بدھ15جنوری2025ءکوبالآخروزیرِاعظم شیخ محمدبن عبدالرحمان التھانی نے قطرمیں پریس کانفرنس کے دوران اقوام عالم کو کئی مہینوں سے درپردہ اسرائیل اورحماس کے حکام قطر،مصراورامریکی ثالثوں کے ذریعے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کے اس معاہدے کی تصدیق کردی ہے جس میں اسرائیلی فوجوں کے غزہ سے انخلا،حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہوگی۔ معاہدے کا آغازگزشتہ روزاتوار19جنوری سے شروع ہوگیا ہے،حماس نے3/اسرائیلی ریڈکراس کے حولے کردیئے جس کے جواب میں 69خواتین اور21 فلسطینی نوجوانوں کورہاکردیاگیاہے۔
غزہ میں جنگ جنوبی اسرائیل پر7اکتوبر2023کوشروع ہوئی تھی۔اس حملے میں تقریباً1200افرادہلاک اور251شہریوں کویرغمال بنایاگیاتھا۔اس کے بعداسرائیل نے حماس کوتباہ کرنے کیلئےغزہ پرحملہ کردیاتھا۔اس جنگ کے غزہ میں وزارتِ صحت کے مطابق 46 ہزار640افرادشہیدہوچکے ہیں جبکہ حقیقت میں شہداءکی تعداداس سے کہیں زیادہ ہے۔حماس کے حملے اوراس کے نتیجے میں اسرائیلی ردِ عمل نے خطے کی صورتحال کوہمیشہ کیلئےبدل کر رکھ دیا۔سوال یہ ہے کہ آخرحماس نے غزہ کے سب سے مربوط حملے کی ابتدا کیسے کی؟
سنیچر(ہفتہ)یہودیوں کیلئے”سیبیتھ”کادن تھاجس کامطلب ہے کہ بہت سے خاندان گھروں میں،دوستوں سے ملاقاتوں یاپھرعبادت گاہوں میں وقت بتانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے یاشائد بہت سے اسرائیلی سورہے ہوں گے کہ اچانک صبح تقریباًساڑھے چھ بجے وسعت اورمنصوبہ بندی کے حساب سے غیرمعمولی راکٹوں کی برسات نے دنیابھرکوچونکادیا۔برسوں سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو رکاوٹوں کے ذریعے الگ تھلگ کررکھاہے۔ تاہم حماس کی جانب سے چندہی گھنٹوں میں یہ رکاوٹیں عبورکرلی گئیں۔غزہ کی پٹی کوکنٹرول کرنے والی تنظیم حماس نے جواکثرراکٹوں کے استعمال جیسی حکمت عملی استعمال کرتی رہی تھی،یہاں بھی اپنے جارحانہ حملوں میں انہی راکٹوں کااستعمال کیا۔حماس کے اِن راکٹوں کے خلاف اسرائیل کاجدید “آئرن ڈوم”نامی دفاعی میزائل نظام عموماًمؤثرثابت ہوتاہے لیکن سنیچرکی صبح انتہائی مختصروقت میں داغے گئے ہزاروں راکٹوں نے اس نظام کوغیر مؤثرکیسےکردیا،یہ ایک بہت بڑاسوالیہ نشان ہے؟
راکٹوں کی اتنی بڑی تعداد ثابت کرتی ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی مہینوں سے جاری تھی۔ حماس کادعویٰ ہے کہ پہلے مرحلے میں پانچ ہزارراکٹ داغے گئے جبکہ اسرائیل کے مطابق داغے گئے راکٹوں کی تعداد حماس کی جانب سے بتائی گئی تعداد سے نصف تھی۔غزہ کی پٹی سے60کلومیٹردور اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب تک میں الارم بجناشروع ہوگئے اورجلدہی مغربی بیت المقدس اوردیگرشہروں میں جہاں جہاں میزائل گرے دھواں اٹھناشروع ہوگیا۔راکٹوں کی اس برسات کے دوران حماس کے مسلح فدائی اُن مقامات پراکھٹے ہوئے جہاں سے انہوں نے غزہ کوالگ کرنے والی رکاوٹیں عبورکرناتھیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے اپنی فوج اورآبادکاروں کو2005میں غزہ سے نکال لیاتھالیکن اب تک غزہ کی فضا،سرحدوں اور ساحلوں پراسرائیل کاہی کنٹرول ہے۔غزہ کی پٹی کے گردکہیں کنکریٹ سے بنی دیوارہے توکہیں کانٹے دارباڑنصب ہے۔اس کے ساتھ ساتھ فوجی چوکیاں موجودہیں جبکہ ایسے ہی حملوں کی روک تھام کیلئےکیمرانیٹ ورک اورسینسربھی نصب تھے۔چندہی گھنٹوں میں اس رکاوٹ کومختلف مقامات پرپارکرلیاگیا۔حماس کے چند فدائیوں نے تواس رکاوٹ کومکمل طورپربائی پاس کیاجس میں فضائی گلائیڈرزبھی شامل تھے(غیرمصدقہ فوٹیج میں کم ازکم سات ایسے فضائی گلائیڈرز اسرائیل میں دیکھے گئے)۔چند فدائی کشتیوں کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہوئے۔
اسرائیلی فوج کاکہناہے کہ اس کی جانب سے حماس کی دوکشتیوں کواسرائیل میں داخل ہونے سے روکاگیالیکن اس حملے کی خصوصیت کراسنگ پوائنٹس پرمتعدداورمنظم حملے تھے۔پانچ بج کر 50 منٹ پر حماس کے مسلح ونگ کے ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر ابتدائی تصاویر شائع ہوئیں جو کریم شالوم کے مقام پر لی گئی تھیں۔ یہ اسرائیل میں غزہ سے داخل ہونے کیلئےسب سے جنوبی مقام ہے۔ ان تصاویر میں دیکھاجاسکتاہے کہ باڑکے پارمسلح فدائی ایک فوجی چوکی پرحملہ آورہوتے ہیں اورپھرزمین پردواسرائیلی فوجیوں کی خونیں لاشیں نظرآتی ہیں۔ایک اورتصویرمیں پانچ موٹرسائیکلوں پرسوارمسلح فدائی خاردار رکاوٹ کے ایک حصے کوکاٹ کرداخل ہورہے ہیں،ایک اور حصے پرایک بلڈوزرکی مددسے خارداررکاوٹ کوگرایاجارہاتھا۔یہاں درجنوں مسلح افراد موجود تھے جن میں سے چند تقسیم کرنے والی رکاوٹ کوعبورکرناشروع کردیتے ہیں۔کریم شالوم سے تقریبا43کلومیٹردور،غزہ کے شمال میں،حماس کی جانب سے ایریز کے مقام پرخارداررکاوٹ کوپارکرنے کی ایک اورکوشش جاری تھی۔
یہاں سے جاری ہونے والی فوٹیج میں دیکھاگیاکہ کنکریٹ کے بیریئرپردھماکہ ہوتاہے جوحملے کے آغازکااشارہ ہے اورپھرایک مسلح جنگجو اپنے ساتھیوں کی جانب ہاتھ لہراکرانہیں آگے بڑھنے کااشارہ دیتاہے۔بلٹ پروف جیکٹ پہنے،رائفلیں تھامے آٹھ جنگجو اسرائیلی فوجی چوکی کی جانب دوڑتے ہیں اور فائرنگ کرتے ہیں۔اس ویڈیومیں آگے چل کرزمین پراسرائیلی فوجیوں کی لاشیں دکھائی دیتی ہیں جبکہ فدائی،جوواضح طورپرتربیت یافتہ اورمنظم ہیں، کمپاونڈمیں تمام کمروں کاجائزہ لیتے رہے۔غزہ کی پٹی پر سات سرکاری کراسنگ پوائنٹس ہیں جن میں سے چھ اسرائیل اورایک مصرکے کنٹرول میں تھا۔تاہم چندگھنٹوں کے اندرحماس نے پوری سرحدسے اسرائیلی علاقے میں گھسنے کاراستہ ڈھونڈلیا۔
حماس کے جنگجوغزہ سے نکل کرہرسمت میں پھیل گئے۔اسرائیلی حکام سے حاصل شدہ معلومات سے علم ہوتاہے کہ وہ27 مقامات پرحملہ آورہوئے اور بظاہرانہیں حکم تھاکہ وہ دیکھتے ہی گولی چلادیں۔حماس کے فدائی سب سے دورجس مقام تک پہنچے وہ غزہ کے مشرق میں22کلومیٹردوراوفاکم کاقصبہ تھا ۔سدیروت میں فدائی ایک پک اپ ٹرک میں قصبے سے گزرے جوغزہ کے مشرق میں تین کلومیٹردورہے۔تقریباًایک درجن مسلح فدائی اشکیلون کی خالی سڑکوں پردیکھے گئے جوایریزکے شمال میں ہے۔ جنوبی اسرائیل کے متعدد مقامات پرایسے ہی مناظر دیکھے گئے اوراسرائیلی حکام نے عام شہریوں کو گھروں میں چھپ جانے کی تاکید کی۔
اسرائیل کاکہناہے کہ ریئم کے قریب ایک صحرامیں ایک موسیقی فیسٹیول ہورہاتھاجس میں بڑی تعدادمیں نوجوان شرکت کررہے تھے۔ان مسلح نوجوانوں نے موسیقی فیسٹیول اوردیگر مقامات سے تقریباً100کے قریب فوجی اہلکاراورعام شہریوں کواغواکرکے غزہ لیجایاگیا۔اسرائیلی آبادیوں کے ساتھ ساتھ حماس نے دوفوجی تنصیبات کوبھی نشانہ بنایا۔ریئم سے سامنے آنے والی فوٹیج میں کئی جلی ہوئی گاڑیاں اس اڈے کے قریب سڑک پرنظرآتی ہیں۔راکٹ حملے کی ابتداکے چندگھنٹوں میں سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہو چکے تھے اوریہ سب ایک ایسے اندازمیں ہواجوکسی نے سوچابھی نہیں تھا۔چند گھنٹوں میں اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں فوجی مددپہنچناشروع ہوگئی لیکن ایک وقت تک حماس کاغزہ سے باہرکافی علاقے پرکنٹرول تھا۔حماس کے اس حملے کے بعد کی داستان سے آپ سب واقف ہیں کہ نیتن یاہونے پہلے ردعمل کے طورپریہ دہمکی دی تھی کہ حماس اوران کے مددگاروں کی نسلیں بھی ہمارے انتقام کویادرکھیں گی اوراس نے ایساکردکھایااورخطے کے تمام مسلم ممالک کاردعمل ایساتھاجسیاکبوتربلی کودیکھ کراپنی آنکھیں بندکرلیتاہے۔اب جنگ بندی پربھی ابھی تک کسی کاتبصرہ تک نہیں آیا۔
دوسری جانب امریکی صدرجوبائیڈن نے بھی نائب صدرکملاہیرس اوروزیرخارجہ انتھونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ اس معاہدے کے بعدغزہ میں لڑائی رک سکے گی،فلسطینی شہریوں کوانسانی امدادکی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اوریرغمالیوں کوان کے خاندانوں کے ساتھ15ماہ کی قیدکے بعدملنے کاموقع ملے گا۔جوبائیڈن کے مطابق اس معاہدے تک پہنچناآسان نہیں تھااوریہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔ان کے مطابق”ایران گذشتہ دہائیوں کے مقابلے میں خاصا کمزورہے اورحزب اللہ بھی”بری طرح کمزورہوچکاہے” جبکہ حماس نے بھی اپنے متعددسینیئررہنماؤں اور جنگجوؤں کی ہلاکت کے بعداس معاہدے پراتفاق کیاہے”۔تاہم اب بھی بہت سے اہم نکات موجودہیں جواسے مستقل جنگ بندی کا معاہدہ بننے سے روک سکتے ہیں۔اس معاہدے کی تفصیلات کاتاحال باضابطہ طورپراعلان تونہیں کیاگیالیکن مذاکرات سے جڑے اہلکاروں نے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیاہے۔
معاہدے کامسودہ تین مراحل پرمشتمل ہے جس کے بارے قطری وزیرِاعظم کوامیدہے کہ یہ”مستقل جنگ بندی کاپیش خیمہ ثابت ہو گا۔ایک فلسطینی عہدیدار کے مطابق مجوزہ امن منصوبے کاپہلامرحلہ42دن یا60دن تک جاری رہنے والی جنگ بندی ہے۔حماس معاہدے کے پہلے مرحلے میں33یرغمالیوں کورہاکرکے اسرائیل واپس بھیجاجائے گاجس میں بچے، خواتین بشمول خواتین فوجی، 50سال سے زائدعمرکے مرد،زخمی اوربیمارافراد شامل ہوں گے۔اس کے بعدآئندہ ہفتوں میں مزیدیرغمالیوں کی رہائی کاعمل روک دیاجائے گا۔جنگ بندی کے پہلے روزحماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے3افرادکوفوری طورپررہاکیاجائے گا۔
اسرائیل کامانناہے کہ ان یرغمالیوں میں سے زیادہ ترزندہ ہیں لیکن حماس کی جانب سے ان کے بارے میں کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ان میں سے94غزہ میں موجودہیں جن میں سے34ہلاک ہوچکے ہیں۔4اسرائیلی ایسے بھی ہیں جنہیں جنگ سے پہلے اغواکیاگیاتھا،جن میں سے دوہلاک ہو چکے ہیں۔جنگ بندی سے متعلق تجویزکردہ مسودے میں کہاگیاہے کہ جنگ بندی کے 16ویں دن اسرائیل اورحماس امن منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پرمذاکرات شروع کریں گے۔اس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی واپسی شامل ہوگی۔اسرائیل شمالی غزہ میں بے گھرہونے والے رہائشیوں کو علاقے کے جنوب سے واپس آنے کی اجازت دے گابشرطیکہ ہتھیاروں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔پیدل سفر کرنے والے افرادکو ساحلی روڈکے ذریعے غزہ میں اپنے گھروں تک جاناہوگا۔جولوگ گاڑیوں کے ذریعے سفرکریں گے انہیں صلاح الدین روڈکے ذریعے وسطی غزہ میں داخلے کی اجازت ہوگی۔
یادرہے کہ غزہ کی23لاکھ آبادی میں سے تقریباً تمام کواسرائیلی انخلاکے احکامات،اسرائیلی حملوں اورجنگ کی وجہ سے اپناگھر بارچھوڑنے پڑے ہیں۔ جنگ بندی کے آغازکے چندروزبعد اسرائیلی فوجی غزہ کی پٹی سے مرحلہ وارانخلاکے حصے کے طورپر وسطی غزہ میں نیٹزاریم کوریڈورسے نکلناشروع کر دیں گے۔تاہم اسرائیل مصرکے ساتھ غزہ کی جنوبی سرحدکے ساتھ فلاڈیلفیا کوریڈورمیں کچھ فوجی رکھے گا۔مصراورغزہ کے درمیان رفح کراسنگ کوآہستہ آہستہ بیماراورزخمی افرادکے علاج کیلئےعلاقہ چھوڑنے کیلئےکھول دیاجائے گااورمزیدانسانی امدادکی اجازت دی جائے گی۔
جنگ بندی کے دوسرے فیزمیں زندہ مردفوجیوں اورشہریوں کواسرائیل کے حوالے کیاجائے گا،جبکہ مارے جانے والے یرغمالیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔اسرائیل کاکہناہے کہ غزہ میں اس وقت94یرغمالی موجودہیں جن میں سے34افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔اس کے علاوہ غزہ میں چارمزیداسرائیلی شہری بھی موجودہیں جنہیں جنگ کے شروع ہونے سے قبل اغواکیاگیاتھا۔اطلاعات کے مطابق حماس کے جن فدائیوں نے7اکتوبر2023کواسرائیل پرحملہ کیاتھاانہیں رہانہیں کیاجائے گا۔اسرائیل نے کہاہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعدہی اپنے فوجیوں کومکمل طورپرواپس بلالے گا۔اس کے بعدیہ مبینہ طور پرغزہ کے مشرقی اورشمالی اطراف میں800میٹرچوڑے بفرزون برقراررکھے گاجو اسرائیل کی سرحدسے متصل غزہ پرسیکورٹی کنٹرول برقراررکھے گا۔جنگ بندی کے معاہدے کاتیسرافیزغزہ کی تعمیرنوسے متعلق ہے۔خیال رہے کہ حماس اور اسرائیل کی جنگ کے دوران غزہ کابڑاحصہ ملبے کاڈھیربن چکاہے لہٰذااس مرحلے یعنی تعمیرِنوکے کام میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے اورتیسرے مرحلے پرکوئی معاہدہ نہیں ہواہے۔ان کے بارے میں مذاکرات ابتدائی جنگ بندی کے16ویں دن شروع ہوں گے لیکن اب بھی کُچھ سوالات موجودہیں۔یہاں سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ:غزہ کے انتظامی امورکس کے ہاتھ میں ہوں گے؟اسرائیل غزہ کاانتظام حماس کودینے کے حق میں نہیں ہے اوراس نے اس کے اتنظامی امورفلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکارکردیاہے جوکہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجودمتعددعلاقوں کاانتظام سنبھالتی ہے۔
اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعدبھی غزہ کی سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتاہے تاہم اسرائیل امریکااورمتحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کرغزہ میں ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دینے کے منصوبے پرکام کررہاہے جوفلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات ہونے تک غزہ کاانتظام چلائے گی۔اس وقت حماس شایداس پریشانی کابھی شکارہوکہ کہیں جنگ بندی کاپہلافیزمکمل ہونے کے بعد اسرائیل کسی مستقل معاہدے سے انکارہی نہ کردے۔اگر اسرائیلی وزیراعظم حماس کے ساتھ کسی امن عمل کیلئے راضی بھی ہوجاتے ہیں تب بھی ہوسکتاہے کہ شایدوہ اپنی کابینہ کواس بات پرراضی نہ کرسکیں۔
اسرائیلی وزیرِخزانہ بتسلئيل سموتريش اورقومی سلامتی کے وزیرإيتماربن غفيرایسے کسی بھی معاہدے کے مخالف ہیں۔سموتریش نے سوشل میڈیاپرلکھا کہ ایساکوئی بھی معاہدہ اسرائیل کی قومی سلامتی کیلئے”قیامت خیز”ثابت ہوگااوروہ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔حماس کومبینہ طورپرخدشہ ہے کہ اسرائیلی حکومت ان یرغمالیوں کی واپسی کے بعد ایک مرتبہ پھرسے غزہ پرحملے شروع کرسکتاہے جنہیں امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے دوران واپس لایاجاناہے۔دیگرتفصیلات بھی ہیں جواس معاہدے کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔
اسرائیل تمام یرغمالیوں کی واپسی چاہتاہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے یرغمالی زندہ ہیں یامرچکے ہیں اورممکن ہے کہ حماس کے پاس ان میں سے کچھ کاسراغ تک نہ ہو۔اسرائیل ان قیدیوں کورہاکرنے سے بھی انکارکررہاہے جنہیں حماس رہاکروانا چاہتی ہے۔ان میں مبینہ طورپروہ لوگ بھی شامل ہیں جو7اکتوبرکے حملوں میں ملوث تھے اوریہ معلوم نہیں ہے کہ اسرائیل غزہ کی سرحدوں پرمجوزہ بفرزون سے اپنے فوجیوں کوکب نکالے گایاانہیں مستقل طورپروہاں رکھے گا۔
تاہم اس حیران کن حملے کی برق رفتاری اوراس سے ہونے والے نقصان نے اسرائیل اوراس کے تمام حواریوں کوحیران کردیاہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا،ایک ایساسوال ہے جوکئی برسوں تک پوچھاجاتارہے گالیکن یہ معمہ بھی ابھی تک حل نہیں ہوسکاکہ اسرائیل کی موسادجیسی خفیہ ایجنسی جویہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہمیں چڑیاکی چونچ میں پتھرکی منزل کی بھی خبرہوتی ہے،وہ حماس کی اس منصوبہ بندی سے کیسے غافل رہی؟کیاایساتونہیں کہ گریٹراسرائیل کے قیام کیلئے اس کی اجازت دی گئی اورحماس کے ساتھ ان کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کو بھی ختم کرنے کامنصوبہ تیارکیاگیا۔
یادرہے کہ1982ءمیں قیام میں آنے والی حزب اللہ نے2000ءمیں اسرائیلی جارحیت کوبری طرح پسپائی پرمجبورکردیاتواسرائیل کے تمام اتحادی بھی ششدررہ گئے اوراسی دن سے باقاعدہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت یہ فیصلہ کرلیاگیاکہ خطے میں اسرائیلی برتری کیلئے جہاں”عرب بہار”کے نام پرلیبیااوردیگرملکوں کوتاراج کیاجائے گاوہاں خطے کی عرب بادشاہتوں کوبھی واضح پیغام دیاجائے گااوریہ مانناپڑے گاکہ خطے کے حکمرانوں کی کمزوریوں کواستعمال کرتے ہوئے”حماس”کوتنہاکرنے کیلئے بتدریج کام شروع کیاگیااورحماس نے15ماہ تک جس شجاعت ، سرفروشی سے قربانیوں کی مثال قائم کی ہے،تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔بابااقبال”ساقی نامہ”میں کیاخوب فرماگئے:
رُکے جب توسِل چِیردیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چِیردیتی ہے یہ
اُٹھاساقیاپردہ اس رازسے
لڑادے ممولے کوشہبازسے