Sample maa ji

اک آفتاب بھری دوپہرمیں ڈوب گیا

:Share

وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کودیکھنے کوآنکھیں ترستیاں ہیں

مجھے وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا……!زندگی کے آخری سانس تک بھی نہیں’ایک ایک لمحے کی کیفیت میرے دل پراور ایک ایک پل کی کیفیت میری آنکھوں میں محفوظ ہے۔

میں سیڑھیوں کے اوپرجنگلے کے پاس کھڑاہوں جہاں نیچے دالان اورپوراصحن نظرآ رہاہے۔ دوپہر کا آغاز ہوچکاہے۔موسم میں کافی خنکی ہے’آسمان پربادل چھائے ہوئے ہیں گویااہل زمیں پرسایہ ربی ہے۔وقت کا اندازہ نہیں لگاسکتاحالانکہ گھڑی کلائی پربندھی ہوئی ہے۔وقت کی رفتارکوروکناچاہتاہوں لیکن بے سود……!یہ نہیں بتاسکتاکہ مجھے یہاں کھڑے کتنی دیرہو گئی ہے’لگتاہے کئی دن اور کئی راتیں میرے قریب سے دبے پاؤں چپکے سے گرزگئی ہیں اورمیں یہاں نجانے کیوں کھڑاہوں’ وقت سے بے خبر’دیوارسے لگ کرایک ہی رخ ایک ہی اندازمیں۔ میں جب سے یہاں کھڑاہوں مجھے کہیں بھی کوئی روشنی نظرنہیں آرہی’ ہرسو گھپ اندھیرا’خوف سے دل بیٹھاجارہا ہے’ٹانگیں کانپ رہی ہیں اورہاتھ ٹھنڈے پڑتے جارہے ہیں کہ دفعتاًمیراچچازادبھائی بشارت آنسوؤں سے ترچہرہ لئے میرے کندھے پرہاتھ کر مجھے نیچے آنے کوکہتاہے کہ”آؤ لوگوں کاہجوم باہرکھڑاہے ‘سبھی مجھے تلاش کررہے ہیں’بہن بھائیوں’ عزیزواقرباء کودلاسہ دینے اورہمت سے کام لینے کاوقت ہے’اب اس حادثے کی حقیقت کوتسلیم کئے بغیرکوئی چارۂ کاربھی تونہیں۔

ہاں…..جی ہاں’بڑاہی جانکاہ حادثہ رونماہوچکاتھا’صحن میں عورتوں کوبہت بڑاہجوم ‘آہ وزاری میں مبتلا’آسمان تک شورکی آوازیں’ مجھے دیکھ کریک بیک کئی دلدوزچیخیں گونج اٹھی ہیں۔سسکیوں اورنالوں کی آوازہر سو پھیلی ہوئی ہے ۔میں بے اختیارایک عالم بے بسی میں اپنی آنکھیں بندکرلیتاہوں ‘یوں محسوس ہوتاہے کہ میں تنہاایک غرق شدہ جہازکے تختہ پربیٹھا ہوں ‘یہ تختہ سمندرکی بپھری ہوئی موجوں میں بری طرح گھرچکاہے’ مجھے یہ کہاں پہنچائے گا’میں اس سفرکے بعدکسی مقام پرپہنچ جاؤں گا’مجھے کوئی علم نہیں….. بالکل کوئی علم نہیں!میں کس طرح صحن میں کچھ دیر کیلئے ٹھہرا’کون سی غیرمرئی قوت نے مجھے سہارا دے رکھاتھا’کون کون مجھ سے تعزیت کررہاہے’کچھ خبرنہیں’بس مجھے یہ دکھائی دے رہاتھا کہ سامنے میری ماں سفیدبراق چادرمیں اپنافانی وجودلپیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کی میٹھی نیند سورہی ہے۔

سب بہن بھائی’عزیزواقارب پلنگ کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے ہیں’ایک کثیر تعدادنے ان سب کوگھیررکھاہے ۔مجھے آگے جانے کیلئے سب نے راستہ دیدیا۔دل میں جوایک طوفان برپاتھاخیال تھاکہ ابھی سینہ شق ہوجائے گا’دل ریزہ ریزہ ہوکربکھر جائے گالیکن اسی لمحے ماں کے مسکراتے چہرے نے گویاایک ایسا اشارہ کیاجس کوصرف میں ہی دیکھ اورسمجھ پایاتھا ‘ایک سرگوشی کے عالم میں گردن جھکانے کاحکم دیا’جونہی میں نے اپناکان ان کے منہ کی طرف بڑھایاتوماں جی نے دائمی جدائی کا پیغام سناڈالا۔طوفان آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں سے بہہ اٹھے’گردوپیش میں سسکیوں کی آوازیں اب مسلسل بلند ہوناشروع ہوگئیں’میں دم بدم پہلو بدلتارہا’یہاں سے بھاگ جاناچاہتاہوں’اردگردایک نظردوڑائی’ہرکوئی مجھ سے بڑھ کر بے چین اورغم زدہ دکھائی دے رہا ہے’ہرکوئی اپنی موجودگی کااحساس دلارہاہے’ہرایک اپنارشتہ تھامے میری ماں سے جواب طلب کررہا ہے لیکن ماں جی جواس سفید چاندنی کے نیچے بے خبرآرام فرمارہی ہیں’ان سب سے لاتعلق اپنی ایک نئی اگلی دنیامیں مگن گویاایک عمرکے بعدماں جی کوایک ایساسکون میسرآیاہے۔

کئی بارارداہ کیاکہ ماں سے پوچھوں”ماں جی!آپ توکبھی ہمارے اس قدرپریشان ہونے پراس طرح خاموش نہ رہتی تھی’آج خلافِ معمول یہ سکوت کیسا؟آپ تواپنی اولادیاکسی بھی عزیزرشتہ دارمیں سے کسی کوذرا بھربھی ملول دیکھتیں توتڑپ اٹھتی تھیں مگرآج سب آپ کے اردگردآہ وزاری کررہے ہیں ‘غیروں کے بھی آنسو نہیں تھم رہے لیکن آپ ان سے یہ بھی پوچھناگوارہ نہیں کررہیں کہ آخر معاملہ کیاہے ‘کیادکھ پہنچاہے تمہیں’کس لئے تم سب رورہے ہو؟؟؟ میں نے تو ساری عمرکسی کوکوئی دکھ نہیں دیا’ہمیشہ سب کی خدمت کی ‘سب کے آنسو اپنے دامن میں جذب کئے ہیں’پھرآج یہ معاملہ کیسا اورکیوں…..؟آج اس گھر کے در و دیواربھی غم زدہ اندوہگیں اوراداس ہیں جیسے وہ اس عظیم ہستی کورخصت کرتے ہوئے چپ چاپ ہولے ہولے آنسو بہارہے ہیں۔آخر اس ہستی کے ساتھ زندگی کے طویل شب وروزگزارے ہیں’بڑاکٹھن راستہ مل کر طے کیاہے۔

غالباً تیرہ برس کی عمرمیں پیاکے گھرآبادہوگئیں تھیں۔نہائت صحت مند ‘مضبوط ‘ طاقتوراعضاءاورخوبروقد کی بدولت پورے خاندان میں متعارف تھیں۔جب ان کو ڈولی میں بٹھایاگیاتونہیں جانتی تھیں کہ اب انہیں کس منزل سے زندگی کا سفرشروع کرنا ہے۔آنے والے شب وروزاپنے اندھیروں اوراجالوں میں ان کیلئے کیاکچھ لیکر آئیں گے۔نئے گھر میں آکراپنے آپ کوکچھ ایسے اجنبی مگر محبت کرنے والے لوگوں کے درمیان پایاجوایک مدت سے ان کے منتظر تھے ۔سب کے سب دنیاوی علوم سے بے بہرہ’ پرانی روائتوں کے اسیر’ادھرادھردیکھے بغیرزندگی کی راہ پرچلنے والے سیدھے سادے معصوم۔ پھوپھی کی شکل میں ایک غم زدہ اور زمانے کی ستائی ہوئی ساس اوردودیور’ایک جیٹھ بھی تھالیکن مقامی حالات سے دل برداشتہ ہو کر وطن سے دورکسی نامعلوم مقام پرڈیرہ لگائے بیٹھاتھا۔چھوٹادیورتواولادکی طرح تحفہ میں ملا۔اس کی ساری پرورش اور سب کی خدمت شروع دن سے نصیب میں لکھی گئی۔شوہرخوبرو’خوبصورت’وجیہ’ طاقت وشرافت میں بے مثال’بس یہی کل کائنات کاسرمایہ۔گھرکے معاشی حالات کی کفالت وہ زرعی زمین تھی جس کی نگرانی بیوہ ساس اورمنجھلے دیورکے ذمہ تھی۔ شوہرنامدارتواس ذمہ داری سے بری الذمہ تھے کیونکہ وہ اپنے علاقے کی سیاست اورمقامی مسائل کے حل کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ساس پرانے زمانے کی عبادت گزار’زاہدہ وعابدہ عورت ‘لکیرکی فقیر’بہوسے یہ توقع کہ صبح سے لیکر شام تک بلکہ نیم شب تک ساراکام انجام دے’ گھرداری بلکہ زمینداری میں بھی پوراہاتھ بٹائے۔

میری ماں جب اس گھر میں آئی توانہیں پتہ چلا کہ ان کی پھوپھی یعنی ساس ماں جوانی میں رضائے الٰہی سے بیوہ ہوگئیں تھیں۔ابھی یہ صدمہ بھولانہیں تھا کہ جوان اولاد جوان بیٹابھی اپنے باپ کے پہلومیں آرام کرنے چلا گیا۔اکلوتی بیٹی تھی جو اپنی ماں کاغم بانٹتی تھی’ وہ بھی چنددنوں کابیٹا اپنی نشانی ماں کی گودمیں چھوڑکراپنے مولاکے ہاں حاضرہوگئی۔اب اس معصوم بچے کی شکل میں بیٹے کی پرورش برسوں کی۔جب یہ نشانی گھبروجوان ہوئی تواس نے بھی اللہ کے ہاں حاضرہونے میں عجلت کی۔ٹھیک پندرہ دنوں کے بعداکلوتاجوان پوتاجس کی شادی کوچندماہ باقی تھا’وہ بھی خاندانی قبرستان کی زینت بن گیا۔اب تواس بوڑھی زاہدہ وعابدہ عورت کے اعضاء شل ہوگئے ۔ان صدموں نے عمرسے پہلے چہرے کی لالی ‘شادابی اور مسرت چھین لی۔اب ان تمام صدموں کے واضح نشانات تھے جنہوں نے بڑھ کر میری ماں کا استقبال کیا۔

میری ماں سب سے پہلے بسترسے اٹھتیں ‘وضوکرکے اپنی ساس کی بغل میں ہی دوسرا مصلیٰ بچھا کر نمازفجر سے اپنے دن کا آغاز کرتیں’ ذکراذکارسے فارغ ہوکر گھر کے کام کاج میں اس طرح مشغول ہوجاتیں کہ رات کی گہری سیاہی آڑے آکر ان کو بیٹھنے کاموقع فراہم کرتی۔شادی کے ڈیڑھ سال بعد اللہ نے گودہری کردی ‘ بڑاخوبصورت بچہ اپنے پہلو میں دیکھ کرماں کی آنکھوں میں تشکر کے آنسوہروقت جھلملاتے رہتے تھے اورسارادن پوتااپنی دادی کی گودمیں کھیلتارہتااورشام اوررات کے چندلمحات اسے سے کھیلنے کے مل جاتے جواس کوخوشی سے شاداب وسیراب کردیتے.

صبروشکرکامجسمہ تو پہلے ہی تھیں’اب اس گھر کی سنت سمجھ کر اس کوبھی قبول کرلیا۔اللہ تعالیٰ نے اوپرتلے دوبیٹیاں دے دی’ ماں اب گھر کے کام کاج کے علاوہ ان کی پرورش بھی بڑے سلیقے سے کرنے لگیں کہ اچانک افواہیں پھیلناشروع ہو گئیں’ برسوں کاامن فسادات میں تبدیل ہوگیا’بالآخر وطن کابٹوارہ ہوگیا۔اب اس ملک میں جہاں بچپن سے لیکر جوانی کاوقت گزراتھا’اب دوسراپل ٹھہرناگویاموت کودعوت دینے کے مترادف تھا۔ ماں نے اپنے سگھڑاپے سے جوگھرکی آرائش و زیبائش کی تھی اس سے بھی یکسر محروم ہوناپڑا’صرف تن کے کپڑوں کے علاہ کسی چیز کوہاتھ لگانے کی مہلت بھی میسر نہ آسکی۔ بالآخرکشمیرجنت نظیر کے کوہساروں’ ندی نالوں اوراپنے آباؤ اجدادکی تمام نشانیوں کو الوداع کہناپڑااوراس پرمستزادیہ کہ خوشی کے وہ آنسو ابھی سوکھے بھی نہ تھے کہ پاکستان ہجرت کرتے ہوئے اپنے پہلوٹھی کے بیٹے جیسی خوشی کو اللہ نے واپس بلالیااوربرسوں تلک اس کاکرتہ اس کی چشم نم کے وضوکیلئے کافی رہا۔

نئی مملکت خدادادپاکستان میں مہاجرکالیبل لگائے (لائلپور)فیصل آبادبراجمان ہونا پڑا۔شدیدغربت آڑے آئی’تنگ وتاریک گھر’ شہرکااجنبی ماحول ‘غیر مانوس درودیوار’ مقامی زبان سے مکمل ناآشنائی’ایک دفعہ پھر کڑی امتحان وآزمائش کادور شروع ہوگیا۔یہی وہ ماہ وسال تھے جب اس مکان میں ایک کمرہ جسے ”پرلااندر”کہتے تھے ‘میں نے زندگی کاپہلا سانس لیا تھا۔اس گھرمیں میری ماں کے علاوہ دوسرے تین مہاجرخاندان بھی آبادتھے ‘یعنی ایک کمرہ پورے خاندان کے حصے میں آیا ہواتھا۔اب میرے پہلے سانس کاوقت ۵/اکتوبر۱۹۵۱ء نیم شب نمازفجرسے دوگھنٹے پہلے کامجھے بتایاگیاکہ والد محترم اورقبلہ شاہ صاحب کے ساتھ مسجدمیں تہجدکیلئے تشریف لیجاچکے تھے’ مسجدمیں ہی ان کومیری آمدکی اطلاع پہنچائی گئی جہاں مسجدکے چندآشنانمازیوں سے مبارکبادوصول کرکے فوری گھر تشریف لائے۔قبلہ شاہ صاحب کی گودمیں پہنچادیا گیاجنہوں نے کانوں میں اذان دینے بعدشہدچٹایااورکچھ دیرتک اپنی زبان مبارک بھی میرے منہ میں رکھ دی جسے میں چوستا رہا�میں کبھی کبھارتخیل میں پرواز کرتاہوا یہ سوچتاہوں کہ یہ گھڑی ایسی ہوگی جب فضامیں سورج چمک رہاہوگا یاغروب ہورہاہوگایاپھر یہ وقت رات کا کوئی پہرہوگا جب وقت کے بیکراں افق سے خوشی کی کوئی کرن پھوٹی ہوگی جس نے میرے ماں باپ کے چہروں پرمسکراہٹ بکھیری کہ اس مبارک وقت میں قبلہ شاہ صاحب اس چھوٹے اورمعمولی سے گھر میں ایک دن قبل ہی انہیں میزبانی کاشرف بخشنے کیلئے تشریف لے آئے اورمیں اپنے ماں باپ کی زندہ آرزو کی شکل میں ان کی گود میں ڈال دیاگیااوروہ ساری عمراس بات پرنازاں رہے ۔

میرے ماں باپ بچپن میں اکثر مجھے بتایاکرتےکہ ایک بہت ہی بڑے آدمی نے میرے کان میں اذان دی اورمیرے ہونٹوں سے شہد لگایااوراپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی تاکہ میں جی بھرکراسے چوستارہوں ‘یہ شائد اس لئے کہ باقی عمر بار بار زندگی کے زہرآلود قطرے میرے حلق سے نیچے اترنے والے تھے۔جب میں بچہ تھاتومیں کئی مرتبہ اپنی ماں کوآٹاگوندھتے یاکسی کمرے میں جھاڑو دیتے ہوئے اس عالم میں دیکھاکہ یکلخت وہ اپنے ہاتھ روک کراوپرٹکٹکی باندھے اللہ سے خاموشی کی زبان میں گفتگوکررہی ہے اورپھر اپنے دوپٹے کے پلو سے آنکھوں کوپونچھ کراپنے کام میں دوبارہ مشغول ہوجاتی تھی لیکن بھیگی آنکھوں کے کونے مجھے وہ سب کچھ بتادیتے تھے جوماں ہمیشہ مجھ سے محض اس لئے چھپا تی تھی کہ میں کہیں پریشان نہ ہوجاؤں۔مجھے یہ کافی دیربعدپتہ چلاکہ یہ اپنے پہلے لخت جگرجس کانام اسداللہ تھا،کوکبحی بحی بھلانہ پائی تھیں….

ایسے میں یقیناًانہیں وہ خواب یادآتے ہونگے جوانہوں نے اپنے پیاکے گھرآنے سے پہلے اپنی آنکھوں میں بسائے تھے۔اپنے خوابوں میں خوش شکل’خوش لباس شوہرکودیکھاہوگا’اچھی آمدنی اورگھرمیں خوشحالی کے بارے میں سوچاہوگا’ایک خوبصورت کشادہ مکان کانقشہ بھی خیالوں میں بسایاہوگااوربعدمیں اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے صبرکاوافر پھل بھی عنائت فرمایا’دنیاکی تمام نعمتوں سے انہیں سرفرازبھی فرمایالیکن اپنی ماں اوربھائیوں کی جدائی کوبری طرح محسوس کرتے ہوئے بہت پریشان رہتی تھیں جومقبوضہ کشمیر میں مقیم تھے جہاں دوملکوں میں کشیدگی اور تقسیم کی بناء پران سے ملنے کی کوئی سبیل نہیں تھی اور ان حالات میں ان کی خاموش آنکھوں سے جاری آنسوؤں کااندراج اللہ کے حضوردرج ہوتارہتاتھا۔

اس وحشت انگیز فضامیں میری ماں کے ہونٹوں پراس دن بڑا بھرپورتبسم رقص کناں تھاجب وہ مجھے پہلے دن اسکول روانہ کر رہی تھی۔میری ماں کواس دن کابہت انتظار تھا’یہی وجہ ہے کہ مجھے چارسال کی عمرسے بھی کچھ پہلے اسکول میں داخل کروادیاگیاتھا۔مجھے اس لمحے کی شفقت اوران کے ہاتھوں کالمس آج بھی یادہے ۔مجھے بہت ہی خوبصورت اجلے لباس میں تیارکرکے میرے گلے میں ایک چھوٹاسا بستہ ڈال کرایک ننھی سی تختی میرے ہاتھ میں تھمادی گئی تھی۔رخصت کرنے سے پہلے اپنے دوپٹے کے ایک کونے کی گرہ کھول کر دوپیسے نکالے’میراماتھاچومااورپیسے ہاتھ میں تھمادیئے اوربڑی محبت سے فرمایا:
’’سمیع کوئی گندبلانہ کھانا”میں نے اثبات میں سرہلایا’وہ پھر میرے ساتھ گھرکی سیڑھیوں تک آئیں اورایک دفعہ پھر وہی تاکیدکرتے ہوئے گھریلوملازم کو بھی نصیحت کی کہ راستے میں سائیکل ‘تانگے گھوڑے سے بچ کرچلنا۔گلی کاآدھاراستہ طے کرکے جونہی موڑمڑنے لگاتودیکھاتومیری ماں دروازے پرہی کھڑی تھیں اوران کے ساتھ خادم ڈرائیور کی بیوی کے علاوہ دوسری عورتیں بھی کھڑی تھیں۔میری ماں نے یقیناانہیں بتایا ہوگاکہ اس کابیٹاپہلے دن اسکول جارہاہے۔

مجھے اسکول سے آتے جاتے میری ماں بڑی عجیب نگاہوں سے دیکھاکرتی تھیں’ان نظروں کی کیفیت میں اس وقت کم عمری کی وجہ سے کبھی نہ سمجھ سکا لیکن کئی سالوں کے بعداس مسکراہٹ وفخروانبساط نگاہوں کامعمہ حل ہواکہ ان کے بچے نے جہالت کے اندھیروں سے نکل کر علم کی روشن دنیامیں قدم رکھاتھا اورپورے خاندان میں سب سے زیادہ فخرسمیٹنے کی فکر بھی میری ماں کولاحق تھی۔علم سے بے بہرہ ہونے کے باوجودعلم کیلئے ان کے دل میں بڑااحترام تھا۔ میری تختی اوربستے کا اس قدرخیال جیسے کوئی بہت بڑاخزانہ ان کے ہاتھ لگ گیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ صبح فجرکی اذان سے قبل ہی اپنا بستر چھوڑ دیتی تھی۔وضو کرکے گیلے ہونٹوں کے لمس کے ساتھ ہم سب بہن بھائیوں کواٹھایاجاتا’نمازکاباقاعدہ اہتمام ہوتا’ہمارے ساتھ قرآن کریم رحل میں لیکر بیٹھ جاتیں۔دعا مانگ کرقرآن مجیدجزدان میں لپیٹ کرایک لمبی دعامانگناشروع کردیتیں اس وقت تک آنکھیں بندرہتیں جب تک دعامکمل نہ ہوجاتی’گویارب کے ہاں عملاً اشک بارہوکرہم سب کی سلامتی وترقی کی دعائیں مانگ کراپنے پلوسے آنکھیں صاف کرکے یکے بعد دیگرے سب بچوں کے منہ پرضروربالضرو پھونک مارتیں’وہ سمجھتے تھیں کہ اس طرح وہ اپنی اولاد کوطویل زندگی اوراللہ کی حفاظت میں سونپ رہی ہیں۔
ماں جی کواپنے ہربچے کابہت خیال رہتاتھا’اس کے کھانے پینے ‘اس کے کپڑے لتے کی صفائی ستھرائی کااورحتیٰ کہ جوتوں کی پالش کابھی خاص خیال رکھاجاتا تھا۔کوئی بچہ معمولی سابھی بیمارہوجاتاتوان کی جان پربن آتی ‘جب تک وہ مکمل صحت یاب نہ ہوجاتااس کے بستر کے ساتھ لگ کربیٹھ جاتیں ۔سردیوں میں ہر روزرات کوسونے سے قبل ہربچے کے منہ پرخوداپنے ہاتھوں سے ویسلین لگانا’آنکھوں میں سرمہ ڈالناایک معمول تھااور یہ سرمہ بھی گھر میں بڑی محنت اورمشقت کے ساتھ تیار کیاجاتابلکہ اس کی شہرت تو پورے محلے بھرمیں تھی اوراس کوباقاعدہ تقسیم کاعمل بھی جاری رہتا۔انہوں نے ساری زندگی اپنے لئے کچھ طلب نہ کیا۔گھرکے سب افراد کو کھانا کھلاکرجوکچھ بھی بچ جاتااس سے پیٹ بھرلیتیں۔ناشتے میں گھروالوں کوتازہ پراٹھے اورپڑھنے والے بچوں کوباداموں والے دودھ کے ساتھ گھی کی”چوری”ملتی اورخود رات کی روٹی کوپانی میں گیلا کرکے توے پرڈال کراپنے لئے پراٹھا تیارکرلیتیں ‘اور اپنے لئے یہ اہتمام وہ اس طرح کرتی تھیں جیسے یہ بھی کوئی روزمرہ ہی کا کوئی معمول ہے۔دراصل ہماری تربیت کیلئے یہ مشق جاری رہتی کہ رزق کااحترام ہرحال میں بہت ضروری ہے۔

محلے بھر کی کئی خواتین کاتانتابندھارہتا’سب کے دکھ سکھ کی ساتھی تھیں۔جب کوئی خاتون اپنے گھرکے کسی دکھڑے کا ذکرکرتے ہوئے روناشروع کرتی تواس کو حوصلہ دیتے وقت خودبھی بہت اشک بارہوتیں۔پڑوسن سمجھتی کہ میری ماں بھی اس کے غم میں برابرکی شریک ہے ‘اسے کیاخبر کہ میری ماں کابھی کوئی اپناغم ہے ‘اپنادکھ بھی ہے جس کااظہاروہ صرف انہی آنسوؤں کی صورت میں اداکرتی ہیں۔میری ماں آٹھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اوریہاں پاکستان میں اس کے صرف دوبھائی موجودتھے جووطن کےبٹوارے میں میری ماں کے ساتھ ہی پاکستان میں آگئے تھے۔وہ جب بھی گھرمیں آتے ‘میری ماں ان کی خوب خاطر تواضع کرتی جیسےاپنی زندگی سے بالکل مطمئن ہے،ہرطرح سے خوش ہے۔جب میرے اندرسوچنے سمجھنے کاکچھ شعوربڑھاتومیں کبھی کبھی یہ خیال کرنے لگا کہ میری ماں یاتوبالکل بے حس ہوچکی ہے کہ کسی بھی بات کاکوئی اثر قبول نہیں کرتی یاپھران کادل ایک ایساسمندربن گیاہےجس میں جوکچھ بھی ڈالاجائے وہ فوری طورپرچپ چاپ نیچے گہرائیوں میں پہنچ جاتاہے اورسطح ویسی کی ویسی رہتی ہے۔

بوڑھی ساس صدموں سے نڈھال اپناذہنی توازن کھوچکی تھیں’ان کی بچوں سے زیادہ دیکھ بھال ہوتی تھی۔یہ تواللہ کاشکر ہے کہ میری ماں اس ماحول کی گھٹن سے اپناذہنی توازن برقراررکھے ہوئے اس سارے کنبے کی دیکھ بھال میں دن رات مصروف رہتی تھی۔برسوں کی سخت محنت دیکھ بھال اورخدمت سے معجزاتی طورپرمیری دادی کاذہنی توازن بالکل ٹھیک ہوگیا جس کی خوشی سب سے زیادہ میری ماں کوتھی کہ گویااسے دنیامیں جنت مل گئی ہو.کبھی کبھارتومیں اپنی ماں کی بے بسی یابے حسی پرکڑھ کر اکیلے میں بہت رویاکرتاتھا’دعاکیاکرتاتھاکہ یااللہ اگلی نمودار ہونے والی صبح کومجھے اس قابل کردے کہ میں اپنی ماں کے ان دکھوں کا مداوا بن سکوں لیکن ہائے افسوس!ایسابہت دیرسے اوربہت کم وقت کیلئے ہوا۔

میری ماں گھرمیں ہرشخص کی خدمت اس اندازمیں کرتیں جیسے وہ کوئی بہت خوشگوارذمہ داری سرانجام دے رہی ہیں گویاان کاحق لوٹارہی ہیں۔ہرایک کوبڑی اہمیت دے رہی ہیں اوریہ اسی اہمیت ومحبت کاتقاضہ ہے کہ وہ کبھی اپنی بوڑھی ساس کی دیکھ بھال کواپنا ایمان سمجھتی اورکبھی گھرکے دوسرے افرادکے حقوق کی خاطر دن رات تج رہی ہوتیں۔ انہی کی دیکھ بھال اورسخت محنت نے بوڑھی ساس جوکہ ان کی پھوپھی بھی تھی چند سالوں کے بعد صحت یاب ہوگئیں اوراپنی نارمل زندگی میں ان کی مثالی محبت کایہ عالم تھاکہ کبھی اپنے دوسرے بیٹے کے ہاں جانے کی نوبت آتی توشام سے پہلے واپس لوٹ آتیں کہ کسی اوربیٹے کے گھرمیں ان کادل نہیں ٹھہرتا تھا۔میری ماں نے کبھی بھی کسی سسرالی خاندان کی خدمت سے جی نہیں چرایا۔کئی بار ایسا بھی ہواکہ اچانک مہمان آگئے لیکن ایسا کبھی نہ ہواکہ ان کی خاطرمدارت میں کوئی کسررہ گئی ہوچاہے اس کیلئے بعدمیں ان کوخودپیازکوٹ کرروٹی کے ساتھ کھانے کوملی ہو’ان کاایمان تھاکہ مہمان اللہ کی طرف سے رحمت اوررزق کی فراوانی کاسندیسہ لیکر آتاہے۔”لیکن آپ کیوں پھر سوکھی روٹی کے ساتھ پیازکوٹ کرکھارہی ہیں”میرے اس سوال پر بڑی محبت سے اسلاف کی مثالیں دیکرمعاملہ کوٹال دیتیں۔

گھرکے تمام افرادکے لباس کاخاص خیال رکھتیں ‘ہرایک کے تین تین چارچار جوڑے ٹرنکوں میں محفوظ ہوتے لیکن خودان کے پاس دوجوڑے ہوتے’ ایک زیر استعمال ہوتا تودوسراکہیں اچانک باہرجانے کیلئے محفوظ رہتا۔طبیعت میں بلاکی سادگی’ سخت سردی میں انہیں سویٹرپہننے کیلئے مجبورکیاجاتاتوتھوڑی دیر کے بعدیہ کہہ کراس سے جان چھڑالی جاتی کہ گھرکے کام کاج میں ہرج ہورہاہے’ابھی فارغ ہوکرپہن لیتی ہوں لیکن رات گئے تک فراغت کہاں؟نچلی منزل سے دوسری اورتیسری منزل تک پانی لیجانے کی مشقت پربھی کبھی کسی سے کوئی شکائت نہیں کی۔صفائی ستھرائی کااس قدرخیال گویاواقعی صفائی نصف ایمان والی حدیث پرعملاً یقین۔پاکیزگی کایہ عالم کہ برتنوں کوکئی دفعہ مانجھاجاتا’ان پرکلمہ شہادت پڑھ کر پھونکاجاتاتوتب جا کران کے دل کوتسلی ہوتی’اوراس کے بعدکسی جالی دارکپڑے کے ساتھ تمام برتنوں کوڈھانپ دیاجاتا۔ استعمال کے وقت دوباہ پانی سے کھنگال کرطہارت کی مہر لگائی جاتی۔

یہی حال لباس اوربدنی طہارت کاہوتاتھا’کیامجال ہے کہ کبھی گھرمیں اکیلے میں بھی سرسے دوپٹہ اتراہو یاکبھی ننگے سر کھاناپکایاہو۔اس کووہ انتہائی شیطانی اوربے برکت عمل سمجھتی تھیں۔ میں نے انتہائی گرمیوں میں بھی ان کے معمول میں کوئی فرق نہیں دیکھااورکبھی بھی شکائت کااظہارنہیں کیا۔ان کی یہ توعادت میں شامل تھاکہ کھاناپکاتے وقت کلمہ شہادت اورمسلسل درودشریف کاوردکرتی رہتی اورہمیشہ وضو میں رہتی کہ پتہ نہیں کب قضاکافرشتہ آجائے اوراس کام کی مہلت نہ ملے۔کام کی زیادتی کی وجہ سے ان کے ہاتھوں کی نرمی میں بہت کمی واقع ہوچکی تھی حالانکہ گھرمیں ملازمہ بھی موجود رہتی تھی۔اس ملازمہ کاخیال بھی اس حد تک رکھاکہ اس نے بھی مرتے دم تک اس گھرکی چوکھٹ نہیں چھوڑی بلکہ اس کو گھرمیں ”ماسی”کادرجہ دیکرتمام امتیازہی ختم کردیا۔

گھرمیں سال بھرکیلئے گندم اورچاول کااسٹاک کرلیاجاتاتھا۔گندم اورچاول کی ستھرائی کیلئے کبھی کسی سے مددطلب نہیں کی البتہ یہ دیکھاگیاکہ محلے کی کچھ مخصوص خواتین اکٹھی ہوتیں ‘کسی صاف فرش پرگندم یاچاول کی ستھرائی کاکام جاری ہوجاتااورساتھ ساتھ ان کی خدمت مدارت اورمہمان نوازی کا سلسلہ بھی’اس طرح وہ خواتین اپنے دکھوں اورغموں کابوجھ بھی ہلکاکرلیتیں اورماں جی جاتے ہوئے ان کے ساتھ ان کاحصہ بھی بطورتحفے کے ساتھ کردیتیں۔ہم سب بہن بھائی ان خواتین کووالدہ محترمہ کی ”کابینہ”سے موسوم کرتے تواس پرکبھی کبھی مسکراکرلطف اندوز بھی ہوتیں۔صبح سے لیکر شام تک اوربعض اوقات آدھی رات تک کام میں مصروف رہناتوایک معمول بن چکاتھا’ایسے میں کسی واضح تاثرکی نشاندہی ان کے چہرے سے نہیں ہوسکتی تھی’ہاں ان لمحوں میں ان کاچہرہ ضرورکھل اٹھتاجب ہم سب بہن بھائی امتحان میں اپنی کامیابی کی خبرسناتے’ اس وقت ان کاچہرہ خوشی سے جگمگااٹھتا۔جب ہم میں سے کوئی قرآن کریم ناظرہ مکمل پڑھنے کی اطلاع دیتاتوفوری کچھ خاص رقم مسجد کے تیل کیلئے روانہ کردی جاتی جبکہ ہم سب بھائی یہ ضرورکہتے کہ اب تومسجد میں برسوں سے بجلی کا استعمال جاری ہے لیکن ان کے معمول میں کوئی فرق نہیں آتا۔خصوصاً میراپانچ سال کی عمرمیں قرآن کریم ناظرہ پڑھ لینااورکئی سورتوں کاحفظ توان کیلئے اللہ کابڑاانعام تھا۔

میں نے انہیں کبھی بیمارہوتے نہیں دیکھا۔زیادہ صحیح یہ ہے کہ انہیں علیل ہوکر چارپائی پرلیٹے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا۔سرمیں دردہوتاتوایک رومال کس کرباندھ لیاجاتا’گویاسردردکوکوئی سزادی جارہی ہویاپھر کبھی کبھاراپنی ہی انگلیوں کی پوروں سے دباتی رہتیں۔ایک دن مجھ سے دم پڑھنے کوکہا’مجھے کچھ اورنہ سوجھی فوراً آنکھیں بندکرکے چاروں قل ‘آیت الکرسی کے ساتھ درود شریف پڑھ کر پھونک ماری اوردل میں اپنے اللہ سے التجاکی کہ مجھ سے اس قدرمحبت کرنے والی ماں کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی ۔اللہ کی کرنی کہ میری والدہ کاسردردکیاختم ہواکہ میں سارے گھرمیں اسی کام کیلئے مشہورہوگیابلکہ بعض اوقات یہ ذمہ داری مجھے والدہ کی کابینہ کے ساتھ بھی نبھانی پڑتی۔آج سوچتاہوں کس قدرمیرا رب کریم ہے کہ اس نے میری ہمیشہ لاج رکھی حالانکہ یہ سب توماں جی کی محبت اوریقین کاکمال تھاکہ دواسے زیادہ دعاپر بھروسہ کرتی تھیں۔

گھرکے اخراجات میں سے پس اندازکرکے محلے کے غریبوں اورناداروں کی امداد اس طرح کرتیں کہ واقعی دوسرے ہاتھ کواس کاعلم نہ ہوتا۔کئی مرتبہ اپنے بھائیوں کی مالی امداداس طرح فرمائی کہ کسی کوکانوں کان خبر نہ ہوئی۔گویاحقوق العبادکابھی پوراخیال۔ بڑی بیٹی کی شادی کی پھربھی ساری عمراس کی پرورش اپنے ذمہ رکھی۔اس کی بڑی اولادکوگھرکے افرادسے ممتاز کرکے ایسی پرورش کی جس کی مثال نہیں ملتی۔آخرایک اور صدمہ بھی منتظرتھا۔گھرسے بوڑھی ساس کاسایہ اٹھ گیا’ گویا رحمتوں اوربرکتوں کی ایک فیکٹری بندہوگئی۔ساری عمرجس کی ماں سمجھ کر خدمت کی ‘اسی نے ساتھ چھوڑدیا۔سب لوگ وطن کی یومِ آزادی کے سلسلے میں چراغاں کااہتمام کررہے تھے کہ گھرسے روشنی کاچراغ بجھ گیا۔ابھی ان کی یادیں تازہ تھیں کہ وطن کوجنگ کے دھماکوں نے ہلاکررکھ دیا۔رات کومکمل بلیک آؤٹ کاعالم ہوتا’یکایک سائرن کی آوازگونجتی کہ دشمن نے فضائی حملہ کردیاہے’اینٹی کرافٹ توپیں جب شعلے اگلتیں توشہرکے دروبام اس طرح کانپتے جس طرح تنہائی میں گناہ گار کادل کانپتا ہے۔وہ سترہ دن بہت جذباتی گزرے۔

پھرکشمیری مہاجرین کاسیلاب امڈآیا۔میراننھیال بھی کشمیرسے ہجرت کرکے پاکستان آن پہنچا۔مجھے اس دن کاوہ انتہائی جذباتی منظر آج بھی یادہے جب میری ماں نے پورے اٹھارہ سال کے بعداپنی ماں کواچانک دیکھا۔میری ماں پرغشی کی کیفیت طاری ہوگئی’پھراچانک ماں سے گلے لگ کرروناشروع کیاتوشادیٔ مرگ کی یہ کیفیت کئی گھنٹے قائم رہی۔شائدیہ خوشی بھی پوری طرح راس نہ آئی کہ ٹھیک ساڑھے تین ماہ بعد شوہرکی دائمی جدائی کاصدمہ جھیلناپڑگیا۔

بیٹھے تھے گھنی چھاؤں میں اس کی خبرنہ تھی
بڑھ جائے گی دھوپ اوریہ سایہ نہ رہے گا

اک رفاقت اورمحبت کاجوتاج محل تیارکیاتھا’اس طرح آناً فاناًمسمارہوجائے گا’تیزگرم ہواکے جھونکے سرکی چادر کونشانہ بنائیں گے’ زمانے کی دھوپ اس شدت سے دل کے آشیاں کوجلاکرراکھ کردے گی’یہ تومیری ماں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ۔اب ماں جی کا ایک دوسراروپ شروع ہوگیا۔چھوٹے چھوٹے بچوں کی کفالت کابوجھ سرپرآن پڑا۔اس میں شک نہیں کہ ترکہ میں ایک انتہائی منافع بخش ہوٹل کاکاروبارموجودتھالیکن اعتبارکے ہاتھوں دھوکہ کھاگئیں۔ بالآخر تھک ہارکرمجھے ایک دن اس کام کوسنبھالنے کی دعوت دی۔اللہ کاشکرہے کہ کمسنی میں بہت ہی تلخ تجربات کے بعد اس کاروبارکونہ صرف سنبھال لیابلکہ پہلے پانچ سالوں میں ہی اس کوپہلے سے زیادہ ترقی دیکرمزیدمنافع بخش کاروباربنادیااورمیری ماں کی بے بسی ایک دفعہ پھرخوشحالی میں بدل گئی۔یقیناً اللہ کے فضل کے ساتھ ماں کی نیم شب دعاؤں کابہت بڑاعمل دخل تھا لیکن میری ماں کو میری تھکادینے والی ڈیوٹی پربڑی تشویش رہتی کہ کم عمری میں کس مشقت اورعذاب میں مبتلاہوناپڑگیالیکن میں اس بات پرخوش تھاکہ برسوں کی آرزو”ماں کی خدمت”کی تکمیل کیلئے اللہ نےتوفیق عنائت فرمائی۔اس کاروبار کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

بالآخرگھر کے فرائض یعنی بہن کی شادی سے بھی فراغت مل گئی اوراب ایک دن ایساآیاکہ مجھے اپنی ماں سے اپنے مستقبل کیلئے ملک چھوڑنے کی اجازت کی درخواست دینی پڑی جس کوسن کر ایک لمحہ تومیری ماں سکتے میں آگئی لیکن بالآخر کئی دنوں کی منت سماجت کے بعد یہ اجازت بھی مل گئی۔پہلے تین سالوں میں تعلیم کی تکمیل کے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بطورکنسلٹنٹ انجینئرکی بہترین ملازمت کابھی بندوبست ہوگیا۔اب میری ماں کوگھرمیں بہو لانے کابڑاارمان تھا ‘اللہ نے وہ بھی پوراکردیااورسال بعد جب اللہ نے پوتے کی نعمت سے نوازاتوایک عرصے کے بعدمیں نے ان کواس قدر مسرورپایا ۔سارے شہرمیں پوتے کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے کااہتمام فرمایا۔پہلی دفعہ جب پوتے کوگودمیں لیاتویہ فرمایاکہ میں نے آج ہی اپنے پالتوطوطے کوآزادکردیاہے۔قسمت اب بھی کھڑی مسکرارہی تھی گویاطنزکررہی ہوکہ آج تک تمہیں اورکونسی خوشیاں راس آئیں ہیں۔اس خوشی کے ٹھیک ایک ماہ بعدسرمیں اچانک شدیددرداٹھاکہ ہسپتال جاکرتھوڑی سی ہوش آئی۔ ماں کوساری عمر صدمے سہتے سہتے زندگی بھرکانٹوں پرسفرطے کرتی ہوئی آج جوہسپتال پہنچی توگویااس نے اعلان کردیا کہ اب تھک گئی ہوں اوردم رخصت کی طلب گارہوں۔

صیاد نے تیرے اسیروں کوآخریہ کہہ کر چھوڑدیا
یہ لوگ قفس میں رہ کربھی گلشن کانظارہ کرتے ہیں

ہسپتال میں پتہ چلاکہ دماغ کی شریان پھٹ گئی ہے۔میری ماں جس نے ساری عمراطاعت’خدمت گزاری میں نبھادی آج اس نے لمبی چپ سادھ لی۔ ایک ہفتہ مسلسل کس طرح ہسپتال میں گزرا’یہ ایک لمبی داستان ہے۔وہ اعضاء جن کی طاقت و ہمت کی گواہی ایک زمانے نے دی آج ساتھ چھوڑ گئے۔وہ دل جوہزاروں کیلئے دھڑکتاتھا’آج اپنی ذات سے بے وفائی کرگیا۔ میری ماں جن کاسرمیری گودمیں تھا’ آنکھیں کھولیں’آخری بارحسرت سے مجھے دیکھا’ آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے نکلے جوبہہ کرتکئے میں جذب ہوناچاہتے تھے لیکن میرے دامن میں اس طرح محفوظ ہوگئے جیسے ماں نے آج پوری زندگی کاخراج اداکردیاہو۔بشارت دوڑکر ڈاکٹرکوبلالیالیکن ان کی آمد سے پہلے میری ماں نے کلمہ پڑھا’چہرہ اورگردن قبلے کی طرف اس طرح مڑگئی کہ مجھے اس بات کاپتہ ہی نہ چل سکاکہ میری ماں کی یہ مسکراہٹ آخری ہے جومیری آنکھوں کابہترین سرمایہ حیات بن کرآج بھی میری یادوں کے گلشن کاایک نمایاں گلدستہ بن کرمیری زندگی کے گلستاں کومہکاتی رہے گی اوریہ مجھے دنیاکے تمام خزائن سے عزیزہے۔

انااللہ واناالیہ راجعون

میری ماں آج اس دنیامیں نہیں ‘جب میں سوچتاہوں کہ ماں جی کی کوئی ایسی قابل ذکر خدمت تونہ کرسکا لیکن جس ماں کی کوکھ اورگودسے میں نے اپنی زندگی کاآغازکیاوہاں آج میری ماں نے میری گودمیں سررکھ کرسفرآخرت کا آغازکیا۔میں توان کوخوشی کے چندسال ہی دے سکاتومیرادل ایک انجانی مسرت سے تفاخرمحسوس کرتاہے ‘جیسے میرے دل کی سوگوار ویرانیوں میں ایک نغمہ شیریں گونج اٹھتاہےیاگرمی کی تپتی ہوئی فضامیں کہیں سے بادِ بہارکاایک خوشگوارجھونکا میرے دل میں اترگیاہے۔میری ماں تو اس دنیامیں نہیں مگریہ کس کاہاتھ ہے جومایوسیوں کے ہجوم میں میرے سرپر آہستہ آہستہ پھرنے لگتاہے۔یہ کس کی انگلیاں ہیں جومیرے گیلے گالوں کو چھونے لگتی ہیں اورمیرے سارے آنسوخشک ہوجاتے ہیں۔یہ کس کاچہرہ ہے جومیرے غم کی تاریکیوں میں طلوع ہوکرہرطرف میرے تفاخرکی روشنی بکھیردیتاہے’یقیناًماں جی ‘ہاں ہاں ماں جی ہیں!

دل کی جن سے تھیں بستیاں آباد
اب کہاں ہیں وہ ہستیاں آباد

(والدہ محترمہ کی برسی کے موقع پر)

اپنا تبصرہ بھیجیں