Pakistan ……. Miracle State

قائد اعظم کا پاکستان؟

:Share

اگر آپ کو یاد ہو تو چند سال پہلے ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مایہ نازبحری فوج کے سربراہ محتاط اندازے کے مطابق ۳۵ لاکھ ڈالر سے زائد رقم نیوی کیلئے خریدے گئے سازوسامان میں کمیشن کے طور پر لے اڑے تھے۔ماضی قریب میں ہمہ مقتدر شخصیات کے چند ہونہار ‘نونہال آج نہ صرف ارب پتی ہیں بلکہ کھلے بندوں اپنی بیش بہادولت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔کتنے ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسر’سیاستدان اور ٹیکنو کریٹ بیرونی ممالک میں دادِ عیش دے رہے ہیں’حالانکہ ان میںسے کئی ایک کے خلاف بھاری رشوت اور سنگین بد عنوانی کے مقدمات زیرِ التوا تھے جن کی این آر او کے تحت گلو خلاصی ہوئی۔چند ایک مقدر کے سکندر ایسے بھی ہیں جو دوبارہ مملکتِ خدادا د کی قسمت کے مالک بن گئے ہیں۔
کچھ تو ایسے تھے جو مملکتِ خدادادپاکستان کے مالیاتی شعبے کے نگران بھی تھے اور پالیسی ساز بھی’جب تک ہوا کا رخ موافق رہا وہ سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ان کو اپنا اور ان مہربانوں کا مفاد ‘جن کے وہ ممنونِ احسان تھے ‘اس قدر عزیز تھا کہ ستم رسیدہ عوام کی بھلائی کا خیال تک بھلا بیٹھے’ملک تو کیا ‘آنے والی نسلوں تک کو گروی رکھتے گئے۔اشرافیہ کو عیش و عشرت کی لت ڈال گئے۔ہمارے عظیم دوست چین کے عظیم ترین انقلابی قائد ماؤزے تنگ اور چو این لائی نے سادگی کواپنایا،وہ اور ان کے ساتھی سختیاں جھیلتے رہے ‘جن اصولوں پر قائدین خود کاربند ہوں’عوام کیلئے ان کو دل وجان سے قبول کرنا اور ان پر بخوشی عمل کرنا نہائت آسان ہو جاتا ہے۔انقلاب کے بعد پہلی نسل کی قربانیاں رنگ لائیں اور چین اب دنیا کاایک عظیم ترین ملک بن گیا ہے۔
اورہم ہاتھ میں کشکول لئے پھرتے ہیں کوئی پوچھتا نہیں۔امریکہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہیں’جس کے منشی اور کارندے حکم چلاتے ہیں اور ہم بلا چوں چراں حکم بجا لاتے ہیں۔ستم بالائے ستم ان کارندوں میں سے بہت سے ہمارا ہی کھاتے ہیں اور خوب کھاتے ہیںمانگ تانگ کے۔کئی دفعہ ناک سے لکیریں کھنچ کر’جو قرضہ ہم غیر ممالک یا مالیاتی اداروں سے لیتے ہیں اس میں سے یہ ”فرشتے”مشاورت اور خدمات کے نام پر بہت کچھ ہتھیا لے جاتے ہیں۔”مالِ غنیمت ” میں سے کچھ سکے وہ”مقامی ہم جولیوں”کی جھولی میں بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ نہ صرف اصل کھیل پردوں کے پیچھے چھپا رہے بلکہ سنہری کلغیوں والے مرغانِ چمن بہار کے گیت اس وقت تک گاتے رہیں جب تک حکومت نہ بدل جائے۔
حکومت بدلتے ہی یہ موسمی مینڈک تھوڑی دیر کیلئے اس طرح خاموش ہو جائیں گے جیسے دلدل میں گھس گئے ہوں مگر جلد ہی پھر نکل آئیں گے۔راگ پھر شروع ہو گا مگر سر تال پہلے سے مختلف ۔اب خانہ بربادی کا ذکر ہو گا’ستیاناس اور بربادی کے ایسے قصے سنائیں جائیں گے کہ سننے ولا توبہ توبہ کا ورد کرتے کانوں کو ہاتھ لگائے اور سوچے کہ یہ حسین ملک کتنا بد قسمت ہے کہ اس میں بھیڑیئے نہ صرف دندناتے پھرتے ہیںبلکہ ان میں سے کئی ایک اعلیٰ مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔یہ طالع آزما ایسی چکنی مٹی سے بنے ہوتے ہیںکہ عوام کے اعتماد کی مقدس امانت بھی ان کی گھٹی میں پڑے حرص و ہوس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی’نہ صرف پوری ڈھٹائی سے وہ موقع ملتے ہی کھل کھیلتے ہیں بلکہ اپنی ”جرأت و بہادری”پر فخر کرتے ہیں۔بعد میں پکڑے جائیںتو بھی اپنے کئے پر نادم ہونے کی بجائے یوں سینہ تان کر اپنا دفاع کرتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو بھی یہ کہنا پڑ جاتا ہے کہ”کرپٹ عناصر شرمندہ نہیں بلکہ وہ اکڑ کر بڑے فخر کیساتھ چلتے ہیں……….ان سے کئی کئی ملین ڈالر عدالتوں کے حکم پر حکومت نے وصول بھی کئے ‘اس کے باوجود وہ گالف کھیل رہے ہیں’معاشرہ کو ان سے الگ تھلگ رہنا چاہئے اور ان کا بائیکاٹ کرنا چاہئے!”
خطا تو معاشرہ کی بھی ہے۔اچھائی برائی میں تمیز کمزور پڑ جائے’عجز و انکسار کمزوری کی علامت تصور ہونے لگے’برائی سے بچنا بزدلی ٹھہرے اور چور ڈاکو رہزن کیلئے دلوں سے نفرت مٹ جائے تو کیوں نہ بھیڑیئے بھیڑوں کے گلے کے نگہبان کا کردار ادا کریں۔عموماًکہا جاتا ہے کہ انسان کی سرشت میںمضمر ہے کہ ہر انسان دل کی گہرائیوں میں نہ صرف نیکی اور بدی کا واضح احساس رکھتا ہے بلکہ وہ برائی کے خلاف جدوجہد کے جذبہ سے بھی عاری نہیں۔حالات کا جبر البتہ اسے خاموش رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔روزمرہ مشاہدہ اسے واضح اشارے دیتا ہے کہ خواہ مخواہ”پنگا”لینا سراسر حماقت ہے۔جو سرپھرے پرائی آگ میں کود پڑتے ہیںان کے نہ صرف پاؤں جھلس جاتے ہیں ‘بعض اوقات یہ تن سوزی انہیں عالمِ نزع سے عدم کی منزل تک لیجاتی ہے۔
عقلمندی’انہیں نا انصافی’ظلم اور بے رحمی سے نبردآزما ہونے کی بجائے خاموش رہنے اور بہت کچھ ”پی جانے”کی ترغیب دیتی ہے’یوں ان کی قوتِ برداشت کا دائرہ پھیلتا جاتا ہے جس سے بر خود غلط ظالموں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔وہ چنگیز خان کے لشکریوں کی طرح ہر مرغزار پر چڑھ دوڑتے ہیں۔بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے نہ صرف نہتے اور بے بس عوام کی طاقت جواب دے جاتی ہے بلکہ انسانیت کی روح تک ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔آٹھوں پہر گردش کرنے والا آسمان پھر عجیب و غریب منظر دیکھتا ہے۔مفتوحہ شہر میں ایک ممتاز شہری کسی غیر مسلح تاتاری کے ہتھے چڑھ جاتا ہے’اسے وہی لیٹ جانے کا حکم ہوتا ہے جس کی بلا چوں چراں تعمیل ہوتی ہے۔تاتاری یہ کہہ کر ”یہیں لیٹے رہناجب تک میں کیمپ سے تلوار لا کر تمہارا گلہ نہ کاٹ دوں”چلا جاتا ہے۔معزز شہری بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے’نہ اسے فرار کا خیال آتا ہے ‘نہ جان بچانے کی سوجھتی ہے۔کافی دیر کے بعد تاتاری آتا ہے’اس کا گلہ کاٹ دیتا ہے ۔
حد سے بڑھ جانے والی سفاکی غلامی کو جنم دیتی ہے۔کوئی بھی خواہ مخواہ گردن کٹوانا نہیں چاہتا۔نہتے انسانوں کا جمِ غفیر توپ و تفنگ سے مسلح لشکر کے سامنے کیسے ٹھہر سکتا ہے’خصوصاً جب قتل عام کا اذن ہو چکا ہویا ہو سکتا ہو۔ہلاکو خان نے اہلِ بغداد کو تہ تیغ کیا تو دریا کا پانی گلرنگ ہو گیا’نادر شاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔گلیوں میں انسانی خون بارش کے پانی کی طرح بہنے لگا۔ ۱۸۵۷ء میں باربار اجڑنے والی دلی کوپھر ویسا ہی المیہ پیش آیا۔ شہزادگان کی لاشیںکئی دن درختوں سے لٹکتی رہیں’ناز و نعمت میں پلے بڑھے کتنے ہی اہلِ ثروت خون کی ہولی کی بھینٹ چڑھ گئے’جو بچ رہے وہ فاتحین کی قدم بوسی کو بڑھے۔اپنی وفادای کا یقین دلانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زورلگایا ‘تابعداری کو شرطِ استواری سے یوں سنوارا کہ وہ اصل ایمان ٹھہری۔
جسٹس مرحوم محمد رستم کیانی نے ۱۹۵۸ء میں دیئے گئے خطبہ یومِ اقبال میں ایک شوریدہ سر شاعر کے اس شعر کا حوالہ دیا تھا’
دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف
قائد اعظم کا پاکستان دیکھ
جسٹس مرحوم محمد رستم کیانی اس وقت حکومت کے قانونی مشیر تھے۔ان سے رائے طلب کی گئی تھی کہ اس پر کون سی دفعہ لگتی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ”خدا کے بندو!وہ تو صرف یہ کہتا ہے کہ میرے منہ کی طرف کیا دیکھتے ہو’پاکستان کی طرف دیکھو’کیا یہ وہی ملک ہے جو قائد اعظم نے تراشا تھا”……..اب تو غالباً روح پاکستان بھی اپنے ”جانثاروں”سے یہ سوال کرتی ہو گی۔کیا ہم سے کوئی جواب بن پاتا ہے؟ہم میں سے کتنے ہیں جنھوں نے زندگی کے کسی لمحے میں بھی یہ سوچنے یا معلوم کرنے کی زحمت بھی گوارہ کی کہ مملکتِ خداداد پاکستان کیونکر صفحہ ہستی پر نمودار ہوا؟بانیانِ پاکستان کے خواب کیا تھے؟آرزوئیں’تمنائیں اور آدرش کیا تھے؟بابائے قوم نے کیا سوچا تھا’کیا چاہاتھا’کون سی منزل متعین کی تھی؟ کیسے وہاں تک پہنچنا تھا؟وہ منزل کن اندھیروں میں کھو گئی’نشانِ منزل بھی کوئی دکھائی پڑتا ہے یا نہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ آزادی تو کبھی بھی التجاؤں اور درخواستوں سے نہیں ملی۔
صحرائے سینا میں چالیس سال تک بھٹکنے کے بعد حضرت موسیٰ کی قوم کو بھی بالآخر منزل مل گئی تھی۔ احساسِ زیاں اگر دامن گیر ہو جائے تو کیا خبرہم بھی گم گشتہ راہوں کو از سرِ نوو پا لیں۔ اپنی اپنی ذات کی قید سے آزاد ہو جائیں۔ذاتی مفاد کو ہی زندگی کا واحد مقصد سمجھنا ترک کر دیں۔ملک و قوم کی فلاح و بہبودکو نہ صرف اپنافرض سمجھیں بلکہ اس کیلئے تھوڑی بہت قربانی دینے کیلئے تیار ہو جائیں۔کیا وہ ایک نئی صبح نہیں ہوگی جب ہم میں سے کئی ایک دیوانے سچ کو برملا سچ کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔کتنا ہی خوشگوار اجالا ہو گا جب جماعتی وفاداریوں سے بالا تر ہو کر’ یاری دوست اور برادری کی زنجیروں سے آزاد ہو کر ہمارے اربابِ اختیار حق و انصاف کے تقاضے پورے کریں گے،قائد اعظم کے حسین چہرہ پر جمی گرد جھڑنے لگے گی۔ ملک کی عدلیہ نے پارلیمنٹ کامنظورکردہ قانون توہین عدالت آئین کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے پہلے ہی دن سے مکمل طورپرمستردکردیاہے اور اب دیکھیں نئے وزیر اعظم کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے۔ایک کڑا امتحان ہے اور قوم بھی ہاتھوں میں پھندہ لئے منتظر ہے۔دیکھیں کون کون جھولتا ہے! رہے نام میرے رب کا جو علیم و خبیر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں