8مئی کوکابل میں ایک اسکول کے باہربم دھماکے میں کم ازکم 68افرادجاں بحق اور160سے زائدزخمی ہوگئے۔اگرچہ کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن امریکی انخلاءکے موقع پراس دھماکے نے افغانستان کے مستقبل پرگہرے سائے ڈال دیے۔اگلے ہی دن چینی وزارتِ خارجہ نے حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاکہ امریکاکی جانب سے افغانستان سے مکمل انخلاکے اچانک اعلان کے نتیجے میں اس طرح کے حملوں میں اضافہ ہوگیاہے۔اس تبصرے سے ظاہر ہوگیاکہ امریکی انخلا کے حوالے سے چین کس طرح سوچ رہاہے۔بیجنگ افغانستان میں امریکی موجودگی اور انخلا کے حوالے سے طویل عرصے تک امریکاپر تنقید کرتا رہاہے۔چین میں خارجہ پالیسی سے تعلق رکھنے والے افرادخطے میں امریکی ارادوں کے حوالے سے شک کااظہارکرتے ہوئے اپنی مغربی سرحدپرانتشاراورعدم استحکام کے بارے میں شدیدخدشات کاشکارہیں۔
پچھلے20برس کے دوران چین افغانستان میں امریکی موجودگی کوخطے میں عدم استحکام اورانخلاء کےبعدمتوقع خانہ جنگی کے شدیداثرات سے بچنے کیلئے کافی متحرک ہے۔بیجنگ کے خیال میں طویل جنگ انسدادِ دہشتگردی کے اپنے اصل مقصدسے ہٹ کراپنے خفیہ ایجنڈے پرعمل پیراہوچکی ہے اوراب اس جنگ نے چین اور یوریشیاکوقابوکرنے کے منصوبے کی شکل اختیارکرلی ہے،جس کی وجہ سے جہاں امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی انتہائی منفی اثرات رکھتی ہے بلکہ علاقائی عدم استحکام کاباعث ہے۔امریکااس خطے میں اپنی شکست کوکبھی بھی ٹھنڈے پیٹ برداشت نہیں کرے گاکیونکہ اسے معلوم ہے کہ دنیامیں چینی تجارتی منڈیوں میں اضافے کامطلب اب امریکاکی اجارہ داری کوکھلاچیلنج ہے اوراس نے افغانستان میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعدجوواحدسپرپاورکاتاج اپنے سرپر سجارکھاہے، اب وہ سرمحفوظ نہیں اورافغانستان میں پسپائی نےپوری دنیامیں امریکی طاقت،دولت اوراخلاقی ساکھ کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے اور خطے میں چین کی کثیر الجہتی سوچ کودوام مل رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی وزارتِ خارجہ نے8مئی کے دھماکے کے بعدافغانستان کی خراب صورتحال کاامریکا کےغیر ذمہ دارانہ انخلاکو افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کی سازش قراردیاہے۔
درحقیقت چین نے افغانستان اورعراق میں امریکی جنگوں کوخدائی مدد کے طورپردیکھا،جس نے چین کوسنہری اسٹریٹجک مواقعوں سے نوازا،اوروہ2001ءکے بعد امریکاکی توجہ حاصل کیے بغیرتیزی سے مضبوط ہوتاچلاگیا۔چین نے امریکاکی افغانستان میں جارحیت کوہمیشہ منفی اورمثبت اثرات کے اعتبارسے دیکھاہے۔ چین کوامیدہے کہ افغانستان،واشنگٹن اوربیجنگ کے درمیان تعاون کانیامیدان بن سکتاہے تاہم امریکااورچین نے گزشتہ برسوں میں افغانستان پرمشاورت کاایک سرکاری چینل کھلا رکھاہے۔بیجنگ کاخیال ہے کہ وہ امریکااورچین کیلئے افغانستان سمیت مشترکہ تشویش کے امورکواستعمال کرکے اپنے لیے امریکی مخالفت کوکم کرسکتاہے ،یعنی افغانستان جیسے مسئلے میں تعاون کرکے امریکاسے دیگرامورمیں مراعات حاصل کرسکتاہے۔چینی تجزیہ کاروں کے مطابق پچھلے کئی اجلاسوں میں اس حوالے سے بات چیت بھی ہوئی۔حقیقت میں چین نے بائیڈن انتظامیہ کے اقتدارسنبھالنے سے قبل ہی شمالی کوریا،افغانستان،ایران اورموسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے امریکاسے بات چیت کی تیاری کرلی تھی۔چینی حکام بہت واضح تھے کہ سنکیانگ،ہانگ کانگ،تائیوان اورتبت پر چینی موقف پرحمایت کے بدلے امریکاسے تعاون کیاجاسکتا ہے۔تاہم مارچ میں الاسکامیں امریکی قومی سلامتی کے مشیرجیک سلیوان اور سیکرٹری خارجہ اینٹونی بلنکن،چینی پولٹ بیوروکے ممبر یانگ جیچی اوروزیرخارجہ وانگ یی کے مابین کشیدہ ماحول میں مذاکرات کے بعددونوں ممالک میں تعاون کاامکان کم ہوگیاہے۔اس کے باوجودبیجنگ کواب بھی امیدہے کہ واشنگٹن مددکیلئے چین کارخ کرے گااوراگر ایساہوتاہے توشایدچین اس کابہت مثبت جواب دے گالیکن امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعدوائٹ ہاؤ س کےروّیے نے چینی بیانیے کوبھی سوچنے پرمجبورکردیاہے کیونکہ امریکی انخلاء کے بعدبھی اس خطے سے کنارہ کشی کرتاہوانظرنہیں آرہا۔
چینی نقطہ نظرکے مطابق امریکا اپنے انخلاءکے بعدبھی ممکنہ طورپرکابل میں اپنی سکیورٹی موجودگی برقراررکھے گا،امریکاکانجی سکیورٹی فورسز،دفاعی ٹھیکیداروں اور مقامی شراکت داروں پراثرورسوخ برقراررہے گا۔اس وقت بھی افغانستان میں2500امریکی فوجی موجود ہیں اوراس میں خصوصی دستے بھی شامل ہوجائیں تویہ تعدادچارہزاربنتی ہے۔فوج کی اس مختصرتعدادکے ذریعے جنگ میں کوئی فیصلہ کن کردارتونہیں اداکیاجاسکتا لیکن امریکااس علامتی تعدادکے ذریعے واضح پیغام دے رہاہے کہ وہ اب بھی خطہ میں موجودگی برقراررکھنے کیلئے سیاسی طورپرپُرعزم ہے۔لہٰذافوجیوں کی واپسی صرف علامتی ہے۔چینی تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا متعدد طریقوں کے ذریعے کابل پراپنااثرورسوخ برقراررکھے گا۔امریکی سکیورٹی اہلکاروں کاایک بڑادستہ افغانستان میں اپنے سفارتی اہلکاروں کی حفاظت کے نام پرموجودرہے گا۔اس کے علاوہ وسیع سیاسی رابطے اورشراکت داری کے ذرائع بھی امریکاکے معاون ثابت ہوں گے۔ امریکا نے افغانستان میں سیاسی اشرافیہ کے ساتھ شراکت داری اورسرپرستی کاجامع نیٹ ورک قائم کرلیاہے اوریہ تعلقات ملکی سیاست میں اہم کردارادا کرتے رہیں گے چونکہ امریکا کیلئے جنوبی ایشیامیں اتحادیوں اورشراکت داروں کے ساتھ تعلقات اہم ہیں اورامریکاافغان مخلوط حکومت کی آڑمیں اپنے مقاصدکی تکمیل کیلئے موجودرہنے کی پوری کوشش کرے گا-چین کیلئے جوبائیڈن کی جانب سے فوجی دستوں کی واپسی کامقصدامریکی سیاست میں ایک ذلت آمیزباب کوبندکرنے کی کوشش ہے اورامریکی اثرورسوخ میں کمی کے بغیر افغانستان کے حوالے سے اپنی مادی اوراخلاقی ذمہ داریوں سے دستبرداری ہے۔امریکی انخلاواشنگٹن کوطویل ترین جنگ کے علامتی اور سیاسی بوجھ سے آزادکرانےاور اس کے ذریعے امریکاکوبغیرعوامی جواب دہی کے افغانستان میں کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل کرنے کاپروگرام ہے۔چینی نظرمیں یہ انخلا ء امریکی سیاسی اورمالی ذمہ داریوں کوکم کرتاہے جبکہ امریکاکی افغانستان کے حالات کومتاثر کرنے کی صلاحیت برقراررہے گی۔
یہ یقینی طورپرچین کیلئے اچھی خبرنہیں ہے۔ایک بارجب امریکااپنی مالی اوراخلاقی ذمہ داریوں سے آزادہوجائے گاتو اس کیلئے اپنے وسیع ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کام کرناآسان ہوجائے گا۔چین اورعظیم طاقتوں کے درمیان جاری مقابلے پرتوجہ دینے کی ضرورت نے ہی افغانستان سے امریکی انخلاکے فیصلے میں اہم کرداراداکیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کے حالیہ بیان کے مطابق اب امریکااپنی توانائی اور وسائل چین سمیت دیگراہم معاملات سے نمٹنے پرلگائے گا۔یہ بیان چین کی سوچ کی تصدیق کرتاہے کہ افغان مسئلے سے آزادی امریکاکی چین سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کردے گاجس کے چین کیلئے کئی سطحوں پرمضمرات ہوں گے ۔ بیجنگ کیلئے امریکاکی فوجی ذمہ داریوں میں کمی معاملات کومزیدپیچیدہ کرے گی کیوںکہ امریکا افغانستان میں چین کے امکانی کردارکو روکنے کے ساتھ اپنے مفادات کاتحفظ بھی کرے گا۔چین کیلئے سب سے پریشانی کی بات یہ ہے کہ جنگی مشن کے خاتمے کے بعد امریکاافغانستان کوخطے میں اپنے مقاصد کےحصول کیلئے استعمال کرے گا۔غلط ہی سہی لیکن چین کویقین ہے کہ وہ امریکاہی تھاجس نے افغانستان پرروسی قبضے کے خلاف جنگ کیلئے اسامہ بن لادن اوران کے حامیوں کوتربیت اور اسلحہ فراہم کیا لیکن یہاں اہم بات یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکاافغانستان میں روس کوکبھی شکست نہیں دے سکتاتھااگرپاکستان افغانستان کاہمسایہ ہونے کے ناطے اپنابھرپور کردارادانہ کرتالیکن امریکااس خطے میں ایسااتحادی بھارت کی شکل میں تلاش کررہاہے لیکن بھارتی مکاربنئے کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔اگرچہ چین کبھی بھی افغانستان پرفوجی حملہ نہیں کرے گالیکن پھربھی سنکیانگ اورچین کی سلامتی کیلئے امریکی موجودگی سنگین مضمرات رکھتی ہیں۔
امریکااورچین کی مسابقت کے تناظرمیں کیاافغانستان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان سیاسی اورعسکری اثرات بڑھانے کامیدان جنگ بن سکتاہے؟چینی پالیسی سازوں میں بحث ہے کہ کیاافغانستان سے امریکی انخلاچین کیلئے فائدہ مند ہے یانقصان دہ۔ اس حوالے سے بیشتر چینی تجزیہ کار امریکی انخلاء کے وقت مایوس نظر آتے تھے ۔ان کے خیال میں اشرف غنی کی حکومت طالبان کازیادہ عرصے تک مقابلہ نہیں کرسکے گی اوراس کے نتیجے میں ملک پھرخانہ جنگی کاشکارہوسکتاہے،جس کے چین پراثرات ہوں گے۔جس سے اسلامی انتہا پسندی میں اضافہ ہوگا۔اس لحاظ سے امریکاکے جانے کے بعدافغانستان شدیدعدم استحکام کاشکارہوجائے گااور چین سمیت خطے کے دیگر ممالک کوپیچھے رہ جانے والے گندسے نمٹناہوگالیکن گزشتہ برس کے مقابلے میں چین نے افغانستان سے امریکی انخلاکے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام سے نمٹنے کیلئے کوششیں تیزکردی۔ 2017ءسے چین،پاکستان اورافغانستان کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔پاکستان چین کیلئے بنیادی اورانتہائی اہم چینل ہے جس کے ذریعے اسٹریٹجک مکالمہ، انسداد دہشتگردی اورسلامتی سے متعلق مشاورت اورتعاون کو بڑھایاجارہاہے۔چین نے استنبول کے امن عمل میں حصہ لیاہے اوروہ دوحہ اورماسکومذاکرات میں بھی شامل رہاہے۔اس حوالے سے گزشتہ نومبرمیں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چینی صدرشی جن پنگ نے تنازع کے خاتمے کے بعدتعمیرنوکیلئے افغان رابطہ گروپ کی اہمیت پرزوردیاتھا۔
چین کیلئے بہترصورت یہ ہے کہ افغانستان میں ایک عبوری حکومت بنے،جس کے بعدعام انتخابات کے ذریعے ایک مخلوط حکومت تشکیل دی جائےجس میں یقیناً طالبان کی اکثریت ہوگی۔اس صورت میں ہی افغانستان کے مقامی فریقوں میں تنازع ختم ہوسکتاہے۔بدترین صورت یہ ہے کہ مفاہمتی عمل ناکام ہوجائےاورتمام علاقائی ممالک بھی کوئی حل نکالنے میں ناکام رہیں توچین اقوام متحدہ سے افغانستان کے استحکام کیلئے مداخلت کامطالبہ کرسکتاہے۔چینی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امریکی انخلاکے بعد سنکیانگ کو کوئی خطرہ لاحق ہواتوچین اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق افغانستان میں امن فوج بھیجنے کے بارے میں غورکرسکتا ہے۔یہ ایک اشارہ ہے چین کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں لیکن حالات اورقرائن بڑے واضح اشارے دے رہے ہیں کہ طالبان اپنی حکمت عملی کی وجہ سے ان تمام مشکلات کوحل کرنے میں کامیاب نظرآرہے ہیں.انہوں نے خانہ جنگی کے خدشات کوختم کرنے کیلئے تمام افغان سیاسی ومذہبی گروپوں سے مذاکرات سےقبل عام معافی کااعلان کرکے تمام خدشات پرپانی پھیردیاہے کہ کس طرح انہوں نے حکمت سے حکومت کرنے کی پالیسی کی بنیادرکھی ہے۔اس حوالے سے سرحد پرچین کا سکیورٹی بڑھادیناپوری طرح قابل فہم عمل ہے،باہمی تعاون کے بینر تلے چین سکیورٹی انتظامات کو طالبان کے تعاون سےافغانستان کے ساتھ چینی ملحقہ سرحدی علاقوں میں حفاظتی اقدامات بڑھاسکتاہے۔ حالیہ برسوں میں ان سرگرمیوں کے شواہدموجودہیں کہ چین واکھان راہداری میں افغانستان کوگشت میں مدد فراہم کرتا رہاہے۔
چین اب بھی پرامیدہے کہ معاشی ترقی سے افغانستان مستحکم ہوسکتاہے۔سکیورٹی صورتحال کے حوالے سے یہ تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے۔اس مقصدکیلئے چین افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل کرنے پرآمادہ ہوگیاہے اورحالیہ طالبان وفدکی چینی وزیرخارجہ ملاقات میں بہت سے ابہام دورکرلئےگئے ہیں اور افغان طالبان نے چینی سرمایہ کاری اورانفراسٹرکچرپرکام کرنے والے تمام چینی ماہرین کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری کایقین دلایاہے۔چین نے افغان طالبان کے ساتھ ملاقات کوبڑا خوش آئندقراردیتے ہوئے انہیں سی پیک کے توسیعی منصوبہ میں شامل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔یہ تجویزسب سے پہلے2017ءمیں سامنے آئی تھی اور پچھلاسال اس حوالے سے کافی حوصلہ افزارہا،جب گوادرپورٹ کے ذریعے افغانستان نے تجارت کاآغازکیا۔چین کی نظر میں امریکی فوجوں کی واپسی کے بعدافغانستان میں معاشی ترقی اورعلاقائی تجارت کافروغ کافی مشکل ہوگااوراس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں اطلاع دی ہے کہ امریکی سیکریٹری خزانہ جینیٹ یلین اورمحکمہ خزانہ کے فارن ایسیٹس کنٹرول آفس کے عہدیداروں نے کابل پرطالبان کے قبضے کے بعدامریکی بینکوں میں موجودافغان حکومت کے9ارب50کروڑڈالرکے ذخائرمنجمد کردیے ہیں اوراب افغان حکومت کے مرکزی بینک کا کوئی بھی اثاثہ طالبان کیلئے دستیاب نہیں ہوگا۔
امریکاسے ان اقدامت کی پوری توقع ہے کہ وہ افغانستان میں خانہ جنگی شروع کرانے کیلئے اپنی تمام سازشوں کوبرائے کارلاکرنہ صرف طالبان بلکہ خطے میں روس، چین اورپاکستان کیلئے مشکلات پیداکرنے بازنہیں آئے گابہرحال خطے کے ان ممالک متوقع خدشات سے نبرد آزماہونے کیلئے سرجوڑکربیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کیلئے یہ ایک بڑامقصد ہے کہ خطے میں مستقل امن کیلئے ان سازشوں کوناکام بنایا جائے۔چین کے افغانستان میں معاشی مفادات پاکستان کے خودکوخطے کے تجارتی مرکزمیں تبدیل کرنے کی خواہش سے جڑے ہیں۔اس سے چین کی اس یقین کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں استحکام کیلئے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ چین بخوبی واقف ہے کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے نہ صرف بڑااہم ہے بلکہ افغانستان میں پاکستان کااثرایک سیاسی حقیقت ہے، جسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔مزیدیہ کہ اگرچہ افغانستان میں چینی اورپاکستانی مقاصد ایک جیسے نہیں لیکن باہم منسلک ہیں اورخاص کر بھارت سے مقابلے کیلئے توچین اور پاکستان ساتھ ساتھ ہیں۔تاہم چینی پالیسی سازطویل عرصے سے امریکی ارادوں پرشک کااظہارکرتے آئے ہیں،ان کی نظر میں امریکااپنے مفادات کے تحفظ کیلئے افغانستان پراپنااثرورسوخ برقراررکھنے کیلئے پاکستان پراپنادبا ؤ بڑھانے کیلئے عرب حلیفوں کوبھی استعمال کرے گاتاکہ چین کی علاقائی حیثیت اورکلیدی مفادات کونقصان پہنچاکراس خطے میں اپنے ڈوبتے جہازکوغرقاب ہونے سے قبل ایک مرتبہ پھرکنارے پرلاسکے جس کاامکان بہت کم ہے۔