جنت میں چراغاں،شہیدوں کے لہو سے

:Share

نہ کوئی دنیا کی حقیقتوں کو جانتا ہے اور نہ ہی اپنے ارد گرد بکھر تی قوموں اور تباہ ہوتی ہوئی قوتوں کو دیکھتا ہے۔عذاب کے فیصلوں اور اللہ کی جانب سے نصرت کے مظاہروں کو دیکھنے کیلئے کسی تاریخ کی کتاب کھولنے یا عاد و ثمود کی بستیوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں،یہ ابھی کل کی باتیں ہیں ۔ میرے اللہ کا فرمان ہے کہ جب ہم کسی قوم پر کوئی آفت نازل کرتے ہیں تو وہ اس کی مادی توجیہات کرنے لگ جاتا ہے۔کوئی سوچ سکتا تھا کہ دنیا کی ایک ایٹمی سپر طاقت جس کے پاس اس ساری دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کرنے کا سامان موجود ہو،جس کی تسخیر خلاؤں تک ہو،جو دنیا میں پچاس سے زیادہ کیمونسٹ تحریکوں کی برملا مدد کرتا ہو،بے خانماں،بے سر و ساماں افغان مجاہدوں نے صرف اپنے رب کے بتائے ہوئے حکم جہاد کے ذریعے اس کی یہ حالت کر دی کہ روس کی ائیر ہوسٹس صرف ایک ڈبل روٹی کیلئے اپنی عزت بیچنے پرمجبورہوگئی اوروہاں کے لوگ صرف روٹی کیلئے دوکانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑے کہ معاملہ مقامی پولیس کے قابو میں نہ رہا اوربپھرا ہجوم ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگیااورسینکڑوں شدید زخمی ہوگئے ۔نفرت اس حد تک پہنچ گئی کہ کل تک جس لینن کے مجسمے کو چومنا اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے اسی مجسمے کو سر عام جوتے مارے گئے اور اس پر تھوکاگیا ۔
کسی ایک محاذ پر شکست کے بعد قومیں متحد ہو جایا کرتیں ہیں ،انتقام کیلئے،اپنے آپ کو مزید طا قتورکرنے کیلئے،لیکن جو مسلمان قوم جہاد سے منہ موڑ لے تو قدرت اس قوم کیلئے زوال و رسوائی کا فیصلہ صاد کر دیتی ہے۔ان کو نفرت،تعصب،بھوک،افلاس اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کا مزا چکھادیا جاتا ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکا۱۹۰۱ء سے چین،فلپائن،کوریا،ویت نام ، جنوبی امریکا دنیاکے دیگر۳۸ممالک سے ذلیل ورسواہو کر نکلا ہے۔دور نہ جائیں ،ابھی کل کی بات ہے،امریکا کی بھرپور طاقت اور قوت کا مظہر اسرائیل،جس کا دفاعی نظام اس قدر مضبوط تھاکہ امریکی پینٹاگون بارہا ایسی خواہش کا اظہار کرتا تھا کہ اس کا دفاعی انتظام بھی اسرائیل جیسا ہو۔لیکن اس طاقت کو ایک فوجی لحاظ سے غیر منظم صرف ساڑھے تین ہزارافراد پر مشتمل تنظیم حزب اللہ نے اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کے ذریعے امریکا کے لے پالک اسرائیل کو ایسی ذلت آمیز شکست دی کہ اس کے فوری تین شہر خالی ہو گئے،اس کے چار لاکھ شہری در بدر ہو گئے،کیا حزب اللہ کو کسی عالمی طاقت کی مدد حاصل تھی؟
لیکن وہ طاقت کے پجاری جن کا دل ہی نہیں مانتا کہ اس کائنا ت پر ایک اور حکمران طاقت ہے جس کا یہ وعدہ ہے کہ اگر تم مجھ پر یقین کرو تو تم قلیل بھی ہو گے تو زیادہ طاقت پر غالب آؤ گے ۔یہ لوگ پھر بھی تو جیہات کرتے ہیں لیکن آخر میں انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ قدرت نے ہر انسان کے سینے میں ایک چھوٹا سا ایٹم بم”دل” کی شکل میں نصب کر رکھا ہے۔یہ چھوٹا سا لوتھڑا پہاڑوں سے ٹکرا جانے کی ہمت رکھتا ہے اگر اس میں صرف ایک رب کا خوف موجود ہو،سارا باطل اس سے لرزاں اور خوفزدہ رہتا ہے،لیکن اگر اس میں دنیا کاخوف بٹھالیں تو ہر دن رسوائی کی موت آپ کی منتظر رہتی ہے۔ ہم نے جب سے جہاد سے منہ موڑا ہے دنیا کی تمام رسوائیاں ہمارا مقدر ٹھہری ہیں۔ہم ایک جو ہری قوت ہوتے ہوئے بھی لوگوں سے اپنے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف دنیا کی تمام جوہری طاقتیں ان طالبان سے مذاکرات کیلئے راستہ ڈھونڈ رہی ہیں جنہوں نے صرف جہاد کا سہارا لیکر اپنے وجود کو منوایا ہے۔
امریکا اور مغربی ممالک جو جدید ٹیکنا لوجی رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں جہاں ہزاروں افراداپنی اس ٹیکنالوجی کی بدولت دہشت گردوں کی بو سونگھتے
رہتے ہیں جہاں کوئی شہری اپنے پڑوسی میں کسی لمبی داڑھی والے کو دیکھ لیں تو فوراً پولیس کو آگاہ کر تے ہیں،باہر سے آنے والوں کو گھنٹوں ائیر پورٹ پر سیکورٹی کے نام پر ذلیل کیا جاتا ہے،کیا وہاں یہ سب ختم ہو گیا یا ان کے شہر ان خطروں سے محفوظ ہو گئے ہیں یا ان کا خوف کم ہو گیا؟؟؟ہر گز نہیں ،ہم تو ایک آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مذاکرات ہمیشہ انتہائی خفیہ اورسنجیدگی سے کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں طالبان کی جانب سے مقرر کردہ مذاکراتی کمیٹی کاہررکن میڈیاپربیٹھانظرآتاہے ۔ کیا دنیا کے کسی خطے میں ایسا ہوا ہے ؟ویت نام،لاؤس ، فلسطین، سری لنکا، چلی، نکاراگوا،کمبوڈیا، کہاں کسی نے میڈیاپر ایسی دوکانداری چمکائی ہے ؟دشمن تویہی چاہتاہے کہ مذاکرات ناکام ہوں، عوام کا خون اور بہے اور گھرانے ماتم کدہ بن جائیں اور لوگ اس آگ میں جھلس جائیں اور پھر مجبور ہوکر سر جھکا کر ان کی ہر بات،ہر مطالبہ مان لیں۔،جوہری اثاثوں اور کشمیر سے دستبرداری اوربھارت کی غلامی اختیار کرلیں لیکن وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایسا نہ کبھی پہلے ہوا تھا اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔
اس میں شک نہیں کہ ماضی میں ایک فوجی ڈکٹیٹر نے ہماری بہترین افواج کو ان دشمنوں کا آلہ کار بنانے کی پوری کوشش کی لیکن ”جہاد”جیسے جذبے سے معمور فوج آج بھی اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے یہی وجہ ہے کہ یومِ شہداپر جنرل راحیل شریف کے صرف ایک بیان پر ساری قوم میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری افواج کو مکمل طور پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کیلئے استعمال کیا جائے۔مجھے قوی امید ہے کہ ”جہاد”کے جذبے سے سرشار افواج اپنے ملک کے جوہری اثاثوں اور مسئلہ کشمیر پر کبھی قوم کو مایوس نہیں کرے گی اسی لئے جنرل راحیل شریف نے ببانگ دہل کشمیرکوپاکستان کی شہ رگ قراردیکرکشمیریوں سے مکمل یکجہتی کااعلان کیاہے۔پچھلے ۶۶برسوں سے بھارت اور عالمی طاقتوں نے مسئلہ کشمیر سے جس طرح بے اعتنائی اختیار کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اقوام متحدہ جو ان عالمی طاقتوں کی کنیز اور لونڈی کا کردار ادا کر رہی ہے اس کے چارٹر میں بھی مظلوم اقوام کی اپنی آزادی کیلئے مسلح جد و جہد کی حمائت کی گئی ہے اور کشمیر کا مسئلہ تو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا ایسا مسئلہ ہے جو ابھی تک عالمی ضمیر کو ان کی بے حسی کی یاد دلانے کیلئے کافی ہے۔
اہل نظر پچھلے کئی ماہ سے خبردار کرتے چلے آرہے ہیں۔رب کریم کے سامنے اپنی عاجزی وبے بسی ساتھ جہاد سے منہ موڑنے پر استغفار کی ضرورت ہے۔جن کے دلوں میں امریکا کا خوف اور ہاتھوں میں کشکول ہے ان کے تکبر ٹوٹنے کا وقت آپہنچا ہے۔افغانستان میں برطانوی سفیر اور نیٹو افواج کے کمانڈر نے برملا اپنی شکست کا اعتراف کر لیا ہے۔ اتحادیوں نے برطانیہ پر طالبان کی خفیہ مدد اور مذاکرات کا الزام بھی لگایا ہے اور سعودی عرب کے شاہ عبداللہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیا ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کا وقت آن پہنچا ہے؟سنا ہے جب جہاز ڈوبنے کا وقت ہوتا ہے تو چوہے سب سے پہلے جہاز چھوڑتے ہیں لیکن اب تو شاید ان چوہوں کا مقدر بھی ہمیشہ کیلئے غرق ہونا ٹھہر گیا ہے۔کیا خوابوں کی تعبیر کا وقت آن پہنچا ہے؟
جب تک نہ جلے دیپ شہیدوں کے لہو سے
سنتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا

اپنا تبصرہ بھیجیں