سقوطِ مشرقی پاکستان میں بھارت کا کردار

:Share

پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارت کی مداخلت کے عمل کو سمجھنے کیلئے اس کے صحیح تاریخی پس منظر کا مطالعہ ضروری ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کے عناد کا اصل سبب ہندوستان کو متحد رکھنے میں کانگریس قیادت کی کوششوں کی ناکامی تھا۔ہندوئوں کیلئے پاکستان کی تخلیق دراصل بھارت ماتا کو دو لخت کرنے کے مترادف تھی۔اسی لیے انہوں نے تقسیم ہند کے نظریے کو کبھی بھی دل سے قبول نہ کیا۔”اکھنڈبھارت”کا خواب ہمیشہ سے ان کا اجتماعی آدرش رہا ہے۔چنانچہ پاکستان میں پیدا ہونے والے ۱۹۷۱ءکے بحران نے بھارت کو اپنی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کیلئے بہتر موقع فراہم کیا۔ بھارت کو یقین تھا کہ ایسا موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔چنانچہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کیلئے بھارت نے تمام مسلمہ اقدار کو خیر باد کہہ دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے تقسیم کو اس امید کے ساتھ قبول کیا تھا کہ پاکستان کی نوزائیدہ ریاست حالات کا مقابلہ نہیں کرسکے گی اور تھوڑے ہی عرصہ میں دم توڑجائے گی۔ جواہر لعل نہرو نے کہا کہ پاکستان کی تخلیق ایک عارضی اقدام ہے اور یہ آخر کار متحدہ ہندوستان پر منتج ہوگی۔ جوزف کاربل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ناقابل عمل مذہبی نظریے کی حامل قرون وسطی کی ایک ریاست ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ بھارت کے ساتھ اس الحاق ضرور ی ہو جائے گا۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے ۱۴جون۱۹۴۷ءکو ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی قراردار میں کہا تھا کہ ہندوستان کی صورت گری اس کے جغرافیے، پہاڑوں اور سمندروں نے کی ہے اورکوئی انسانی کوشش اس کی ہیئت میں تبدیلی نہیں کر سکتی، نہ اس کی حتمی منزل کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کا جونقشہ ہمارے خوابوں کی سرزمین ہے وہ ہمارے دلوں اور دماغوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی دیانت داری سے یہ سمجھتی ہے کہ جب جذبات کایہ طوفان کم ہوگا تو ہندوستان کے مسئلے کا اس کے صحیح پس منظر میں جائزہ لیا جاسکے گا اور دو قوموں کے باطل نظریے کو کوئی حامی نہیں مل سکے گا۔آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی یہ قرارداد پاکستان کے ہندوستانی رہنمائوں کے رویے پر ہمیشہ سایہ فگن رہی ۔اس قراردار پر تقریر کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ تقسیم کے عمل سے صرف ہندوستان کا نقشہ متاثر ہوا ہے لوگوں کے دل تقسیم نہیں ہوئے،اور مجھے یقین ہے کہ یہ تقسیم عارضی ثابت ہوگی۔ گاندھی نے کہا: کانگریس پاکستان کی مخالف تھی اور وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ہندوستان کی تقسیم کی ثابت قدمی سے مخالفت کی۔
مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی اور شیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری پر بھارت نے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ بھارتی خوش تھے کہ ان کا دشمن پاکستان مصیبت میں مبتلا ہے۔۲۷مارچ کوجب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سرکاری طور پر بنگالیوں سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا تو اُس وقت تک ایک بھی بنگالی مہاجر سرحد پار کر کے بھارت نہیں پہنچا تھا۔بھارتی مداخلت کے پس پشت کارفرما عزائم اور جذبات کا اظہار۲۷مارچ کولوک سبھااور راجیہ سبھا میں اندرا گاندھی کے خطاب سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: ”مشرقی بنگال میں حالات بدل چکے ہیں، ہم نے نئی صورت حال کو خوش آمدید کہا ہے، ہم حالات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہم نے ممکنہ حد تک رابطہ قائم کررکھا ہے، معزز ارکان بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر حکومت کیلئے اس سے زیادہ کہنا ممکن نہیں۔ میں ان فاضل اراکین کو جنہوں نے سوال کیا ہے کہ کیا فیصلے بروقت کیے جائیں گے، یقین دلانا چاہتی ہوں کہ اس وقت ہمارے لیے اہم ترین کام یہی ہے۔اس مرحلے پر ہمارا ردِّ عمل صرف نظری نہیں ہونا چاہیے”۔مشرقی بنگال میں اپنی گہری دلچسپی کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے اس امر کا اظہارکیا کہ بھارتی حکومت مناسب وقت پر عملی اقدامات سے گریز نہیں کرے گی۔ وقت آنے پر اندرا گاندھی نے اپنے الفاظ کو سچ کر دکھایا۔
تقسیم کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان کی سا لمیت اور یکجہتی کو گزند پہنچانا تھی۔۱۹۷۱ءمیں مشرقی پاکستان کے دگرگوں حالات نے وہ زرّیں موقع فراہم کردیا جس کا بھارت کو برسوں سے انتظار تھا۔بھارتی پارلیمنٹ کے رکن سبر امنیم سوامی نے پاکستان کے بارے میں بھارتی رویے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ حالات کے معروضی مطالعہ سے ظاہر ہوگا کہ بھارت نے پاکستان کو مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا۔یہ ایک لغو تصور ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز قوم پرستوں کی تشفی اور اس معقول نقطہ نظر کے پیش نظر کیا تھا کہ پاکستان کی تقسیم بھارت کے طول المیعاد مفاد میں ہے۔
بھارت نے پروپیگنڈہ کے محاذ پر بھی پاکستان سے سبقت لے جانے میں کامیابی حاصل کی۔اس نے صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور غیر ملکی پریس کی مدد سے خود کو بنگالیوں کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ بھارت کی بہتر پروپیگنڈہ مشینری کے علاوہ اور عوامل بھی پاکستان کیلئے کامیابی سے اپنا مؤقف پیش کرنے کی مساعی میں رکاوٹ کا باعث بنے۔ ان میں سے بعض عوامل یہ تھے:
۱۔بھارت سب سے بڑا ایشیائی جمہوری ملک تھا جبکہ پاکستان میں فوجی حکومت قائم تھی۔
۲۔مغرب میں ذرائع ابلاغ کے بڑے حصے پر قابض صہیونی لابی نے بھارت کا کھل کر ساتھ دیا۔ تل ابیب(اسرائیل)نے مغربی دنیا میں بسنے والے اپنے پیروکاروں کو یہ پیغام بھجوادیا تھا کہ وہ بنگلہ علیحدگی پسندوں کی اخلاقی اور مادی مدد کریں اور اس ضمن میں بھارت سے تعاون کریں۔
۳۔سیاسی مسائل کے حل کیلئے فوجی کارروائی کے خلاف عمومی نفرت پھیلائیں۔
۴۔عوامی لیگ کے رہنمائوں کے غیر ملکی نامہ نگاروں سے ذاتی مراسم اور سب سے بڑھ کر فوجی حکومت کا غیر ملکی نامہ نگاروں کے ساتھ غیر دانش مندانہ سلوک اور ڈھاکا کی فوجی انتظامیہ کی طرف سے انہیں شہر چھوڑ دینے کا حکم”۔
غیر ملکی نامہ نگاروں کی ذاتی رنجش اور غصے کا عکس ”فوجی کارروائی کے بارے میں ان کی مبالغہ آمیز رپورٹنگ”میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ جنرل ٹکا خاں کا یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ ”دنیا آج بھی سمجھتی ہے کہ آغاز ہماری طرف سے ہوا،یہ تاریخ کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔مجیب الرحمن بہرصورت طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے، جس کے نتیجے میں جنم لینے والے تصادم میں بنگالی ہلاک شد گان کی تعداد کو ہزار فی صد اور بعض اوقات اس سے بھی بڑھا کر پیش کیا گیا۔ مجیب الرحمن کہتا ہے کہ فوجی کارروائی کے دوران آبروریزی کے دو لاکھ بیس ہزار واقعات وقوع پذیر ہوئے، جبکہ ایک رومن کیتھولک تنظیم کے مطابق جس کا ذکر اخبارات نے مناسب نہیں سمجھا، یہ تعداد چار ہزار تھی جس میں پاکستانی فوجیوں پرصرف اّکادکاّالزامات ہیں جنہیں باقاعدہ کورٹ مارشل کے ذریعے فوری سزابھی دی گئی اورباقی واقعات مکتی باہنی کی کارستانی ہے۔فوجی کارروائی کے بعد عوام کے جذبات اس بری طرح بھڑک چکے تھے کہ عوامی لیگ کی پروپیگنڈہ مشینری نے حق اور صداقت کو دبا دیا۔جذبات کا یہ طوفان تھمنے کے بعد غیر ملکی اخبارات میں مشرقی پاکستان میں ہلاک شدگان کی مبالغہ آمیز تعداد کے بارے میں تردیدی رپورٹیں شائع ہونے لگیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”میں نے بنگلہ دیش کا تفصیلی دورہ کیا ہے اور یہی عوام اور دیہی کارندوں سے بے شمار ملاقاتوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تیس لاکھ افراد کی ہلاکت کا دعویٰ لغو اور مبالغہ آمیز ہے۔بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ نے مارچ میں تحقیقات کی تو شہریوں نے پاکستانی فوج کے ہاتھوں تقریباً دوہزار افراد کی ہلاکت کی اطلاعات فراہم کیں جن میں اکثریت مسلح مکتی باہنی کے افرادتھے جنہوں نے باقاعدہ پاکستان کی مسلح افواج پرحملے کئے۔
مئی۱۹۷۱ءمیں بھارتی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر سبرامنیم نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ”لاکھوں مہاجرین کو غیر معینہ مدت تک پالنے کے بجائے اقتصادی نقطہ نظر سے بہتر ہوگا کہ بنگلہ دیش کا مسئلہ جنگ کے ذریعے حل کردیا جائے۔”ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے پیش گوئی بھی کی کہ پاک بھارت جنگ کے دوران بھارتی صنعتیں متاثر نہیں ہوں گی اور یہ کہ بنگلہ دیش کے مسئلے کا جنگی حل بھارت کی استعداد سے باہر نہیں”۔ انہوں نے پیشن گوئی بھی کی کہ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں چین مداخلت نہیں کرے گا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ پاکستان کی فوجی حکومت بھارت کے ہاتھوں شکست کو مجیب الرحمن کے ساتھ سیاسی سمجھوتے پر ترجیح دے گی۔ تاہم انہوں نے بھارت کو مغربی محاذ پر اچانک پاکستانی حملے کے امکانات سے خبردار کیا۔سبر امنیم کے ان خیالات کو بھارت کے سرکاری حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور نئی دہلی میں ہونے والے کئی فیصلے ان خیالات کے زیر اثر کیے گئے۔
بھارتی رہنمائوں کی کئی تحریروں اور تقریروں سے بھارت کے اس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان پر اس کے حملے کا مقصد مصیبت زدہ عوام کی امداد تھی۔ جے پرکاش نرائن نے بنگلہ دیش کے موضوع پر بندکمرے میں ہونے والے ایک سیمینار میں انکشاف کیا کہ ”بھارت نے مشرقی پاکستان کی آزادی کے لئے مداخلت کا فیصلہ خدائی فوجدار کے طور پر نہیں کیا تھا بلکہ اس فیصلے کا واحد محرک ہمارا قومی مفاد تھا۔ظاہر ہے کہ بنگالیوں کی ہلاکت اور ان کی جدوجہد کے بارے میں بھارتی پروپیگنڈے اور تارکین وطن سے اظہار ہمدردی کا ڈراما محض مشرقی پاکستان پر حملے کیلئے رچایا گیا تھا” ۔دی ٹائمز(لندن)نے درست لکھا تھا کہ مارچ سے لے کر نومبر۱۹۷۱ء میں فوجی حملے تک بھارتی مداخلت میں ایک سست رو مگر مسلسل عمل کے تحت اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بھارت نے پہلے سے مشرقی پاکستان پر حملے کا منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔کلدیپ نیر نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ بھارت کا ارادہ مئی، جون میں پاکستان پر حملہ کرنے کا تھا، مگر چیف آف اسٹاف نے مشورہ دیا کہ مشرقی بنگال میں مون سون کی وجہ سے وسیع تر فوجی کارروائی نامناسب ہوگی۔ان کے خیال میں ”اس مقصد کیلئے سردیوں کا موسم بہترین ہوگا”۔کلدیپ نیر نے مزید انکشاف کیا کہ ”درحقیقت بھارت نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی پاکستان پر قبضے کا ایک پندرہ روز منصوبہ تیار کیا تھا۔یہی وہ منصوبہ تھا جسے اب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے بروئے کارلایاجارہا ہے”۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ سے بہت عرصہ پہلے ڈھاکا کے گرد و نواح میں سادہ کپڑوں میں ملبوس بھارتی فوجی دیکھے گئے۔بعد ازاں مسز گاندھی نے خود اپنے بیان میں کہا کہ ”گوریلوں کی تربیت اور انہیں بھارتی اسلحے کی فراہمی ہی ”مشرقی پاکستان”کے بحران کا حتمی حل ہے۔”اور یہ حل ”آزاد بنگلہ دیش کے سوا کچھ نہیں۔”ایک بنگالی ہندو صحافی ایس براتا کے انکشافات مزید حیران کن ہیں،جن کے بقول مکتی باہمنی دراصل بھارتی سپاہیوں کی ایک تنظیم تھی اور یہ کہ ”اگر وہ بھارت میں رہتے ہوئے یہ بات کہتے تو انہیں یقینا گرفتار کرلیا جاتا ” ۔
اس امرکی واضح شہادتیں موجود ہیں کہ مکتی باہنی تمام نہیں تو اس کا بڑا حصہ بھارتی فوجیوں پر مشتمل تھا۔ ٹائمز(لندن)کا یہ تبصرہ بالکل بجا تھا کہ ”فوجی کارروائی کے بعد بھارت سے اسلحہ کی فراہمی رک گئی۔ اب بھارت کا اگلا اقدام یہ تھا کہ پاک فوج کے اقدام میں رکاوٹ کیلئے ذرائع موصالات کو سبوتاژ کرنے اور باغیوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے مشرقی پاکستان میں تخریب کار بھیجے جائیں۔ابتداء میں بھارت نے مکتی باہنی کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا، لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی کہ متعینہ مقاصدکاحصول مکتی باہنی کے بس کی بات نہیں تو بھارتی فوج بھی میدان میں کود پڑی”۔
“دی ٹیلیگراف”نے اپریل میں شائع ہونیوالی ایک خبر میں کہا کہ ”قرائن بتاتے ہیں کہ بھارتی اسلحہ سے بھری ہوئی ایک ٹرین مدار پور کے قریب علیحدگی پسندوں کے پاس پہنچ چکی ہے۔ایک غیر ملکی اخبار کے مطابق ”انڈیا نے مشرقی سرحد کے ساتھ چوکیاں قائم کررکھی تھیں،جہاں سے بھارتی اسلحہ مشرقی پاکستان پہنچایا جاتا تھا۔”ایسی کئی اور رپورٹوں سے اس امر کی تصدیق کی گئی کہ بھارت تخریب کاروں کو براہِ راست اسلحہ فراہم کر رہا ہے ۔”گوریلا سرگرمیوں کے مراکز زیادہ تر ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز میں موجود تھے۔طالب علموں خصوصاً مکتی باہنی فوج میں شمولیت کے خواہش مند متعصب ہندو نوجوانوں میں سے رضا کار بھی بھرتی کئے گئے،جن کا اہم مقصد سبوتاژ کی کارروائیاں کرنا تھا۔ان رضا کاروں کو بھارتی فوج کے قائم کردہ پچاس سے زیادہ تربیتی مراکز میں تربیت دی گئی، دوسری طرف بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے گوریلا گروپ نے بھارتی سپاہیوں کے تعلق سے دوسری طرف بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے گوریلا گروپ نے بھارتی سپاہیوں کے تعلق سے مشرقی پاکستان کے اندرونی علاقوں کو اپنی تخریبی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔بھارت نے مکتی باہنی کے چھاپہ ماروں کو پناہ دینے کے علاوہ اس کے رضا کاروں کی تربیت کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔اس نے بعض موقعوںپر انہیں توپیں اور مارٹر فائر بھی مہیا کیے۔
بریگیڈیئر (ر) چوہدری مظفر علی خان زاہد ۱۹۷۰ءاور۱۹۷۱ء میں ہونے والے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ”مشرقی پاکستان میں بھارت اپنا گھنائونا کھیل شروع کر چکا تھا۔ ”را” نے پاک بھارت سرحد کے ساتھ اپنی تنصیبات اور خفیہ مقامات کو چھپا کر رکھنے کا پورا انتظام کیا تھا۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ مکتی باہنی کا سراغ لگا کر انہیں ڈھونڈ نکالے۔ مکتی فوج کا نام مکتی باہنی رکھا گیا تھا۔ مکتی باہنی دراصل ایک کمانڈو فوج تھی۔ یہ زیادہ بنگالیوں پر مشتمل تھی۔ ان باغی بنگالیوں کو بھارت کی سرزمین پر تربیت دی گئی اور اسلحہ و ہتھیار دے کر مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا…….ہر طرح کی مشکلات کے باوجود پاکستانی فوج انتہائی جوش و جذبے اور دلیری سے لڑی۔ جیسور کے محاذ پر پاکستان کے صرف چالیس فوجی جوانوں نے دفاعی پوزیشن میں پانچ سو چالیس بھارتی فوجیوں کو واصل جہنم کیا تھا۔ مکتی باہنی کے غنڈوں کا کام پاک فوج کے خلاف کارروائیاں کرنا تھا اور مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں بالخصوص مغربی پاکستان کے لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانا اور انہیں قتل کرنا ان سرگرمیوں میں سرفہرست تھا۔ مکتی باہنی کے ان غنڈوں کی سرکوبی کے لئے پاک فوج حرکت میں آئی تھی اور ان کے خلاف کارروائی بھی کرتی تھی۔ مکتی باہنی کے ان غنڈوں کو بعض بنگالیوں نے اپنی رہائش گاہوں میں چھپایا ہوا تھا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کرتے تھے۔ نتیجتاً پاک فوج کو سرچ آپریشن کرنا پڑتا تھا جو کہ پاک فوج کا فرض تھا۔ پاک فوج کی دہشت گردوں اور غنڈوں کیخلاف کارروائیوں کو ایک سازش کے تحت بڑھا چڑھا کرپیش کیا گیا اور پاک فوج پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ ان الزامات کا مقصد پاک فوج کے مورال کو ختم کرنا تھا حالانکہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے امن و امان کی صورتحال کو انتہائی ابتر کیا ہوا تھا۔ ۱۴مارچ ۱۹۷۱ءکومغربی پاکستان کے میاں بیوی کو بھی تلاشی نہ دینے پر قتل کردیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی غازی پور اسلحہ فیکٹری میں مغربی پاکستانیوں اور چینیوں کی زندگی کو خطرات لاحق تھے۔ ان کو بچانے کے لئے فوجی بھیجی گئی لیکن اس کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے راستے میں روک لیا۔ اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے فوجی کارروائی کرنا پڑی۔ شیخ مجیب نے اس معاملے کو غلط رنگ دے کر اچھالا اور فوج کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔
۲۳مارچ ۱۹۷۱ءکوعوامی لیگ نے یوم پاکستان کو یوم مذمت کے طور پر منایا۔ پورے ڈھاکا کو بنگلہ دیش کے پرچموں سے بھر دیا گیا تھا۔ پاکستان کا پرچم صرف صدارتی ہائوس پر لہرا رہا تھا۔ فیرورام اور ٹیگیل میں شدت پسندوں سے نمٹنے کے لئے فوجی دستے بھیجے گئے۔ باغیوں کو پسپا کردیا گیا لیکن باغیوں نے املاک کو کافی نقصان پہنچایا اور شواہد سے پتہ چلا کہ باغیوں میں بھارتی فوج بھی شامل تھی۔ فوج نے مزید علاقوں ڈھاکا، اریچھ، نگر بری، پبنہ، اشاروی، ناٹور، راج شاہی، بوگرا اور کشٹید میں باغیوں اور بھارتی فوج کو نکال باہر کیا۔ یہاں پر مکتی باہنی کے غنڈوں نے امن و امان کو بہت خراب کررکھا تھا۔ درحقیقت ان تمام واقعات میں بھارتی فوج پوری طرح ملوث تھی۔ ان علاقوں سے بیدخل ہونے کے بعد مکتی باہنی نے دوسرے علاقوں میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا۔ مشرقی پاکستان جو سرسبز و شادابی کے لئے مشہور تھا مکتی باہنی نے اس کو آگ اور راکھ میں بدل دیا۔ ہر علاقے میں املاک کو نذر آتش کیا گیا لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ آل انڈیا ریڈیو کوئی جھوٹی من گھڑت خبر بی بی سی کے والے سے نشر کرتا اور وہی خبر بی بی سی آل انڈیا ریڈیو کے حوالے سے دنیا میں پھیلا دیتی لیکن اس قسم کی افواہوں اور جھوٹی خبروں کی پاکستانی حکومت کی طرف سے فوراً تردید نہ کی جاتی اور جب تردید کی جاتی تو دنیا بھر کے لوگوں پر جھوٹی خبریں اپنا انمٹ اثر چھوڑ چکی ہوتیں۔ ان خبروں نے غیر ملکوں میں رہنے والے بنگالیوں کو اپنے رشتہ داروں کی زندگی کے بارے میں پریشان کردیا اور انہوں نے پاکستان کے خلاف مہم شروع کردی۔
دوسری طرف پاکستانی فوج بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کی مسلح مزاحمت کو توڑتی، سڑکوں سے رکاوٹیں صاف کرتی، ٹوٹے پل بناتی، دور افتادہ علاقوں میں پہنچیں تو وہاں قتل عام کے انسانیت سوز مظالم دیکھنے میں آئے۔ اجتماعی قبرستانوں اور گڑھوں میں سے کتے لاشیں نکال کر نوچ رہے تھے ۔ کمرے چھت تک انسانی خون سے آلودہ ہیبت ناک منظر پیش کررہے تھے۔ خون سے لتھڑے کھلونے اپنے معصوم مالکوں کی داستان الم سنا رہے تھے۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ بنگال رائفلز نے اپنے غیر بنگالی افسروں کو اور ان کے بال بچوں کو مار ڈالا تھا۔ واقعات کی ترتیب صاف بتاتی ہے کہ لوگ فوج سے نہیں مکتی باہنی قاتلوں سے اپنی جانیں بچانے کے لئے بھارت کی سرحدوں کی طرف بھاگے۔ پاک فوج کی قتل و غارت کی جو جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں ان میں کوئی صداقت نہیں تھی لیکن ان خبروں کے نتیجہ میں لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا۔ تاہم پاک فوج نے چند ہفتوں کے اندر اندر بغاوت پر قابو پا لیا۔ مکتی باہنی نے غیر بنگالیوں کے خون سے جس طرح ہولی کھیلی، حکومت پاکستان نے اسے خوف سے پردہ راز میں رکھا کہ مغربی پاکستان میں رہنے والے مشرقی پاکستانیوں کی جانیں خطرے میں نہ پڑ جائیں۔ اس طرح بلا شبہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی مگر دنیا میں پاکستان کا امیج بالکل تباہ ہو کر رہ گیا کیونکہ فوجی کارروائی کو جو اقتدار اعلیٰ کے احترام اور قانونی زندگی بحال کرنے کے لئے کی گئی تھی ”نسل کشی” معلوم ہونے لگی”۔
ایک بہتر ین عسکر ی ما ہر بر یگیڈئر عثما ن خا لدمرحوم کی رائے میں ڈھاکا کا قرض سری نگر میں چکایا جاسکتا تھا اور اس حوالے سے پاکستان کو کئی نادر مواقع بھی ملے۔ لیکن سیاسی طور پر مضبوط نہ ہونے اورنظریاتی عدم یکسوئی کی وجہ سے یہ اہم مواقع ضائع کردئیے گئے۔صورتحال یہاں تک بھی رہتی تو ٹھیک تھا، لیکن ستم یہ بھی ہے کہ جس ملک نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے اس کے ساتھ دوستی کے وہ راگ چھیڑے گئے جن کی بے سُری تانوں نے آج ہر کشمیری کو بے چین کر رکھا ہے۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ کے پاس یقینا ًاس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کا حساب بے باق کرنے کیلئے قدرت نے جو نادر مواقع فراہم کئے ان سے کیوں فائدہ نہ اٹھایا گیا؟ہم کسی کو ذمہ دار ٹھہرائیں یا نہ ٹھہرائیں لیکن تاریخ ان لوگوں کا تذکرہ ضرور کرے گی جنہوں نے مواقع حاصل ہوتے ہوئے بھی سانحہ مشرقی پاکستان کا قرض چکانے سے گریز کیا۔

حذر کرومر ے تن سے یہ سم کا در یا ہے
حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیا سا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں