اس دنیامیں بسنے والے تمام انسان اوّل سے آخرتک دو قوموں میں تقسیم ہیں ایک وہ قوم ہے جودین اسلام کومانتی ہے جس کو مومن ومسلم کہاجاتاہے جبکہ دوسری قوم وہ ہے جودین اسلام کا انکارکرتی ہے جس کوکافرکہاجاتا ہے۔ قرآن کا واضح اعلان ہے : اللہ وہی ہے جس نے تم کوپیداکیا(جس کاتقاضہ تھاکہ اس پرسب ایمان رکھتے اورسب مومن ہوتے لیکن)پھرتم میں سے بعض کافر ہوگئے اور بعض مومن رہے۔اس آیت سے معلوم ہواکہ انسانوں کی تخلیق کے ابتدائی دورمیں کوئی انسان کافرنہ تھا،یہ کافراور مومن کی تقسیم بعدمیں کچھ لوگوں کے کافرہوجانے سے وجود میں آئی۔یہی بات اس حدیث میں بیان فرمائی گئی ہے: ہربچہ فطرت سلیم پرپیداہوتاہے(جس کاتقاضہ مومن ہوناہے)پھراس کے ماں باپ اس کویہودی یاعیسائی وغیرہ بنادیتے ہیں۔
قرآن مجید کی اس بالامذکورہ آیت سے معلوم ہواکہ تمام انسان دوقوموں میں تقسیم ہوگئے ہیں کافراورمومن اوراس تقسیم کاسبب کفر ہے ورنہ ابتداًسب مسلمان تھے اورکفرکی وجہ سے مومن برادری سے خارج ہوگئے جبکہ مسلمان خواہ کسی ملک اورخطے کاہو کسی بھی رنگ اورقبیلے کاہو،کوئی زبان بولتاہو،ان سب کوقرآن نے ایک برادری قرار دیا۔ ارشاد ہ ے:اِنَّماَ الْمُوْمُنِوْنَ اِخْوَۃ۔۔۔مسلمان تو سب (ایک دوسرے کے) بھائی ہیں اور دوسری طرف اسلام نے قیامت تک کیلئے یہ قانون بنادیاکہ مسلمان وکافراگرچہ آپس میں باپ بیٹے یاحقیقی بھائی ہوں تب بھی وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: مسلمان کافرکاوارث نہیں ہوسکتااورکافرمسلمان کاوارث نہیں ہوسکتا۔
کافر کوئی بھی عقیدہ رکھے ایک ہی ملت ہیں۔حدیث میں ارشادہے کہ اَلْکُفْر مِلَّۃ وَاحِدَہ:کفرایک ملت ہیں۔ اس طرح قرآن و سنت نے دنیاکے تمام انسانوں کودوالگ الگ ملتوں میں تقسیم کرکے فیصلہ کردیاکہ مسلمان ایک ملت اورکافردوسری ملت ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کافروں کے ساتھ حسن سلوک،انصاف،خیرخواہی،مدارات توکرولیکن محبت و دوستی کسی صورت میں تمہارے لئے جائزنہیں ہے اورنہ ہی ان کواپنا راز داربناؤاورنہ ہی ان کے طور طریقے اختیار کرو بلکہ جو کفار تم سے لڑے تمہارے دین کے درپے ہوں ان کے ساتھ جنگ کرو۔ایسے کافروں کے بارے میں قرآن نے ہدایت کی ہے کہ ہم حضرت ابراہیمؑ اوران کے اصحاب کی تقلید کریں جنہوں نے اپنے ایسے ہی کافر ہم وطنوں اوراہل خاندان سے صاف کہہ دیا تھا کہ:ہم تم سے اوران (بتوں)سے بیزارہیں جن کی تم اللہ کے سواعبادت کرتے ہوہم تمہارے منکرہیں اورجب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤگے ہمارے اورتمہارے درمیان ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اوردشمنی رہے گی(المتحنہ۔آیت:4)
عہدرسالت اورخلافت راشدہ میں کافروں سے جتنے جہادہوئے وہ اسی دوملی نظریہ پرمبنی تھے۔ساری صلیبی جنگیں اسی بنیادپر لڑی گئیں۔انبیاءسابقین کو کافروں سے جتنے معرکے پیش آئے ان سب میں یہی دوملی نظریہ کارفرماتھا۔دنیا میں مدینہ پہلی اسلامی ریاست تھی جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اس کے بعد مملکت خداداد پاکستان وہ ریاست ہے جوکہ اسی نظریہ کی بنیادپر قائم ہوئی۔اس وقت دنیامیں جوممالک موجودہیں ان سب کی بنیادجغرافیائی سرحدیں ہیں جوکہ دراصل مغرب کانظریہ ہے اہل مغرب نے خاندانی ،نسلی اورقبائلی بنیادوں میں ذراوسعت پیداکرکے قومیت کی بنیادیں جغرافیائی حدودپراستوارکیں جبکہ پاکستان کی بنیادنہ تورنگ زبان ونسل ہے اورنہ ہی جغرافیائی حدودبلکہ اس کی بنیادلَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ ہےکہ ایک عقیدہ اورایک کلمہ کی بنیادپرجوقوم بنی ہے یعنی امت مسلمہ اورملت اسلامیہ وہ سب اس مملکت کے باشندے ہیں۔
اسی نظریہ کی بنیادپربرصغیرہندوپاک کے مسلمانوں نے طویل قربانیوں کے بعداس مملکت کوحاصل کیا۔برصغیرمیں مسلمان ہزار سال حکومت کرنے کے بعد جب حکمرانوں اور بادشاہوں کی کوتاہیوں اور دین سے دوری کے باعث غلام بن گئے اور انگریز کا غلبہ ہو گیا جو کہ تقریباً ڈھائی سو سالوں پرمحیط عرصہ ہے۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کے قائدین ومفکرین اورعلماءنے آزادی کی جدوجہد مسلسل جاری رکھی۔1885ءمیں ہندوؤں نے کانگریس کی بنیاد ڈالی اور ظاہر یہ کیا کہ وہ ملک کی تمام قوموں کو ان کے حقوق دلوائیں گے لیکن بعدمیں پتہ چلاکہ وہ صرف اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ان حالات میں 1906ءمیں کل ہندمسلم لیگ کے نام سے مسلمانوں کی الگ تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی۔
اسی زمانے میں پہلی جنگ عظیم چھڑگئی جس میں انگریزکامقابلہ جرمنی سے ہوااورترکی نے جرمنی کاساتھ دیا،ہندوستان کے مسلمان چونکہ ترکی کے سلطان کوحجازکی خدمت کرنے کی وجہ سے خلیفہ اسلام سمجھتے تھے اسی لئے انہوں نے مالی اور طبی امدادبہم پہنچائی جس کی وجہ سے حکومت برطانیہ کومسلمانوں سے عنادپیداہوگیالیکن انہوں نے مسلمانوں سے وعدہ کیاکہ ہم کواس جنگ میں کامیابی ملی توترکی کوکوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے لیکن یہ ان کاوعدہ فریب تھا ۔جب انگریزکوفتح ملی توانہوں نے ترکی کی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہندکے مسلمانوں کواس فریب کی وجہ سے سخت تکلیف پہنچی اورانہوں نے خلافت کے تحفظ کیلئے مولانامحمدعلی جوہراوران کے بڑی بھائی مولاناشوکت علی کی رہنمائی میں تحریک خلافت شروع کی لیکن اسی زمانے میں ہندوؤں نے مسلمانوں کوہندوبنانے کیلئے شدھی تحریک شروع کی اورمسلمانوں کوختم کرنے کیلئے سنگٹھن کی تحریک بھی شروع کی۔
پھر1928ءمیں کانگریس نے جوہندورپورٹ شائع کی اس میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ نمائندگی کااصول جووہ بارہ سال قبل تسلیم کر چکے تھے بالکل نظر انداز کردیاتو پھرمسلمانوں میں بڑاجوش پیداہوااورانہیں یقین ہوگیاکہ چونکہ ان کادین اُن کی تہذیب اوران کی معاشرت سب کچھ مسلمانوں سے مختلف ہے اس لئے کسی حالت میں ہندوؤں سے تعاون نہیں ہوسکتا چنانچہ 1930ءمیں مسلم لیگ کے الہ آباد والے اجلاس میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن (پاکستان) بنانے کی تجویزپیش کی، چارسال کے بعد جب قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی صدارت کامستقل عہدہ قبول کیاتو انہوں نے اس تجویزکوعملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کردی۔آخرکار23؍مارچ 1940ءکو انہوں نے لاہورکے اجلاس میں واضح طورپراعلان کر دیاکہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ایک آزادمسلم ریاست قائم کی جائےاس اعلان کوقرارداد پاکستان کہتے ہیں جس کی روسے مسلمانوں کی آزاد اورخودمختارحکومت قائم کرنے کافیصلہ ہوا، اورمسلمانوں نے یہ نعرہ بلندکردیاکہ پاکستان کامطلب کیا:لا الہ الا اللہ۔اس زمانے میں ہندوکانگریس نے مسلمانوں کواپنی اکثریت کے جال میں پھانسنے کیلئے ہندو مسلم بھائی بھائی کانعرہ چلتاکیاتومسلمانوں نے مسلم مسلم بھائی بھائی کاجوابی نعرہ بلندکیاجس سے پورابرصغیر گونج اٹھا،یہ صرف جذباتی نعرہ نہ تھابلکہ یہ مسلمانوں کے عقیدے اورایمان کی آوازاورسیاسی منشورکا عنوان تھا۔
یہ قرآن وسنت کاعطاکردہ دوملی نظریہ تھا،اسی نظریہ کی طاقت پر مسلمانوں نے بیک وقت تین طاقتوں انگریزوں،ہندوؤں اور سکھوں سے چومکھی لڑائی لڑکر پاکستان حاصل کیا۔ یہی وہ نظریہ ہے جس پر اس مملکت کاوجودمنحصرہے بلکہ امت مسلمہ کاوجوداس کی ترقی اور کامیابی بھی اسی نظریہ پرقائم رہنے پرہے اوریہ طاقت ہے جس کامقابلہ دنیاکی باطل قوتیں نہیں کرسکیں۔اورہماراشاندارماضی اس پرشاہدہے کہ یہی وہ اسلامی برادری اورایمان اخوت تھی جس نے تھوڑے ہی عرصے میں مشرق و مغرب شمال وجنوب،کالے وگورے،امیروغریب،عرب وعجم کے بے شمارافرادکوایک لڑی میں پرودیا اورمسلمان دنیاکی سب سے بڑی طاقت بن گئے۔
اورجب مسلمانوں نے اس میں کمزوری دکھائی توہرجگہ پسپائی سے دوچارہوناپڑااوردشمنوں نے رنگ وزبان وطن اورعلاقہ نسب وقبائل کے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ان کوباہم ٹکرادیا۔اسپین سے مسلمانوں کی ہزارسال کی حکومت کاخاتمہ اسی وجہ سے ہوا،ترکی کی خلافت عثمانیہ اسی ٹکراؤکے نتیجہ میں پارہ پارہ اور پھوٹ کی نذرہوئی اورسقوط مشرقی پاکستان کے المناک سانحہ کیلئےبھی بھارت نے اسی وطنی اورلسانی قومیت کوآلہ کاربنایا۔اب موجودہ پاکستان میں لسانی اوروطنی قومیت کے نئے بت تراش لئے گئے ہیں جن کی بنیادپرمسلمانوں کی ملت واحدہ کوپھرٹکڑے ٹکڑے کیاجارہاہے۔لسانی اوروطنی عصبیتوں نے ایسااندھاکردیا ہے کہ مشرقی پاکستان کی طرح اب پھربھائی بھائی کاگلاکاٹ رہاہے۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع میں بڑی دل سوزی سے یہ وصیت فرمائی تھی کہ:لَاتَرْجِعُوْابَعْدِیْ کُفَّاراًیَّضْرِبْ بَعْضَکُمْ رِقَابَ بَعْضِ:میرے بعدکافرنہ ہوجاناکہ آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگو۔جن گھناؤنی عصبیتوں کاصورپھونکاجارہا ہے،ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کایہ ارشادہرمسلمان تک پہنچ جاناچاہئے کہ: وہ شخص ہم میں سے نہیں جوعصبیت کی طرف بلائے اوروہ شخص ہم میں سے نہیں جس کی موت عصبیت پرآئے۔
اس صورتحال کی پشت پرہمارے دشمنوں کی سازشیں توکارفرماہیں ہی لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ کوئی بیرونی سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اسے ہماری ایسی کمزوریاں ہاتھ نہ آجاتیں جن کے ذریعہ وہ اپنے مکروفریب کاتانابانابن سکیں۔اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ ہماری سب سے بڑی کمزوری وہ ظلم بدعنوانیاں اورحق تلفیاں ہیں جن کاموجودہ سرمایہ دارانہ اورجاگیردارانہ نظام بازارمیں گرم ہے اورجواس ظالمانہ نظام کی بے دین فضانے قدم قدم پرپھیلا رکھی ہیں۔نئی نسل اس صورت حال پرمضطرب ہے اوراس اضطراب کوبنیادبناکربیرونی سازشوں نے اس پرلسانی اور صوبائی عصبیت کاجال پھینکا ہے۔
ہمارااصل مسئلہ پنجابی پٹھان سندھی یامہاجرنہیں،ان میں سے کسی طبقہ کوعلی الاطلاق ظالم اوردوسرے کوعلی الاطلاق مظلوم قراردیناپرلے درجے کی بے انصافی ہے بلکہ ہمارااصل مسئلہ وہ بے دینی اورخدافراموشی ہے جوظالم کوبے خوف وخطرظلم پر آمادہ کرتی ہے،یہی وہ ذہنیت ہے جس نے ہرجگہ مظالم اور حق تلفیوں کابازارگرم کیاہواہے۔یہی ذہنیت دوسروں سے ہروقت اپنے نام نہادحقوق کامطالبہ کرتی رہتی ہے لیکن اسے نہ اپنے فرائض کاکوئی احساس ہے نہ دوسروں کے حقوق کاپاس۔اس سب کاعلاج یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کوحقیقی جامہ پہناکرقرآن وسنت پرمبنی اسلام کے نظام معیشت اورنظام عدل کوعملاًنافذ کرکے ان مظالم بدعنوانیوں اورحق تلفیوں کاخاتمہ کردیاجائے۔
اس وقت اگرآپ پاکستانی سیاست کاتجزیہ کریں توہمیں تاریخی آئینہ سے جس چہرے کے خدوخال نظرآتے ہیں وہاں پچھلی سات دہائیوں سے زائد “اوفو بالعہد “کا جس بری طرح تمسخراڑایاگیاہے،کس طرح غلط لوگوں کی حکومت،غلط سوچ اورغلط پالیسیوں کی بناء پرارضِ وطن میں دہشتگردی میں خون کی ہولی نے ساری دنیا میں پاکستان کوبدنام کرکے رکھ دیاہے اورانہی وجوہات کی بناء پرملکی تجارت کوتباہی کے دہانے پرپہنچادیاہے اورغلط معاشی اورسودی پالیسیوں کی بناء پرعالمی مالیاتی اداروں نے نہ صرف درپردہ غلام بناکررکھ دیاہے بلکہ غیرپیداواری معاشی ثقافت نے پاکستان کے آپریشنل باڈی کوناکارہ بناکررکھ دیاہے۔اس کے وجود اورآزادی کواس کے اپنے سیاسی حکمران چیلنج کررہے ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ پاکستان کی قومی آزادی،سالمیت اور مستقبل کولاحق خطرات کوروکنے کیلئے نفرت انگیزاجتماعی نظریات کے سدباب کیلئے ایک ایسی منظم مہم کی ضرورت ہے جس کیلئے ہم نے اپنے رب سے یہ وعدہ کیاتھاکہ ہمیں ایساخطہ ارض عنائت کیاجائے جہاں ہم بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں لاسکیں جس کیلئے ضروری ہے کہ سازشوں ،معاشی غنڈہ گردی،سیاسی قتل و غارت اوربیک ڈورسازشوں کے ذریعے اقتدارحاصل کرنے کیلئے غیرملکی آقاؤں کے احکام بجالانے والوں سے نجات حاصل کرکے اپنے رب کے بتائے ہوئے احکام کی تعمیل کیلئے آج کے دن توفیق کی دعاکی جائے۔23مارچ کویوم پاکستان مناتے ہوئے ایسے تجدید عہدکی ضرورت ہے جہاں ہم اس کرپٹ نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے اپنی قومی آزادی اورپائیدارمستقبل کیلئے قرآن سے رجوع کریں۔اسی میں اس مملکت کی بقاءاورترقی پوشیدہ ہے اوریہی 23؍مارچ کاپیغام ہے۔