علامہ اقبال بلاشبہ ان مفکرین میں سے ہیں جو کہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے فلسفے اورافکار کی بنیاد پر ان اذہان کی صفوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی فکر اور فلسفہ صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔اسلامی تاریخ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ہر صدی کے بعد ایک مجدد پیدا ہوتا ہے جو اپنے افکار اور جستجو سے مسلم امہ میں روحِ عیسیٰ پھونکتا ہے ‘جس سے احیائے اسلام ہوتی ہے اور ملت اسلامی نئے جذبے اور عزم کے ساتھ عصری تقاضوں سے ہمکنار ہوتی ہے۔بر صغیر میں مجدد الف ثانی کے بعد علامہ اقبال کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ اپنی سوچ و فکر کی بناء پر امہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں’گو کہ اقبال بیسویں صدی کے شاعر تھے لیکن ان کا فکر و پیام آج بھی قوموں کی رہنمائی اور بلندیوں تک رسائی کیلئے کارگر ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ آج بھی ہماری دسترس میں ابلاغ کے بے پناہ ذرائع اور تحقیق کیلئے بے پناہ وسائل موجود ہیں ‘اس کے باوجودہم اب تک افکارِ اقبال کے اصل اسرار ڈھوندنے میں ناکام رہے ہیں ۔ان کی فکر و فلسفہ اس سمندر کی مانند ہے جس کی تہہ میں ایک پوری کائنات پوشیدہ ہے اور اس تہہ کی رسائی کیلئے ایک ذہن رسااور عزمِ صمیم چاہئے۔
اقبال نے جس دور اور ماحول میں آنکھ کھولی’جن حالات میں پرورش پائی ‘اپنے آس پاس جن تہذیبی اقدارکی ٹوٹ پھوٹ دیکھی’والدین کی تربیت کے بعدگھریلو معاشی حالات و واقعات نے ان کی شخصیت کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ہندوستان پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی ‘اگرچہ ان کی حکومت پورے ہندوستان پر کبھی بھی نہیں رہی لیکن اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی ہندوستان کے کثیر علاقے پر وہ حکمران رہے’یہی وجہ ہے کہ انگریز کے دورِ غلامی میں بھی مسلمانوں میں ایک قسم کا احساسِ برتری تھا اور وہ اپنی زبوں حالی کا مداوا اپنے شاندار ماضی کو یاد کرکے کیا کرتے تھے حالانکہ اب حالات بہت بدل چکے تھے اور مسلمان معاشی طور پر بہت کمزور ہو گئے تھے اور نئے آقاانگریزعسکری اور علمی لحاظ سے ان سے برتر تھے اور اپنی حکمت عملی سے نہ صرف اپنی حکومت کو وسیع کر لیا تھا بلکہ اپنے مدمقابل حریف پرتگیزی اور فرانسیسیوں کوبھی پسپا کرکے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف جن مقامی لوگوں نے مزاحمت کی ‘ان میں مسلمان پیش پیش تھے۔ہندوستان کے لوگوں نے اسے ”جنگِ آزادی ”کا نام دیااور انگریزوں نے ”بغاوت”قرار دیا۔انگریزوں نے اس بغاوت کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور مشکوک مسلم زعماء کو چن چن کر قتل کیااور معاشی لحاظ سے مسلمانوں کو غریب تر بنا دیا’اس جنگ کی ناکامی سے ہندوستان کے مسلمانوں میں مایوسی اور بددلی انتہا کو پہنچ گئی۔
قطع نظر اس کے کہ یہ بغاوت تھی یا جنگِ آزادی’یہ مزاحمت یا خروج ناعاقبت اندیشی بے ثمر غم وغصہ پر مبنی تھا۔اس واقعہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں دو قسم کے نمایاں ردِ عمل پیدا ہوئے۔ایک طبقہ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے زوال کااصل سبب ان کی اسلام سے دوری ہے۔وہ نہ قرآن پر عمل پیرا ہیں ‘نہ اسلامی اساسی اقدار سے واقفیت رکھتے ہیں اور نہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔دوسرے طبقے کا خیال تھاکہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب جدید تعلیم سے عدم دلچسپی اور دوری ہے’وہ انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے سرکاری ملازمتیں حاصل نہیں کرپاتے’ان میں دنیا داری کی بھی فراست نہیں ہے اور وہ انگریزی حکومت سے اچھے تعلقات بھی نہیں رکھ رہے’اس طبقے کی نمائندگی سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء کر رہے تھے۔
ان دو نظریات کے باعث برصغیر کے مسلمانوں پر دو اثرات مرتب ہوئے’ایک تو انہوں نے اپنے بچوں کو قرآنی تعلیم دلوانے اور اسلامی ثقافت پر عمل شروع کر دیا کہ وہ کہیں انگریزی ثقافت میں نہ رنگے جائیں ‘دوسرا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی اور کچھ لوگوں نے جدید علوم اور سائنس کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینا شروع کر دی کیونکہ ان کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ انگریزوں کے ساتھ مقابلے کی سکت نہیں رکھتے’ان کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ انگریزوں کی حکومت کو تسلیم کر لیں اور وہ علوم حاصل کریں جن کے ذریعے ان کو ملازمت مل سکے اور وہ معاشی طور پر خوشحال ہو جائیں۔مثبت سوچ رکھنے والا اہلِ علم طبقہ جو تاریخ انسانی اور اسلامی ثقافت سے واقف تھا ‘وہ جانتا تھا کہ انگریزوں کی حکومت صدیوں کی علمی کوششوں کا نتیجہ ہے۔یورپ کئی صدیوں سے غوروفکر کی نئی راہوں پر چل کر ہی کامرانی کی اس منزل پر پہنچا ہے اور تحریکِ احیائے علوم سے جدیدیورپ کا آغاز ہوا تھا۔
یہی وہ وقت تھاجب اقبال اپنے دورِ طالب علمی میں سرسید احمد خاں کی تحریک سے اپنے استاد میر حسن کے توسط سے واقف ہوئے تھے’چونکہ و ہ شروع ہی سے مفکرانہ ذہن رکھتے تھے اس لئے نئے افکار پر توجہ دیتے تھے اورپھر وہ اپنے دور کے علمی اور معاشرتی ماحول کے علاوہ اس زمانے کے سیاسی اور معاشی حالات کے اثرات سے اقبال جیسا حساس نوجوان بے نیاز ہو ہی نہیں سکتا تھا۔اقبال کے سامنے معاشی ناہمواری کے مناظر تھے’یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کی بہتر زندگی کے بارے میں سوچنے کے نتیجے میں ان کی جو سب سے پہلی کتاب طبع ہوئی ‘وہ اقتصادیات کے موضوع پر تھی”علم الاقتصاد” نام کی یہ کتاب ۱۹۰۳ء میں پیسہ اخبارلاہور کے دوسوصفحات پر مشتمل تھی۔
اقبال کی اس کتاب”پاورٹی آف ایلیویشن” کا مرکزی نقطہ یا انسدادِ مفلسی ہے ۔اقبال جیسے انسان دوست نے اس دور میں غربت کی سنگینی کو محسوس کیااور وہ جانتے تھے کہ جن ملکوں میں غربت ہے ‘وہاں جرائم بڑھتے ہی جائیں گے۔ اس دور کا سوچئے جب یہ کتاب لکھی گئی اور پھر آج پر نظر دوڑایئے کہ غربت ختم کرنے کا یہ پروگرام تقریباً ہر غریب اور ترقی یافتہ ملک میں نافذ کیا جا رہا ہے’تمام مہذب انسانوں کی یہی خواہش ہے کہ دنیا سے مفلسی ختم ہوجائے ۔اقبال کے ذہن رسا اور نگاہِ دوررس کی داد دینی پڑتی ہے کہ حالات کے تغیرات کو دیکھ کر مستقبل کی تصویر کو واضح کرنے کی سعی کی۔
اقبال کی سوچوں کے دھاروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کیلئے ان کی شاعری اور مقالات ‘جو وہ وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ‘اس میں ”الارضُ للہ ”کی تفسیر’انسانیت’مردِ کامل کا تصور’نفس’تصوف’اشرف المخلوقات کا کردار’عظمتِ انسان اور انسان دوستی ‘وحدت الوجود’یورپ کی مادیت پرستی’مناظرِ فطرت’فلسفہ خودی’نظریہ خود آفاقیت’سماجی جمہوریت’غیر استحصالی معاشی نظام’سیاسی وطنیت’مسلم امہ کی حالتِ زارغرضیکہ نظریہ انسان دوستی کے تحت اقبالنے کتنے ہی ایسے تشکیلی عناصر گنوائے ہیں جو اس موضوع کو سمجھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔آج ہم اقبال کی شاعری اور افکار پر اظہارِ خیال کرنا چاہتے ہیںتو یہ کہتے ہوئے بالکل نہیں جھجکتے کہ بیسویں صدی تو اقبال کی صدی تھی ہی’اکیسویں صدی بھی علامہ اقبال کی معلوم ہوتی ہے۔اس خطے کے کسی مفکر نے دنیائے اسلام پر اتنا اثر نہیں چھوڑا جتنا کہ علامہ اقبال کے فلسفہ’فکراور شاعری نے چھوڑا ہے۔
مشرق اور مغرب کے علوم کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ‘دنیا کے بڑے بڑے مذہبی مفکرین سے علامہ اقبال کی براہِ راست واقفیت’دورِ جدید کے مغربی
افکار پر ان کی تنقیدی نظر ‘مغرب کی اعلیٰ درسگاہوں میں حصولِ علم اور اہلِ علم سے تبادلہ خیالات کی وجہ سے ان کو وہ وسعتِ نظری اور فکری گہرائی عطا ہوئی جس نے بلا شبہ ان کو بیسویں صدی کا سب سے نمایاں مسلم مفکر بنا دیا ہے
بے خبر!تو جوہرآئینہِ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اوردوسری جگہ یہ فرماتے ہیں:
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیاکہ تو غارت گرباطل بھی تو
اقبال انسانوں کی بنائی ہوئی دنیا کے تاریخی حقائق اور زمینی حقائق کو حرفِ آخر نہیں مانتے بلکہ انسان کو انقلاب کی دعوت دیتے ہیں۔وہ شرفِ انسانیت اور مساواتِ انسانی کو انقلاب کی دعوت دیتے ہیں۔وہ شرفِ انسانیت اور مساواتِ انسانی کے قائل ہیں اور ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں ہر انسان کو احساسِِ شخصیت ہو’جہاں ہر انسان باوقار ہو۔وہ انسان کے ارتقاء کے لا محدود امکانات کے قائل ہیں’ایسے امکانات جس کے دروازے عمل سے وا ہوتے ہیں اور اسی بے عملی کو ایک اضطراب کی صورت میں نمودار دیکھنا چاہتے ہیں۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اگرچہ اقبال کے تصورخودی میں آفاقیت ہے اور ان کا پیغام تمام نوع انسان’ہر نسل’ہر خطے اور ہر مذہب کے انسانوں کیلئے ہے اوران میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں لیکن مثنوی”اسرارِ خودی”اور ”رموزِ بے خودی”میں انہوں نے ملت اسلامیہ کے مسائل بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں کی معاشی بد حالی ‘معاشی ابتری اور سیاسی محکومی کو مدنظر رکھا لیکن دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ایک الگ ریاست کا خواب بھی دیکھا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ٢٧ رمضان المبارک کی تقدس بھری رات کوپاکستان جیسی ریاست کو معجزاتی طور پر نمودار کیا۔
یہ تھے ہمارے اقبال جن کی دورس نگاہوں نے بروقت خواب دیکھا جس کی تعبیر محمد علی جناح کے ہاتھوں ہوئی!
رہے نام میرے رب کا جس نے پاکستان جیسی نعمت سے نوازا