خودساختہ’’دشمن‘‘

:Share

امریکی اشرافیہ اور یورپی ممالک کی سول سو سا ئٹی اس حقیقت کو ا چھی طرح جا نتی ہیں کہ ا مریکی حکومت کی مسلط کردہ جنگ”وار آن ٹیرر”در اصل امریکہ کا ترا شا ہو اوہ مصنو عی غبارہ ہے جسے بے پناہ وسائل اورگوئبلز آف جر منی کی روح سے کشید کئے ہو ئے مسلسل پر وپیگنڈے کی غلیظ ہوا زندگی عطا کر رہی ہے۔یورپی حکو متوں کیلئے اپنے مفاد کیلئے یہ اصطلا ح استعما ل کر نا تو بعید از قیاس نہیں ہے،بد قسمتی سے بہت سے محکوم ذہنیت کے اسلا می ممالک بھی اپنی بے کردار بد اعما لیوں کے نتیجے میں ا پنے خلاف ابھر نے والی احتجاجی تحا ریک کو کچلنے کیلئے بے دریغ مسلح طاقت کے استعمال کو دہشت گر دی کے خلاف جنگ یا ا مریکی پیروی میں”وار آن ٹیرر”قرار دیتے ہو ئے کو ئی ندامت محسوس نہیں کر تے یہا ں تک کہ کشمیر، فلسطین،افغانستان اور عراق میں بھی غیر ملکی تسلط اور قتل و غارت کے خلاف بر سر پیکار حریت کی تحاریک اور ا پنے وطن کی آزادی کیلئے جا ری مسلح جد و جہد کو بھی د ہشت گردی اور اسے کچلنے کیلئے ہر اقدام کو بھی ”وار آن ٹیرر”کا نام دیا جا تا ہے ۔
۱۶جولائی۲۰۰۸ء کو اسپین کے دارلحکومت میڈرڈ میں منعقدہ بین الاقوامی ‘بین المذاہب کا نفرنس میں سعودی عرب کے سابق فرمانرواخادم الحرمین الشریفین مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعز یز نے خطاب کر تے ہو ئے نہائت درست طور پر نشاندہی فرمائی تھی کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی امریکی اور مغربی ممالک کی وضع کردہ تراکیب ہیں جن کا اسلام سے ہر گز کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر چند گمراہ لوگ خودکش حملوں سمیت اسلام اور مسلما نوں کے خلاف نفرت پیدا کر نے کیلئے ایسے افعال کے مر تکب ہوئے ہیں تو یہ ان کی ا نفرادی سوچ اور ذاتی فعل ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور ایسے افراد کو بالفعل مسلمان یا اسلامی فدائین وغیرہ متعین کر لینا انتہائی غلط فیصلہ ہے ۔میڈرڈ میں ہو نے والی یہ سہ روزہ کا نفرنس میں د نیا بھر سے مسلمانوں،یہو دیوں،عیسائیوںاور دیگر مذاہب کے ممتاز دانشوروںاور مذہبی قائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔اس کا نفرنس کا انعقاد رابطہ عالم اسلا می کے زیر اہتمام کیا گیا تھا جس کا مقصد اسلام اور مسلما نوں کے خلاف اسلام دشمن قوتوںامریکا اور مغربی حلقوں کی طرف سے پھیلا ئی جا نے والی شر انگیزغلط فہمیوں کا ازالہ کر نا تھا ۔اس کا نفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کے مذاہب سے تعلق رکھنے وا لے نما ئندہ افراد کے علا وہ ایک سو پچاس کے قریب صحا فی بھی مختلف ذرائع ابلاغ کی نما ئندگی کر نے کیلئے اس کا نفرنس میں موجود تھے ۔ اس امر کا واضح تجزیہ کیا گیا کہ بعض طاقتور ممالک کی طرف سے کمزور اور نا قابل مزاحمت ملکوں پر بلا اشتعال و جواز جا رحانہ قبضے،بعض ملکوں کے عوام کے آئینی اور قا نو نی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے ،انہیں آزادی سے محروم کر نے اور ان کے وسائل پر قبضہ کر نے کے نتیجے میں مزاحمت کا جو عمل شروع ہو تا ہے ، اسے انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ہر گز شامل نہیں کیا جا سکتا۔یہ ان اقوام کی طرف سے ا پنے آئینی اور قا نو نی حقوق کے حصول کی جد و جہد ہے ۔اس حوالے سے دنیا کی سپر طا قتوں اور خاص طور پر مغربی ملکوں کو اپنی سوچ،روش اور پالیسی میں منا سب تبدیلی لا نا ہو گی۔حقائق پر مبنی اس خطاب کے اختتام پر سب مذاہب کے قا ئدین،دانشوروں،تما م شرکاء اور مبصرین نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر دادو تحسین پیش کی تھی جس کا بدیہی مطلب ان حقائق کا اعتراف تھاکہ بیان کردہ وضاحت احوال ان تمام گمراہ کن، اسلام مخالف موادات کی تشہیر محض معاندانہ رویوں کی اشاعت و تبلیغ کے سوا کچھ نہیں۔غالباًامریکااور کچھ مغربی ممالک کوکیمو نزم کی پسپا ئی کے بعد ا پنی سر مایہ دار پا لیسیوں اور استعماری قوتوں کو متحرک رکھنے کیلئے کسی ایک خود ساختہ”دشمن” کی مو جو د گی وقت کی ضرورت لگتی ہے لہندا مشترکہ حریف کے طور پرمسلم ممالک اور احیائے اسلام کی تحریکوں کو مٹانے کیلئے خوف و دہشت اور حقارت کی فضا پیدا کرنا حصول مقاصد کا نا معقول ذریعہ بن گیا ہے ۔ دہشت گردی ،انتہا پسندی اور جا رحیت اسلام کے ہم معنی قرار پا رہے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، جب کہ اس کی سیاسی اور معا شی وجوہات اظہر من الشمس ہیں۔یہ رائے اور یقین بھی کسی حد تک مو جود ہے کہ دہشت گردی،انتہا پسندی اور بنیاد پرستی وغیرہ کا واویلامچا نے والے امیر ممالک غربت اور ناداری،افلاس اور کسمپرسی کے با عث پھیلنے والی بھوک کے ہا تھوں ہو نے والی ہلا کتوںکی آہ و بکا اور احتجاج کا گلا گھو نٹنے کی سازش کے طور پر کرا رہے ہیں۔بنیاد پرستی سے دہشت گردی تک کے تمام رحجانات وہی استعماری قوتیں پھیلا رہی اور استعمال کر رہی ہیں جو دنیا بھر کے وسائل پر غاصبانہ قبضے کے ذریعے پوری انسانی آبادی میں غربت اور ناداری پھیلانے کی مجرم ہیں ۔اس کے خلاف کسی قسم کے صدائے احتجاج بلند ہو نے سے روکنے کیلئے مغربی طا قتوں کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ، مکروہ سیاسی چال اور ان کےبہترین مفاد میں ہے کہ اقوام عالم کی توجہ مذہبی بنیاد پر ستی اور نام نہاد دہشت گردی پر مر کوز رکھی جائے اور یہی وہ لا ئحہ عمل اور طریقہ کار ہے جس کے ذریعے مغربی طاقتیں اور استعماری قوتیں دنیا بھر کے معدنی اور مالی،اقتصادی اور معاشی وسائل پر اپنا جارحانہ قبضہ جاری رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔
ان حقائق کو تسلیم نہ کر نا پر لے درجے کی خود فریبی ہو گی کہ امریکی استعمار کیلئے اپنی عسکری قوت اور بر تری کو متحرک رکھنااور بیرونی د نیا کے مو ہوم خطرات یعنی خود ساختہ” دشمن”کی مو جودگی حصول مقاصد کا ایک ذریعہ ہے۔ مسلم ممالک پر براہ راست قبضہ اور ان سے ملحق مزید مسلم ممالک کے وسائل کا اپنی جا رحیت کی ترویج کیلئے استعمال ان ممالک پراپنے تسلط کواپنی عسکری قوت کاخراج ماناجائے گاجو اپنے جرم ضعیفی کی سزا ،مرگ مفاجات کی صورت میں اداکررہے ہیں۔ اسرائیل کاناجائزوجودعرب اور ملحق افریقی مسلم ممالک کے سینے کا خنجرتصور ہو تا ہے۔اب عراق پرمکمل تسلط،بحرین اور کویت میں ا مریکی چھا ؤنیوں کی تعمیرتمام عرب و عجم کی پشت میں مزید زہر آلود خنجروں کے مترادف ہے۔ٹھیک اسی طور افغانستان میں مستقل امریکی عسکری قوت اور کاسہ لیس حکومت کی مو جو دگی وسط ایشیائی مسلم ریاستوں،ایران اور پاکستان کیلئے ایک زندہ خطرہ رہے گااور یہیں سے شکوک شبہات کی ابتدا اور انتہاکے باعث وطن عزیز میں کبھی خالص محب وطن قومی حکومت قائم ہو نے کے امکا نات کی روشن کر نیں تا ریکیوں میں ڈوبتی ہوئی محسوس ہو تی ہیں ۔
حصول اقتدارکیلئے محاذ آرائی پچھلے ٦٨ برسوں سے جاری ہے ۔طالع آزماؤں نے آمرانہ اورنام نہادجمہوری نظام حکومت کے تحت برسوں اقتدار اورحاکمیت کابلاجوازاوربلااختیارجابرانہ استعمال اورملکی وسائل کابے دریغ استحصال کیا ہے اورہر دورکے اختتام پرقوم کوشکست خوردہ صاحبان اقتدار کے ہا تھوں قومی وسائل اور معیشت کی تباہی کا مژدہ سنایا جا تارہا ہے۔ نئے ادوار کی ابتداوہی پرا نے چہرے نئے نقابوں کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں جن کی ترجیحات کا تعین ہمیشہ غیر ملکی سرپرست قوتیں کرتی چلی آئی ہیں اور بلا شبہ آج کی ترجیح اپنے ”آقاؤں کی تابعداری”ہے جس کے نتیجے میں اپنے ہی ہم وطن بے نشان،بے گھر اور بے وطن ہو رہے ہیں اور نئی نئی خیمہ بستیوں میں زندگی کی ہر آسائش سے محروم سینوں میں اپنے باپوں، بھائیوں اور بیٹوں کی کربناک موت کے زخم چھپائے زندگی گزارنے پرمجبورکردیئے گئے ہیں اور خودصاحبِ اقتدار ملکی دولت لوٹ کراب بیرون ملک بیٹھ کروطن دشمن عناصرکے خلاف ہونے والے آپریشن کوناکام بنانے کیلئے سازشوں میں مصروف ہیں اورپہلا اوچھاوارکراچی میں رینجرزکے خصوصی اختیارات کی توسیع میں لیت ولعل ہے۔

غیروں سے کیا گلہ ہو کہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی آگ میرے گھر لگی ہوئی

اپنا تبصرہ بھیجیں