یومِ دفاع…مز احمت کی طاقت

:Share

مزاحمتی قوت گر تے ہوؤں کو پیروں پر کھڑا کر تی ہے ،ڈوبتے ہوؤں کو تیرنے کا حوصلہ دیتی ہے اور سا حل پر لاپٹختی ہے۔بیمار کو بیما ری سے جنگ میں فتح یاب کر تی ہے (اللہ کے حکم سے )بجھتے د یئے کی لو بجھنے سے پہلے تیز ہو جا تی ہے،کیوں؟شا ید دیا دیر تک جلنا چا ہتا ہے۔یہ اس کی مز احمت ہے ۔اندھیروں کے خلاف کبھی کوئی مسا فرکسی جنگل میں درندوں کے درمیان گھر جائے تو تنہا ہی مقابلہ کر تا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چا رہ نہیں ہو تا ۔ ایک نا تواں مر یض جوبستر سے اٹھ کر پا نی نہیں پی سکتا نا گہا نی آفت کی صورت میں چھلا نگ لگا کر بستر سے نیچے کود سکتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مر یض میں وہ مز احمتی قوت مو جو د تھی جس کا اس کو خود بھی اندازہ نہیں تھا۔خطرے کے احساس نے اس قوت کو بیدار کر دیا۔یہی وہ قوت ہے جو کمزوروں کو طا قتور سے ٹکرا دیتی ہے ،کبو تر کے تن نازک میں شا ہین کا جگر ہ پیداہو جا تا ہے،چیو نٹی ہا تھی کے مقا بلے میں اترآتی ہے،مظلو م کی آنکھیں قہر بر ساتی اور سلگتے انگارے شعلہ جوالہ بن جا تے ہیں۔
لیکن تا ریخ ہمیں یہ بتا تی ہے کہ د نیا وی کا میا بی کے حصول کیلئے مز احمت کمزور پڑ کر سرد ہو جا تی ہے لیکن اگر مز احمت کے ساتھ ” ایمان باللہ”شا مل ہو جائے تو مز احمت کبھی سرد نہیں پڑ تی’راکھ میں کو ئی نہ کوئی چنگاری سلگتی رہتی ہے جہاں مزاحمتی قوت بیدار ہو تو یہ چنگاری بھڑک اٹھتی ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ یہ مز احمتی قوت اس وقت بیدار ہو جب خطرہ حقیقت بن کر سا منے آ جا ئے،جب سر پر لٹکتی تلوار کی نوک شہہ رگ کو چھو نے لگے،جب سر حدوں پر کھڑے مہیب اور دیو ہیکل ٹینکوں اور طیا روں کی گڑ گڑ اہٹ سڑکو ں اور چھتوں پر سنائی دینے لگے۔جب ڈیزی کٹر ،کروز اور ٹام ہاک بم بارش کے قطروں کی طرح برسنے لگیں ۔جب بہت کچھ”گنوا کر”کچھ بچانے کیلئے ہم مزاحمت پر اتر آئیں گے؟
پا کستانی ذمہ داروں نے پہلی مرتبہ خطرہ کودر حقیقت ”دو چار لب بام” سمجھنے کی بجائے انتہائی مناسب جواب دیکرساری قوم کے دل جیت لئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کو ئی قوم لڑے بغیر ہی شکست تسلیم کر لیتی ہے تو یہ جسمانی نہیں ذہنی پسپا ئی ہو تی ہے ۔ایسی قوم کو جسما نی طو ر پر زیر کر نے کیلئے دشمن کو زیا دہ مشکل نہیں اٹھا نی پڑتی۔ہلا کو خان کی فو جیں کھو پڑیوں کے میناریوں ہی نہیںتعمیر کر لیا کر تی تھیں۔صلا ح الدین ایو بی نے جب ”ملت اسلا میہ”کا نام لیا تو ایک غدار فو جی افسر طنزیہ مسکرا اٹھا،کون سی ملت اسلامیہ؟یہ ذہنی پسپائی کی سب سے گری ہو ئی شکل تھی کہ ایک دیو ہیکل انسان اپنے ہی وجود سے انکا ری تھا۔لیکن صلا ح الدین ایوبی نے مز احمت کی قوت کے ساتھ ایمان کو جمع کر کے خلیفہ ثانی حضرت عمر فا روق
کے بعدبیت المقدس نا پاک ہا تھوں سے چھین لیا۔
آج ہمیں ثابت قدمی سے میدان میں کھڑادیکھ کر ہما را دشمن پہلے سے بڑھ کر مصیبت مو ل لے چکا ہے۔ایک یقینی شکست کے امکان کے با وجود محض دنیا پر ظا ہری غلبے کی خو اہش نے اسے ایک ایسی دلدل میں اتار دیا ہے جہاں اگلا قدم اس کی ظاہری شان و شوکت اور مصنوعی ہیبت کا جنا زہ نکال کر رکھ دے گا۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمیں گھروں میں بیٹھے ہیبت زدہ کرنے کی ناکام کوشش کے بعدوہ سارے لا ؤ لشکر کے باوجود زیادہ خوفزدہ ہے۔اس کی چڑھا ئی میں شیر جیسی بے جگری نہیں بلکہ لو مڑی جیسی عیاری ہے۔اب وہ ہمیں دیوار سے لگانے کیلئے پس پردہ دوسرے اقدامات کرنے سے بازنہیں آئے گایعنی ہمیں سیاسی اورمعاشی فتنوں میں مبتلاکرے گاپس آ ج ہمیں ا پنی مز احمتی قوت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ”ایمان ” ہے اور اس قوت کو مضبوط کر نے والی قوت ”اللہ کی نصرت” ہے اوراللہ کی نصرت کیلئے اس کی مکمل حاکمیت کاعملی اعلان کرناہوگا۔جب مو من اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے تو مز احمت میں اللہ کی نصرت نا زل ہو کر اس کو کا میابی سے ہمکنار کر تی ہے۔تا ریخ اسلام کے صفحات پر ایسی روشن مثا لیں ان گنت تعداد میں جگمگا رہی ہیں جب نہتے مسلما نوں کی مز احمت نے وقت کے فرعونوں کو زخم چا ٹنے پر مجبور کر دیا ۔آج بھی دنیا بھر میں مز احمتی تحریکیں پوری شان سے جا ری ہیں ۔پتھر نے ٹینک سے شکست نہیں کھا ئی ،دنیا دیکھ رہی ہے کہ معمولی ہتھیا روں سے جدید ٹیکنا لو جی کا مقا بلہ جا ری ہے ۔جتنا ظلم بڑھتا جا رہا ہے اتنی ہی شدت سے مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔
لیکن کیا مزاحمت کی صرف ایک ہی صورت ہے؟جب کو ئی جابر وقت ا پنے لشکروں کے زعم میں کسی قوم پر چڑھ دوڑتا ہے تو ہرمظلوم ہا تھ ہتھیار اٹھا لیتا ہے ۔یہ یقینی امر ہے کہ ایسے وقت میں اس کے بغیر مز احمت کی کوئی اور صورت نہیں ہو تی لیکن اس سے بھی پہلا مر حلہ کبھی نہیں بھو لنا چا ہئے اور ہمیں یا د رکھنا ہو گا کہ مز احمت ”ایمان” کے بغیر کچھ نہیں،لہندا ایسا کڑا وقت آ نے سے پہلے ”ایمان” کو بچانا اور قائم رکھنا اشد ضروری ہے ۔ ایمان کی کمزوری ہی ذہنی غلا می اور پسپائی کی طرف لیجا تی ہے ،لہندا ہر اس وار کی مز احمت ضروری ہے جس کا نشانہ آج ایمان بن رہا ہے۔ہما رے نظریات و افکار ،ہما را طرز زندگی،ہما ری تعلیم،ہما ری معیشت،ہما را میڈیا یہ سب وہ میدان ہائے کار زار ہیں جو ہما ری مزاحمتی قوت کے شدت سے منتظر ہیں ۔یہ ڈوب رہے ہیں ان کو سا حل پر کھینچ لا نے کیلئے بھر پو ر تو انا ئیوں کی ضرورت ہے۔آج وہ خطرناک مر حلہ آ چکا ہے جب نحیف و نزار مریض زندگی کی ڈور سلامت رکھنے کیلئے اس پو شیدہ قوت پر انحصار کر تا ہے جو اس کے جسم میں بجلی کی سی طاقت بھر دیتی ہے۔
گو نگے،بہرے اور اندھے بھی اس نا زک دور کی شدت سے کچھ کر گزرنے کو تیار ہو جا ئیں تو جن کو اللہ نے تما م تر توانا ئیوں سے نواز رکھا ہے ان کو اپنی صلا حیتوں سے بھر پور فا ئدہ اٹھا نے سے کس نے ر وک رکھا ہے؟
مسلما نا ن پا کستان نے آج اپنی ا س طاقت کے اس راز کو پا لیا جس کا نام ایمان ہے اور اس کو پختہ کر لیا تو یہ وہ مو رچہ ہے جس میں پناہ لینے والوں کیلئے دائمی فتح کی خوشخبریاں ہیں۔ایمان کی آبیاری وقت کی اولین ضرورت ہے۔مزاحمت ایما نی قوت سے مشروط ہے ،اس کو کھو دیا تو سب کچھ چھن جا ئے گا!!”یادرکھیں اللہ کوپاکبھی کسی نے کچھ نہیں کھویااوراللہ کوکھوکرکبھی کسی نے کچھ نہیں پایا”۔ یہی ہمارے یوم دفاع کا بہترین پیغام ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں