزیراقتصادیات کوہدایت کی ہے کہ وہ”پلان بی”پرعمل درآمدکریں،جس میں میکسیکوکے مفادات کے دفاع کیلئے ٹیرف اورنان ٹیرف اقدامات شامل ہوں گے۔

وائٹ ہاؤس کاکہناہے کہ یہ فیصلہ چین،کینیڈااورمیکسیکوکوامریکامیں زہریلی ادویات کی اسمگلنگ روکنے کے وعدوں پرعمل درآمدکیلئے جوابدہ ٹھہرانے کیلئے کیاگیاہے۔تاہم،ناقدین کے مطابق،یہ اقدام دراصل امریکی معیشت کو تحفظ دینے اورملکی صنعتوں کوفروغ دینے کیلئے کیاگیاہے۔اس کے علاوہ،اس پالیسی سے امریکاکی اندرونی سیاست پربھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں،خاص طورپران ریاستوں میں جہاں صنعتیں درآمدات پرمنحصرہیں۔

ٹرمپ کے اس اعلان کے بعدکہ”غیرقانونی تارکینِ وطن کوگوانتاناموبے کیمپ میں بھیج دیاجائے”اس حکم نامے کے جاری ہونے کے بعدجہاں غیرقانونی تارکینِ وطن میں سخت تشویش اوراضطراب پیداہوگیاہے وہاں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی انسانی ہمدردیوں کی بناءپراسے مؤخر کرنے کامشورہ دیاہے۔یادرہے کہ اس فیصلے کے بعداب تک8ہزارسے زائد افرادامریکاچھوڑ چکے ہیں،جس کے نتیجے میں سستی لیبرکی قلت پیداہوگئی ہے۔اس قلت کے باعث امریکی صنعتوں ،خصوصاًزرعی اورتعمیراتی شعبے میں مشکلات پیداہورہی ہیں۔مزدوروں کی کمی کے باعث امریکی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوسکتاہے ، جس سے کاروباروں پردباؤ بڑھے گا۔امریکی عوام کی قوت خریدپربھی برااثرپڑے گااوریہ بھی عین ممکن ہے کہ مہنگائی کادورجرائم میں بھی اضافہ کر دے،اس لئے کسی بھی طورپرعجلت کامظاہرہ کرنے کی بجائے ان غیر قانونی تارکین وطن کوقانونی طورپر معافی دیکرامریکی ٹیکس گاروں میں اضافہ کرکے ملکی معیشت کوسنبھالادیاجائے۔

امریکااورہالینڈنے پاکستان میں قائم ایک بڑے سائبرکرائم نیٹ ورک کوختم کرنے کادعویٰ کیاہے۔اس نیٹ ورک کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکی امدادسے چلنے والے درجنوں پروگرامزکو بھی بندکرنے کاحکم دیاگیاہے۔اس اقدام کے پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت پرکیامنفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اورہم ان منفی اثرات سے بچنے کیلئے کیامؤثراقدامات اٹھاسکتے ہیں،ایک مفصل مضمون اس کیلئے درکارہوگالیکن صرف چند اشاریے عرض کئے دیتاہوں:

جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ڈیجیٹل معیشت کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کرداراداکرتی ہے اورپاکستان میں بھی اس شعبے کی ترقی پرخصوصی توجہ دی جارہی ہے۔تاہم سائبرسیکیورٹی کے مسائل سے بھی ہم دوچارہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے ملک میں سوشل میڈیاکے غلط استعمال نے سیاسی انارکی میں بے حداضافہ کردیاہے،اس کے تدارک کیلئے موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی جیسے عوامل پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت پرمنفی اثرات ڈال رہے ہیں۔پاکستانی آئی ٹی سیکٹرکے کاروباری نقصانات میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے اورآئی ٹی سیکٹرجو کسی بھی ترقی یافتہ مملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصورکی جاتی ہے، پاکستان میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی یہ صنعت کاسانس بندہوتادکھائی دے رہاہے اوربیرونِ ملک سے حاصل کردہ پراجیکٹس کو بروقت مکمل کرنے کیلئے پریشان ہیں۔یقیناًان تمام مشکلات اورڈیجیٹل جرائم سے نمٹنے کیلئے نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس کیلئے کئی مرتبہ ان صفحات پرطریقہ کارپر بھی بحث کرچکاہوں۔

اگرآپ کویادہوتوٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں میں نیٹوسے علیحدگی کاامکان ظاہرکیاگیاتھا۔یقیناًٹرمپ انتطامیہ اس سے بھی واقف ہوگی کہ اگرامریکانیٹوسے لاتعلق ہوجاتا ہے تواس کے کیااثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔نیٹومیں امریکاکی شمولیت کابنیادی مقصدیورپی اتحادیوں کوتحفظ فراہم کرناہے۔علیحدگی سے یورپی یونین کے دفاعی نظام پردباؤبڑھے گا۔نیٹوکی کمزوری کا براہ راست فائدہ روس کوہوسکتاہے،خاص طورپریوکرین جنگ میں اس کی پوزیشن مزیدمضبوط ہوسکتی ہے۔گرین لینڈکے معاملے پرامریکااورڈنمارک کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں ۔نیٹوکے دیگرممبران ڈنمارک کے ساتھ کھڑے ہوں گے،جس سے امریکاکیلئے سفارتی مسائل پیداہوسکتے ہیں۔

یوکرین پرروسی حملے کے بعدامریکانیٹوکے ساتھ مل کریوکرین کی بھرپورمددکررہاہے تاہم،ٹرمپ انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ ممکنہ پالیسیاں اس خطے میں جنگ کی بجائے معاشی پابندیوں سے یوکرین میں ہوتی ہوئی شکست اورروس کے بڑھتے اقدام کو روکاجاسکتاہے۔ٹرمپ نیٹوپرانحصارکم کرنے کے نظریے پریقین رکھتے ہیں جس کے باعث یوکرین کیلئے امریکی امدادمیں کمی آ سکتی ہے۔ٹرمپ کی خارجہ پالیسی زیادہ ترمعاشی وتجارتی تعلقات پرمرکوز ہوسکتی ہے،جس کے نتیجے میں روس کے ساتھ مذاکرات اورممکنہ معاہدے کاامکان بڑھ سکتاہے۔امریکاکی ممکنہ پسپائی سے یورپ کواپنی دفاعی حکمت عملی پرنظرثانی کرنی پڑے گی،جس سے نیٹوکے اندرتناؤپیداہوسکتاہے۔

ٹرمپ کے غزہ کے بارے میں بیانات نے عرب ممالک میں تشویش پیداکردی ہے۔ان کے سابقہ دورمیں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی اسرائیل نوازرہی ہے،جس کے دوبارہ ممکنہ اطلاق سے خطہ دوبارہ بدامنی کی طرف لوٹ سکتاہے جس کے پہلے سے کہیں زیادہ مضراثرات ہوسکتے ہیں۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،اردن،مصرکے علاوہ دیگر خلیجی ممالک امریکی پالیسی سے مزیددورہوسکتے ہیں۔اگرامریکااسرائیل کی مکمل حمایت جاری رکھتاہے،توفلسطین کی صورتحال مزیدخراب ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں ایران اورامریکاکے تعلقات مزیدکشیدہ ہوسکتے ہیں،جس کے نتیجے میں خطے میں عدم استحکام بڑھے گا۔آئندہ آنے والے وقت میں اسی خطے میں اسرائیل کی ترکی کے مخاصمت میں اضافہ ہوسکتاہے جویقیناً ٹرمپ کیلئے ایک بڑاچیلنج ثابت ہو سکتاہے۔

امریکی تجارتی پالیسیاں،امیگریشن اصلاحات،اورسائبرکرائم کے خلاف اقدامات عالمی سیاست اورمعیشت میں اہمیت رکھتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ پالیسیاں امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے بنائی گئی ہیں،وہیں دوسری طرف ان کے عالمی سطح پرشدیدردعمل دیکھنے میں آرہاہے۔ان پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات کاجائزہ لیناضروری ہوگاتاکہ ان کے ممکنہ مثبت اورمنفی نتائج کوبہتر طریقے سے سمجھاجاسکے۔ان پالیسیوں کااثرصرف امریکاپرہی نہیں بلکہ عالمی معیشت پربھی پڑے گااوران کے تحت مختلف ممالک کونئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔

امریکی خارجہ ودفاعی پالیسی میں ممکنہ تبدیلیاں عالمی سطح پراثراندازہوسکتی ہیں۔نیٹوسے علیحدگی،یوکرین میں امریکی کردار میں کمی،اورمشرق وسطیٰ میں اسرائیل نوازپالیسی کے نتیجے میں امریکا کے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔ان پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات عالمی سفارتی، اقتصادی ،اورسیکیورٹی صورتحال پرگہرے نقوش چھوڑسکتے ہیں جس کابہرحال سب سے پہلے امریکی اتحادی شکارہوں گے کیونکہ گزشتہ صدی سے امریکاکی یہ تاریخی روایت ہے کہ دوستوں کومفادکیلئے استعمال کرنے کے بعدان کی فوری قربانی ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں