انجانی منزل کے بھٹکے مسافر

:Share

مجھے آپ کے حوصلے اور بہادری پررشک آتا ہے مگر آپ جس مقصد کے لئے اپنی جان دے رہے ہیں وہ غلط ہے۔آپ اپنی بھری جوانی کے چمکتے دنوں کوایک خاص مشن کی نظرکررہے ہیں۔معلوم نہیں آپ نے اپنے ماں باپ کواپنے ارادوں سے باخبررکھا یانہیں؟آپ یقینا سوچتے ہونگے کہ جس ماں نے پیدائش سے پہلے نوماہ تک آپ کے حسین تصور میں زندگی گزاری ،آپ کوسوچا،محسوس کیا،برداشت کیا،پھر آپ کی پہلی آواز سن کر کتنی خوشی ہوئی ہوگی،کتنے برس تک کس طرح سینے سے لگایا ہوگا،بلائیں لی ہو ں گی،کتنے خواب بنے ہوں گے،اس کو کیسے بتائیں گے کہ میں اپنی زندگی کاباب خودبندکرنے والاہوں۔آپ کویہ فکربھی یقینالاحق ہوگی کہ جس باپ نے آپ کی آنکھوں میں چمک میں اپنے بڑھاپے کاسہارادیکھا ہے،جسے آپ کے کڑیل بازوؤں میں اپنے خاندان کے مستقبل کی طاقت نظرآتی ہے،اسے کیسے بتائیں کہ آپ اپنی عمر بھرکی کہانی ادھوری چھوڑنے والے ہیں۔
تنہائی میں آپ کی آنکھوں کے سامنے بارباروہ مناظرگزرتے ہوں گے جن میں کتنے نوجوان جسم مختلف ملکوں میں گلیوں اورسڑکوں پرکاروں میں ، موٹرسائیکلوں میں بموں کے ساتھ پھٹ کربکھرگئے،فدائیت کی خونی داستاں رقم کرگئے۔یہ بھی آپ یقیناسوچتے ہوں گے کہ ان کے والدین، بہنوں اور بھائیوںپرکیاگزری ہوگی۔ آپ یقینابہت حساس،ذہین ہیں،دردمندہیں۔مجھے نہیں پتہ کہ آپ کاکس تنظیم سے تعلق ہے اورآپ کون سے ارفع مقاصدحاصل کرناچاہتے ہیں لیکن یہ ہمیں ضرورعلم ہے کہ آپ یہودونصاریٰ کے خلاف ہیں،مسلمانوں پرمظالم سے دل گرفتہ ہیں، مسلمان حکمرانوں کے بے حسی اورمسلمانوں کی بے بسی سے آپ کوسخت اذیت پہنچتی ہے ۔ لیکن آپ یہ بھی توسوچیں کہ اب تک جتنے خودکش حملہ آوراپنی جانوں پرکھیل گئے اس سے یہودونصاریٰ کوکتنانقصان پہنچا؟ کیااس کے بعد مسلمانوں پرمظالم کاسلسلہ رک گیا؟نقصان توعالمِ اسلام کا ہی ہوتا ہے۔
پاکستان جسے آپ اسلام کاقلعہ سمجھتے ہیں،اس کی معیشت بربادہوجاتی ہے، سرمایہ لگانے والے اپنے اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف مزید پابندیاں لگ جاتی ہیں،مزید نفرتیں پیداہوجاتی ہیں ۔ پاکستان میں اب تک ان خودکش حملوں میں ہزاروں کی تعدادمیں بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جو آپ ہی کی طرح اس استعمارسے نفرت رکھتے تھے۔اب تک ۵۳۳بم دھماکے ہوچکے ہیں جس میں۶۲۷۲ / افرادسفر آخرت اختیار کرچکے ہیں۔سوارب ڈالر سے زائدکا نقصان ہوچکاہے،ایک دفعہ پھردرجن سے زائدانبیائے معظم وصحابہ کرام مسلمان اولیاء کے مزارات کونشانہ بناکران کے عقیدت مندوں کوموت کے گھاٹ اتارکرآخر کون سی اسلام کی خدمت انجام دی گئی ہے! امریکا اوریورپ میں لاکھوں کی تعداد میں آپ کے پاکستانی بہن بھائی بسلسلہ تعلیم، روزگارمقیم ہیں۔دوسرے ممالک کے مسلمان بھی ہیں،ان سب کو شک کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اوروہ وہاں دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری بن کررہ جاتے ہیں۔عام طور پر مسلمانوں کودہشتگرد قراردے دیا جاتا ہے۔ امن ،سلامتی اوررواداری کے مذہب اسلام کونفرت اوردہشت سے منسوب کیا جاتا ہے اوریقیناً آپ کبھی یہ پسند نہیں کریں گے کہ آپ کے اس عمل سے ہمارے امن پسند دین کوبرملابرابھلا کہا یا سمجھا جائے۔
آپ نے یقینا اسلامی ملکوں اوردوسرے ملکوں میں عام شہریوں کوملنے والی سہولتوں کامقابلہ کیا ہوگا۔اسلامی ملکوں میں رہنے والے زندگی کی آسانیوں
سے محروم ہیں،تعلیم میں بہت پیچھے ہیں،سائنس میں عملی طورپر کوئی مقام نہیں رکھتے،اکژ ملکوں میں شخصی آزادیاں سلب ہوچکی ہیں جب کہ اسلام کے انتہائی نامورخلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کابڑا مشہورقول ہے کہ” اللہ نے ہرانسان کوآزادپیداکیا ہے” لیکن ہم نے ان کو ایک خاص نظام کے تحت غلام بنارکھا ہے۔بندوں نے بندوں کوغلام بناکررکھا ہوا ہے،کوئی نہیں جواللہ کے ان بندوں کو، بندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں دیدے ، لوگوں کواپنی مرضی کے حکمراں چننے کاحق نہیں ہے۔ اپنی اپنی سیاسی جماعتیں بنارکھی ہیں اوراس کی قیادت بھی موروثی ہے، ان جماعتوں میں مذہبی جماعتیں بھی ہیں اورسیاسی شخصی جماعتیں بھی موجود ہیں۔ شخصی حکومتیں قائم ہیں،وہ جوچاہتے ہیں کرتے ہیں،جس سے چاہیں معاہدے کرتے ہیں، جوچاہیں ملک کی پالیسی بناتے ہیں اورنام نہادمذہبی علماء بھی اپنے مفادات کی خاطران کے اس عمل میں برابر کے شریک ہیں۔
آپ نے یہ بھی دل کی گہرائی سے ضرورمحسوس کیا ہوگاکہ مسلمان بحیثیت قوم اورمسلمان بحیثیت ایک بلاک مغرب کی منفی پالیسیوں کا مشترکہ ہدف ہیں لیکن مسلمان خود متحدہوکراس یلغارکامقابلہ نہیں کرتے ہیں۔ نیویارک میں دہشت گردی کی واردات پرامریکا تمام مغربی ممالک کواکٹھا کرکے افغانستان پرچڑھ دوڑتا ہے۔ ”القاعدہ” کا نام لیکر تمام مسلمان ملکوں میں ایک مہم چلادیتا ہے لیکن فلسطین میں ہونے والے مسلسل مظالم پرمسلم دنیا اکٹھی ہوکراسرائیل پرنہیں چڑھ دوڑتی،ایک آواز بلند نہیں کرتی ۔ کشمیر میں نہتے مسلمانوں پربھارتی فوج مسلسل ظلم وستم ڈھارہی ہے، اقوامِ عالم کے سامنے بھارت نے کشمیریوں کوحقِ خود ارادیت دینے کاوعدہ کیا تھا جس کے ضامن دنیا کے یہی بڑے بڑے ممالک تھے جس میں یورپ اورامریکا بھی شامل تھے ،اب منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بھارت کے اس مظالم پرخاموش ہیں۔ بھارت اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے، مسلمان خون دنیامیں کبھی اس قدرارزاں نہیں تھا جس کا مظاہرہ کشمیرمیں ہورہا ہے لیکن اس کے باوجوداس نے کشمیر پرغاصبانہ قبضہ جمایا ہوا ہے اوراس کے خلاف مسلم برادر ی متحد نہیں ہوتی ہے۔
آپ کویقینا قلق ہوتا ہوگاکہ عالمِ اسلام منتشر کیوں ہے،مسلمان پسماندہ کیوں ہیں،مسلمان نت نئی ایجادات کیوں نہیں کرتے،یہ ہتھیاروں کی خریداری کیلئے امریکا اور مغربی ممالک کے محتاج کیوں ہیں،مسلمان ملک ایک دوسرے کیلئے اسلحہ کیوں نہیں بناتے؟؟؟؟ یہ دکھ، ساری محرومیاں، پچھتاوے، سب دردمند نوجوان مسلمانوں کے مشترکہ ہیں لیکن اپنے سینے پر ہاتھ رکھئے،محبت کا پیکر اپنی ماں ،اپنے شفیق باپ،دل وجاں سے زیادہ عزیزاپنے بہن بھائیوں کی صورتیں تصور میں لائیے،خانہ کعبہ اورمسجدنبوی کے تقدس کودل میں اتارئیے،بیت المقدس کونگاہ کے روبرو کیجئے۔نیل سے لیکر تابخاک کاشغر نقشے پرنظر دوڑایئے،اللہ تعالیٰ نے کتنے قدرتی وسائل ان مسلمان ممالک کوعطاکئے ہیں۔کتنے عظیم ممالک ہیں ،اللہ تعالیٰ کی حسین ترین مخلوق انسان،اورسب سے پسندیدہ دین اسلام کے ماننے والے کتنی بڑی تعدادمیں موجود ہیں۔کیاان کامقصدمضبوط دفاعی قوت بننا نہیں ہونا چاہئے،کیاان کی تقدیرمیں مستحکم اورخوشحال معیشت نہیں ہونی چاہئے، کیاان کے تعلیمی مراکزکوسائنسی اورایٹمی مراکزنہیں ہونا چاہئے،کیاان کی مارکیٹیں دنیا کے سب سے زیادہ مصروف بازارنہیں ہونے چاہئیں؟؟؟؟
امریکا ور یورپ کامقابلہ عالمِ اسلام ایک مضبوط دفاعی بلاک، خودکفیل اقتصادی یونٹ، جدید سائنسی تخلیقی مراکزکے ساتھ ہی کرسکتا ہے اوریہ منزل
اسے اس وقت مل سکتی ہے جب آپ جیسے توانا جسم،چکنی ذہانت،جان نثارکردینے کاجذبہ رکھنے والے نوجوان اپنے ذہن اوربدن کوگولہ وبارودکے ساتھ اڑانے کے خوفناک ارادے نہ باندھیں۔آپ مسلم نوجوان ہیں توتصورکریں کہ آپ اس آسمان کے ستارے ہیں جہاں ابنِ نفیس(تشریح الابدان کے ماہر)ابنِ ماجد(جہازراں)ابوالوفازجانی(ریاضی داں)احمد کثیر فرغانی (ماہرِفلکیات) ابوحافظ جاحظ(ماہرحیوانات) جالینوس (جراح) محمدبن موسیٰ خوارزمی(ریاضی داں) ابوریحان البیرونی(ماہرارضیات وریاضی) ابوالہیثم ، ابن رشد،فارابی، ابن سینا،امام غزالی کے افکاراورابو یوسف الکندی،ابوعبداللہ تہانی اورابواسحاق بطروحی جیسے عظیم سائنسدانوں کی جماعت کی تحقیق کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔جہاں محمدبن قاسم،صلاح الدین ایوبی کے عزائم کی خوشبوبکھری ہوئی ہے۔جہاں جمال الدین افغانی،محمد علی جناح اورعلامہ اقبال کی جدوجہد کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں،یہ عظیم ذہن اورسعید روحیں اگراسی راستے پرچلی جاتیں جس پرآپ جارہے ہیں توآج عالمِ اسلام کی کیاحالت ہوتی،علم سے کس قدر خالی ہوتا۔ ضرورت تویہ ہے کہ ان عظیم ہستیوں کی دریافتوں،فلسفے اورفکرکوآپ جیسے نوجوان آج کے علوم اورآج کے مسائل کی روشنی میں آگے بڑھائیں۔
انہی افکار کو بنیاد بنا کرامریکااورمغرب کہاں نکل گئے اورہم کیسی پستی میں گم ہوتے جارہے ہیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں