وہی ہم،وہی غم

:Share

تبدیلی کاسلسلہ توجاری وساری رہتاہے۔اسی کانام زمانہ ہے۔ پانی ٹھہرجائے توجوہڑبن جاتاہے۔چلتاہواپانی ہی صاف اور شفاف ہوتاہے۔قوم نے تیسری مرتبہ بھروسہ کیا لیکن آپ توازن ہی برقرارنہیں رکھ پائے۔جن حساس اداروں کی آبروکے آپ ضامن ہیں ،آپ کی آنکھوں کے سامنے سارادن ان کوبغیرکسی ثبوت کے رگیدا گیا۔ملک کے دشمنوں نے تو اس خبرپرگھی کے چراغ جلائے اورساری دنیامیں جگ ہنسائی ہوئی۔ آپ ہی آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی فرماتے ہیں لیکن اس ادارے کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویرکوسارادن ٹی وی پردکھاکرحامدمیرپرقاتلانہ حملے کا ذمہ دار قراردیاجاتارہالیکن بشمول آپ کے کسی بھی حکومتی اہلکارنے اس کانوٹس تک نہیں لیابلکہ جلتی پرتیل کاکام آپ کے وزیر اطلاعات کے اس بیان کہ وزیراعظم کی عیادت سے سب کوپتہ چل گیاکہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔کراچی میں ہرآئے دن ڈاکٹرز،وکلاء اورملک کے انتہائی نامور افراد کو دن دیہاڑے قتل کردیاجاتاہے، ایک سال میں گیارہ صحافیوں کوموت کے گھاٹ اتاردیاگیامگران کی تعزیت کیلئے تو آپ کاکوئی سیکرٹری بھی نہ گیا۔
سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی کا نام ہے۔اپنی عقل وفراست کے ساتھ اس کے بندمضبوط بنانے کی ضرورت ہے ورنہ اس روانی کو بندکرنے میں کسی قسم کی مروت کامظاہرہ نہیں کیاجاتا۔ اوپر کی سطح پرتبدیلیاں ہی تبدیلیاں اورنیچے؟کیااب بھی وہی ہم اور وہی غم ہوں گے ۔ چہرے بدلنے سے کبھی مقدر نہیں بدلتے ۔ تبدیلی کاعمل جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات وجذبات اسی طرح سلگتے رہیں گے۔مہنگائی،لوڈشیڈنگ اورمیڈیاکی آزادی کے ایشو پر انہیں ڈرائیں اوردوڑائیںنہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اورتھکے ہوئے ہیں۔ حالات وواقعات نے انہیں اس قدر ٹچی بنادیاہے کہ سوئی کی آواز بھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔ اس کے لئے موجودہ سرکار عوام کیلئے ”کاروبار” کرنا ہوگا پھرکہیں جاکر ان کابازار چلے گا۔ ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں۔ مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں ، ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ ہررات کوشب برأت سمجھنے والوں کویادوں کی بارات کا کیاپتہ ،انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہوجائے تو وہ آنکھ بند کرنے سے ہی توبہ کرلیں۔ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیںمگران کے ضمیر سورہے ہوتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کے لئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیرجاگتی رہتی ہے۔
بہت سے خواتین وحضرات کوآنکھوں کی”چہل قدمی” کابڑا شوق ہوتاہے،انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں۔اسی شوق چشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگاجاتے ہیں۔ دوسروں کے گھروں میں ”نظراندازی” کرنے والوں کو اپنی چادروچاردیواری کے اندربھی دیکھناچاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پر کیا گزرتی ہے۔ من کاویسے بھی دھن سے کیا رشتہ ہے،اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں، یہ بھرگیا توبہت سے سیلاب جسم کوڈبودیں گے۔ سیاست میں یہی سیلاب سونامی بن جاتے ہیں۔ پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدارکے بغیر نہیں رہ سکتے اور اسلام آباد ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑا ہاتھ ہے ۔ کہاجارہاہے کہ بھارت سے جلد دوستی کی بیماری اب وباء کی شکل اختیارکرگئی ہے ۔ جب تک سمجھوتے دل سے نہیں ہوں گے،اس کے لئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کرلیں، کاغذ کور اہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بار ہوتی ہے اوراس کے بعدسمجھوتے ہی چلتے ہیں، جب تک جان ہے،جہان داری تو نبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہارجیت چلتی رہتی ہے۔جیتنے والوں کویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے اورآپ ڈالرکوقابوکرنے کی تعریفیں سن کرنہال ہورہے ہیں۔آئے دن بھوک کے ہاتھوں دلبرداشتہ ایک ماں نے اپنے معصوم بچوں سمیت خود کو ٹرین سے کٹواکر ہمارے سسٹم کو کاٹ کررکھ دیتی ہے ۔ہمارے یہاں توزندہ لوگوں کاحساب نہیں لیاجاتا،مرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔ ”امیر کا شہر” کاتواپنا یہ حال ہے
امیرشہرغریبوں کاخیال کیاکرتا
امیر شہر کی اپنی ضرورتیں تھیں بہت
صرف اگراپنی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لئے سخت فیصلے کریں گے تولوگوں کاری ایکشن بھی اسی طرح کاسخت ہوگا۔فیصلے توتاریخ میں کچھ اس قسم کے بھی رقم ہوئے ہیں۔ جب سکندر مرزاپشاورکے ڈپٹی کمشنر تھے توان دنوں وہاں ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ایک جلوس نکالاگیا۔ سکندرمرزا نے جلوس کومنتشر کرنے کے لئے پولیس تک طلب نہیں کی بلکہ اس کے راستے میں ٹھنڈے شربت کی سبیلیں لگائیں،گرمی کاموسم تھا ، جلوس کے شرکاء جی بھرکراپنی پیاس بجھاتے رہے۔ شربت میں جمال گوٹہ ملایاہواتھا۔ پھرایک روز جب ڈاکٹر خان صاحب وزیربن گئے تو سکندر مرزانے بیوروکریسی کونصیحت کی کہ ”ڈاکٹر صاحب کوخوش رکھنے کاخیال رکھاکرو، اس شخص نے ساری عمر جیل کی ہوا کھائی ہے یاپولیس کے ڈنڈے ،ہم اسے بڑی مشکل سے گھیرگھارکر حکومت میں لائے ہیں۔ اب اسے’’گڈلائف‘‘کاایساچسکا لگاؤکہ وہ اس پنجرے سے باہر نہ نکل سکے۔” سکندرمرزا کے ری پبلکن پارٹی کے خواب کی تعبیر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں ہی ہوئی۔
جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کے پنجرے کی اسیرہوئی،اس کے نتیجے میں خلقت صرف حقیر ہوئی۔ عوام نے موجودہ سرکار کوبڑی تمناؤں کے ساتھ چناہے۔ صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،،عوام کے علم میں سب کچھ ہے، اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں،عوام کو دئیے گئے ریلیف سے ہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔ انسان کے جذبات ناقابل تسخیرہوتے ہیں۔مگریہ بھی توسوچیں کہ ان کے دردکے فاصلوں کو کیسے کم کرناہے ۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل ودماغ کے درمیان دشمنی لگادیتے ہیں۔ایسے میں دل اپنانہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں۔اب اس بیمارسوچ کوذہن سے کھرچ کرنکالناہوگاکہ ان دونوں کی لڑائی میں ہمارافائدہ ہے۔سیلاب اورزلزلہ جھونپڑی اورمحلات میں کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔ سرکارکادعویٰ ہے کہ پہلی بار پیارے پاکستان کوجمہوریت کاتسلسل نصیب ہواہے،گریہ واقعی ہوگیا ہے، لوگ توتب مانیں گے۔
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں
میں صحرا تھا سمندر ہوگیا ہوں
صحرامیں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی دیتاجس کی مرہون منت آنکھیں امیدسے ”تربتر” رہتی ہیں۔امیدکسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے بصورت دیگر انجام اس عمارت کی طرح کاہوتاہے جولمحوں میں مسمارہوجاتی ہے۔امیدکوبارودکے ساتھ ساتھ ”نمرود” سے بھی بچاناہوتاہے کیونکہ یہ زندگی کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے۔ یہ وہ سورج ہے جورات کوبھی روشن رکھتاہے۔امیدٹوٹ گئی توسمجھو کہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔اب بھی یہی کہاجارہاہے کہ ملکی معیشت کے لئے سخت فیصلے کرنے پڑے ہیں۔ اوپر تبدیلی آگئی ہے مگر نیچے اسی طرح کے سخت فیصلے
ہوں گے؟ گستاخی معاف!اس کامطلب تویہ ہوا کہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں۔ اپنے اداروں کی توقیرکاخیال نہ کیاتوکل کلاں خودبھی بے آبرو
ہونے میں دیرنہیں لگے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں