سن توسہی جہاں میں ہے ترافسانہ کیا

:Share

شنیدہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ”را”کے ساتھ روابط ثابت ہوگئے توحکومت متحدہ پرپابندی لگانے میں دیرنہیں کرے گی۔اسی لئے حتمی کاروائی کیلئے برطانیہ سے متحدہ کے رہنماؤں طارق میراورمحمدانورکے اعترافی بیانات کی تفصیلات کیلئے اعلیٰ سطح سے رابطہ کرلیاگیاہے۔مسلم لیگ (ن)کے معتبرذریعے نے بتایاکہ کراچی آپریشن کا مقصد شہرکوپرامن بنانااورجرائم پیشہ عناصر سے پاک کرناہے لیکن اگرایم کیوایم کے بھارت کے ساتھ روابط اورفنڈلینے کے الزامات ثابت ہوجاتے ہیں توحکومت ایم کیوایم پرفوری پابندی کافیصلہ کر چکی ہے۔تاہم فی الوقت حکومت احتیاط سے آگے بڑھ رہی ہے۔ایک ذریعے کاکہناہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ متحدہ کوبطورسیاسی جماعت برقراررکھتے ہوئے اس کے مسلح ونگ کو ختم کردیاجائے ۔انہوں نے کہاکہ متحدہ ایک مسلح گروہ ہے جس کاایک سیاسی ونگ ہے،جومسلح ونگ کے ماتحت ہے۔وہی سیاسی ونگ کوہدایات جاری کرتاہے اور مسلح ونگ ہی ارکانِ پارلیمنٹ کاانتخاب کرتاہے، جس کے سربراہ خودالطاف حسین ہیں۔ذریعے کے بقول حکومت اورفوج ،الطاف حسین کی جانب سے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال کودی جانے والی دہمکی کابھی سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے کہ تمہارے بھی بچے ہوں گے،گھر والے ہوں گے۔
دوسری جانب بی بی سی کی رپورٹ پرحکومت پاکستان نے برطانوی حکومت کوجوخط لکھاہے اس کے نتیجے میں دونوں حکومتیں باضابطہ طورپرآپس میں معلومات کاتبادلہ کرنے اور مکمل تعاون پرآمادہ ہوچکی ہیں۔اس سلسلے میں حال ہی میں دفترخارجہ کی طرف سے دوسری مرتبہ ان ثبوتوں کے مطالبے کاتحریری اعادہ کیاگیاہے لیکن برطانیہ کی طرف سے انتہائی احتیاط اور تاخیری حربوں سے فی الحال معاملہ رکاہواہے۔ متحدہ پرہاتھ ڈالنے میں احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف اس میں پاک بھارت تعلقات بری طرح متاثرہونے کااندیشہ ہے بلکہ برطانیہ اور بھارت کے تعلقات اور پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔یہ اطلاعات بھی تھیں کہ حالیہ اوفامیں ہونے والی ملاقات میں وزیر اعظم نوازشریف براہِ راست بھارتی وزیر اعظم مودی سے اس موضوع پربات کریں گے لیکن ہمارے وزارتِ خارجہ کی نااہلی اورمرعوبیت کایہ عالم کہ حالات کی برتری کے سارے کارڈ اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے باوجود بری طرح ناکامی کاسامناکرناپڑاجبکہ دوسری طرف مودی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی پرواہ کیے بغیرگزشتہ دنوں مشرقی پاکستان کوبنگلہ دیش بنانے میں بھارتی کردارکاجوکھلااعتراف کیا، اس پرایک سابق اعلیٰ انٹیلی جنس افسر نے بتایاکہ یہ حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان بھارتی مداخلت کی وجہ سے الگ ہواکیونکہ اس نے نہ صرف مکتی باہنی کوٹریننگ دی بلکہ اپنی فوج کے سپاہی مکتی باہنی میں شامل کردیئے تھے۔ اسی طرح اس نے جہاں تامل علیحدگی پسندوں،تبت کے باغیوں،نیپالی انتہاپسندوں اور الذوالفقار کو تربیت دی ،وہیں ایم کیوایم کے دہشتگردوں کا ٹھکانہ بھی بھارت تھا لیکن بے نظیربھٹونے الذوالفقار کو قبول کرنے سے انکارکردیاتھااس لیے الذوالفقاراپناوجودبرقرارنہیں رکھ سکی۔
انہوں نے بتایاکہ سابقہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اوربعدازاں ایم کیوایم کاسیاسی ڈھانچہ بھی بھارت نے بنایاہے جوبالکل ملتاجلتاہے۔دونوں جماعتو ں کے عسکری ونگ سیاسی قیادت کو اپناماتحت بنائے ہوئے ہیں،اس لیے پاکستان کی مقتدرقوتوں نے بھارت کوہرمحاذپرمنہ توڑ جواب دینے کافیصلہ کرلیاہے جبکہ بھارت نے بھی پاکستان میں اپنے تمام ایجنٹوں کودوبارہ فعال کرناشروع کردیاہے لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں نے ان تمام معاملات پراپنی کڑی نگرانی کا دائرکاربھی بڑھادیاہے۔بھارت نے جنوبی افریقہ کے راستے متحدہ کے کارکنوں کوتربیت دے کرپاکستان بھیجناشروع کیاہے تاہم اس بارے میں بھی انٹیلی جنس اداروں نے اپنی تحقیقاتی رپورٹس تیارکرلی ہیں۔انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹ کے مطابق متحدہ کے سینکڑوں کارکن جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں،ان میں کچھ نے وہاں شہریت حاصل کررکھی ہے جبکہ اکثریت وہاں غیرقانونی طورپرمقیم ہے۔پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی معلومات پرجنوبی افریقہ کی حکومت سے بھی ان پاکستانیوں کی واپسی کیلئے کہاجائے گا۔اس سلسلے میں آرمی چیف کاحالیہ دورۂ جنوبی افریقہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جہاں یقیناًایجنڈے پربھارت کی طرف سے ایم کیوایم کے ان تمام دہشتگردوں کیلئے جنوبی افریقہ کی سرزمین کوسہولت کیلئے استعمال کرنے کے مضمرات کابھی جائزہ لیاگیاہوگا۔
ذرائع کے مطابق حکومت کویہ خوف بھی ہے کہ کہیں متحدہ اپنی مددکیلئے اپنے اصل مربی امریکاکونہ بلالے جس کیلئے انہوں نے ١٠ڈاؤننگ اسٹریت کے سامنے تامرگ بھوک ہڑتال کاعندیہ بھی دیاہے۔چند دن قبل رینجرزنے فاروق ستاراورحیدررضوی کے گھروں پربھی چھاپہ مارالیکن دونوں موقع سے فرارہوگئے اور ابھی حال ہی میں ایم کیوایم کے ایک اورلیڈرکے ریسٹورنٹ پربھی چھاپہ ماراگیاگویاایم کیوایم کے خلاف گھیرادن بدن تنگ ہوتاجارہاہے۔اس لیے حکومت متحدہ کے معاملے میں احتیاط سے قدم اٹھارہی ہے اور ٹھوس ثبوت ملنے کے بعدہی حتمی کاروائی کی جائے گی۔یادرہے کہ رینجرزنے نائن زیروپر چھاپے کے دوران دیگرممنوعہ اسلحے کے ساتھ نیٹو کاحساس اسلحہ بھی برآمدکیاتھاجس کی بعدازاں امریکی سفارت خانے کواس اسلحے سے اپنی لاتعلقی کااظہارکرناپڑاکیونکہ امریکاایم کیوایم سے کسی بھی تعلق سے اپنادامن پاک رکھناچاہتاہے۔یادرہے کہ مشرف بعدازاں زرداری کے دورِحکومت میں ایک طویل عرصے تک ایم کیوایم کے اہم لیڈربابرغوری کے پاس جب پاکستان کی تمام پورٹس یعنی کراچی اور گوادرپورٹس کی وزارت کا منصب تھاتو انہی دنوں نیٹوکے اسلحہ سے بھرے ہوئے کئی سوکنٹینرز افغانستان پہنچنے سے پہلے پاکستان کی حدودمیں غائب ہوگئے تھے جن کی برآمدگی آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے اوران دنوں بھی یہ افواہ انتہائی گرم تھی کہ مبینہ طور پریہ اسلحہ بلوچستان اورایم کیوایم کے شرپسندوں میں تقسیم کیاگیاتھا۔
یقینایہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ”را”کے ساتھ متحدہ کے تعلق کوثابت کرنے کیلئے برطانیہ سے ٹھوس ثبوت مانگے گئے ہیں حالانکہ پاکستانی اداروں کے پاس اس حوالے سے ٹھوس اور ناقابل تردیدثبوت کاانبارموجودہے جس کوانتہائی راز داری کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس پہنچادیاگیاتاکہ موجودہ وزیراعظم اس کابغورمطالعہ کرلیں تاکہ جب عالمی سطح پر متحدہ کے پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوث ہونے کے ثبوت ملیں توحکومت کو متحدہ کے خلاف کاروائی میں کوئی مشکل پیش نہ آئے لیکن میڈیاکے ایک ذریعہ نے تہلکہ خیزانکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے وہ تمام ثبوت لیک ہوگئے ہیںاوران تمام ثبوتوں میں وہ ذرائع بھی تھے جن کے ذریعے آئی ایس ّئی نے یہ معلومات حاصل کی تھی مگران معلومات کے لیک ہونے سے وہ تمام ذرائع منکشف ہوگئے ہیںجواب پاکستان ایجنسیوں کیلئے بہت خطرناک بات ہے ۔ ابھی تک حکومت کے کسی ذمہ دارادارے کی طرف سے اس انکشاف کی تردید جاری نہیں ہوئی جس کی بناء پرموجودہ حکومت پرسیکورٹی اداروں اورعوام کااعتمادبری طرح متزلزل ہوگیاہے۔ادھربھارت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق نواز شریف نے عید کے موقع پر آم کی پیٹی بھارتی وزیراعظم کے لیے بھجوائی۔ انھوں نے یہ آم ایک ایسے وقت میں بھجوائے ہیں جب عید کے موقع پر سرحد پر موجود پاکستانی فوسرز نے بھارتی بارڈر سکیورٹی فورسز کی جانب سے مٹھائی لینے سے انکار کر دیا تھااورپاکستانی فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ بھارتی فوج نے عید کے دن کو لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کر کے اوفا سمجھوتے کی خلاف ورزی کی ہے ۔خیال رہے کہ گذشتہ برس بھی پاکستانی وزیراعظم نے بھارتی صدر اور وزیراعظم کو آم بھجوائے تھے اور اس وقت بھی بھارت نے پاکستان کے ساتھ سیکریٹری خارجہ سطح کے مذاکرات روک دیے تھے۔
توکیااب اس افواہ پریقین کرلیاجائے کہ وزیراعظم نوازشریف صاحب کوپاکستان کی سلامتی سے زیادہ بھارت میں اپنا کاروبارزیادہ عزیزہے؟
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں