The dance of martyrdom

شہادت کارقصِ بسمل

:Share

لفظ بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں،معصوم اوربھولے بھالے بچوں کی طرح،بہت محبت کرنے والے،لاڈوپیارکرنے والے،نازواداوالے، تنگ کرنے،روٹھ جانے اورپھربہت مشکل سے ماننےوالے یاہمیشہ کیلئےمنہ موڑلینے والے۔کبھی تومعصوم بچوں کی طرح آپ کی گودمیں بیٹھ جائیں گے پھرآپ ان کے بالوں سے کھیلیں،ان کے گال تھپتھپائیں تووہ کلکاریاں مارتے ہیں،انہیں چومیں چاٹیں،بہت خوش ہوتے ہیں وہ۔آپ ان سے کسی کام کاکہیں تووہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔ محبت فاتح عالم جوہے۔کبھی تنگ کرنے پرآجائیں توان کارنگ انوکھاہوجاتا ہے۔آپ ان کے پیچھے دوڑدوڑکرتھک جاتے ہیں لیکن وہ ہاتھ نہیں آتے کہیں دم سادھے چھپ کربیٹھ جاتے ہیں اورآپ انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔آپ ہلکان ہوں توہوجائیں وہ آپ کوتنگ کرنے پراترے ہوتے ہیں اورجب آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے تووہ دیکھومیں آگیا کہہ کرآپ کے سامنے کھڑے مسکرانے لگتے ہیں۔

بچوں کی طرح لفظوں کے بھی بہت نازنخرے اٹھانے پڑتے ہیں اوراگراللہ نہ کرے وہ روٹھ جائیں اورآپ انہیں منانے کی کوشش بھی نہ کریں تب توقیامت آجاتی ہے۔ایک دم سناٹا ، تنہائی اداسی،بے کلی آپ میں رچ بس جاتی ہے،آپ خود سے بھی روٹھ جاتے ہیں۔ہاں ایسا ہی ہوتاہے۔آپ کاتومیں نہیں جانتا،میرے ساتھ توایساہی ہے۔میں کئی ہفتوں سے اسی حالت میں ہوں۔کچھ سجھائی نہیں دیتا،بے معنی لگتی ہے زندگی،دوبھرہوگیاہے جینا………لیکن پھروہی جبرکہ بڑا مشکل ہے جینا،جئے جاتے ہیں پھربھی۔ تھوڑی دیرکیلئے ای میل دیکھنے کی کوشش کرتاہوں توان گنت،ہزاروں دعا گومحبتوں کے پھول سجائے میرااس طرح استقبال کرتے ہیں کہ اپنے کریم ورحیم رب کے کرم ورحم کی بارش میں مکمل طورپربھیگ جاتاہوں اورخودمیں دوبارہ اتنی قوت محسوس کرتاہوں کہ اپنے اردگردکی بھی خبرلے سکوں۔

مزاحمتی قوت گرتے ہوؤں کوپیروں پرکھڑاکرتی ہے،ڈوبتے ہوؤں کوتیرنے کاحوصلہ دیتی ہے اورساحل پرلاپٹختی ہے۔بیمارکوبیماری سے جنگ میں فتح یاب کرتی ہے(اللہ کے حکم سے) بجھتے دیئے کی لوبجھنے سے پہلے تیزہوجا تی ہے،کیوں؟شایددیادیرتک جلناچاہتاہے۔یہ اس کی مز احمت ہے۔اندھیروں کے خلاف کبھی کوئی مسافرکسی جنگل میں درندوں کے درمیان گھر جائے توتنہاہی مقابلہ کرتاہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ایک ناتواں مریض جوبسترسے اٹھ کرپانی نہیں پی سکتاناگہانی آفت کی صورت میں چھلانگ لگاکربسترسے نیچے کود سکتا ہے ۔

لیکن تا ریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیاوی کامیابی کے حصول کیلئے مزاحمت کمزورپڑکرسردہوجاتی ہے لیکن اگرمز احمت کے ساتھ”ایمان باللہ”شامل ہوجائے تومزاحمت کبھی سردنہیں پڑتی، راکھ میں کوئی نہ کوئی چنگاری سلگتی رہتی ہے جہاں مزاحمتی قوت بیدارہوتویہ چنگاری بھڑک اٹھتی ہے لیکن کیایہ ضروری ہے کہ یہ مز احمتی قوت اس وقت بیدارہوجب خطرہ حقیقت بن کر سا منے آجائے،جب سرپرلٹکتی تلوارکی نوک شہہ رگ کوچھونے لگے،جب سر حدوں پرکھڑے مہیب اوردیوہیکل ٹینکوں اورطیاروں کی گڑگڑاہٹ سڑکوں اورچھتوں پرسنائی دینے لگے۔جب ڈیزی کٹر،کروزاورٹام ہاک بم بارش کے قطروں کی طرح برسنے لگیں۔جب بہت کچھ”گنواکر”کچھ بچانے کیلئے ہم مزاحمت پراترآئیں گے؟

کیاپاکستانی ذمہ داروں نے دوچارخطرہ کو”لب بام”سمجھنے کی کوئی کوشش کی ہے جس سے دشمن بھی بخوبی سمجھ لے کہ ان کوچھیڑناگویا موت کودعوت دیناہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم لڑے بغیرہی شکست تسلیم کرلیتی ہے تویہ جسمانی نہیں ذہنی پسپائی ہوتی ہے ۔ ایسی قوم کوجسمانی طورپرزیرکرنے کیلئے دشمن کوزیادہ مشکل نہیں اٹھانی پڑتی۔ہلاکوخان کی فوجیں کھوپڑیوں کے میناریوں ہی نہیں تعمیر کرلیاکرتی تھیں۔صلاح الدین ایوبی نے جب ”ملت اسلا میہ”کانام لیاتوایک غدارطنزیہ مسکرااٹھا،کون سی ملت اسلامیہ؟یہ ذہنی پسپائی کی سب سے گری ہوئی شکل تھی کہ ایک دیوہیکل انسان اپنے ہی وجودسے انکاری تھالیکن صلاح الدین ایوبی نے مزاحمت کی قوت کے ساتھ ایمان کوجمع کرکے خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق کے بعدبیت المقدس ناپاک ہاتھوں سے چھین لیا۔

معاشی کمزوریوں اورسیاسی انارکی وابتری کے باوجودآج ہمیں ثابت قدمی سے میدان میں کھڑادیکھ کرہمارادشمن (انڈیا،اسرائیل اورامریکا ) ٹرائیکاآج ہمیں ثابت قدمی سے میدان میں کھڑادیکھ کرہمارادشمن پہلے سے بڑھ کرمصیبت مول لے چکاہے۔ایک یقینی شکست کے امکان کے باوجودمحض دنیاپرظاہری غلبے کی خو اہش نے اسے ایک ایسی دلدل میں اتاردیاہے جہاں اگلاقدم اس کی ظاہری شان وشوکت اورمصنوعی ہیبت کاجنازہ نکال کررکھ دے گا۔کیاہم نے کبھی سوچاہے کہ ہمیں گھروں میں بیٹھے ہیبت زدہ کرنے کی ناکام کوشش کے بعدوہ سارے لاؤلشکرکے باوجود زیادہ خوفزدہ ہے۔اس کی چڑھائی میں شیرجیسی بے جگری نہیں بلکہ لومڑی جیسی عیاری ہے۔

اب وہ ہمیں دیوار سے لگانے کیلئے پس پردہ دوسرے اقدامات کرنے سے بازنہیں آئے گایعنی ہمیں سیاسی اورمعاشی فتنوں میں مبتلاکرے گا ،پس آج ہمیں اپنی مزاحمتی قوت کوسمجھنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد”ایمان”ہے اوراس قوت کومضبوط کرنے والی قوت”اللہ کی نصرت ”ہے اوراللہ کی نصرت کیلئے اس کی مکمل حاکمیت کاعملی اعلان کرناہوگا۔جب مومن اپنا سب کچھ اپنے رب کی رضاکیلئے لگادیتاہے تومزاحمت میں اللہ کی نصرت نازل ہوکراس کوکامیابی سے ہمکنارکر تی ہے۔تاریخ اسلام کے صفحات پرایسی روشن مثالیں ان گنت تعداد میں جگمگارہی ہیں جب نہتے مسلمانوں کی مز احمت نے وقت کے فرعونوں کوزخم چاٹنے پرمجبورکردیا۔آج بھی دنیابھرمیں مزاحمتی تحریکیں پوری شان سے جا ری ہیں۔پتھرنے ٹینک سے شکست نہیں کھائی،دنیاکشمیراورغزہ میں دیکھ رہی ہے کہ معمولی پتھروں سے جدید ٹیکنا لوجی کامقابلہ جاری ہے۔جتناظلم بڑھتاجارہاہے اتنی ہی شدت سے مزاحمت بڑھتی جارہی ہے۔

لیکن کیامزاحمت کی صرف ایک ہی صورت ہے؟جب کوئی جابروقت اپنے لشکروں کے زعم میں کسی قوم پرچڑھ دوڑتاہے توہرمظلوم ہاتھ ہتھیاراٹھالیتاہے۔یہ یقینی امرہے کہ ایسے وقت میں اس کے بغیرمزاحمت کی کوئی اور صورت نہیں ہوتی لیکن اس سے بھی پہلامرحلہ کبھی نہیں بھولناچاہئے اورہمیں یادرکھناہوگاکہ مزاحمت”ایمان”کے بغیرکچھ نہیں۔لہنداایساکڑاوقت آنے سے پہلے”ایمان”کوبچانااورقائم رکھنااشدضروری ہے۔ایمان کی کمزوری ہی ذہنی غلامی اورپسپائی کی طرف لےجاتی ہے،لہنداہراس وارکی مزاحمت ضروری ہے جس کا نشانہ آج ایمان بن رہاہے۔ہما رے نظریات وافکار،ہماراطرززندگی،ہماری تعلیم،ہماری معیشت،ہمارامیڈیایہ سب وہ میدان ہائے کار زار ہیں جوہماری مزاحمتی قوت کے شدت سے منتظرہیں۔یہ ڈوب رہے ہیں،ان کوساحل پرکھینچ لانے کیلئے بھرپورتوانائیوں کی ضرورت ہے ۔

آج وہ خطرناک مرحلہ آچکاہے جب نحیف ونزارمریض زندگی کی ڈورسلامت رکھنے کیلئے اس پوشیدہ قوت پرانحصارکرتاہے جواس کے جسم میں بجلی کی سی طاقت بھردیتی ہے۔گونگے،بہرے اوراندھے بھی اس نازک دورکی شدت سے کچھ کرگزرنے کوتیارہوجا ئیں توجن کواللہ نے تمام ترتوانا ئیوں سے نوازرکھاہے ان کواپنی صلا حیتوں سے بھرپورفائدہ اٹھانے سے کس نے روک رکھا ہے؟

وطنِ عزیزکی طرف نگاہ اٹھتی ہے تودل میں ایک کسک سی پیداہوجاتی ہے کہ آخرہم کہاں جارہے ہیں؟پھرسوچتاہوں کوئی بھی ہو….. .. جب طاقت ہواس کے پاس،ہتھیاربندجتھہ ہو،حکم بجالانے والے خدام ہوں،راگ رنگ کی محفلیں ہوں ،جام ہوں،عشوہ طرازی ہو، دل لبھانے کاسامان ہو،واہ جی واہ جی کرنے والے خوشامدی اوربغل بچے ہوں تواس کے دیدے شرم وحیاسے عاری ہوجاتے ہیں۔شرم و حیاکااس سے کیالینادینا!چڑھتاسورج اوراس کے پوجنے والے بے شرم پجاری جن میں عزت ِنفس نام کوبھی نہیں ہوتی۔بس چلتے پھرتے روبوٹ……… تب طاقت کانشہ سرچڑھ کربولتاہے۔ کل جوجلسہ میں دہمکیاں دیکراصلاح کامشورہ دے رہاتھا،جوبینڈباجے کے ساتھ گھرمیں گھسنے کی بات کررہاتھا، چندگھنٹوں میں یہ حیوانِ نطق اپناسافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہونے پربالکل خاموش ہے کہ وہاں کیاکھویااور کیا پایا ہے ۔اب دھڑلے سے ایسے ہی بے شرمی کامظاہرہ کرتے آنے والے دنوں میں کھل کرچہرہ سامنے آجائے گا۔

لیکن مجھے آج ان کے برعکس کرداروں کاذکرکرناہے کہ جن کاذکرآنکھوں کی ٹھنڈک،دلوں کاسکون اوراطمینان و فرحت بخش ہے۔ہاں کوئی بھی ہو،کہیں بھی ہو،انکارسنناتواس کی لغت میں ہی نہیں ہوتا۔انکارکیاہوتاہے وہ جانتاہی نہیں ہے لیکن ہوتایہی آیاہے،ہوتایہی رہے گا۔منکرپیداہوتے رہتے ہیں۔نہیں مانتے کانعرہ ٔمستانہ گونجتارہتاہے،تازیانے برستے رہتے ہیں، کھال کھنچتی رہتی ہے،خون بہتارہتا ہے لیکن عجیب سی بات ہے،جتنی زیادہ شدت سے نہیں مانتے کی آوازکودبانے کی کوشش کی جاتی ہے،ہرجتن ہرحربہ اپنایاجاتاہے،وہ آوازاسی شدت سے گونجنے لگتی ہے چاروں طرف۔ نہیں مانتے کارقص،رقص ہی نہیں رقصِ بسمل،نہیں مانتے نہیں مانتے کانغمہ اور گھومتا ہوارقاص۔

کیابات ہے جی،کھولتے ہوئے تیل کے اندرڈالاجاتاہے،تپتے صحرامیں لٹاکر،سینے پرپہاڑجیسی سلیں رکھی جاتی ہیں ،برفانی تودوں میں کود جاتے ہیں لیکن نعرۂ مستانہ بلندہوتارہتاہے۔رقص تھمتاہی نہیں اوریہ توحیدکارقص،جنوں تھمے گابھی نہیں۔زمین کی گردش کوکون روک سکاہے !بجافرمایاآپ نے،بندوں کوتوغلام بنایاجاسکتاہے،ان پررزق روزی کے دروازے بند کیے جاسکتے ہیں،یہ دوسری بات ہے کہ ہم نادان صرف روپے پیسے کوہی رزق سمجھ بیٹھے ہیں۔ بندوں کوپابہ زنجیرکیاجاسکتاہے،قیدخانوں میں ٹھونس سکتے ہیں آپ،عقوبت خانوں میں اذیت کاپہاڑان پرتوڑسکتے ہیں۔پنجروں میں بندکرسکتے ہیں،معذورکرسکتے ہیں،بے دست وپاکرسکتے ہیں،ان کے سامنے ان کے پیاروں راج دلاروں کی توہین کرسکتے ہیں،انہیں گالیاں دے سکتے ہیں،جی،جی سب کچھ کرسکتے ہیں لیکن سپاہی مقبول حسین 40سال مکار دشمن بھارت کی جیل میں گزارکراپنے وطن کی خاک کوچوم کرجس شان سے لوٹا،اوراپنے اس جانباز سپاہی مقبول حسین کوجس شان سے پاک سپاہ نے اسی وطن کی خاک کے سپردکیاکہ فلک بھی یہ پاک نظارہ دیکھ کرعش عش کراٹھا۔ جانتے ہیں کیوں؟ہندودشمن کاجب ٹارچرحدسے زیادہ بڑھ گیاتو سپاہی مقبول حسین نے خوداپنی زبان کاٹ کران کے سامنے پھینک دی کہ یہ زبان دشمنوں کے سامنے اپنے ملک کے خلاف نہیں کھُل سکتی۔دشمن کمانڈرکے ساتھ اس کے سارے ساتھی ششدررہ گئے!

صدیوں سے انسان یہ دیکھتاآیاہے،انکارکرنے والوں کوبھوکے کتوں اورشیروں کے آگے ڈال دیاجاتاتھا۔اس جگہ جہاں چاروں طرف خلق خداکاہجوم ہوتااورایک جابرتخت پربراجمان ہوکریہ سب کچھ دیکھتااورقہقہے لگاتااورخلق خدا کویہ پیغام دیتاکہ انکارمت کرنا،کیا، تو پھریہ دیکھویہ ہوگاتمہارے ساتھ بھی۔ہرفرعونِ وقت اپنی تفریح طبع کیلئےیہ اسٹیج سجاتاہے،سجاتارہے گا۔ایسا اسٹیج جہاں سب کردار اصل ہوتے ہیں،فلم کی طرح اداکارنہیں۔لال رنگ نہیں،اصل بہتاہواتازہ خون،زندہ سلامت انسان کا،روناچیخنابھنبھوڑناکاٹناسب کچھ اصل…….بالکل اصل۔ہوتارہاہے اورہوتارہے گا، فرعونیت توایک رویے کانام ہے،ایک بیماری کانام ہے۔ایک برادری ہے فرعونوں کی،فرعونوں کی ہی کیا…….ہامان کی،شدادکی،قارون کی،ابولہب کی،ابوجہل کی،قصرسفیدکے فراعین کی،یہودوہنودکے سفاک حکم رانوں کی۔یہ برادری کانام ہے جس میں کسی بھی وقت کسی بھی مذہب وملت کے لوگ ہوسکتے ہیں۔بس بچتاوہ ہے جس پررب کی نظرِ کرم ہو ۔

سب کچھ قید کیاجاسکتاہے،سب کچھ لیکن ایک عجیب سی بات ہے،اسے قیدنہیں کیاجاسکتا،بالکل بھی نہیں،مشکل کیا ممکن ہی نہیں ہے ۔ عجلت نہ دکھائیں،خوشبوکوقیدنہیں کرسکتے آپ!اورپھرخوشبوبھی توکوئی ایک رنگ ایک مقام نہیں رکھتی ناں،بدلتے رہتے ہیں اس کے رنگ،خوشبوکے رنگ ہزار…….بات کی خوشبو،جذبات کی خوشبو،ایثارووفاکی خوشبو.. …..بس اب آپ چلتے رہئے اوران تمام خوشبوؤں کی رانی ہے ہمارے شہداءکی خوشبوجنہوں نے اپناآج ہمارے کل پرقربان کردیا،یہ ہے ان کی عقائدکی خوشبوجنہوں نے اس معجزاتی ریاست جس کانام پاکستان ہے،اس سے محبت کودین کالازمی جزوسمجھاکہ اس کاقیام27رمضان الکریم کی مبارک شب کوہوا،دین کی خوشبو،نظریات کی خوشبو۔یہ خوشبوقیدنہیں کی جاسکتی۔جب بھی دبائیں ابھرتی ہے۔وہ کیایادآگیا:”جتنے بھی توکرلے ستم،ہنس ہنس کے سہیں گے ہم”۔جتناخون بہتاہے اتنی ہی خوشبوپھیلتی ہے۔پھرایک وقت ایسابھی آتاہے جب درد خود ہی مداوابن جاتاہے دردکا ۔ دیکھئے پھرمجھے یادآگیا:
رنگ باتیں کریں اورباتوں سے خوشبوآئے
دردپھولوں کی طرح مہکے اگرتوآئے

یہ سب کچھ میں آپ سے اس لیے کہہ رہاہوں کہ مجھے وہ دن یادہے جب میں نے یہ خبرپڑھی تھی،یقیناًآپ نے دیکھی،پڑھی یاسنی ہوگی۔اگرنہیں،تویاددہانی کی سعادت شائدمیرے حصے میں آرہی ہے لیکن نہیں،یہ تواس کاکمال ہے جس نے ہم جیسے بے خبروں کوبتایاہے۔
(نیویارک۔آن لائن)امریکی آرمی کے ایک اسپیشلسٹ میٹری ہولڈبروکس گوانتاناموبے کے عقویت خانے میں کلمۂ شہادت پڑھ کرحلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔نوجوان فوجی افسرہولڈبروکس نے جن کی ڈیوٹی صرف چھ ماہ تک کیوباکے عقوبت خانے میں مسلمان قیدیوں کی نگرانی اوربعض اوقات انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاتے وقت رہنمائی کرناتھی،مسلمان قیدیوں کے اخلاق اورعبادات سے متاثرہوکراسلام قبول کرلیا۔ہولڈبروکس نے ایک مختصرسی ای میل میں تسلیم کیاکہ مراکشی اوردیگرمسلمان قیدیوں کے حسنِ اخلاق اورتلاوت ِقرآن پاک جووہ عقوبت خانے کی سخت ترین جالیوں کے عقب میں کرتے تھے،کی مانیٹرنگ کرتے ہوئے وہ بے حدمتاثرہوئے تھے۔اورکیابات باقی رہ گئی جناب۔

دیکھئے!چراغ کوتوپھونک مارکربجھایاجاسکتاہے،نورکوکون بجھاسکتاہے!جی جناب نورکوتوپھونک مارکرنہیں بجھایاجاسکتا۔اسلام نورہے، قرآن حکیم نورہے،روشنی ہی روشنی،صراطِ مستقیم کھراسودا. …….اسی قرآن کونافذکرنے کیلئے توپاکستان جیسی معجزاتی ریاست عطاہوئی تھی جس نے یہ سکھایاکہ اس ملک کیلئے جان قربان کردیناسب سے بڑااعزازہے اورماں باپ، بیوی بچے اورپوری قوم کے علاوہ ملائکہ بھی استقبال کیلئے جمع ہوجاتے ہیں کہ بندے نے اپنے رب سے وفاداری کاجوحلف اٹھایاتھااس میں یہ کامیاب ہوگیا۔ہم بھلا اپنے135/ نوجوان جوبرف کے پہاڑوں میں دفن ہوگئے تھے،آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔دنیاکے ماہرین نے اپنی تمام تربہترین جدید ٹیکنالوجی ، کوششوں اور تجربات کی روشنی میں برف میں دفن افرادکی بازیابی کوناممکن قراردیتے ہوئے ہاتھ اٹھالئے لیکن صد آفرین ہے ان کے بہادرساتھیوں پرکہ انہوں نے ان تمام پاک پوترشہداء کونہ صرف بازیاب کیابلکہ دنیاکے ناممکن کو ممکن ثابت کرکے دکھادیا اور یہ ناممکن کوممکن کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہواکہ اب تک آٹھ ہزارسے زائد نوجوان ان سردترین وادیوں کارزق بن گئے ہیں کہ انہوں نے یہ حلف اٹھایاتھاکہ اس ملک کی سرحدوں کی ہرحالت میں حفاظت کریں گے۔بابااقبال کیاخوب فرماگئے:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں کعبے میں گاڑوبرہمن کو

آپ سن لیجیے پاکستان بھی نورہے اوراس کیلئے جان قربان کرنے والے اسی نورکے وہ چراغ ہیں جنہوں نے ملک کو دشمنوں کی پھیلائی ہوئی تمام ظلمتوں سے پاک کرنے کاعزم کررکھاہے ، آپ نے سنابھی ہے اورباربارسناہے، میرے رب نے اعلان کردیاہے،اس کافرمان ہے: شہدازندۂ جاوید ہیں۔ اپنے رب سے رزق پاتے ہیں اورقادرِمطلق نے خبردارکیاہے کہ کبھی مردہ گمان بھی مت کرنااوراب آپ ذرادل تھام کرسنئے:جب بدترین تشددکے بعدبھی وہ قیدی اورایسے جاںگسل حالات میں وطن کی حفاظت کرنے والے نوجوان مسکرارہے ہوں تووہ کون سی طاقت ہوتی ہے جس سے ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھر بھی جنبش نہیں ہوتی،کیاایسا تونہیں کہ کوئی شہیداسے تحسین کی نظر سےدیکھ رہاہو…….بدری شہداء یامیدان احد کے شہداءکی مثالیں جب ان کے دلوں کومنورکردیتی ہوں توپھربھلاخوف کیسا۔ ہمارے ان جانبازوں اورشہداءنے آج اپنی اس طاقت کے اس رازکوپالیاجس کانام خدادامملکت پاکستان کی محبت سے جڑے ایمان کاپختہ جزوہے اوریہ وہ مورچہ ہے جس میں پناہ لینے والوں کیلئے دائمی فتح کی خوشخبریاں ہیں۔ ایمان کی آبیاری وقت کی اوّلین ضرورت ہے۔

مزاحمت ایمانی قوت سے مشروط ہے،اس کوکھودیاتوسب کچھ چھن جا ئے گا!!ہمارے یہ تمام شہداءہمارے سروں کے تاج اوراللہ کاانمول تحفہ ہیں۔یادرکھیں کہ اللہ کوپاکرکبھی کسی نے کچھ نہیں کھویااوراللہ کوکھوکرکبھی کسی نے کچھ نہیں پایا۔ یہی شہادت کارقصِ بسمل ہماراسرمایہ ہے!
!”ہمیں پیارہے پاکستان سے،اورہمیں پیارہے اپنے شہد اءسے”

اپنا تبصرہ بھیجیں