2021ءکوتاریخ میں خاص طورپرمشرقِ وسطیٰ میں بڑی سیاسی،سفارتی اورجیوپولیٹیکل تبدیلیوں کی وجہ سے یادکیاجائے گا۔ہر مسئلے کیلئےباہرسے مددلینے کے عادی خلیجی ممالک اب ایک دوسرے سے بات چیت پرآمادہ ہیں،اس بڑی تبدیلی کی وجہ درحقیقت عراق اور افغانستان سے امریکی فوجی انخلابنا۔ 2011ء کی عرب بہارکے کھنڈروں سے شام کےبشارالاسداورلیبیاکے سابق مردِآہن معمرقذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی ایک بار پھرابھرکرسیاسی منظرنامے پر آچکے ہیں۔مشرقِ وسطیٰ کا سوئٹزر لینڈ کہلوانے والا لبنان معاشی تباہی کی المناک داستان بن چکاہ ے، ایران اپنے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کی قیادت میں جوہری پروگرام پراپنے مؤقف میں مزید سختی لاچکاہے،ویانامیں ایرانی جوہری پروگرام پر مذاکرات کے باوجوداسرائیل ایران پرحملے کی دھمکی دے رہاہے جبکہ ایران خلیج میں جنگی مشقیں کررہاہے، جنہیں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی تل ابیب کیلئےکھلی دھمکی قراردے رہے ہیں۔ان باتوں کومدِنظر رکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ خطے میں جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں۔
امریکاکے ہزاروں فوجی اورہلاکت خیزجنگی مشینری پورے مشرقِ وسطیٰ میں موجودہے لیکن مشرقی یورپ میں روس کے ساتھ ابھرتے تنازع اورتائیوان پرچین کے ساتھ تیزہوتی کشمکش کے تناظرمیں اب فوجی طاقت کونئے اڈوں کی جانب منتقل کرنے کی بحث زورپکڑچکی ہے اورامریکی دلچسپی مشرقِ وسطیٰ میں پہلے جیسی نہیں رہی۔ کابل ایئرپورٹ پر امریکی جہازوں سے لٹک کر مرتے اتحادیوں کو دیکھنے کے بعد اب عربوں کا واشنگٹن پر پہلے جیسا اعتماد بھی نہیں رہا۔ان حالات میں مشرقِ وسطیٰ کے رہنمااب اختلافات کوکم سے کم کرنے کیلئےبھرپورسفارتی کوششوں میں مصروف ہیں۔عرب امارات کے قومی سلامتی مشیراپنی بندرگاہوں کے نزدیک بحری جہازوں پرایرانی پاسدارانِ انقلاب کے حملوں کوروکنے کیلئےایران کے صدرسے ملاقات کرچکے ہیں۔اگرچہ سعودی عرب نے 2016ءمیں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑدئیے تھے لیکن اب سعودی بغدادکی میزبانی میں تہران کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرچکے ہیں۔
صرف ایران یااس کاجوہری پروگرام ہی مسئلے کاباعث نہیں بلکہ عرب رہنماؤں کے اختلافات بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہیں، سعودی عرب کئی سال کے مقاطعے کے بعد قطرسے دوبارہ تعلقات بحال کررہاہے،کئی برسوں بعدریاض میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی)سربراہ کانفرنس میں کوئی بھی رکن غیرحاضر نہیں تھا۔جی سی سی کوفعال کرنے کیلئےشہزادہ محمدبن سلمان نے رکن ملکوں کادورہ بھی کیا،ان کوششوں کامقصدایرانی خطرے کے مقابلے کیلئےسب کوساتھ ملاناہے۔اخوان المسلمون کے ساتھ تعلقات کی بنیادپرعربوں نے ترکی سے بھی دوری اختیارکرلی تھی لیکن اب ترکی کے ساتھ مصراورامارات روابط بڑھارہے ہیں جبکہ معاشی مشکلات کاشکارترکی بھی عربوں کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی کاقائل نظرآتاہے۔اس سب کے باوجودکیاعرب لیڈرتمام مسائل کاحل اپنے طورپرتلاش کرنے میں کامیاب ہوں گے یانہیں؟توجواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں کیونکہ خطے میں تنازعات اوران میں بیرونی مداخلت عربوں کوتمام فیصلے ہاتھ میں نہیں لینے دے گی۔وہ مسائل اوربیرونی کردار کیاہیں،اس کااجمالی جائزہ لیاجاناضروری ہے ،اس کے بعدہی یہ اندازہ ہوپائے گاکہ عرب قیادت کیاکچھ کرنے کے قابل ہے اورکہاں کون سی رکاوٹیں حائل ہیں؟
سعودی عرب ان دنوں ریاض میں ہونے والے”انٹرنیشنل فلم فیسٹیول”اور”فارمولاون کارریس”کی وجہ سے دنیاکی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔محمد بن سلمان کا 2018ء میں دیا گیا ایک بیان ان دنوں پھرسے وائرل ہو چکاہ ے،جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ’’نیا یورپ ‘‘ہے اور اگلے 5 برسوں میں سعودی عرب بالکل مختلف ریاست ہوگی۔محمدبن سلمان نے2021ءکاآغازپچھلے سال میں کی گئی غلطیوں کوسدھارنے کی کوشش سے کیاتھا،دراصل محمدبن سلمان اپنے خلاف اٹھتی لہروں کارخ موڑنے کی کوشش میں ہیں۔وہ اب اپنے ہمسایہ لیڈروں کویہ جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اب وہ بالکل مختلف شخصیت ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں۔ اس گزرتے سال کے آغازپرانہوں نے پہلاقدم قطر کی طرف بڑھایااورپھرجی سی سی کے دیگر نظر انداز ملکوں کو رام کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے جی سی سی ملکوں کے حالیہ دورے کاآغازسلطنت عمان سے کیا،وہی ملک جس پریہ الزام لگایاجاتارہاکہ اسی کے راستے ایرانی اسلحہ یمن پہنچتاہے۔سلطان قابوس کی وفات کے بعد عمان کی نئی قیادت نے شاید معاشی دباؤک ے تحت سعودی ولی عہد کاریڈ کارپٹ استقبال کیاتاہم تاریخی طور پر عمان کبھی بھی آسان اتحادی نہیں رہا۔سعودی عرب ہمیشہ سے ان ملکوں کواتحادی مانتا آیاہے جواس کے تابع رہیں لیکن تابع فرمان ہوناعمان کی خارجہ پالیسی کاعنصرکبھی نہیں رہا۔
قطر سعودی بائیکاٹ کامقابلہ کرنے میں اس لیے کامیاب رہا کیونکہ وہ دولتمندہ ے اورواشنگٹن میں اثرو رسوخ بھی رکھتاہے،اب بائیکاٹ کے خاتمے کے بعد قطر شایدیہ تلخی بھلادے لیکن یہ نہیں بھولناچاہیے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلاکے دوران قطرنے طالبان کے ساتھ رابطوں اورامریکیوں کے انخلامیں نمایاں کرداراداکرکے اپنی اہمیت منوالی ہے۔ریاض اوردوحہ کے تعلقات معمول پر ضرورآئے ہیں اورامیرِقطرنے سعودی ولی عہد کے ساتھ گرمجوش معانقہ بھی کیالیکن کیادوحہ محمدبن سلمان کے اقتدارکے دوران کسی نئے بائیکاٹ کے امکان کوذہن سے محوکردے گا؟بغدادکی میزبانی میں تہران کے ساتھ ریاض کے مذاکرات اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی تک توپہنچے لیکن کیایمن جنگ کے جاری رہتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان بلاتعطل تجارت ممکن ہے؟لبنان کی حزب اللہ کیاتہران،ریاض گرمجوش تعلقات میں رکاوٹ نہیں بنے گی؟ایرانی جوہری پروگرام پرجاری مذاکرات کے نتائج کے بعدہی دونوں ملکوں کے مستقبل کے تعلقات کادرست اندازہ ممکن ہوپائے گا۔
جمال خاشقجی کاجب قتل ہواتوترکی اورسعودی عرب کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہوئے لیکن اب دونوں ملک روابط بڑھارہے ہیں۔سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کوترکی کے عرب سیاسی تحریکوں کے ساتھ تعلقات پسندنہیں ہیں لیکن اب عرب سیاسی تحریکیں کمزورپڑچکی ہیں اورمطلق العنان عرب حکمران ان تحریکوں سے خطرہ محسوس نہیں کرتے۔اس کے باوجودخاشقجی کیس دونوں ملکوں کے درمیان ایک رکاوٹ ضروربنارہے گا۔ترکی ایران کے خلاف کسی بھی سعودی اتحادکاحصہ بننے کو بھی تیار نہیں ہو گا،یاد رہے کہ ترکی ایران اور عراق سے بڑے پیمانے پرتیل امپورٹ کرتاہے اور ایران کے ساتھ اس کے تعلقات مختلف نوعیت کے ہیں۔ سعودی عرب کیلئےسب سے بڑا دردِ سر یمن ہے اورمستقبل میں جنگ بندی کے باوجود رہے گا کیونکہ اس جنگ کے زخم دنوں میں مندمل نہیں ہو سکتے۔اگرجنگ بندی ہوتی بھی ہے تویمن اپنے سے بڑے اورطاقتور سعودی عرب کواتنے زخم دے چکاہے جو بھرنے میں وقت لیں گے اورمعاشی نقصان کی صورت میں یہ زخم رستے رہیں گے۔ سعودی ولی عہد نے2017ءسے اب تک خطے میں دوست بنانے کے بجائے دشمن زیادہ بنائے ہیں اوراب پالیسیوں میں یوٹرن زیادہ مؤثردکھائی نہیں دیتا۔
مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کے بعداسرائیل دوسرابڑاکھلاڑی بن چکاہے اورعربوں کے ساتھ ’’معاہداتِ ابراہیمی‘‘کے بعد اب وہ خلیج سے باہربھی ان معاہدوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہاہے۔مسلم دنیاکے سب سے بڑے ملک انڈونیشیاکواسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کیلئےسرفہرست رکھا جارہاہے اورامریکی وزیرِخارجہ انٹنی بلنکن انڈونیشیاکے حالیہ دورے میں اس ایشوپر بات کرچکے ہیں۔اسرائیلی میڈیاکاکہناہے کہ انڈونیشیاکے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش ہورہی ہے لیکن فوری طورپر بریک تھرو کا امکان نہیں،اگر ٹرمپ کے پاس مزید ایک یا دو ماہ ہوتے تو انڈونیشیا اب تک اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہوتالیکن اب بھی بائیڈن انتظامیہ اس معاملے پرسنجیدگی کے ساتھ کام کررہی ہے۔پچھلے ماہ منامہ سیکورٹی ڈائیلاگ کے موقع پردونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کی ملاقات بھی ہوئی ۔ انڈونیشیاکا بظاہرمؤقف یہی ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات ممکن نہیں۔
اسرائیل عرب دنیاکے ساتھ تعلقات کوتیزی سے آگے بڑھاتے ہوئے قائدانہ کردارکاخواہاں ہے۔اسرائیل مراکش کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون،مشترکہ مشقوں، دفاعی صنعت میں تعاون اوراسلحے کی فروخت کے معاہدے کرچکاہے۔مراکش کے ساتھ دفاعی معاہدے میں عرب امارات اوربحرین نے اہم کردار اداکیا،یہ دونوں ریاستیں بھی اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے کرچکی ہیں۔اسرائیل کے سرمایہ کارعرب امارات میں پھیل چکے ہیں جبکہ عرب امارات اسرائیل کے ہائی ٹیک سیکٹرپرسرمایہ لگارہاہے۔
عرب امارات اسرائیل کے گیس فیلڈمیں ایک ارب ڈالرسرمایہ کاری کابھی اعلان کرچکاہے۔اسرائیل، عرب امارات، بحرین اور امریکا کا پانچواں بحری بیڑا بحیرہ احمرمیں مشترکہ جنگی مشقیں بھی کرچکے ہیں اورآنے والے دنوں میں مزیدایسی مشقوں کے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں اوران مشقوں کوایران کیلئے پیغام بھی کہاجارہاہے۔مصراوراردن کے ساتھ اسرائیل کے دیرینہ تعلقات قائم ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کاتیسرابڑاکھلاڑی عرب امارات ہے۔عرب امارات ایران کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بھی بنارہاہے اورایران کوروکنے کی کوششوں میں بھی کردار ادا کررہاہے۔حالیہ برسوں میں عرب امارات سفارتی محاذ پر سب سے زیادہ سرگرم رہا ہے۔عرب امارات ان دنوں شام کو دوبارہ عرب لیگ میں واپس لانے کیلئےکوشاں ہے،جس سے اس کے کئی مقاصدجڑے ہیں اورخطے کی سیاست نیاموڑ لے سکتی ہے۔شام جنگ کے آغازپرعرب امارات نے دیگرعرب ملکوں کے ساتھ شام کابائیکاٹ کیاتھااورعرب لیگ کی رکنیت معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیاتھا۔اب عرب امارات اس فیصلے کوواپس لینے کیلئےقائدانہ کرداراداکررہا ہے ۔شام میں امارات کے سفارتخانے نے کام شروع کردیاہے۔شام کی تباہ حال معیشت میں سرمایہ کاری کی پیشکش بھی کی جاچکی ہے۔
شام کے صدربشارالاسدسے اماراتی وزیرخارجہ نومبرمیں ملاقات کرچکے ہیں،جوایک عشرے کے بعداعلیٰ ترین سطح پررابطہ ہے۔ عرب امارات کامقصدشام کوایران سے دورکرنااورجنگ سے تباہ ملک میں سرمایہ کاری مواقع پرقبضہ کرناہے۔شام کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات بھی عرب امارات کے ایجنڈے پر ہیں۔عرب امارات کاخیال ہے کہ بشارالاسدسرمایہ کاری کے بدلے میں تہران سے تعلقات کم کرسکتے ہیں تاہم اس کے امکانات کم ہیں کیونکہ بشارالاسدکو بچانے کیلئےروس کے علاوہ کسی نے کرداراداکیاتووہ ایران ہی تھا۔جہاں تک اسرائیل-شام تعلقات کی بات ہے تووہ بھی بشارالاسدکیلئےممکن نہیں ہوگاکیونکہ ان کی حکومت ہی اسرائیل اور مغرب سے لڑائی پرکھڑی ہے۔کیااسرائیل شام سے تعلقات کیلئےگولان کی پہاڑیاں واپس کرے گا؟ناممکن۔عرب امارات اور شام کے تعلقات کی ایک بنیادترکی کی مشترکہ مخالفت ہوسکتی ہے،ترکی بشارکے باغیوں کامددگارہے،ترکی کے مقابلے میں بشارالاسدعرب امارات کیلئےاہم ثابت ہوسکتے ہیں۔
دراصل عرب امارات کوان مقاصدمیں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا، تو سوال پیدا ہوتاہ ے کہ اس سرگرمی کا فائدہ کیاہ ے؟اصل جواب یہ ہے کہ عرب امارات کاسب سے بڑااتحادی امریکاخطے میں پیچھے ہٹ رہاہے جبکہ روس اورچین پیش قدمی کررہے ہیں۔ان حالات میں عرب امارات سعودی عرب کا دست نگربن کرنئے اتحادمیں جانے کے بجائے اپنے لیے ہاتھ پاؤں مارکربڑاکردارلیناچاہتا ہے۔عرب امارات دراصل سب جھگڑوں سے جان چھڑاکرآگے بڑھنے کاخواہاں ہے اورسعودی عرب کے مقابلے میں اپنااثرورسوخ بڑھارہاہے۔
امریکااگرچہ اپنی توجہ مشرقِ وسطیٰ میں کم کرکے انڈوپیسفک پرمرکوزکرنے کاخواہاں ہے لیکن روس اورچین کابڑھتاہواکردار اسے روکے ہوئے ہے۔اس سال کی بڑی خبرعرب امارات کا ایف تھرٹی فائیو جنگی طیاروں کی ڈیل سے دستبردار ہوناہ ے۔اس کے پیچھے بڑی وجہ امریکا اور چین کے درمیان فوجی اڈوں کیلئے بڑھتی ہوئی کشمکش ہے۔امریکااورچین کے درمیان بظاہربڑافلیش پوائنٹ تائیوان ہے لیکن چین اس کشمکش کواپنے دروازے سے دوررکھناچاہتاہے۔ امریکاچین کے فوجی اڈوں کوروکناچاہتاہے۔
چین عرب امارات کے پورٹ خلیفہ پر”خفیہ طورپرفوجی اڈہ تعمیر”کررہاتھا،جوامریکیوں کی نظرمیں آگیا۔امریکی وارننگ کے بعد وقتی طورپراس اڈے کی تعمیر رک گئی ہے اورفوری نتیجہ عرب امارات کی جنگی طیاروں سے دستبرداری کی صورت میں برآمد ہوا۔چین کے صدرشی جن پنگ اس بات کوسمجھتے ہیں کہ چین کوورلڈ پاوربنناہے تواسے اپنی تجارتی راہداری پرپہرہ بھی خوددینا ہوگا،جہاں امریکیوں کاپہلے سے غلبہ ہے۔آبنائے باب المندب میں چین کااثرورسوخ اہم ہے،چین جنگ اورامن دونوں صورتوں میں امریکااوراتحادیوں کاسمندرپرغلبہ ختم کرنے کے درپے ہے۔
عرب امارات کے ساتھ امریکاکے مراسم اورتعاون کے معاہدے متاثرہونے کاخدشہ وقتی طورپرآڑے آیاہے لیکن کشمکش ختم نہیں ہوئی۔چین سعودی عرب کوبیلسٹک میزائل بنانے میں بھی مدددے رہاہے۔امریکی میڈیانے سیٹلائٹ تصاویرشائع کیں،جن کے مطابق الدوادمی کے علاقے میں میزائل بنانے کی سرگرمی نوٹ کی گئی۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے اس رپورٹ کی تردیدکی بجائے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ چین اور سعودی عرب تعاون کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ایران کے جوہری پروگرام پربھی چین اورروس متحدہیں،سلامتی کونسل میں ووٹ اور ویٹوکاہتھیاراستعمال کرتے ہیں۔ روس نے شام کے صدربشارالاسدکی حکومت کواب تک گرنے سے بچایاہواہے۔اگرچہ عرب رہنماتنازعات کے حل کیلئے مِل بیٹھنے پرآمادہ دکھائی دیتے ہیں لیکن مسائل کاحل پہلے کی طرح بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں رہنے کاامکان ہے۔صرف اس قدربہتری نظرآتی ہے کہ فوری طور پرکسی بڑے تنازع یاجنگ کاامکان نہیں کہ جس میں امریکاکو دوبارہ کودناپڑے۔