روح میں گھوراندھیرے کے سواکچھ بھی نہیں

:Share

بھیانک تضادات سے بھری پڑی ہے ہماری زندگی۔ آپ ناراض نہ ہوں، میں بھی تو آپ ہی میں سے ہوں۔ بہت پہلے مجھے ایک دانا نے کہا تھا:

تسلیم کرنا سیکھو۔بحث کرتے کرتے میں نڈھال ہوگیا لیکن پھر ماننا ہی پڑا۔بالکل ٹھیک ہے یہ بات کہ تسلیم کیا جائے اپنی ہر کوتاہی کو،ہر غلطی کو ۔ اگر انسان کی دل آزاری کی ہے تو اس سے معافی طلب کرو، کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو رب سے۔ہاں ندامت دھوتی ہے گناہو ں کو،اس سے رجوع کرنا ہی بندگی ہے۔اپنی نہیں، رب کی ماننے میں ہی عافیت ہے،سکون ہے، قرار ہے۔ اپنی دانش وری کو کچھ دیر کے لئے ہم کیوں ترک نہیں کرتے!

ہماری عجیب سی عادت ہے، ہر وقت تبصرہ کرنا۔ مجھے معلوم ہو نہ ہو، میں دانش وری ضرور بگھارتا ہوں۔ سیدھی سی بات سے ہرانسان کچھ نہ کچھ جانتاہے۔ کیاضروری ہے کہ انسان سب کچھ جان سکے!میری اناکوکتنی ٹھیس پہنچتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ میں نہیں جانتا،لیکن میں تسلیم نہیں کرتا۔کوئی بھی بات ہو میدان میں اتر آتا ہوں اوراپنی بکواس کے زور پر دوسروں کو چت کرڈالتا ہوں۔ اور پھراس پراتراتا پھرتاہوں۔

جب میرا کوئی دوست،عزیزبیمارہوجائے تومیں سر توڑکوشش کرتا ہوں کہ کوئی ماہراس کا علاج کردے۔ مجھے گوارا ہی نہیں کہ اُسے کسی ایرے غیرے کے سپردکردوں۔جب میں دوالیتا ہوں تواس پردواکی میعادضروردیکھتا ہوں۔ میں اپنے بچوں کے لئے معیاری درس گاہ دیکھنے میں اپنی صلاحیت اوروسائل کھپادیتا ہوں۔ میں اپنے کپڑوں کی سلائی کے لئے بہترین درزی کا انتخاب کرتا ہوں۔ اپنے بالوں کی نگہداشت کے لئے اچھے شیمپوزکی تلاش میں ہلکان رہتا ہوں۔مکان بنواناہوتو میں ایک ماہر نقشہ نویس کوڈھونڈتاہوں اوراعلیٰ معمار کی خوشامدکرتاہوں۔اسے زیب و زینت دینے کیلئے ماہرین آرائش وزیباش کے در پر پہنچ جاتا ہوں۔ بس میں اعلیٰ معیاراوربہترین ہنرمند سے ہی رجوع کرتاہوں اوراپنی پوری زندگی اس میں صرف کرڈالتا ہوں ۔ ایسا ہی ہے ناں!!

یہ سب توخارجی چیزیں ہیں جن کے لئے ہلکان ہوں،اوروہ جومیراباطن ہے،اوّل تو میں اس پر دھیان ہی نہیں دیتا، اوراگر کبھی دیناپڑجائے تو ہر ایک سے پوچھتاپھرتا ہوں۔ عجیب تضادہے ناں یہ…جواصل ہے اس پرمیری نگاہ ہی نہیں جاتی اورجورہ جانے والا ہے اس پرمیں جان لڑادیتا ہوں۔

اسلام تونام ہی سلامتی کاہے،امن کاہے،آشتی کا ہے،بھائی چارے کاہے،قربانی وایثارکاہے،تسلیم کاہے،رضا کاہے،رحمت کا ہے ، اسلام دینِ فطرت کانام ہے ۔ رحمت اللعالمین ۖ کی زندگی ہی روشنی ہے۔ آپ کااسوہ ہی راہ نجات ہے۔ میرے آقاو مولا ۖنے تو اپنے جانی دشمنوں کومعاف کردیا۔ فتح مکہ کے موقع پر اپنے دشمنوں کے گھروں کو بھی جائے پناہ بنایا۔ اسلام تووہ دین ہے جس نے جنگوں کے بھی اصول بتائے۔ عورتوں اوربچوں کوقتل نہیں کیاجائے گا۔فصلوں اوردرختوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، دوسرے مذاہب کے دینی رہنماؤں سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ جو تم سے نہ لڑے اُسے امان دی جائے گی۔ بس انہی کا مقابلہ کیا جائے گا جو دو بدو مقابلے پرآجائیں۔مجھے تو بچپن میں یہی بتایا گیا تھا۔اب نجانے کیا کیا سنتا رہتا ہوں۔

جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں وہ اسلام کا سپاہی بنا گھومتا ہے۔ کوتوال بنا دندنا تاپھررہا ہے۔ بالکل ٹھیک کہاہے کسی نے :ہر انسان کواپنے

حصے کے بیوقوف اوراحمق مل جاتے ہیں۔ طر ح طرح کی تشریحات اور قسم قسم کی تفسیریں۔ہر ایک اسلام کا شارح بنا پھر رہا ہے۔ ہم اتائی ڈاکٹروں سے بچتے ہیں اور خو ساختہ، جعلی اور انا پرستوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ جہاں دین کا مسئلہ ہو تب میں کسی ماہر کو کیوں نہیں تلاش کرتا؟ اقبالیات خواجہ میں ہے کہ اقبال سے کسی نے پوچھا: ”سب سے مظلوم کون ہے؟”جواب ملا: ”قرآنِ عظیم سب سے زیادہ مظلوم ہے ”۔ وہ حیرت سے بولا: ”جناب وہ کیسے ؟”تو اقبال بولے: ”جنہیں عربی کی قواعد تک نہیں آتی وہ قرآنِ عظیم کی تشریح کرتے پھررہے ہیں۔” ہاں بالکل ایساہی ہے۔

آپ تو میری تلخی سے درگزر کرتے رہتے ہیں۔ اوپرتلے دوخبر یں پڑھ کر ”سکتے ”میں ہوں۔کیا ہورہا ہے میرے وطن عزیز میں!یہ مسجد ہے یارو، میخانہ نہیں جہاں اچھل کودمچائی جائے ۔ یہ ربِّ کعبہ کے نام پرحاصل کیا گیا خطۂ ارض ہے۔ آپ اسے خالی خولی زمین کاٹکڑا سمجھ بیٹھے ہیں ۔پہلے آپ یہ پڑھ لیجئے:

اتوارکی شب ہونے والے بم دھماکے میں درجن بے گناہ افرادشہیداور٧١زخمیوں کوجب نشترہسپتال ملتان لایاگیا تو ان شہداء میں ایک عورت کے سینے سے چمٹاہوابچہ اس حالت میں تھے کہ ان کوالگ کرنامشکل ہورہاتھاجس کودیکھ کرخودمیڈیکل سٹاف کی حالت غیرہوگئی۔ دھماکہ خودکش نہیں بلکہ ریموٹ کنٹرول تھااوراس تخریبی مواد میں آتش گیر مادہ بھی شامل کیا گیا تھا۔اس سے اگلے دن سوات امن کمیٹی کے رکن غلام سعید کوتحصیل کبل کے علاقے ننگولئی میں بم دہماکے سے شہید کردیاجب وہ گھر جارہے تھے ۔ان دونوں واقعات کی ذمہ داری ان افراداورگروہ نے قبول کی ہے جواسلام کواپنا اوڑھنا بچھونامانتے اورسمجھتے ہیں۔

دیکھ لیا آپ نے…یہ کون سا اسلام ہے؟نہیں جناب یہ اسلام نہیں سفاکّیت ہے، شقاوت ہے، زندگی ہے۔ معصوموں کے گلے کاٹنا،انہیں بارود سے اڑا دیناکہاں کااسلام ہے؟ میرے رب نے گناہوں کی سزا کا اختیار آپ کو کب سے دیا ہے؟ کب سے آپ اسلام کے داروغہ بنے ہیں؟اور یہ اسلام کہاں سے ہوگیا جناب…یہ اسلام کے نام پر رذالت ہے اور کچھ نہیں۔

میرے رب نے انسان کو واجب الاحترام قرار دیا ہے۔اس کا خون کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ہم ہر ایک کے سینے میں چھرا گھونپتے پھر رہے ہیں اوراسے اسلام کہتے ہیں۔اسلام نے بدگمانی سے منع کیا ہے، میں ہر ایک سے بدگماں ہوں، ہر جگہ مجھے سازش نظرآتی ہے،ہرایک پر

بہتان طرازی میں مجھے مزا آتا ہے۔ ہوں میں اسلام کا چیمپئن۔

میرا ایک کلاس فیلو ہے۔ بہت باکمال مصور۔ وہ بھی میر ی طرح لندن کاہوکررہ گیا ہے۔ ایک دن اس نے فون کیا: تم میری پینٹنگز دیکھنے آؤ۔ میں نے کہا کہ ضرور۔ میں اس کے گھر پہنچا توپینٹنگز دیکھ کردنگ رہ گیا۔ کیا پاور فل اسٹروک لگائے تھے۔ اُس نے مجھ سے پوچھا:کیسی ہیں؟ میں نے کہا:واہ،واہ تم نے توکمال ہی کردیا۔ بہت شانداربہت خوبصورت۔ یہ سنتے ہی اس نے مجھ سے عجیب سی بات کی:

’’شاعراپنے اشعار،لکھنے والااپنی تحریراورموجداپنی ایجادکی تعریف سنناچاہتاہے،اگرکوئی اس کے سامنے اس کی تخلیق کوبرا بھلایانقصان

پہنچائے تواسے کس قدرصدمہ ہو گا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی طرح میراکریم ،رحیم اورخالق رب کا ایک صفاتی نام مصور ہے، اورہم اس کی بہترین تخلیق ہیں۔اس کی بنائی ہوئی ہر پینٹنگ، ہر مجسمہ خوب صورت ہے، بے مثل ہے،اورہم اسے تباہ کررہے ہیں، ان کے گلے کاٹ رہے ہیں،معصوم بچوں کوبھی نہیں بخش رہے،برباد کررہے ہیں، قتل کررہے ہیں،کیاان شقی القلب جلادوں کوعلم نہیں کہ مصورکو کتنا دکھ پہنچارہے ہیں ”۔

مجھے اجازت دیجئے۔ میں رخصت ہوا۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔

آج  انسان  کا  چہرہ  تو ہے  سورج  کی  طرح

روح میں گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں