Suicide Attack On Kabul Airport | Beware From Hidden Hands

کابل ائیرپورٹ پرخودکش حملہ ……… ہوشیارباش

:Share

افغانستان میں15/اگست کوطالبان کے غلبہ حاصل کرنے کے بعد26اگست کوپہلی مرتبہ ہونے والے خودکش دھماکے میں13/امریکی فوجیوں سمیت90 افرادہلاک ہوگئے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ہے۔داعش نے کابل کے ہوائی اڈے پرامریکی فوج کی سخت ترین سیکیورٹی میں دہماکہ کرکے اپنی بھرپورصلاحیتوں کادعویٰ کرتے ہوئے طالبان کے کابل میں امن وامان کی صورتحال کومکمل قابورکھنے کے دعویٰ کوبھی چیلنج کردیاہے۔حیرت تواس بات پر اور بڑھ جاتی ہے کہ اس دہماکے سے ٹھیک دودن قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے کابل ہوائی اڈے پرممکنہ حملے کی نہ صرف پیشگوئی کی تھی بلکہ کابل ہوائی اڈے کے ان گیٹ کی بھی نشاندہی کی تھی۔آخرامریکااورمغرب ان مصدقہ اطلاعات کے باوجودیہ حملہ کیونکرنہ روک سکے اورداعش کس طرح ہوائی اڈے کونشانہ اوراس کے قریب واقع بیرن ہوٹل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی؟عراق اورشام میں خونخوارتباہی پھیلانے والی تنظیم داعش آخرافغانستان کیسی اورکیوں پہنچی، ان کویہاں منتقل کرنے اوران کی مالی اعانت اورجدیدترین اسلحے کی سپلائی کرنے والے خفیہ ہاتھوں کے مقاصدکیاہیں؟اس سوال کاجواب دینے سے قبل اس تنظیم کامختصرتعارف ضروری ہے۔

داعش2019ءتک افغانستان اورپاکستان میں داعش خراسان کے نام سے سرگرم تھی تاہم دوماہ قبل مئی میں پاکستان کوایک علیحدہ صوبہ قرار دےکراپنے خبثِ باطن اورآئندہ کے اپنے ایجنڈے کی طرف واضح اشارہ کردیاتھا۔خراسان اس خطے کاایک تاریخی نام ہے اوراس میں پاکستان ،ایران،افغانستان اوروسطیٰ ایشیاکے کچھ علاقے شامل ہیں۔2015میں پاکستانی اورافغان طالبان کے سابق اراکین نے ان خفیہ ہاتھوں کے حکم پراس کی بنیادرکھی اوراب افغانستان اورپاکستان میں سلیپرسیل کادعویٰ کرتے ہیں۔عراق اورشام میں جاری مظالم اورخوف وہراس اورسخت گیری ان کاتعارف ہے اورافغان طالبان کے یہ نہ صرف جانی دشمن بلکہ انہیں واجب القتل سمجھتے ہیں۔دوحہ میں فروری2020ء میں امن معاہدے پرتنقیدکرتے ہوئےطالبان کے ملک پرقبضے کوردکرتے ہوئے کہاتھاکہ امریکاانہیں خفیہ معاہدے کے تحت ملک کی چابیاں پکڑاکر چلاگیاہے۔

سلامتی کونسل کے اندازے کے مطابق اس وقت افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کی تعداد500سے لیکرکئی ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔یاد رہے کہ تنظیم کو2019کے اوآخرمیں بھاری نقصان اٹھاناپڑاتھااوراگلے سال کے اوائل میں ہی اس کے سینیئررہنماؤں کوگرفتارکرلیاگیاتھا تاہم حال ہی میں اس گروہ کی صلاحیتوں میں دوبارہ اضافہ ہواہے اوراس نے امن مذاکرات کے دوران اوراس کے بعد ہونے والے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔اقوامِ متحدہ اورامریکاکے اندازوں کے مطابق ان شکستوں کے بعد داعش اب مختلف خفیہ سیلزکے ذریعے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اورملک کاشایدہی کوئی علاقہ ان کے باقاعدہ قبضے میں ہے۔افغانستان میں جب داعش نے سراُٹھایااس وقت 2014ء میں پاکستانی طالبان کے سابقہ اہم کمانڈروں نے پاکستان کے سابقہ خیبرایجنسی کی تیراہ وادی میں اپنے آقاؤں کے حکم پراس کی بنیادرکھی لیکن ضربِ عضب اورردّالفسادآپریشنزکے بعدان عسکریت پسندوں کایاتوخاتمہ کردیاگیااوران کی قیادت افغانستان کے ملحقہ صوبہ ننگرہارمنتقل ہوگئے جہاں بھارتی خفیہ ایجنسی”را”کی معاونت سے پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث ہے۔داعش نے جلدہی یہاں پرافغان طالبان کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں اوراب ننگر ہارکے بیشترعلاقوں پرقبضےکادعویٰ بھی کرتے ہیں۔یہاں داعش کا اثرورسوخ تب مزیدمضبوط ہواجب طالبان کے ساتھ شدیدجھڑپوں میں انہیں شدیدجانی نقصانات کی وجہ سے شکستوں کاسامنا کرناپڑااوراس کے جنگجوؤں نے فراہوکرکنڑکے بعض اضلاع کواپناگڑھ بنالیا۔اس میں سرفہرست داعش داعش کے سابق سربراہ شیخ ابو عمر خراسانی کاآبائی ضلع سوکئی اوراس سے متصل پرپیچ پہاڑی علاقےکنڑمیں تنظیم کے مضبوط گڑھ بن گئے۔تاہم طالبان کے حملے یہاں بھی ان کاپیچھاکرتے آئے اوربلآخر فروری2020میں تنظیم کایہاں سے بھی مکمل صفایاکردیاگیا۔داعش کے باقی ماندہ جنگجوؤں نے طالبان کے ہاتھوں موت سے بچنے کیلئےافغان حکومت کے آگے ہتھیار ڈال دیے جن میں سے اکثریت کوکابل کے بگرام اورپل چرخی جیلوں میں منتقل کیاگیاتھالیکن طالبان کے غلبے سے قبل ہی ان خفیہ ہاتھوں نےاپنے خفیہ منصوبے کی تکمیل کیلئےانہیں کہیں اورمنتقل کردیا۔گزشتہ سال مئی میں داعش کے امیرشیخ ابوعمرخراسانی کوچندساتھیوں کے ہمراہ کابل سے گرفتارکرلیاگیاتھاجس کے بعد ڈاکٹرشہاب المہاجر،جن کاتعلق مشرقِ وسطیٰ سے ہے،کو اس کاسربراہ مقررکردیاگیا۔حالیہ دنوں میں جب طالبان نے یہ جیلیں توڑیں تودیگرقیدیوں کے ساتھ ساتھ داعش کے بھی کئی قیدیوں نے فرارہونے کی کوشش کی تاہم اطلاعات کے مطابق تنظیم کے80سے250ارکان فرارہونے کی کوشش میں مارے گئے۔خیال کیاجاتاہے کہ ابوعمر خراسانی بھی اسی دوران ماراگیاتھا۔

جنگجوؤں کے بڑے پیمانے پرمارے یاپکڑے جانے کے بعدداعش نے امریکی انخلاء کے اعلان کے بعدحالیہ دنوں میں کابل سے نئی بھرتیاں شروع کردیں اورایک اطلاع کے مطابق یہ کام پڑھے لکھےاورانتہائی کٹرسلفی جنگجوؤں پرمشتمل ایک نیٹ ورک کررہاہے۔کئی برسوں سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورکس پرتحقیق کرنے والےایشیاپیسیفک فاؤنڈیشن نے دعویٰ کیاہے کہ2019سے2021 کے درمیان ہونے والے کچھ بڑے حملے حقانی نیٹ ورک،داعش اورپاکستانی طالبان دہشتگرد تنظیموں کے باہمی تعاون سے ہوئے تھے۔داعش کے طالبان سے بڑے اختلافات ہیں۔وہ ان پرقطرمیں”پرتعیش”ہوٹلوں میں بیٹھ کرامن معاہدے کرنے اورمیدان جنگ اورجہاد ترک کرنے کاالزام لگاتے ہیں۔تاہم اب یہ واضح ہوگیاہے کہ داعش کے جنگجو اب آنے والی طالبان کی حکومت کیلئےایک بڑاسکیورٹی چیلنج ہیں۔یہ وہ چیزہے جوطالبان اورمغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے درمیان مشترک ہے۔تاہم امریکااورمغربی ممالک کے تمام اداروں نےکابل کے مجرمانہ حملوں سے طالبان کوبری الذمہ اورداعش کوذمہ دارقراردیتے ہوئےداعش پربھرپورحملوں کاعندیہ دیتے ہوئےامریکی سینٹرل کمانڈکے کیپٹن بل اربن نے جمعے کوایک بیان میں داعش کی خراسان شاخ کے ایک”منصوبہ ساز”کوڈرون حملے میں ہلاک کرنے کادعویٰ بھی کیاہے۔

اس حملے کے فوری بعدطالبان نےکابل کی سڑکوں پراپنے انتہائی تربیت یافتہ کمانڈو”بدری313″اورجیش الفتح نے گشت شروع کردیاہے تاکہ شہرمیں تحفظ کا احساس برقراررکھاجاسکے۔کابل ایئرپورٹ پرسیکیورٹی کی ناکامی کاذمہ دارطالبان امریکی فوج کوقرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہماکے کے وقت ہوائی اڈے کی سیکیورٹی امریکی فوج کے ہاتھوں میں تھی اوراس دہماکے کے بعدطالبان نے کابل ائیرپورٹ کے کئی دوتہائی حساس مقامات کواپنے قبضے میں لیکراس کی سیکورٹی کواپنے ہاتھ میں لے لیاہے اوراب امریکاکے پاس اپنے فوجیوں اورشہریوں کی سیکورٹی کاتھوڑاعلاقہ باقی رہ گیاہے۔

ادھرکابل کے ہوائی اڈے پرحملے سے داعش نے ایک تیرسے دوشکارکرنے کی کوشش کی اوریہ تاثردیاکہ امریکااورطالبان دونوں حملوں کی پیشگی وارننگ کے باوجودان کوروکنے کے اہل نہیں ہیں۔لیکن ان حملوں سے داعش پر جہادی حلقوں کی طرف سے شدیدتنقیدبھی کی جارہی ہے اورانہیں احمق قراردیتے ہوئے اسلام اورمسلم دشمن قوتوں کاایجنٹ قراردیاجا رہا ہے۔داعش اوراس کی مقامی تنظیم خراسان صوبے(آئی ایس کے پی یاآئی ایس آئی ایس کے)اورطالبان ایک دوسرے کے دیرینہ دشمن ہیں۔ افغان طالبان نے داعش کو کمزورکرنے میں انتہائی اہم کرداراداکیاہے۔2019میں داعش کومشرقی صوبے ننگرہارمیں اپنے مضبوط گڑھ سے پسپاہونے پرمجبورکردیا تھا۔ داعش اپنے مدمقابل کی حالیہ سیاسی اورفوجی کامیابی پرشدیدناخوش ہے۔داعش کی”خلافت”ختم ہوگئی ہے جبکہ طالبان اپنی حکمت سے معمور پالیسیوں سےامارات تشکیل دے رہے ہیں اوروسیع ترجہادی حلقوں اوراسلامی دنیا میں ان کو پذیرائی حاصل ہورہی ہےلہذاداعش اوران کے آقاافغانستان میں طالبان کی طرف سے استحکام اورامن واماں قائم کرنے کے دعوؤں کوغلط ثابت کرنے کے موقعوں کی تلاش میں ہیں۔ کابل کے ہوائی اڈے پرمغربی شہریوں اورغیرملکی فوجیوں سمیت لوگوں کی بڑی تعدادمیں موجودگی ان کیلئےفائدہ اٹھانے کاایک اچھا موقع تھا۔

افغانستان میں19/اگست کوپیش آنے والے واقعات پرداعش کاپہلاردِّعمل یہ تھاکہ اس کے جنگجوجہادکاایک نیادورشروع کرنے کی تیاری کررہے ہیں اورساتھ ہی انہوں نے طالبان کی مذمت کی۔26اگست کوانہوں نے ملک میں اپنی کاروائیاں رکھنے کے عزم کااعلان کیا۔پروپیگنڈاکے محاذ پرداعش طالبان کی مذہبی ساکھ کوخاص طورپر جہادی حلقوں اورعام طورپروسیع تراسلامی دنیامیں نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں اورانہیں امیدہے کہ اس طرح وہ ایک مرتبہ پھراپنے آقاؤں کے مجوزہ پلان کے خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے امریکااورمغرب کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کی بھیانک تصویرپیش کرکے مسلم ممالک میں ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں پینٹاگون کے ایک افسرکی وہ ویڈیومنظرعام پرآچکی ہے کہ ہم افغانستان میں توشکست کھاچکے ہیں لیکن اب مسلمانوں میں شیعہ اورسنی مکاتب فکرمیں جنگ کرواکرہم اپنی شکست کابدلہ لے سکتے ہیں۔

داعش کاکہناہے کہ دوحہ کے”پرتعیش ہوٹل”میں ہونے والے خفیہ معاہدوں کے بعدامریکانے افغانستان کوچاندی کی پلیٹ میں رکھ کرطالبان کوپیش کرتے ہوئےاپنے درینہ دشمن کوخطے میں واشنگٹن کی اصل کٹھ پتلی کے طورپرپیش کرنے کی کوشش کی جوواشنگٹن کے کہنے پرخطے کے”اصل جہادیوں”کے خلاف لڑے گا۔داعش جوعالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ پرپھلتی پھولتی ہے،اس بات سے بھی پریشان ہے کہ اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کی تمام ترتوجہ طالبان کےپرامن روّیے پر ہے اوروہ کابل ہوائی اڈے کی طرح کی بڑی کارروائیاں کرنے کا موقعہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ وہ ایک مرتبہ پھرعالمی سطح پرشہ سرخیوں میں جگہ بناسکیں۔

2019میں طالبان کی کارروائیوں سے داعش پسپاہونے پرمجبورہوگئی تھی لیکن ایک سال بعد ہی دوبارہ یہ اپنے آپ کومنظم کرنے میں کامیاب ہوگئی اور2021 میں اس نے اپنی کارروائیاں شروع کردیں لیکن افغانستان میں اس کی کارروائیوں میں تیزی سے اونچ نیچ آتی رہی۔ اس سال کے ابتدائی مہینوں کے برعکس حالیہ دنوں میں یہ افغانستان میں کوئی کارروائی نہیں کرپائی تھی۔ہوائی اڈے پرکارروائی سے داعش یہ اعلان کررہی ہے کہ وہ اب بھی اس قابل ہے کہ وہ انتہائی محفوظ جگہوں پربھی دہشتگردی کرنے کی بھر پورصلاحیت رکھتی ہے۔

کابل کے ہوائی اڈے پرحملوں سے القاعدہ اوراس کے حامیوں کومشکل صورت حال کاسامناہے۔ایک طرف توالقاعدہ ان حملوں میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت جن کی وہ شدیددشمن ہے،خوشی مناناچاہتی ہے لیکن دوسری طرف یہ حملہ ان کے ایک مخالف گروہ داعش نے کیاہے اورطالبان کی ساکھ کونقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کی ہے جبکہ اس وقت وہ امریکی اوران کے اتحادیوں کے پرامن انخلاء کے اپنے وعدے پرقائم ہیں۔القاعدہ کے حامیوں نے سوشل میڈیا کے پیغام رسانی کے ایپ ٹیلی گرام پرداعش کے دعوؤں پرتبصرہ کرنے سے گریز کیاہے لیکن القاعدہ کے ایک سرکردہ حامی وراث القسم نے کہاہے کہ جس حملے میں امریکی ہلاک ہوئے ہوں اس کی تعریف کرناچاہتے ہیں بیشک یہ ان کی مخالف جہادی تنظیم ہی کی طرف سے کیوں نہ کیے گئے ہوں۔اسی دوران کچھ حقیقت پسند جہادیوں جن میں الذھبی جوشام میں موجودحیات تحریرالشام کے حامی ہیں،انہوں نے داعش کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئےکہا ہے کہ داعش کامقصدافغانستان میں امن قائم کرنے اوراسلامی امارات کی بنیادرکھنے کی کوششوں کوناکام بناناہےاوریہ واضح طورپرداعش کی طالبان پرکامیابیوں اورعالمی ذرائع ابلاغ میں حاصل ہونے والی شدیدجلن کانتیجہ ہے۔ایک اور حقیقت پسند مذہبی رہنماالحسن بن علی الکتانی نے داعش کواحمق اورلا پرواہ قراردیااوریہ ثابت کرنے کی کوشش کہ داعش نے اسلام اورمسلمانوں کو صرف نقصان ہی پہنچایا ہے۔

فی الحال یہ کہنامشکل ہے کہ اس بے مقصداورلاحاصل امریکی جارحیت میں ہلاک ہونے والے افغان سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کتنی ہے کیونکہ یہ اعدادوشمارکبھی شائع نہیں ہوئے تاہم اے پی نیوزکے مطابق 2019ء تک66ہزارافغان پولیس اورسکیورٹی اہلکارہلاک ہوچکے تھے۔افغان شہریوں کی ہلاکت کااندازہ کرنابہت زیادہ مشکل ہے کیونکہ جوملک پچھلے چالیس سال سے حالت جنگ میں ہو،وہاں بے گناہ افغان شہریوں کی مکمل تعدادکیلئے کئی برس درکارہوں گے۔فروری2019میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 32000شہری ہلاک ہوئے ہیں۔براؤن یونیورسٹی میں قائم واٹسن انسٹی ٹیوٹ کے تخمینے کے مطابق51191/طالبان نے اس جنگ میں جامِ شہادت نوش کیا۔2001سے افغانستان،پاکستان،عراق اورشام میں ہونے والی جنگوں پرامریکا کی 5.9ٹریلین ڈالر لاگت آئی ہے اورامریکی یلغار میں2448امریکیوں سمیت3500غیرملکی اتحادی فوجی مارے جاچکے ہیں۔3846امریکی کنٹریکٹراس کے علاوہ ہیں۔ 444امدادی کارکن کے علاوہ72صحافی ہلاک ہوگئے۔پاکستانی حکام کے مطابق اس جنگ میں86ہزارسے زائدپاکستانیوں نے جامِ شہادت نوش کیا، گویااس جنگ میں سب سے زیادہ جانی نقصان پاکستان کواٹھاناپڑا جبکہ اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت کوبھی157ارب ڈالرز کامعاشی نقصان برداشت کرناپڑا۔

دراصل امریکااوراس کےاتحادی افغانستان سے انخلاء اورشکست کوٹھنڈے دلوں اب بھی برداشت کرنے کوتیارنہیں اورگزشتہ بیس سالوں میں خطیرجانی ومالی نقصان کے بعدان کوپوری امیدتھی کہ پلان کے مطابق یہاں لامتناہی خانہ جنگی کی آگ افغانستان اوردیگرہمسایہ ممالک کوجلاکرخاکسترکردے گی۔مودی اور اسرائیل امریکی کندھے پربیٹھ کرعالمی طاقتوں کاتاج پہن کرخطے میں اپنی دھاک بٹھاکریہاں کے وسائل پرقبضہ کرنے کے ساتھ پاکستان کی جوہری طاقت کے علاوہ سی پیک کوختم کرکے اپنے آقاامریکاکی کرم فرمائیوں کاحق اداکریں گے لیکن طالبان کے غلبے کے بعدانتہائی مایوس اوران کے تمام خواب چکناچورہوگئے ہیں جس کی بناء پرعین ممکن ہے کہ کابل ہوائی اڈے پراس مجرمانہ حملے میں ان مایوس عناصرکے مقاصدکی تکمیل کاکوئی اشارہ ہوجس کی تحقیق ازحدضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں