ہاں بہت ہاتھ پاؤں مارتا ہے انسان…بہت کوشش، بہت تگ ودو…کس لیے؟ اس لیے کہ وہ سکون سے رہے، آرام سے رہے، محفوظ رہے۔ ناموری کا خواہش مند ہوتا ہے وہ… واہ، واہ سننا چاہتا ہے دادو تحسین کا طالب اور چہار دانگ عالم میں تشہیر…بس یہی ہے۔
سکون سے رہنا چاہتا ہے اور بے سکون ہوتا رہتا ہے۔آرام فوم کے گدوں پر سونے سے ملتا نہیں ہے، لاکھ توپ و تفنگ پاس ہو، اپنوں سے بھی ڈرتا رہتا ہے۔سائے سے بھی ڈرجانے والا۔ناموری کے شوق میں ایسی ایسی بے ہودہ حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں اُس سے کہ بس۔چہار جانب بچہ جمہورے واہ، واہ کرتے رہتے ہیں اور خلقِ خدا تھوتھو۔ دادوتحسین کے لیے نت نئے ڈرامے اور اداکاری…لیکن ذلت لکھ دی جاتی ہے۔ میں غلط کہہ گیا ہوں، اپنی ذلت و رسوائی کا سامان ساتھ لیے پھرتا ہے وہ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت کا گھوڑا اسے اپنے سموں تلے روندتا ہوا نکل جاتا ہے۔
سامان سو برس کا ہوتا ہے اور پل کی خبر نہیں ہوتی۔ اپنی انا کے بت پوجنے والا کب کسی کو خاطر میں لاتا ہے! بس ذرا سا اختلاف کیجیے تو چڑھ دوڑتا ہے اپنے لشکر کو لے کر،یہ جانتے بوجھتے بھی کہ لشکروں کو پرندوں کا جھنڈ کنکریاں مار کر کھائے ہوئے بھس میں بدل دیتا ہے۔ عبرت سرائے ہے یہ۔ لیکن نہیں مانتا وہ۔ وہ ناز کرتا ہے اپنے لشکر پر۔اور دنیائے فانی میں کوئی سدا نہیں جیتا۔ اپنے سینے پر سجے تمغے دیکھ کر نہال ہو جانے والے بھی تنہا اور لاچار ہوجاتے ہیں اس لیے کہ زندگی پر موت کا پہرا ہے اور موت کسی سے خائف نہیں ہوتی۔
ہاں وہ کسی چاردیواری، کسی پناہ گاہ، کسی قلعے، کسی نسب، کسی منصب و جلال، کسی لشکر کو نہیں مانتی، دبوچ لیتی ہے…اورپھر ایسا کہ سامان سو برس کا ہوتا ہے، جو دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ جسم کے پنجرے کو توڑ کر موت اچک لیتی ہے اس کی روح۔
موت تو خیرآتی ہے، موت سے پہلے بھی کبھی موت آجاتی ہے۔وہ موت اور بھی بے حس ہوتی ہے۔ ہاں اُس وقت جب زندگی خود بھی گناہو ں کی سزا دینے لگتی ہے۔ بے کلی، بے چینی، اضطراب، وحشت، تنہائی… کیا یہ سزا کم ہوتی ہے! سب کو تہہ تیغ کر کے آگے بڑھ جانے والا سوچتارہ جاتا ہے لیکن پھر وقت ہاتھ نہیں آتا۔
اپنے اقتدارکوقائم رکھنے کیلئے انہیں بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جنہیں کرپٹ کہتا ہے، نہیں آنے کی دھمکیاں دیتا ہے…اس لیے کہ اپنے رب کا غلام نہیں ہوتا وہ۔ وہ تو قصر سفید،طاقتِ عارضی کا ادنیٰ غلام ہوتا ہے، اور جب ارضی خدااسے کہہ دیں پھر کیا مجال ہوتی ہے کہ انکار کردیا جائے! ہاں پھر برداشت کرنا پڑتا ہے جناب۔
انکار کی لذت اُسے محسوس ہوتی ہے جو ربِ کعبہ کا غلام ہو۔ ہاں وہ خائف نہیں ہوتا جسے رب کا قرب نصیب ہو جائے۔ ایک سجدہ ہزار سجدوں سے بے نیاز کردیتا ہے۔رب کے بندے تو غلامی کا آغاز ہی انکار سے کرتے ہیں۔”لا”سے کرتے ہیں،نہیں مانتے وہ ارضی خدائوں کی …وہ ہوتے ہیں اپنے رب کے بندے۔ نفس کی بندگی سے انکاری، جعلی دنیاوی خدائوں کے منکر، بس اک نعرۂ مستانہ ”لا”ہر کسی مقدر میں کہاں۔
لباسِ فاخرہ اتارنا پڑتا ہے جناب۔کب تک، آخر کب تک! چھیالیس برس تو کیا ہزارسال پہن لیا جائے، زیبِ تن کرلیا جائے، آخر اتارناپڑتا ہے۔ہاں اُس وقت آواز بھر آجاتی ہیں اورآنکھیںنمناک ہوجاتی ہیں۔ لیکن اَنا پرستی کا کیا علاج۔جانتے بوجھتے کہے چلا جاتا ہے، اُس نے دو جنگیں لڑی ہیں، ڈیرہ بگٹی اور کوہلو جیسے خطرناک مقدمات پر فرائض انجام دئیے ہیں۔ کون سی جنگیں جناب، کون سے خطرناک مقامات!!!
اپنوں کو خاک و خون میں نہلا دیا………یہ ہے بہادری! رہنے دیجئے، سب جانتے ہیں آپ کو۔ تاریخ کو کون مسخ کرسکا ہے جناب، کوئی نہیں۔ کارگل میں کیا ہوا، یہ دوہرانے کی ضرورت ہے کیا، ۱۹۷۱ء میں کیا ہوا، کتنابتائیں۔
۱۲/اکتوبر ۱۹۹۹سے لے کراقتدارکے آخری دن تک کی تاریخ………شرم آتی ہے۔کون سی چیز سلامت رہ گئی؟ سب کچھ تو برباد کردیا جناب، لیکن اصرار ہے کہ ہم نے بچا لیا پاکستان۔عدلیہ کے ساتھ کیاسلوک ہوا، صحافت پابندکردی گئی، ہزاروں پاکستانی گمشدہ افرادکی فہرست کارزق بن گئے، پرائی جنگ اس ملک پرمسلط کرکے ایک دائمی عذاب میں مبتلاکردیا،مسئلہ کشمیرپرایسایوٹرن لیاکہ لاکھوں کشمیریوں کی جانیں لینے والے سے سارک کانفرنس میں ہاتھ ملاکرسب کچھ ڈھیرکردیا،کیا تیر مارلیا آپ نے؟سب کچھ توملیامیٹ کردیا آپ نے،تباہ کردیا، برباد کردیا۔قوم کوایمرجنسی کے عذاب میں مبتلاکرکے خودکوفاتح کہتے ہیں؟ دومرتبہ آئین معطل ہوگیا، آپ کے دورِ زرّیں میں۔
عبرت سرائے خانہ ہے یہ۔ کہاں ہے ق لیگ جوبھرے اجتماعات میں وردی میں دس مرتبہ منتخب کروانے کادعویٰ کرتی تھی وہ توجناب کا تذکرہ بھی نہیں کرتی،انتخابات کے دوران ہی اُس کے پوسٹروں پر سے آپ غائب ہوگئے ۔دلیل یہ کہ آپ کے ساتھ نتھی ہو کر وہ اپنی مقبولیت کھو دیں گے۔ وہ آپ کے چہیتے شوکت عزیز کو ٹکٹ نہیں دیا جاتا اور وہ دہائی دینے لگتا ہے اور پھرخبر آتی ہے اُن کی وجہ سے دولتِ مشترکہ سے پاکستان کو نکالا گیا بعدازاں خودملک سے ایسافرارہواکہ پلٹ کرخبرنہ لی بلکہ خبرتویہ ہے کہ موجودہ حکومت کامخبربن کرجناب کی ساری دولت اورخفیہ اکاؤنٹس کی تفصیلات مہیاکردیں کہ شکنجہ میری گردن سے دور رکھیں۔جن دوستوں کو ہر جگہ لوٹ مار کی اجازت دی تھی ،اب سب کچھ جان کی امان پر اگل رہے ہیں ۔جنابِ شیخ رشید نے ہی شوکت عزیزکویہ طعنہ دیا تھاکہ ” جس بندے کا انتخابی حلقہ ہی نہ ہو اس کا یہی حال ہوتا ہے”لیکن خود اپنے انتخابی حلقے کی بڑھکیں مارنے والالال حویلی کی دیواروں سے باہرنکل نہ پایا بالآخراسی عمران خان کا منت ترلہ کرناپڑا جس کوٹی وی پروگرام میں تانگہ پارٹی کاطعنہ دیاتھا…………!
یہ ہے دنیا جناب! سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ انسان کر ہی کیا سکتا ہے جناب! جواپنے رب پر بھروسہ کریں انہیں ملتا ہے سکون، انکار کی جرأت اور خوف سے نجات۔بندہ بشر ہے ہی کیا اپنے سائے سے بھی خوفزدہ۔
جی جناب! وقت کا گھوڑا انہیں اپنے سموں تلے روندتا ہوا چلا جاتا ہے اور پھر نعرہ بلند ہوتا ہے ”دیکھو جو مجھے دیدۂ عبرت نگاہ ہو”۔اس لئے خواجگان برادرزکیلئے بھی بہت ضروری ہے کہ اقتدارکے نشے میں اتناآگے نہ جائیں کہ عبرت گاہ کے ماتم کدے میں ان کی تصاویربھی آویزاں ہوجائیں! موت کافرشتہ امرتسری یاسیالکوٹی کشمیری کالحاظ توقطعاًنہیں کرتا!!
کہاں سکندر، کہاں ہے دارا، جام کہاں ہے، جم کا
جن کی تیغ سے دیو بھی کانپیں، دل دہلے رستم کا
ان کی راکھ ملے نہ ڈھونڈے، دنیا کاگھر ہے غم کا
ہاشم، جان غنیمت جانو، نہیں بھروسہ دم کا
Load/Hide Comments