How Difficult It Is To Live Like This

کتنامشکل ہے اس طرح جینا

:Share

رب کے محبوب مرسل حضرت محمدمصطفی ﷺکی والدہ ماجدہ کوماں ہونے کابلند مرتبہ عطاہواتوسچ مچ ماں کی عظمت اوروقاربلندیوں کو چھونے لگااور مامتاکا پاکیزہ رشتہ عروج و کمالات سے مالامال ہوا۔حدیث کے مطابق جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے تواس والدہ ماجدہ کی شان کوبھلاکون پہنچ سکتا ہے۔ سرکار دو عالمﷺنے حضرت آمنہ کے بطن اقدس سے جنم لیااوران کی آغوش میں پروان چڑھے۔اس لحاظ سے بی بی آمنہ تمام عالم کی خواتین میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں کہ خاتم الانبیا ﷺکو جنم دینے اور پالنے کاشرف آپ کے حصے میں آیا۔

بی بی آمنہ رضی اللہ عنہاکاتعلق عرب کے معززترین قبیلہ بنوقریش سے تھا۔آپ کے والدوہب بن عبدمناف بن کلاب تھےاوروالدہ بربنت عبدالعزی بن کلاب تھیں۔آپ نہایت پرہیزگاراورپاکبازخاتون تھیں۔آپ کانکاح حضرت عبدالمطلب کے پیارے بیٹے حضرت عبداللہ سے ہوا۔ نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ تجارت کیلئےشام کوروانہ ہوئے۔وہاں پہنچ کرآپ بیمارہوگئےاوربیماری کی حالت میں واپس آرہے تھے کہ یثرب سے گزرتے ہوئے والدکے ننھیال میں ٹھہرگئےاوروہیں وفات پائی۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاسے شادی کے کچھ ہی عرصہ بعداس عالم میں بیوگی کا صدمہ اٹھایا کہ امام الانبیا ﷺ ان کےبطن مطہرمیں پرورش پارہےتھے۔

20/اپریل571ءبروزپیرصبح کے وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آمنہ کووہ بیٹاعطاکیاجسے آگے چل کر تمام عالم کی فلاح کی ذمہ داری اٹھانا تھی۔ حضرت عبدالمطلب نے پوتے کی خوشی میں قربانی کیلئےاونٹ ذبح کئےاورسارے عرب میں غریبوں کوکھاناکھلایا۔اس موقع پرتمام قبائل کے بڑے بڑے سرداروں نے بچے کو دیکھا اور حضرت عبدالمطلب کو مبارکباد دی۔اس موقع پر آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے بچے کا نام محمد ﷺیعنی بہت تعریف کیا گیا رکھا۔حضورﷺکی ولادت کے وقت عرب میں یہ رواج تھاکہ پیدائش کے بعدشرفااپنے دودھ پیتےبچےکواچھی تربیت اورپرورش کیلئےصحرایا دیہات میں دایہ کے حوالے کردیتےتھےتاکہ بچےباہرکی کھلی اورصحت بخش ہوامیں پرورش پاسکیں۔جب حضورﷺکی عمرمبارکہ چھ ماہ ہوئی توآپ کوبھی قبیلہ بنی سعدکی ایک خاتون حضرت مائی حلیمہ سعدیہ کےسپردکردیاگیا۔

کچھ عرصہ بعدحضرت مائی حلیمہ آپﷺکوواپس مکہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکےپاس لائیں مگرشہرمیں وباپھیلی ہوئی تھی اس لئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نورِنظراورلخت جگرکودوبارہ حضرت مائی حلیمہ کےسپردکردیا۔جب مائی حلیمہ دوبارہ حضوراکرم ﷺ کوواپس لائیں توان کی عمرمبارک تقریباچھ سال تھی ۔ آپ بڑے توانااوتندرست تھے گویاجس مقصد کیلئےحضرت آمنہ رضی اللہ عنہانے اکلوتے فرزندکی جدائی کا صدمہ سہا تھا وہ پورا ہو چکا تھا۔اب آپﷺ اپنی والدہ کے ہمراہ رہنےلگے۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکواپنے پیارے بیٹےکابڑاخیال تھا۔وہ آپﷺ کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتیں،آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھیں۔حضرت عبداللہ کے انتقال کےبعدحضرت آمنہ رضی اللہ عنہاہرسال ان کی قبرکی زیارت کومدینہ تشریف لےجاتیں۔

ساٹھ سترہزاکامجمع……آخری حج کے سفرپررواں دواں……اونٹنی کارخ ماں کی قبرکی طرف پھیردیایعنی ابواکی طرف(جوکہ مدینہ سے 249 کلو میٹردور مکہ کی جانب واقع ہے)۔یہ ایک پتھریلاعلاقہ ہے جوایک پہاڑی کاہموارحصہ ہے۔چشم تصورمیں اپنے آقاکاوہ منظریادآگیاجب میرےآقا بچپن میں اپنی والدہ محترمہ کاہاتھ تھامے اپنے والدکی قبرکی زیارت کیلئے تشریف لےگئےتھے۔تاریخ بتاتی ہےکہ جناب آمنہ بنت وہب حضرت عبداللہ کی قبرکی زیارت کیلئےمدینہ گئی تھیں وہاں انہوں نے ایک ماہ قیام کیا،جب واپس آنے لگیں توبمقام ابواءپر25سال کی عمرمیں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں اوروہیں دفن ہوئیں آپ کی خادمہ ام ایمن،آپﷺکولےکرمکہ آئیں(گویاوالدمحترم اوروالدہ محترمہ دونوں 25سال کی عمرمیں خالق حقیقی سے جاملے)۔ (روضة الاحباب1ص67)

میرے آقاﷺآج اپنی ماں کی قبرپریوں حاضری دے رہے ہیں کہ باپ عین عالم شباب میں خالق حقیقی سے جاملےاورماں بھی عین جوانی میں درِّیتیم کو سات سال کی عمرمیں چھوڑکراپنےشوہرنامدارکوملنے کیلئے اپنے رب کے ہاں حاضرہوگئیں۔

میرے آقاﷺکووہ تمام مناظرازبرتھے کہ صرف تین افرادکایہ قافلہ تھا۔والدہ محترمہ نے اپنے لال کاہاتھ تھاماہواتھااورخادمہ ام ایمن بھی ہمراہ تھیں۔اچانک طبیعت خراب ہوگئی اوراسی پتھریلی زمین پرلیٹ گئیں،جسم پسینے میں شرابوراوربولانہیں جارہاتھا،باربارکروٹ بدل رہی تھیں۔ شائد اپنے معصوم بچے کے سامنے اپنی تکلیف کوچھپانے کاعمل ہوکہ بیٹاپریشان نہ ہوجائے۔آپ سہمے ہوئے پاس بیٹھے ہوئے تھےکہ نجانے اب کیاہوگا۔

پھراس عظیم ماں کی زبان سے آخری کلمات اداہوئے..”کل حیی میت وکل جدید بعد..لبیک”ہرزندہ نے مرناہے اورہرجوانی نے ڈھلنا ہے، لبیک میرا آخری وقت آگیاہے۔”ولقدولد الطحرا”میں نے ایک پاکیزہ ہستی کوجنم دیاہے۔ اس کے بعدوہ پاکیزہ شمع بجھ گئی۔ میرے آقا ﷺ نے جب ماں کورخصت ہوتے دیکھاتوبے ساختہ رقت اورہچکیوں کے ساتھ روناشروع کردیا۔اپنے ہی سینے سے منہ لگائے اس قدرروئے کہ سینہ مبارک ترہوگیا۔ہائے ہائے… …اس وقت آنسوپونچھنے والاکوئی بھی نہ تھا، بڑی دیر تک درّ ِ یتیم ماں کی قبرکے سرہانے بیٹھے اپنے آنسو ؤ ں کاخراج پیش کرتے رہے۔قبرکے اردگرد پتھر جوڑکرنیچے اترے ہی تھے کہ فورا بے ساختگی سے دوڑکردوبارہ قبرپرپہنچ گئے۔ام ایمن یہ منظردیکھ کرپیچھے دوڑیں۔جب قریب آئیں توکیادیکھتی ہیں کہ میرے آقا ﷺ اپنی ماں کے قبرکے ساتھ چمٹ کراس کے اوپرلیٹے ہوئے یہ فرما رہے تھے ۔ “بے تحاشہ محبت کرنے والی ماں!تجھے توخبرتھی کہ اس دنیامیں تیرے سوامیراکوئی نہ تھا۔مجھے چھوڑکرتم کہاں چلی گئی ہو؟”

یوں لگ رہاتھاکہ میرے رب نے چودہ صدیوں کے تمام پردے الٹ دیئے ہیں ،میری اپنی حالت اس قدرغیرہوگئی کہ کھڑے ہونے کی سکت نہیں رہی اورمیں بھی بے اختیار آنکھیں بندکرکے بیٹھ گیااورچشم تصورمیں اپنے آقا ﷺ کے بچپن کے تمام مناظرمیری آنکھوں کے سامنے آنے شروع ہوگئے۔میں بے اختیارسوچنے لگا،اے ارض وسماکے مالک !جسے تونے اپناحبیب اورتمام جہانوں کیلئے رحمت العالمین بنایا،اسے اتنے بڑے دکھ اور صدمے میں مبتلاکردیا ……..باپ دیکھانہیں، کوئی بھائی اوربہن نہیں جواس صدمے میں سینے سے لگاکرتسلی اورحوصلہ دے اورمیرے آقا ﷺ کے ان آنسو ؤ ں کواپنے دامن میں سمیٹ لے……اگریہ واقعہ مکے میں رونماہوتاتوچلووہاں محبت کرنے والادادا، خاندان کے دوسرے عزیزو اقارب اس گھڑی میں غم بانٹنے کیلئے اردگردموجودہوتے۔بیاباں جنگل ،پتھریلے پہاڑوں اورصحرامیں یہ غم دیکھنے کوملا…..دل سے ایک ہوک اٹھی، یا میرے رب!توواقعی بے نیازہے۔ ام ایمن نے اپنے بازو ؤ ں میں لیتے ہوئے التجاکی،اٹھوبیٹا،میرے آقا ﷺ نے اپنے آنسوؤں سے تر چہرہ سےجواب دیاکہ”نہیں، میں نہیں جاؤں گا،مجھے اپنی ماں کے پاس ہی رہنے دو”ام ایمن فرماتی ہیں کہ میں زبردستیاس ننھے شہزادے کوقبر سے اٹھاکر لائی۔

میرے آقا ﷺ آخری حج کے سفرمیں اپنے رب کے حضور مناجات کیلئے تشریف لیجارہے ہیں ،شدیدگرمی کامہینہ،آپ نے اپنی اونٹنی کامنہ ابوا ءکی طرف موڑدیااور70ہزارکا قافلہ اپنے آقا کے پیچھے رب کی تسبیح بیان کرتے ہوئے گامزن ہے۔ 57برس گزرگئے، اتنابڑازخم اورصدمہ نجانے کیسے بھراہوگا۔کہاں وہ بچپن کاچھٹا سال اورآج میرے آقا ﷺ تریسٹھ سال کی عمرمیں، میرے آقا اپنی ماں کی قبرکے سرہانے تشریف لائے،اونٹنی کوبھی فاصلے پربٹھادیا،اس عظیم ہستی کی آخری آرام گاہ کی پتھریلی زمین پردوزانوہوکر، سرگھٹنوں میں جھکاکر بیٹھ گئے جس طرح بچپن میں اپنی ماں کے پاس بیٹھے تھے جب وہ انتہائی تکلیف میں بے چین ہوکرکروٹیں بدل رہی تھیں۔ یقینًاوہ سارے مناظر یاد آگئے تو بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کراسی طرح رونا شروع کردیاجس طرح وہ بچپن میں اپنی والدہ مرحومہ کواپنے ہاتھوں لحدمیں اتارتے ہوئے بیتاب ہوئے تھے،جس طرح بے تابی میں ام ایمن کاہاتھ چھڑاکر دوڑکرقبرسے چمٹ گئے تھے۔آج ایک مرتبہ پھران مبارک آنسوؤں کی برسات ریش مبارک کوترکرتی ہوئی سینہ مبارک پرطوفان برپاکر رہی تھیں اورآج بھی کوئی چپ کرانے والانہ تھاکہ صحابہ کرام کی پوری جماعت حزن وملال کے اس مناظرمیں ماں بیٹے کی ملاقات میں حائل نہیں تھے اورادب کی بنا پرایک فاصلے پربیٹھے اپنے آقا ﷺ کی اس جذباتی اوررومانوی کیفیت کودیکھ کر بے چین ہورہے تھے۔کافی دیرتک نجانے اپنی والدہ محترمہ سے کیاباتیں کرتے رہے کہ بچپن میں ماں کوابھی جی بھرکردیکھابھی نہیں ہوگا، لاڈوپیارکاوہ سارازمانہ اب آنکھوں کے سامنے آرہاہوگاجس کی بنا پرحزن وملال کی کیفیت بے چین کررہی تھی،دائمی جدائی کے تمام مناظرآج یکجاہو کر میرے آقا ﷺ کومضطرب کر رہے تھے۔طبیعت اس قدر بے چین ہوئی کہ آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کو ارشاد فرمایا: میں آج رات یہاں ہی قیام کروں گااوروہاں نہیں گئے جہاں قیام کیلئے بندوبست کیاگیا تھا ، اپنی ماں کے سرہانے ساری رات قیام فرمایا۔

حضور نبی کریم ﷺ بڑے مضبوط دل اورحوصلہ مند انسان تھے ۔ مشکل سے مشکل وقت اور کڑے سے کڑے حالات میں بھی آپ صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو صبروتحمل ، شجاعت اور مردانگی کا سبق دیا لیکن ان کی زندگی میں بھی چند مواقع ایسے آئے جب ان کی مبارک آنکھیں بے اختیار اشک بار ہوگئیں۔

ان میں سے ایک موقع وہ تھا جب غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ ان کے گھر تشریف لے گئے ان کے بچوں کو پیار کیا اور ان کی شہادت کی خبر ان کی رفیقہ حیات کو دی ۔ اس موقع پر آپ ﷺ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ایک موقع وہ تھا جب آپ ﷺ کے ڈیڑھ سالہ فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ انتقال کر گئے۔ اس وقت بھی ہزار ضبط کے باوجود آپ کی آنکھیں پر نم ہوگئیں اور ایک موقع وہ تھا جب غزوہ بد ر سے آپ ﷺ فارغ ہونے کے بعد اپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک پر حاضر ہوئے جو اسی نواح میں تھی۔ وہاں آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ!آپ کی آنکھوں میں آنسو ؟ مطلب یہ تھاکہ آپ ﷺ توفرمایا کرتے ہیں کہ مرتے والوں پر رونا نہیں چاہیے لیکن اب آپ جیسے جری اور مضبوط انسان کی آنکھیں بھی نم ناک ہیں۔

اس موقع پر آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ محترمہ کی جناب میں نذرانہ عقیدت و احترام ہے۔ان آنسو ؤں کو کم حوصلگی یا تھڑ دلی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ توبے اختیار آنسو ہیں جو اس حرم محترم میں حاضری کا خراجِ عقیدت ہے ۔ یہ ماں کے ان قدموں میں، جن کے نیچے جنت ہوتی ہے، گلہائے عقیدت کے طور پر آنسووں کا گلدستہ ہے۔جن کے ہاتھ میں جنت کی کلیدہے اورجن سے پہلے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔آپ کاارشادگرامی ہے کہ سب نبیوں پرجنت حرام ہے جب تک میں جنت میں داخل نہ ہو جاؤں،وہ اپنی ماں کیلئے ایسے بے قرارہیں ۔ سبحان اللہ!

ان دنوں ہم بھی مغرب کی تقلیدمیں پچھلے کئی برسوں سے ”مدرڈے ”کاتہوارمنانے میں بڑاتفاخرمحسوس کرتے ہیں۔چلے آج ایک چھوٹی سی کہانی پراس مضمون کوختم کرتاہوں جومجھے ایک پڑھی لکھی ماں نے سنائی جس کے بچے ان سے دوربیرونِ ملک میں مقیم تھے۔ وہ ایک کالج کی پرنسپل رہ چکی ہیں۔ ساری عمردرس وتدریس میں گزاردی۔اب بھی کئی غریب بچیوںکی کفالت انتہائی پردہ داری اورخاموشی کے ساتھ سرانجام دیتی ہیں۔ مجھے اس بات کاکبھی پتہ نہ چلتااگربوڑھاڈاکیامجھے اس کی اطلاع نہ دیتا۔ایک دفعہ میں ان کے گھرکے سامنے سے گزررہاتھاتومجھے روک کرمیرے کل شام کے ٹی وی پروگرام پر تبصرہ فرمانے لگیں۔مجھے جہاںان کی علمی گفتگونے حیران کردیاوہاں ان کی لاجواب یادداشت نے میرے دل ودماغ کے کئی چراغ روشن کردیئے۔میں جتنی دیر پاکستان میں رہتاہوں ان سے جی بھرکرباتیں کرتاہوں،ان کی ڈھیرساری باتیں سنتاہوں جو وہ ساراسال میرے لئے جمع کرکے رکھی ہوتی ہیں۔یہاں سے میں جب ٹیلیفون پران کوسلام کرتاہوں تو ان کی خوش کلامی سے میرادل معطرہوکے رہ جاتاہے لیکن مختصر سی بات کرکے یہ کہہ کرختم کردیتی ہیں کہ تمہیں خواہ مخواہ اس کازیادہ بل آئے گا۔ آؤگے توخوب باتیں کریں گے۔

دوران قیام ایک دن خودبخود میرے پاؤں ان کے گھر کی سمت چل پڑے۔ وہ مجھے باہر ہی مل گئیں۔ کیسی ہیں آپ ماں جی…….بہت شرمیلی ہیں وہ ،مسکرائیں اور کہنے لگیں تم کیسے ہو؟ آج صبح سویرے ہی……… جی ماں جی آپ کو سلام کرنے آگیا۔انہوں نے پھولوں کاایک گلدستہ تھام رکھا تھا۔ میں نے ان پھولوں کی بابت پوچھاتوانہوں نے جواب دیا کہ میرے تینوں بیٹے امریکامیں مقیم ہیں،سب سے چھوٹے بیٹے نے یہ پھول بھیجے ہیں کیونکہ آج ”مدرڈے ”ہے ناں!میں نے بھی انہیں مدرڈے کیلئے جب”وش”کیاتودعائیں دینے لگیں”جیتے رہو میرے بچے ،سدا خوش رہو، خوشیاں دیکھو۔ ان کی آواز کا زیرو بم میں کیسے تحریر کروں اور ان کے آنسو کیسے صفحہ پر بکھیروں۔ تھوڑی دیرآسمان کی طرف ٹکٹکی باند ھ کر دیکھتی رہیں،بالکل گم سم۔ آپ ٹھیک توہیں ماں جی!میری آوازسن کرچونک سی گئیں اورواپس اسی دنیامیں لوٹ آئیں۔اب توتمہارے سر کے بالوں اور داڑھی میں کافی سپیدی آگئی ہے ،کیاتمہارے پوتے پوتیاں تم سے کہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں؟جی ہاں،کبھی کبھار،وگرنہ آج کل تواسکول کاہوم ورک اوربعدمیں کمپیوٹرپر بچوں کی مصروفیت کے بعد دوستوں سے موبائل فون کی گپ شپ اورٹیکسٹ پیغامات نے توگھرمیں عجیب اجنبیت پیدا کر رکھی ہے کہ بچوں کے پاس اب بڑوں کے پاس بیٹھنے کی فرصت کہاں؟

تم نے مجھے ”مدرڈے پروش”کرکے ماں جی تومان لیااوراس میں کوئی شک بھی نہیں کہ میں تم سے عمرمیں کافی بڑی ہوں۔چلوآج ہم دونوں ایک بھولی بسری روائت کوقائم کرتے ہیں۔کہانی سنوگے؟انہوں نے اچانک مجھ سے یہ فرمائش کردی۔”ضرور،کیوں نہیں،مدت ہوئی مجھے کوئی کہانی سنے ہوئے”۔ انہوں نے ایک کہانی سنائی، آپ بھی سنیں:

ایسے ہی مدرڈے کے ایک تہوارپرایک شخص اپنی ماں کو پھول بھجوانے کا آرڈر دینے کیلئے ایک گل فروش کے پاس پہنچا۔ اس کی ماں دو سو میل کے فاصلے پر رہتی تھی۔ جب وہ اپنی کار سے نیچے اترا تو اس کی نظر گل فروش کی دوکان کے باہر فٹ پاتھ پر ایک نوعمر لڑکی پرپڑی جوسسکیاں بھر رہی تھی۔ وہ شخص اس لڑکی کے پاس آیا اور اس کے رونے کا سبب پوچھا۔لڑکی بولی: میں اپنی ماں کیلئے سرخ گلاب خریدنا چاہتی ہوں لیکن میرے پاس صرف پچاس پنس ہیں جبکہ گلاب کی قیمت دو پاؤنڈ ہے۔یہ سن کر وہ شخص مسکرایا اور اسے دلاسا دیتے ہوئے بولا ،رونے کی کوئی بات نہیں،میرے ساتھ اندر چلو ،جوگلاب کے پھول تمہیں پسندآئیں میں تمہیں وہی گلاب دلادیتا ہوں۔ اس نے بچی کو گلاب خرید کر دے دیا اور اپنی ماں کے لیے پھولوں کا آرڈر بک کروایا۔

دوکان سے باہر آنے کے بعد اس نے لڑکی کو گھر تک پہنچانے کی پیشکش کی۔ یس پلیز !لڑکی نے جواب دیا آپ مجھے میری والدہ کے پاس لے چلیں۔ لڑکی کی رہنمائی میں وہ ایک قبرستان تک پہنچے۔ لڑکی نے وہ سرخ گلاب ایک تازہ بنی ہوئی قبر پر رکھ دیا اور آنکھیں بندکرکے دنیاومافیہاسے بے خبرنجانے کیاکیا دعائیں مانگ رہی تھی اوروہ نوجوان ٹکٹکی لگائے اس بچی کے اس عمل کودیکھ رہاتھا۔بچی کے اس عمل نے اس نوجوان کی گویاکایاہی پلٹ دی اور اسے زندگی کاایک ایساسبق سکھادیاکہ اس کیلئے مزیدوہاں رکنامحال ہوگیا۔اس کے دل نے فوری ایک فیصلہ کیااوروہ تیزی سے اپنی کارمیں بیٹھااوربگٹٹ اسی گل فروش کی دوکان کی طرف جاتے ہوئے اپنے بچپن کے ہرلمحے کو یاد کررہاتھا کہ اس کی ماں نے اس کیلئے خودکومشقت میں ڈال کراس کی تمام آسائشوں کاکس قدرخیال رکھااوراپنی تمام خوشیوں کواس کیلئے محض اس لئے قربان کردیاکہ وہ اس کے چہرے پرکسی معمولی سی پریشانی کاسایہ بھی نہیں دیکھناچاہتی تھی۔ وہ شخص پلٹ کرجب گل فروش کے پاس پہنچاتو اس نے فوری اپنا آرڈر منسوخ کرایا اور گلدستہ کیلئے مزیدپھولوں کابڑے جذباتی انداز سے انتخاب کررہاتھااوریوں لگ رہاتھاکہ گویااب اسے اپنی ماں کیلئے یہ تمام پھول بھی کم لگ رہے ہیں۔گل فروش حیران تھاکہ یہ نوجوان پچھلے چندبرس سے اس کاگاہک ہے اورایسی جذباتی کیفیت پہلے توکبھی ایسی نہیں تھی۔گل فروش اس کے قریب آیاتواس نے مسکراتے ہوئے پھول ڈھونڈنے اورمدد کی آفرکرتے ہوئے آہستگی سے پوچھاتواس نوجوان کی آنکھیں چھلک پڑیں اوروہ فرط جذبات میں کچھ کہنے کی بجائے پھولوں کابل اداکرکے کے اس ڈھیرکو سمیٹ کرفوری اپنی ماں سے ملنے کیلئے روانہ ہوگیا اور دل ہی دل میں اس بچی کودعائیں دے رہاتھاجس نے اسے آج اتنی بڑی نعمت سے آشناکروادیا ۔

آخری فقرہ کہتے ہوئے ماں جی کی آوازکپکپانے لگی تومیں نے اپنی جھکی گردن اٹھاکران کے چہرے پرنظرڈالی توانہوں نے منہ پھیرلیاکہ میں ان کی آنکھوں کی چغلی نہ پکڑلوں۔ سنا ہے تم اخبارات میں لکھتے ہو،انہوں نے موضوع تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ میں ان کی آنکھوں کی نمی کے بارے میں کوئی سوال نہ کرسکوں گویاوہ اس سلسلے میں ہمدردی کاکوئی ایسابول بھی سننانہیں چاہتی تھیں جس میں ان کے بیٹوں کی طرف کوئی انگلی اٹھ سکے۔وہ اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پھولوں پرنظریں جمائے یقیناًاپنے بچوں کی شبیہ تلاش کررہی ہوں گی جن کیلئے انہوں نے اپنی زندگی کے شب وروز قرباان کرکے انہیں اس منزل تک پہنچایاہوگا۔بالآخرکپکپاتے ہونٹوں سے یہ فقرہ ان کے منہ سے نکلاکہ ”لگتاہے جوبچے اپنی ماں سے ہزاروں میل دور رہتے ہیں،اب کیاوہ اپنی ماں کی قبر پر سرخ گلاب رکھ کر ہی محبت کا اظہار کریں گے؟ کتنا مشکل ہے اس طرح جینا”!ماں جی یہ کہہ کر اپنے گھر کے گیٹ کی طرف چل پڑیں اورمیں ان کے نقشِ پاسے ان چیخوں اور فریادوں کودیکھ رہاتھاجس کووہ اپنی انتہائی مختصرکہانی میں بیان کرگئیں . نجانے کیوں مجھے اچانک بوعلی سیناکی یہ بات یادآگئی کہ ”اپنی زندگی میں محبت کی اعلیٰ مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چارتھے اورہم پانچ،تب میری ماں نے فوری کہاکہ مجھے سیب پسندہی نہیں”۔

ماں جی کے اس سوال کا ہے کوئی جواب آپ کے پاس! اگر نہیں تو پھر جلدی کیجئے کہ ہمارے لئے تو ہر دن ہر لمحہ ”مدر ڈے”ہے اور یہی تعلیم میرے آقا خاتم النبین ﷺ کی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

5 × two =