Ukraine American Helplessness

یوکرین:امریکی بے بسی

:Share

یوکرین کے بحران نے یوں تودنیاکیلئے شدیدالجھنیں پیداکردی ہیں،معیشتوں کیلئے مزیدمشکلات سامنے آرہی ہیں۔ترقی یافتہ دنیامیں متعدد حکومتیں دن رات منصوبہ سازی کر رہی ہیں کہ یوکرین کے بحران کی کوکھ سے برآمدہونے والے اضافی بحرانوں اورالجھنوں سے کیسے نمٹا جائے۔امریکایوکرین میں روس کی جسارت پربہت برہم ہے اوراپنے اتحادیوں سمیت خوب شورمچارہاہے مگریہ بھی ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ سب سے زیادہ پریشان بھی وہی ہے۔اس کی الجھن میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے اورامریکی قیادت یہ سمجھنے سے قاصرہے کہ اس وقت یوکرین کے بحران کے مابعداثرات سے بچنے کیلئے کیاکیاجائے کہ عزت بھی رہ جائے اوردنیاپردھاک بھی بیٹھی رہے۔یورپ اس کے ساتھ ضرورہے لیکن یورپ پرمکمل بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔یورپ کی اپنی قوت میں کمی واقع ہورہی ہے۔پہلی جنگ عظیم کے وقت یورپ میں جس نوعیت کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ واقع ہوچکی تھی ، کچھ کچھ ویساہی معاملہ اس وقت بھی دکھائی دے رہاہے۔ روس وکٹ کے دونوں طرف موجودرہاہے،وہ یورپ میں بھی ہے اورایشیاکابھی حصہ ہے۔ جب وہ یورپ کی طرف زیادہ جھکتاہے ،تب بھی معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں اورجب وہ خودکوایشیائی طاقت سمجھ کریورپ کونظراندازکرنے لگتاہے توتب بھی معاملات درست نہیں رہ پاتے۔

یوکرین کے بحران نے امریکاکوناکوں چنے چبوادیئے ہیں۔وہ دنیاکویہ بھی دکھاناچاہتاہے کہ اس کی طاقت برقرارہے اورجب چاہے طاقت کے کھیل میں پانسا پلٹنے کی صلاحیت اور سکت رکھتاہے۔مشکل یہ ہے کہ یہ اداکاری اب زیادہ دن چلتی دکھائی نہیں دیتی۔بیس پچیس سال پہلے وہ کسی کودھمکاتاتھاتومعاملات کچھ اورہوجاتے تھے۔اب اگروہ زیادہ دھمکانے پرآئے گاتوان کے پاس آپشنزموجودہوں گے جنہیں دھمکایاجارہاہے۔اس وقت سیاسی ومعاشی اسٹرٹیجک امور کے ماہرین کے نزدیک اہم سوال یہ ہے کہ یوکرین کے بحران کے باعث امریکاوچین میں کشیدگی بڑھے گی یانہیں؟برطانوی خبررساں ادارے رائٹرکے مطابق امریکاکے مشیربرائے قومی سلامتی جیک سیلون اورچین کے دفتربرائے خارجہ کے ڈائریکٹرجنرل ینگ جئچی نے 14مارچ کواٹلی کے دارلحکومت روم میں ملاقات کی۔

اس کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ یہ ملاقات کم وبیش سات گھنٹے جاری رہی ۔عینی شاہدین کے مطابق ملاقات کاماحول بہت کشیدہ تھا۔ فریقین ایک دوسرے کوذراسی بھی رعائت دینے کوتیارنہیں تھے۔امریکانے چین کوخبردارکیاکہ اگراس نیروس کی عسکری اورمعاشی مددکی تواس کے سنگین نتائج کاسامناکرناپڑے گا۔جیک سیلون کاکہناہے کہ روس کی مددکرنے پرچین کوبھی پابندیاں کاسامناکرناپڑے گا۔انتونیوڈینٹی،مائیکل مارٹینااورآندرے شیلل کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابقروم میں فریقین نے کھل کربات کی۔ یوکرین کے بحران پرتوجہ مرکوزرہی تاہم شمالی کوریا،تائیوان اوردوطرفہ مسائل پربھی بات ہوئی۔اس ملاقات سے قبل امریکانے نیٹوکے رکن اوراتحادی ملکوں کوبتایاتھاکہ روس نے چین سے معاشی وعسکری امدادمانگی ہے مگرچین نے اس خبر کی تردیدکی ہے۔امریکانے چین کوخبردارکیاہے کہ وہ یوکرین سے جاری لڑائی میں روس کومضبوط کرنے سے گریزکرے۔ اگرایساہواتوامریکاچین تعلقات میں کشیدگی مزیدبڑھے گی۔

امریکی حکام نے بعدمیں جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہاہے کہ جیک سیلون نے تمام معاملات پرکھل کررائے دی اوردوٹوک الفاظ میں کہاکہ چین نے اگرروس کی مددکی تو اسے بھاری قیمت چکاناپڑے گی۔امریکاویورپ کے حکام ابتداء ہی سے خبردارکرتیآئے ہیں کہ یوکرین کے مقابل روس کی مددکرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ امریکی حکام کاکہناہے کہ روس کی مددکرنے پرچین کوہائی ٹیک ،تجارت اورتوانائی کے شعبوں میں مشکل صورتحال کا سامناہوسکتاہے۔امریکی وزیرتجارت گینارائیمونڈوکاکہناہے کہ روس سے تجارت کرنے والی کمپنیوں کواہم آلات اورسوفٹ وئیرزکی فروخت روک دی جائے گی ۔ امریکااوریورپی یونین نے کہاہے کہ روس پرعائدکی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات کوکم کرنے اوریوکرین کو مضبوط کرنے کی مغرب کاروائیوں کی وقعت گھٹانے کی ہرکوشش پر کاروائی کی جائے گی۔

یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ امریکاویورپ چاہیں بھی تو چین کوآسانی سے نظراندازنہیں کرسکتے اوردیوارسے بھی نہیں لگاسکتے،چین اس وقت دنیاکاسب سے بڑابرآمدکنندہ ہے، وہ یوری یونین کاسب سے بڑاتجارتی پارٹنرہے اورامریکاکومطلوبہ اشیاء بھی خاسے نمایاں تناسب سے چین ہی سے آتی ہیں۔اگرامریکا نے یورپ کے ساتھ مل کرچین کے خلاف کاروائی کی توخود امریکاسمیت بہت سے ممالک پرشدیدمنفی اثرات مرتب ہوں گے اورصنعتی عمل بھی شدیدمتاثر ہوگا۔امریکااوریورپ کی معیشتوں میں چین اس طرح گندھاہوا ہے کہ اب اسے آسانی سے فراموش نہیں کیاجاسکتا،اورسچ تویہ ہے کہ بہت کوشش کرنے پربھی چین کے دائرہ اثرسے نکلنابچوں کاکھیل نہیں رہا ۔ چین مینوفیکچرنگ انجن کی حیثیت اختیارکرچکاہے،وہ ہرچیزاتنے بڑے پیمانے پربناتاہے کہ منافع کے مارجن کے معاملے میں کوئی بھی ملک اس سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

یہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ امریکااورچین کے تعلقات دس سال کی کم ترین سطح پرہیں۔تجارت پرقدغن کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع شدت اختیارکر چکاہے ،یہ خرابی ڈونلڈٹرمپ کے دورمیں شروع ہوئی تھی۔یوکرین پرروس کے حملے سے چندہفتے پیشترروسی صدرپوٹن نے چینی قائدشی جن پنگ نے دوطرفہ اسٹرٹیجک معاہدے کو لامحدودوسعت دینے پررضامندی ظاہرکی تھی۔روس کیلئے چین بہت اہم ٹریڈنگ پارٹنرہے۔ چین نے یوکرین کے معاملے میں روس کے حوالے سے کچھ بھی کہنےمیں غیرمعمولی احتیاط برتی ہے۔اس نے اب تک اس کاروائی کوحملہ قرار نہیں دیا۔ساتھ ہی ساتھ چینی قیادت نیروس پرعائدکی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے عالمگیراثرات کے حوالے سے بھی خبردارکیاہے۔

امریکاکامخمصہ برقرارہے،وہ ایک طرف روس کوڈراناچاہتاہے اوردوسری طرف چین کوبھی دباؤمیں لیناچاہتاہے مگردونوں ہی محازوں پراسے ناکامی کامنہ دیکھنا پڑاہے۔یوکرین کے بحران پرامریکاکی اپنی ساکھ داؤ پرلگی ہوئی ہے۔اگروہ روس اورچین سے اپنی بات منوانے میں ناکام رہتاہے اورچندچھوٹی موٹی اقتصادی پابندیاں عائدکرکے اپنادل بہلالیتا ہے توپوری دنیامیں یہ پیغام جائے گاکہ اب امریکی تلوں میں تیل نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ معاملہ یہی ہے۔امریکا اوریورپ مل کردنیاکویہ یقین دلانے میں ناکام رہے ہیں کہ معاملات اب بھی ان کے ہاتھ میں ہیں اوروہ جب چاہیں سب کچھ ہلاسکتے ہیں،گراسکتے ہیں۔

امریکی قیادت کواپنی طاقت کی حدکاعلم ہے،اس لئے کسی بھی مہم جوئی سے واضح طورگریزکیاجارہاہے۔ایسے میں معاملات کومحض گیدڑبھبکیوں ہی سے درست کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔یوکرین کی جنگ اگرپھیل گئی توامریکاسمیت کوئی بھی اس پرقابونہیں پاسکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں