امریکاکی ناجائزاولاداسرائیل

:Share

اسرائیل کی قومی (اندرونی) سلامتی کے حوالے سے امریکا کے کردار اور اہمیت کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل کو جب بھی خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے تب امریکا ہی اس کیلئےسب سے پہلا ملک ہوتا ہے جس کی طرف وہ اپنی سلامتی یقینی بنانے کیلئےدیکھتا ہے۔ ہر مشکل گھڑی میں اسرائیل نے امریکا ہی کو آواز دی ہے اور امریکا ہی نے اس کی بھرپور مدد بھی کی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی یقینی بنانے سے متعلق ہر طرح کے مباحثے اور کسی بھی فورم کے مذاکرات کے حوالے سے امریکا ہی مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کا خصوصی تعلق کم و بیش چار عشروں پر مشتمل ہے۔ اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے کے عوض امریکا نے اسرائیل سے جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ بھی کچھ کم نہیں اور خاص طور پر اسرائیل کی خودمختاری میں رونما ہونے والی کمی کے حوالے سے اس قیمت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مشہورامریکی تجزیہ نگار”چک فریلچ”( Chuck Freilich)نے ۱۴جولائی ۲۰۱۷ءکے نیوزویک میں تحریرکیا ہے:حقیقت یہ ہے کہ امریکا پر اسرائیل کا انحصار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب ذہنوں میں اس سوال کا ابھرنا لازم ہے کہ امریکا کی مدد کے بغیر اسرائیل برقرار بھی رہ سکے گا یا نہیں۔ امریکیوں اور اسرائیلیوں دونوں کیلئےیہ تمام بیانات عجیب اور ناقابل قبول ہیں۔ بہت سے امریکی اس بات پر برہم دکھائی دیتے ہیں کہ امریکا اب تک اسرائیل کی بھرپور حمایت اور مدد کر رہا ہے مگر اس کے باوجود اسرائیلی حکومت امریکی پالیسیوں اور ترجیحات کو نظر انداز کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کیلئےامریکی مفادات کو داؤ پر لگانے کی سوچ سے بھی باز نہیں رہتی۔ یہ سب بالکل درست ہے، بالخصوص ایک ایسے وقت کہ جب اسرائیل میں سخت گیر اور انتہا پسند نظریات رکھنے والوں کی حکومت ہے۔ اسرائیل میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کسی بھی ملک پر (خواہ وہ امریکا جیسا ہر موسم کا دوست ہی کیوں نہ ہو) تمام معاملات میں انحصار رکھنا پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ اسرائیل اپنے تمام اہم فیصلے خود کرے اور ان پر عمل کے حوالے سے بھی کسی کی مرضی یا پالیسی کا محتاج و پابند نہ ہو۔ امریکا نے اسرائیل کو ۱۹۴۹ء میں اس کے قیام کے بعد سے اب تک یعنی ۲۰۱۶ء تک مجموعی طور پر عسکری اور اقتصادی امداد کی مد میں ۱۲۵؍ارب ڈالردیے ہیں۔امریکا نےاسرائیل کودس سالہ معاہدے کے تحت ۲۰۲۸ء تک مزید امداد دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس معاہدے کے اختتام پر اسرائیل کیلئےامریکا کی مجموعی امداد کم و بیش ۱۷۰؍ ارب ڈالرتک جاپہنچے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدکے زمانے میں امریکاسے سب سے زیادہ امدادوصول کرنے والااسرائیل ہی ہے۔
چند برسوں کے دوران امریکی امداد اسرائیل کے بجٹ کا تین فیصد اور قومی آمدن کا ایک فیصد رہی ہے۔ ایسے میں اگر امریکی امداد روک دی جائے تو اسرائیل میں تعلیم اور صحت سمیت کئی شعبے متاثر ہوں گے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ ویسے امریکی امداد کی بندش سے اسرائیلی معیشت کیلئےغیر معمولی خطرات پیدا نہیں ہوں گے۔ امریکی امداد کی بندش سے اسرائیل کے دفاعی بجٹ کیلئےغیر معمولی منفی اثرات پیدا ہوں گے۔ چند برسوں کے دوران اسرائیل کے کم و بیش ۲۰ فیصد دفاعی بجٹ کا تعلق امریکی امداد سے ہے۔ پنشن کے علاوہ زخمی فوجیوں اور بیواؤں کو امداد دینے سے متعلق رقوم امریکی امداد کی مدد سے فراہم کی جاتی ہیں۔ اسرائیل کی مسلح افواج کیلئےدفاعی بجٹ کا کم و بیش ۴۰ فیصد امریکی امداد سے آتا ہے اور ہتھیاروں کے حصول میں بھی امریکا کی طرف سے ملنے والی امداد غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے۔ امریکی امداد کی بندش سے اسرائیل کے دفاع کے حوالے سے شدید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور اگر ان مشکلات پر قابو پانا ہو تو معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کو یقینی بنانا پڑے گا۔ اسرائیل کے دشمن گردانے جانے والے ممالک مختلف ذرائع سے بڑے پیمانے پر ہتھیار اور گولا بارود حاصل کرسکتے ہیں مگر اسرائیل کیلئےاسلحے کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ صرف امریکا ہے۔ اسلحہ تیار کرنے اور بیچنے والے دیگر ممالک (فرانس، برطانیہ، روس اور چین) میں سے کوئی بھی امریکا کی جگہ نہیں لے سکتا۔
کوئی بھی ملک فنڈنگ اور اسلحے کی فراہمی کے حوالے سے اسرائیل کیلئےوہ مقام حاصل نہیں کرسکتا جو امریکا کو حاصل ہے ۔ امریکا ریاستی عہد کے تحت اس بات کا پابند ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کو ہرحال میں یقینی بنائے اور اسرائیل کیلئےایسے ہتھیاروں کا بندوبست کرے جو اسے تمام دشمنوں، ان کے اتحاد یا غیر ریاستی عناصر کی سرگرمیوں کو ناکارہ بنانے کیلئے انتہائی کافی ہو اور اسلحے کے معیار کے حوالے سے اسرائیل کی برتری برقرار رہے تاکہ اس کا اپنا جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو۔ اسرائیل کی سلامتی کی ذمہ داری مکمل طور پر امریکا نے اپنے سر لے رکھی ہے۔ اسرائیل کو امریکی حمایت سے پڑوسی ممالک میںمکمل جارحیت کاحق بھی حاصل ہے۔ اگر مستقبل میں کبھی خطے کے ممالک کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ سر اٹھاتا ہے تب اسرائیل کے وجود کیلئے کوئی حقیقی خطرہ نمودار ہوگا۔
ایران کا جوہری پروگرام اسرائیل کے وجود کیلئےسب سے بڑے خطرے کے طور پر ابھرا، جس کا امریکا نے عمدگی سے سدِ ّ باب کیا۔ کوئی بھی اور ملک اسرائیل کا مکمل تحفظ یقینی بنانے کیلئےایران کے خلاف اس طور نہیں جاسکتا تھا جس طور امریکا گیا۔ کوئی بھی اور ملک اسرائیل کو جدید ترین اور اپنی نوعیت کے سب سے منفرد میزائل اور راکٹ بنانے میں اتنی مدد نہیں دے سکتا تھا، جتنی امریکا نے دی۔ اور ساتھ ہی ساتھ امریکا نے اسرائیل کو سائبر آپریشنز میں بہترین اشتراکِ عمل کی مشق بھی کرائی۔
امریکا نے اسرائیل کو گلوبل سیٹلائٹ میزائل لانچ سرویلنس سسٹم کا لنک بھی دے رکھا ہے، جس کی مدد سے اسرائیل کو کسی بھی بڑے میزائل حملے کا کئی منٹ پہلے علم ہوسکتا ہے اور یوں وہ شہریوں کو الرٹ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کو لڑنے کی بہترین پوزیشن میں لاسکتا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مشترکہ جنگی مشقوں کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ کئی بار ایسی مشقیں بھی کرنے کو ملی ہیں، جن میں امریکا سمیت کئی ممالک کی مسلح افواج شریک تھیں۔ یوں اسرائیل کو دفاع کے جدید ترین طریقے سیکھنے کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کی افواج سے تعلقات بہتر بنانے اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع تر کرنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے۔ امریکا نے اسرائیل میں بہت بڑے پیمانے پر ہتھیار اور گولا بارود بھی ذخیرہ کر رکھا ہے۔ اس ذخیرے کے محض ایک حصے تک اسرائیل کو رسائی حاصل ہے۔ دونوں ممالک انسدادِ دہشت گردی اور تخفیفِ اسلحہ سے متعلق سرگرمیوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان میں حزب اللہ کے خلاف کارروائیوں پر مبنی جنگ میں بھی اسرائیل کو پہلی بار کسی عرب اسرائیل تنازع میں فوری کارروائی کا موقع ملا۔
اسٹریٹجک معاملات پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان غیر معمولی بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق دونوں ممالک کے درمیان کم و بیش بیس سال تک بات چیت اور مشاورت ہوتی رہی۔ دونوں ممالک مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ لیبیا، عراق، شام اور دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کاالزام لگاکران کوتاراج کرنے کا پروگرام ان کی بات چیت میں شامل تھا۔ حماس، حزب اللہ اور دیگر تنظیموں کو کمزور کرنے سے متعلق اقدامات کے بارے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس حوالے سے ہونے والی مشاورت سے امریکا کو بھی غیر معمولی حد تک فائدہ پہنچتا ہے۔
سفارتی سطح پر بھی جوکردار اسرائیل کیلئےامریکا ادا کرتا آیا ہے، وہ کوئی اور ملک ادا نہیں کرسکتا۔ ہر بین الاقوامی فورم پر اسرائیل کو امریکا کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ امریکا نے بہت سے بین الاقوامی اداروں میں اسرائیل کوامن عمل،سفارتی اقدامات اور جوہری پروگرام کے حوالے سے قراردادوں اور اقدامات سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ امریکا نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کو (ویٹو پاور کے ذریعے) مختلف قرار دادوں اور پابندیوں سے جس قدر بچایا ہے اتنا کسی بھی بڑی طاقت نے کسی اور ملک کو نہیں بچایا ہوگا۔ امریکا نے کبھی کبھی اسرائیل کو ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں سے بچایا ہے، جن سے خود اسے بھی اتفاق نہیں تھا۔ ۱۹۵۴ء سے ۲۰۱۱ء تک امریکا نے اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی ۴۰ قراردادوں کو ویٹو کیا۔ امریکا نے دسمبر ۲۰۱۶ء میں غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف پیش کی جانے والی اسرائیل مخالف قرارداد کی مذمت سے باز رہ کر یہ بتادیا کہ اسرائیل بین الاقوامی امور میں کس حد تک امریکا پر انحصار پذیر ہے۔ اسرائیل اس امریکی اقدام پر انتہائی بے مزا ہوا۔ عالمی برادری میں اسرائیل زیادہ سے زیادہ تنہا ہوتا جارہا ہے اور اب سفارتی امور میں امریکا پر اس کا انحصار انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔
پڑوسیوں سے امن کے معاملے میں اسرائیل کو اس کی مرضی کی صورتحال پیدا کرکے دینے کے حوالے سے جو کردار امریکا نے اسرائیل کیلئےادا کیا ہے وہ کسی بھی اور طاقت نے کسی بھی ملک کیلئےادا نہیں کیا ہوگا۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ اس کے پڑوسی اس کی مرضی کے مطابق امن معاہدے قبول کریں۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے تو یہودیوں کی ریاست کے طور پر قبول کرلیا جائے مگر وہ فلسطینیوں کو ریاست کے قیام کا حق نہیں دینا چاہتا۔ اور اس معاملے میں امریکا اب تک اس کا کھل کر ساتھ دیتا آیا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کی خواہش کے مطابق اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین پر واپسی کے حق سے بھی محروم رہیں۔
امریکا اصولی طور پر تو اس بات کا حامی ہے کہ اسرائیل کو ان تمام عرب علاقوں سے نکل جانا چاہیے جن پر اس نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا، مگر ساتھ ہی ساتھ اس نے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۲۴۲ کے حوالے سے اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ عرب زمینوں پر اسرائیل نے یہودیوں کی جو بستیاں بسائی ہیں، وہ اسرائیل کا حصہ ہوجائیں۔ امریکا نے ترکی اور آذر بائیجان سے بہتر تعلقات استوار کرنے میں اسرائیل کی بھرپور مدد اور حمایت کی ہے،ساتھ ہی ساتھ اس نے اسرائیل کو عالمی اور علاقائی تنظیموں میں قبولیت دلانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یورپ میں تعاون کی تنظیم اور دیگر ورکنگ گروپس میں اسرائیل کیلئےقبولیت پیدا کرنے میں امریکا کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔
علاقائی سطح پر اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے میں بھی امریکا پیش پیش رہا ہے۔ اس نے اردن اور مصر سے سفارتی اور دیگر روابط کے قیام میں اسرائیل کیلئےکلیدی کردار ادا کیا ہے۔ خلیجی ممالک اور شمالی افریقا کے خطے میں بھی اسرائیل کیلئےراہ ہموار کرنے میں امریکی قیادت پیچھے نہیں رہی ۔ ان تمام اقدامات کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنایا جائے اور اس کے حوالے سے پائی جانے والی مخاصمت کا گراف نیچے لایا جائے۔ اسی حوالے سے امریکا نے مصر اور اردن میں کوالیفائنگ انڈسٹریل زون کے قیام کی راہ ہموار کی، جس کے نتیجے میں اسرائیل کیلئےان دونوں ممالک سے بہتر معاشی روابط قائم رکھنا ممکن ہوسکا۔ اسرائیل کی معیشت غیر معمولی استحکام کی حامل ہے اور اس کا بنیادی محرک اس کا امریکا سے آزاد یعنی ٹیکس سے پاک تجارت کا معاہدہ ہے۔ کسی بھی ملک کے ساتھ یہ امریکا کا اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ ہے۔ امریکا آج بھی اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اسرائیل میں ہائی ٹیک کا شعبہ امریکا کی بھرپور معاونت کے بغیر فروغ نہیں پاسکتا تھا۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ امریکا کی بھرپور حمایت اور معاونت کے بغیر اسرائیل کتنی دور جاسکتا ہے، کتنی دیر زندہ یا توانا رہ سکتا ہے؟ یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک امریکا اور اسرائیل کے تعلقات معمول کے تھے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکا نے اُسے سرپرست کی حیثیت سے قبول کیا اور ۱۹۸۰ء کے عشرے کے بعد سے دونوں ممالک میں تعلقات کی نوعیت بدل گئی۔ امریکا نے اسٹریٹجک معاملات میں اسرائیل کے شراکت دار کی حیثیت اختیار کر لی، اور تب سے اب تک تعلقات کا تنوع بڑھتا ہی گیا ہے۔
اسرائیل اس قدر چھوٹا ملک ہے کہ اپنے طور پر اس کیلئےکچھ زیادہ کرنا ممکن نہیں بالخصوص سلامتی کے معاملات میں، اگر امریکا بھرپورمعاونت نہ کرتا تو اسرائیل کیلئےخطے میں یوں بقا سے ہمکنار رہنا ممکن نہ ہوتا۔ اسرائیل چاہے تو مدد کیلئےدیگر ممالک کی طرف بھی دیکھ سکتا ہے مگر اس کی بھرپور معاونت کے حوالے سے جو کردار امریکا ادا کرسکتا ہے وہ کوئی اور ملک ادا نہیں کرسکتا۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیلی قیادت روس یا کسی اور ملک کی طرف دیکھنے سے اب تک گریز ہی کرتی آئی ہے۔
عرب دنیا کی طرف سے جارحیت کا خطرہ ہو یا ایران کا جوہری پروگرام، خطے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام ہو یا چند ممالک کی طرف سے بین الاقوامی پابندیاں عائد کرنے کی کوئی اور کوشش … تقریباً تمام ہی معاملات میں امریکا کی طرف دیکھنا اسرائیل کی مجبوری ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا بہت غیر تحریری نوعیت کے اتفاق رائے پر پہنچ گئے تھےجس کے تحت امریکا اب تک ہر معاملے میں اسرائیل کی بھرپور مدد کرتا آیا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو سیاسی، سفارتی، عسکری اور اسٹریٹجک حمایت و مدد کے حوالے سے مایوس نہیں کیا۔
اس کے جواب میں اسرائیل نے بھی ہر معاملے میں امریکا سے مشاورت کو لازم جانا ہے۔ وہ کوئی بھی عسکری یا سفارتی قدم اٹھانے سے پہلے امریکا سے پوچھنا اور اس کے مفادات کے حوالے سے احتیاط برتنا لازم گردانتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں گرم جوشی برقرار رہی ہے اور امریکا محسوس کرتا رہا ہے کہ اسرائیل عام طور پر اس کی مرضی سے ہٹ کر چلنا گوارا نہیں کرتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل بہت سے معاملات میں تنہا بھی جاتا ہے اور ایسے اقدامات بھی کر گزرتا ہے، جن میں اس نے امریکا سے مشاورت نہیں کی ہوتی تاہم ہر معاملے میں وہ امریکی پالیسی اور امریکی مفادات کو مقدم رکھنے کے حوالے سے غلطی نہیں کرتا۔ اسرائیل نے کسی بھی بڑے فیصلے میں اب تک امریکا کو نظر انداز نہیں کیا۔ ۱۹۶۷ء میں عرب دنیا سے جنگ شروع کرنے سے قبل اسرائیل نے امریکی قیادت سے مشاورت کی تھی۔ تب دونوں ممالک کے تعلقات بہت زیادہ گرم جوشی پر مبنی نہیں تھے، تاہم اسرائیل نے امریکا کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر جانسن نے اسرائیل پر واضح کردیا تھا کہ وہ آبنائے طیران کو کھلوانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مصر نے اس آبنائے کو اسرائیلی تجارتی جہازوں کیلئےبند کردیا تھا۔
۱۹۷۳ء میں ایک مرحلے پر اسرائیل نے مصر اور شام پر حفظ ما تقدم کے اصول کے تحت حملے کی ٹھان لی تھی مگر پھر آخری لمحات میں یہ فیصلہ بدلنا پڑا کہ امریکا نے گرین سگنل نہیں دیا تھا۔ اسرائیل نے ۱۹۸۲ء میں لبنان پر حملے سے قبل بھی امریکا سے مشاورت کی اور کم و بیش ایک سال تک امریکا کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ معاملہ چھوٹے پیمانے کے آپریشن تک محدود رہے گا، مکمل جنگ کی شکل اختیار نہیں کرے گا۔۱۹۹۱ء میں عراق کی طرف سے میزائل حملوں کے باوجود اسرائیلی فوج کوئی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں تھی کہ امریکا نے اسے ایسا کرنے سے روکا تھا۔ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے اسرائیل کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف عسکری کارروائی کے دوران سویلین انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچانے سے باز رہے گا۔۲۰۰۸ء میں اسرائیلی حکومت کو غزہ آپریشن سے بہت پہلے روکاتھا۔ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے اسرائیل کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف عسکری کارروائی کے دوران سویلین انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچانے سے باز رہے گا۔۲۰۰۸ء میں اسرائیلی حکومت کو غزہ آپریشن سے بہت پہلے اس لیے ختم کرنا پڑا کہ اس وقت کی اوباماانتظامیہ نےاس معاملے میں اسرائیل کی بھرپور حمایت سے انکار کردیا تھا۔ اگر امریکی حمایت کے بغیر یہ آپریشن جاری رکھا جاتا تو بہت سی ایسی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں جن پر قابو پانا اسرائیل کیلئےانتہائی دشوار ہوتا۔
ایران کا جوہری پروگرام اسرائیل کیلئےناقابل قبول تھا کیونکہ وہ اس پروگرام کو اپنے وجود کیلئےخطرہ سمجھتا تھا مگر کوئی عسکری کارروائی کرنے سے محض اس لیے باز رہا کہ امریکا اس کیلئےتیار نہ تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی بڑے عسکری یا سفارتی اقدام سے قبل امریکا کی رضامندی کا حصول اسرائیل کیلئےکس حد تک ضروری بلکہ لازم ہے۔ ایران کے معاملے میں امریکا یا کوئی اور ملک حملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایران سے امریکا اور دیگر قوتوں نے جو وسیع البنیاد جوہری معاہدہ کیا وہ اسرائیل کیلئےسب سے کم بُرا نتیجہ تھااور اسرائیل کے پاس اس معاہدے کو قبول کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس سے پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے بیشتر معاملات میں امریکا پر کس حد تک انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ۲۰۰۸ء میں شام کے ایک خفیہ جوہری ری ایکٹر پر حملے سے قبل اسرائیل نے امریکی قیادت سے غیر معمولی حد تک مشاورت کی تھی اور اس کے مشوروں کی روشنی ہی میں لائحہ عمل ترتیب دیا تھا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ۱۹۸۱ء میں عراق میں اوسیرک کے مقام پر عراقی جوہری ری ایکٹر پر اسرائیل کا حملہ اس امر کا غماز تھا کہ کبھی کبھی اسرائیل تنہا بھی جاسکتا ہے۔ مگر خیر یہ بات کسی بھی مرحلے پر نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ معاملہ خاصے عرصے تک ایجنڈے کا حصہ رہا اور اس بات پر دونوں ممالک کے درمیان مشاورت کی جاتی رہی۔ فلسطینیوں سے مذاکرات کے معاملے میں امریکا بہت حد تک اسرائیل پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ عسکری امور والا معاملہ تو یہ خیر نہیں ہے مگر پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے امن عمل کے حوالے سے اسرائیل کو اپنی شرائط کا پابند کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔ اوسلو معاہدے کے استثنائی معاملے کے سوا فلسطینیوں اور شامیوں سے مذاکرات کے حوالے سے تمام ہی اہم امور میں یزاک رابن اور شمعون پیریز امریکا سے مشاورت کرتے رہے تھے۔
اسرائیل کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ایہود بارک کو سب سے زیادہ بے تابی اس بات کی تھی کہ فلسطینیوں اور شامیوں سے امن معاہدہ ہو جائے تاکہ خطے میں حقیقی امن، استحکام اور خوش حالی کی راہ ہموار ہو۔ انہوں نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد اگلے ہی دن اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے ملاقات کی اور امن عمل کے حوالے سے اپنی رائے ان کے سامنے رکھی۔ ایہود بارک چاہتے تھے کہ ایک سال کے اندر اندر فلسطینیوں اور شام سے امن کا معاہدہ ہو جائے۔ اس کیلئےانہوں نے اعلیٰ ترین سطح پر امریکیوں سے کئی بار بات چیت کی اور مشاورت کی صورت میں ان کی مرضی معلوم کی۔ ایہود بارک نے جو کچھ کیا، وہ اس امر کا غماز تھا کہ وہ امریکا سے کس حد تک مل کر چلنا چاہتے تھے تاکہ خطے میں قائم ہونے والا امن پائیدار نوعیت کا ہو اور آگے چل کر کوئی بڑی خرابی پیدا نہ ہو۔ ۲۰۰۵ء میں ایریل شیرون نے امریکا سے بات کی تاکہ غزہ سے اسرائیل کا یک طرفہ انخلاء ممکن ہو اور ساتھ ہی ساتھ وہ غرب اردن میں کم از کم چار یہودی بستیوں کو خالی کرنے پر بھی متفق ہوگئے لیکن امریکامیں بیٹھی بعض صہیونی قوتوں کااسلام دشمنی کاشکنجہ اس قدرمضبوط ہے کہ انہوں نے خطے میں تمام امن پسندفضاؤں کوفی الحال مسموم رکھنے کافیصلہ کررکھاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں