باباجی کو اپنے پروگرام کی اطلاع دینے کیلئے ٹیلیفون کیاتاکہ میری عدم موجودگی میں وہ پریشان نہ ہوں کیونکہ وہ ہمیشہ میرے تعاقب میں رہتے ہیں ،قلمی راستہ میں کہں گم نہ ہو جاؤں اور سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھی حوصلہ رہتا ہے ۔ انہوں نے اسلام کے عظیم الشان داعی ڈاکٹر اسرار احمد کی رحلت کی جب خبر سنا ئی(انا اللہ وانا الیہ راجعون) تو خانۂ دل میں محبتوں کی کئی دیوراوں کے گرنے کا شور ایسا اٹھا کہ برسوں کی محبت و شفقت کی بارش نے مجھے شرابور کردیا ۔ خالص توحید کا گلدستہ دامن میں لئے اپنے خالق کے ہاں پہنچ گئے ۔پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہوں تو کتنے ہی روشن ستارے ہیں جو اپنی منزل میں ڈوب کر فنا ہو گئے کہ یہی میرے رب کا قانون ہے ۔اپنا اپنا کام کیا،مالک نے آواز دی اور وصل کی آرزو میں خاموشی سے سرہانے کھڑے موت کے فرشتے کے ساتھ چل دیئے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہرروز کئی شہابِ ثاقب ٹوٹ کر اپنی ہستی کھو دیتے ہیں لیکن میرے رب کا آسمان پھر بھی ستاروں سے منور ہے!وہ اس بات سے باخبر تھے کہ ہرسال کے بدلتے موسم اور بہار اورخزاںبھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہرشئے کو فنا ہے ،لافانی تو صرف میرا پروردگار ہے!
لا ریب ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔خالقِ ارض و سماء کے اس متعین ضابطے سے کسی کو استثنیٰ نہیں۔وہ ان میں سے ایک تھے جو کبھی کرہْ ارض پر بوجھ نہیں بنتے ۔جن کے روز وشب کی ہر ساعت اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کی امین ہوتی ہے۔جن کا دلِ بے نیاز ہر دو جہاں سے غنی ہوتا ہے ۔جن کی زندگی بندہّ مومن کی طرح حرص و ہوس سے پاک ہوتی ہے، جن کی بیاضِ حیات ،داستانِ حر م کی طرح غریب وسادہ و رنگین ہوتی ہے ۔جن کی تخلیق کسی اعلیٰ مشن میں گندھی مٹی سے ہوتی ہے۔جن کے مقاصد جلیل اور جن کی امیدیں قلیل ہوتی ہیں۔جو منزلِ جاناں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو پھر زندگی کی آخری سانس تک کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتے،نہ نخلستانوں کی آسودگی ان کے عزمِ سفر کو موم کرتی ہے،نہ آبلہ پائی وادی پر خار میں اترنے سے روکتی ہے۔وہ ہمارے ہاں کی بے ننگ و نام سیاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف تھے۔وہ اس عہدِ ستم گار میں نہ صرف قرونِ اولیٰ کی ایک نایاب خوشبو کی مانند تھے بلکہ اس کہکشاں کاسب سے روشن ستارہ بھی تھے۔اپنے عہد کا درویش،اجلے ذہن،اجلی سوچ، سادہ مگراجلے لباس،اجلی گفتگو،اجلے دامن اور اجلے کردار کے حامل،شرافت اور نجابت کی ایک تصویر،صاف دل،صاف گو،فراست فکر،راست کلام،نہ کوئی اونچ نیچ،نہ کوئی سیاسی کرتب،نہ منافقانہ مصلحت کیشی،نہ فریب ،نہ دہرا پن،کھری بات کہنے والا کھرا انسان……..کا مردِ مطلوب،پاک دل و پاکباز!ایک صدی سے کچھ کم پر پھیلی اس منفرد زندگی کا احوال کا قلمی احاطہ ممکن ہی نہیں۔
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے
کئی عشروں تک وہ بے ریا آدمی مقتل میں کھڑا رہا اور کس شان سے کھڑا رہا۔فقر کے ساتھ بادشاہی کی،زندانوں کی وحشت اور جبر کو شرمسار کر دیا ۔خوف کبھی اس کی کھال میں داخل نہ ہو سکا ۔بوڑھا شہسوار میدانِ جنگ سے رخصت ہوا تو میدانوں نے شائد اسے حسرت سے دیکھااور اپنی محرومی کا ماتم کیا ہو گا۔ہمیشہ کی ٹھہری ہوئی آواز میں،ہمیشہ کی بے نیازی میں ، کہ اس کا منبع زمین نہیں آسمان تھا۔ہر وقت ہاتھ پر نقدِ جاں سجائے ہوئے، دونوں ہاتھوں سے ہیروں کی چمک سے ماحول کوبھر دینے کی خدادا صلاحیت،وفاداری ایسی کہ بشرطِ استواری اور اصل ایمان کی گراںقدر نشانی۔سپہ سالار مٹی اوڑھ کر سو گئے لیکن سپاہی نے ایمانی اسلحے کا زیور تن سے جدا نہیں کیا۔دنیا کے ہر خوف سے دل خالی اور جان دینے کیلئے ہر وقت تیار!
آکھو نی مینوں دھیدو رانجھا،ہیر نہ آکھو کوئیحاصلِ عمرِ نثارے رہِ یارے کردم
شادمِ از زندگی خویش کہ کارے کر دم
رانجھا رانجھا کوکدی، میں آپے رانجھا ہوئی
سہیلیو!مجھے رانجھا کہو،ہیر نہ کہو،قلب و دماغ کی گہرائیوں سے اتنی بار رانجھے کو پکاراہے کہ خود رانجھا ہو گئی ہوں۔ہمارے اس بے ثبات اور بے وفا عہد میں،حاسدوں کے نرغے میں گھرا ایک شاعر افتخار عارف کیا خوب یاد آیا:
زندگی نذرگزاری تو ملی چادرِ خاک
اس سے کم پر تو یہ عزت نہیں ملنے والی
بے پناہ مرتب،بے حد ریاضت کیش،کمال یکسو،مکمل طور پر بے ریا،صداقت شعار،وفا کیش۔اگر دنیا دار بنتا تو ویسا ہی کامیاب ہوتا جیسے آج کے عزت دار مالدار سیاستدان،وہ محلات میں جیتا اور نعمتوں کے ہجوم میں زندگی گزارتا ،مگر اس نے یہ سب کچھ تیاگ دیا،ایک ساعت میں تیاگ دیابلکہ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھااور یہی ایک لمحہ اس کی پوری زندگی پر پھیل گیا۔توحید کی ایک بوند نے اس قدر سیراب کیا کہ زندگی بھر کسی چیز کی تمنا نہ رہی۔اپنے رب کی حکمتوں سے معمور کتاب قرآنِ حکیم اور صاحبِ کتاب نبی آخر ۖ کی سیرت کو ساری زندگی اپنا نصب العین بنا کر زندگی گزاردی اور عرب و عجم اور یورپ و امریکا میں بھی اپنی اسی گرجدار آواز کے ساتھ بلا کسی خوف یہ پیغام پہنچاتے رہے۔ لاکھوں کا مجمع حاضر، سامعین کی سانس گم،نگاہ گم،خیال گم،گویا ان سب کی ہستی کہیں گم اور خود بھی اس حقانیت کے پیغام میں کہیں گم!ایک گرجدار آواز،منادی ہو رہی ہے کہ آؤ فلاح کا راستہ وہی ہے جو محمد عربیۖ نے چودہ صدیاں پہلے فرمایاتھا،اب بھی ہماری مشکلات کا حل انہی فرمان میں ہے،محبت اور حق کے اس پیغام میں ایسی آگ ہوتی تھی جو کئی دلوں پر چھائی ہوئی ظلمتوں کو راکھ کر دیتی تھی۔پھر وہی افتخار عارف!
عمر بھر ٹھوکریں کھاتا نہ پھروں شہر بہ شہر
ایک شہر میں ایک ہی در پر رکھا
وہ غنی،جس نے زندگی لٹا دی اورکبھی فخرنہ کیا ،فخر کیا معنی،تذکرہ ہی نہیں کیا،اپنا تو نام ہی نہیں…….سب قول ادھورے ہوتے ہیں،صرف اللہ کی کتاب سچی ہے اور اس میں یہ لکھا ہے:
سبھی رائیگاں،سبھی برباد،صرف اہلِ خلوص کامراں۔خدا کی بارگاہ میں خلوص کے سوا سبھی سکے مسترد ہیں۔ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی ذات قول و فعل کے تضاد ات کی آلائشوں سے بالکل پاک تھی۔دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں برطانیہ تشریف لائے تومیزبانی کیلئے مجھ ناچیزکوشرف بخشا،ان تین ہفتوں میں بہت قریب سے نہ صرف دیکھنے کاموقع ملا بلکہ بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملا۔
ساری عمر خدمت اسلام اور تبلیغ اسلام کے کاموں میں مصروف رہے۔ آپ نے اپنی تحریکی زندگی کا سفراسلامی جمعیت طلبہ پھر جماعت اسلامی سے کیا بعدازاں تنظیم اسلامی کے امیر کی حیثیت سے آپ نے نہ صرف ایشیائی ممالک میں بلکہ عرب ممالک میں بھی رجوع القرآن کی تحریک کی احیاء کی ساتھ ساتھ مروجہ بے دین سیاسی نظام جو مسلم ممالک میں بھی رائج ہے، کی سختی کے ساتھ تردید وتنقید کرکے اسلام کے نظام سیاست یعنی خلافت علیٰ منہاج النبوہ کی احیاء کی تبلیغ میں مصروف رہے۔ صحت کی پرواہ کئے بغیر ہر آن فعال اورمتحرک،گویا رگوں میں خون کی بجائے کوئی بجلی دوڑ رہی ہے۔دروس قرآن اور زندگی کے بے شمار عنوانات پر ایک ضخیم ذخیرہ ورثے میں چھوڑ گئے ہیں جو ان کے کام اور نام کو زندہ رکھے گا۔
جماعتی اور مسلکی عصبیتوں سے بے نیاز ہو کر آپ نے دین کی بنیادی تعلیمیات کی بنیاد پر لوگوں میں دینی بیداری پیدا کی ۔ آپ نہ صرف عام مسلمانوں کیلے بلکہ علماء وقت ایک اکژیت جو سیکولر سیاسی فکر سے وابستہ ہوگئے ہیں ان کیلے بھی اللہ کی برہان بنے رہے!ہمیشہ اس فکر اور درد کا برملا اظہار فرماتے رہے کہ یارب !یہ کیسی قوم ہے جو خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قسمت بگاڑنے پر تلی ہوئی ہے۔قوم نہیں،یہ ایک ہجوم ہے۔ابھی قوم اسے بننا ہے۔ابھی اسے معلوم نہیں کہ مرعوبیت شناخت کو تباہ کر دیتی ہے،قوموں کو ابھرنے نہیں دیتی۔ڈاکٹر اسرار صاحب کی دینی،فکری،سیاسی اور سماجی خدمت کو ہمیشہ یادرکھا جاے گا ، رہا مرنے والا،تو وہ بامراد اپنی منزل پا گیا۔
ہر موت اپنے لواحقین کیلئے یہ پیغام چھوڑ جاتی ہے کہ جلد یا بدیرآپ نے بھی مجھے وہاں آکر ملنا ہے۔جہا ں ہم سب بے بس اپنے مولا کی مغفرت کے منتظر ہوں گے۔ڈاکٹر صاحب دنیا سے دار بقاء کی طرف تشریف لے گئے ہیں اس عا رضی زندگی کی بہاروں اور گلوں کی خوشبو سے منہ موڑ کر دا ئمی بہار،سدا خوشبوؤں و مہک کے گلستانوں میں براجمان ہو گئے ہیں۔اپنے ہر تعلق رکھنے والوں کو چھوڑ کر اپنے مولا کے ساتھ مضبوط تعّلق و رشتہ جوڑ چکے ہیں۔پھر موت توکوئی نئی چیز نہیں،موت تو ہر ایک کو آنی ہے۔موت کے قانون سے نہ تو کوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ کوئی ولی۔جو بھی آیا ہے اپنا وقت پورا کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ہم سب اس کی امانت ہیں، پھر کس کی مجال جو اس میں خیانت کر سکے۔
،،یاایّھتاالنفس المطمئنہ ارجعی الیٰ ربک راضیتہً مرضیہ،،۔(اے نفسِ مطمئنہ!اپنے رب کی طرف لوٹ جا،شادماں اور بامراد)
بروزبدھ۲۹ربیع الثانی۱۴۳۱ھ۱۴/اپریل۲۰۱۰ء