The father must be safe

باپ سلامت رہنا چاہیے

:Share

بعض اوقات ایک تصویرہی کئی کتابوں پربھاری ہوتی ہے۔برادرم جنرل (ر)عبدالقیوم کی ارسال کردہ تصویرنے مجھے ایساششدراورجذباتی کردیاکہ اس کو دیکھ کرب ے اختیاربچہ بننے کی آرزوتڑپنے لگی۔بظاہرتواس تصویرمیں بیٹاباپ کے سایہ میں قدم بڑھارہاہے لیکن غورکریں توساری کامیاب زندگی کا خلاصہ اس میں نظر آتاہے اورہرصاحب دل اس کودیکھ کراپنے ماضی میں جانے کی خواہش ضرورکرے گالیکن کیاہی بہترہے کہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے محسن کے احسانات کویادکرکے نئی نسل سے باپ کاتعارف کروایاجائے۔

جب سے حضرت انسان نے لکھناسیکھاہے تب سے ماں کی محبت پرلکھاجارہاہے لیکن باپ جس کی محبت کاہررنگ نرالاہے،اس پرتو باپ نےکبھی نہیں لکھا بھلااورکوئی کیالکھتا۔ماں کی محبت توبچے کی پیدائش سے اس کی آخری عمرتک ایک سی ہی رہتی ہے یعنی اپنے بچے کی ہربرائی کوپس پردہ ڈال کراسے چاہتے رہنا۔بچپن میں بچہ اگرمٹی کھائے تواس پر پردہ ڈال کرباپ سے بچاتی ہے،کبھی پڑھائی کے نتیج ے کی رپورٹ کارڈچھپاکراورجوانی میں گھر دیرسے آئے توکئی بہانوں سے باپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچاتی ہے ، جیسے جیسے بچہ بڑااوراس کے”جرائم “بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے ماں اپنے پردے کا دامن پھیلاتی چلی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس”باپ” جواپنی اولادکوبے پناہ چاہنے کے باوجوداس لئے سختی کرتاہے کہ کہیں بچہ خودکوبڑے نقصان میں مبتلانہ کربیٹھے ، پڑھائی پرسختی برتتاہے کہ بچہ کم علم ہونے کے باعث کسی دوسرے کامحتاج نہ بن جائے، رات کو دیرسے گھرآنااس لئے کھٹکتاہے کہ کہیں کسی بری لت میں مبتلاہوکراپنی صحت اورمستقبل نہ خراب کربیٹھے۔

یعنی بچے کی پیدائش سے لیکرقبرتک باپ کی زندگی کامحوراس کابچہ اوراس کامستقبل ہی رہتاہے،جہاں ماں کی محبت اس کی آنکھوں سے اورعمل سے ہر وقت عیاں ہوتی ہے وہیں باپ کی محبت کاخزانہ سات پردوں میں چھپارہتاہے،غصہ،پابندیاں،ڈانٹ،مار ،سختی یہ سب وہ پردے ہیں جن میں باپ اپنی محبتوں اورقربانیوں کوچھپاکررکھتاہے کہ بھلے اس کی اولاداسے غلط سمجھے مگر وہ یہ سب پردے قائم رکھتاہے کہ اس کی اولادانہی پردوں کی بدولت کامیابی کی سیڑھیاں چڑھناشروع کردے۔

میرے والدمحترم انتہائی رعب داب شخصیت کے مالک تھے لیکن کبھی بھی انہوں نے کسی کومارانہیں۔بظاہرانتہائی سخت معلوم ہوتے تھے۔ہم بھائیوں پر بہت سخت پابندیاں تھیں ۔دوستوں کے ساتھ رات دیرگئے تک بیٹھنے کی قطعاًاجازت نہیں تھی اورنہ ہی جیب خرچ اتنا ملتا کہ فضول عیاشی کرسکیں۔ باقی بھائیوں نے توشائداتنی سخت پابندیوں کاسامنانہ کیاہولیکن میرے ساتھ بے انتہاء پیار ہونے کے باوجود کبھی میری بے جا ضدکونہیں ماناگیا،بقول ان کے بڑا بیٹاگاڑی کاانجن ہوتاہے اورباقی بہن بھائی اس کے ساتھ منسلک بوگیوں کی مانندہوتے ہیں۔آج جب اپنے بچپن کے دوستوں کونشے یادیگرخرافات میں مبتلا دیکھتاہوں تواللہ کالاکھ لاکھ شکراداکرتاہوں کہ ہمارے والد صاحب کی ان پابندیوں کی بدولت ہرطرح کے نشے سے خود کو بچائے رکھااورآج اس مقام پر کھڑے ہیں کہ اپنی تمام کامیابیوں کو اپنے باپ نام کرکے خودکومعاشرے میں باعزت مقام تک پہنچے ہیں جہاں ہمارے والدین کاسرفخرسے بلند ہے ۔

کبھی سوچاہم نے کہ باپ سانسیں لیتے ہوئے بھی مرجاتے ہیں،جیسے جیسے اولادکااختیاربڑھتااوروالدکااختیارگھٹتاجاتاہے ویسے ویسے ہی باپ”مرنا” شروع ہو جاتاہے۔جب بچہ طاقتورجوان ہونے لگتاہے توباپ ہاتھ ہٹاناتوکجااس کوسمجھانے کی غرض سے بھی اپنی آوازکواس خوف سے دبالیتاہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کرجواب دے دیا تو اس قیامت کومیں کیسے سہوں گا؟جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اورفیصلے لینے کے بعدباپ کوآگاہ کرکے “حجت” پوری کی جانےلگے توبوڑھاشخص توزندہ رہتاہے لیکن اس کے اندرکا”باپ” مرنا شروع ہوجاتاہے ۔ باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس اولادپراس کاحق قائم ہے، جس اولادسے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پرپتھررکھ کراس کی سرزنش بھی کی ہو،اولادکے آنسو بھلے کلیجہ چیررہے ہوں پھر بھی اس لئے ڈانٹا کہ کہیں ناسمجھ اولادخودکوبڑی تکلیف میں مبتلانہ کربیٹھے،ماں کی محبت تویہ ہے کہ پیاس لگی(پیارآیا) توپانی پی لیالیکن باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی توخودکواتنا کہ پیاس لگی توخودکواوراتنازیادہ تھکایا کہ پیاس لگتے لگتے اپنی موت آپ مرگئی۔

آپ چاہے کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں،آپ کے والدکاآپ کی زندگی پرہمیشہ اختیاررہتاہے لہذاکوشش کریں کہ عمرکے کسی حصّے میں والد کوکبھی احساس نہ ہوکہ آپ”بڑے”ہوگئے ہیں یاان کی اہمیت گھٹ چکی ہے لہذاپیسے ہونے کے باوجود اپنے ہرکام کیلئے والدسے پیسے مانگنااپنی عادت بنا لیں کیونکہ یہ والد کو اچھا لگتاہے،رات اگرکسی پروگرام سے واپسی پردیرہو جانے کاخدشہ ہوتوآدھاگھنٹے پہلے والدکی منتیں کرناپڑیں کہ پلیزجانیں دیں جلدی واپس آجاؤں گا ،توان کی دعاؤں کا مضبوط حصار آپ کو اللہ کے حفظ و امان میں رکھے گا۔سڑک عبورکرتے ہوئے اگر آپ کا والدآج بھی آپ کا ہاتھ پکڑ کررکھتاہے تو اللہ کاشکراداکریں کہ اس عمرمیں بھی وہ آپ کواپنے سے زیادہ عزیزرکھتاہے چاہے آپ کے بچے بھی شادی شدہ ہوگئے ہوں اورآپ کے والدکے اس عمل کودیکھ کردل ہی دل میں ہنستے بھی ہوں اورآس پاس کھڑے لوگوں کی نظروں کوبھی نظراندازکرتے ہوئے ابوکاہاتھ پکڑکر روڈ کراس کرنے میں اپنی عافیت جانیں۔

باپ کواگرزندہ رکھناچاہتے ہیں توعلی الصبح ان کومسکراکردیکھ کرحج وعمرہ کااجرحاصل کریں،کام پرجانے سے پہلے ان سے اجازت اوردعائیں لینامت بھولیں کہ یہ دعائیں سارادن آپ کے ہرکام میں باعثِ برکت اورحفاظت کاپہرہ دیں گی۔اگر ممکن ہوتودن میں فون پرخیریت دریافت کرنااپنا معمول بنالیں اورگھرلوٹتے ہی سب سے پہلے والدکومسکراکرسلام کریں اوراپنی تھکاوٹ کوفوری ذکرنہ کریں کہ باپ توآپ کے چہرے کوپڑھ کرسب کچھ جان لے گااورکوئی ایسی خبرسنانے سے بھی گریز کریں کہ جس کافوری اثران کیلئے مضرہو۔اگرخبرسنانابہت ہی ضروری ہوتوپہلے انتہائی دانشمندی سے وہ ماحول بنائیں اوراس خبرکیلئے مناسب وقت کا انتظارکرلیں۔

باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اس کے اورکچھ نہیں مانگتی کہ وہ چارپائی پرپڑاکوئی بہت ہی بیماراورکمزورانسان ہی کیوں نہ ہو،اگراس کے اندر کا”باپ” زندہ ہے تویقین جانئے اسے زندگی میں اورکسی شے کی خواہش اورضرورت نہیں ہے اورآپ کیلئے مخلص دعا ؤ ں کاسلسلہ بھی جاری وساری رہے گاجوآپ کودنیاکی کئی آفات وبلیات سے محفوظ رکھے گا۔اگر آپ کے والدصاحب سلامت ہیں توخدارا ان کے اندر کا”باپ”زندہ رکھئے یہ اس “بوڑھے شخص ” کاآپ پرحق بھی ہے اورآپ کا فرض بھی ہے کیونکہ آنے والے کل میں آپ بھی وہی فصل کاٹیں گے جس کوآپ نے اپنے حسنِ اخلاق اورمحنت سے بویا ہوگا۔یاد رکھیں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے توباپ جنت کادروازہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں