Palestine in the Arab World: Solidarity or Political Interests?

عرب دنیامیں فلسطین:یکجہتی یاسیاسی مفادات؟

:Share

گزشتہ 13ماہ سے شب وروزاسرائیلی درندگی کے دل دہلادینے والے انسانیت سوزمناظردیکھتے ہوئے آنکھیں پتھراگئی ہیں لیکن مظلوموں کی آہ وفریاد اورنالے پڑوسی عرب ریاستوں کے بہرے کانوں کی سماعتوں سے ٹکراکرسوئے ہوئے ضمیرکوکچوکے لگا کرناکام واپس لوٹ رہے ہیں اورمعصوم بچوں کے لاشے اٹھائے ہوئے ان کے والدین یاعزیزواقارب ان عرب ریاستوں کے حکم رانوں اوعوام کوپکارکریہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخرتم کہاں چلے گئے ہو؟اسرائیلی بمباری سے تباہ حال عمارتوں کے ملبے سے زندہ بچ نکلنے والے، اپنے ہاتھوں میں شہید بچے اٹھائے اوربے بسی سے کیمرے کے سامنے چیختے غزہ کے ہرشخص کے منہ اللہ کی حمد وثناء کے ساتھ ساتھ عربوں کی بے حسی کے ماتمی کلمات بھی نکل رہے ہیں۔

غزہ کے باسی آسمان کی طرف منہ اٹھا کرباربارپوچھ رہے ہیں اور اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے عرب ہمسایہ ممالک اسرائیلی بمباری کے خلاف ان کا دفاع کیوں نہیں کررہے؟گزشتہ برس7اکتوبرکواسرائیل پرحماس کے حملے کے بعدسے تمام نظریں مشرق وسطیٰ پرلگی تھیں اورسب کے ذہن میں یہ سوال تھے کہ اسرائیل کی جانب سے ردعمل کتناشدیداورطویل ہوگا؟اور خطے کے عرب ممالک کے عوام اورحکومتیں کیاردعمل دیں گی؟لیکن آج تک پہلے سوال کاکوئی حتمی جواب نہیں مل سکا:اسرائیلی بمباری نے غزہ کی پٹی میں تباہی برپاکردی اوراب تک50ہزارسے زائد فلسطینی شہیدہوچکے ہیں لیکن اس کے تھمنے کے کوئی آثارنظرنہیں آتے بلکہ اب اس کاسلسلہ شام،یمن کے علاوہ لبنان میں بھی پھیلتاجارہاہے۔

دوسرے سوال کے جواب کاکچھ حصہ واضح ہے،اگرکوئی یہ توقع رکھتاہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج یامظاہرے ہوں گے توانہیں مایوسی ہوگی۔اگرچہ عرب ممالک کی آبادی کی بڑی تعداد کی حمایت اورجذبات فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہیں لیکن ان ممالک میں مظاہروں کومحدودرکھاگیا۔جہاں تک عرب ممالک کی حکومتوں کاتعلق ہے توان کا ردعمل یاتوبہت کمزوریامایوس کن رہا۔اسرائیل پرروایتی تنقیدیا قطراورمصرکی حکومتوں کی جانب سے اس تنازعے میں ثالثی کا کرداراداکرنے کی پیشکش کے علاوہ کسی نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔

دکھ کی بات تویہ ہے کہ سفاک اسرائیل کے دلدوزخون آشام مناظرکے بعداب تک کسی بھی عرب ملک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کیے یاکوئی ایسااقدام نہیں اٹھایاجس سے اسرائیل پرسفارتی یامعاشی دباؤبڑھتایااس جنگ کوروکنے میں مددملتی۔آخرخطے میں فلسطین کے مسئلے نے اپنی اہمیت کیوں کھو دی؟مشرق وسطیٰ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب پیچیدہ ضرورہے لیکن وقت کا مؤرخ ان حقائق کو آئندہ نسلوں تک ان تمام عرب ریاستوں کے کردارکوضرورمحفوظ کررہاہے اوریہ عرب حکمران اپنے ورثے میں ان کیلئے کیسے ندامت کے کوہِ گراں اورصدمات کے بحروبرچھوڑکرجائیں گے،اس پربھی غوروفکر کیلئے ان کے پاس وقت نہیں۔اپنے اقتدارکوبچانے کیلئے صرف وقت کے فراعین کے ہاتھ میں پکڑی ڈگڈگی کے سامنے ناچتے ہوئے ان کا سانس تک پھول گیاہے لیکن وہ اپنی عافیت اسی عمل میں سمجھتے ہیں کہ صیادکوہرحال میں راضی رکھناہے۔

تاریخ شاہدہے کہ عرب ممالک کی ایک شناخت، ایک زبان، اوربڑی حدتک ایک مذہب کے ساتھ ساتھ اپنے شناخت کوجوڑالیکن خطے میں یورپی نوآبادیاتی اثرات سے پیداہونے والے خدشات بھی موجودرہے ہیں لیکن ان ممالک کی حکومتوں کے مفادات بھی ایک دوسرے سے متضادرہے ہیں۔فلسطینیوں اورعرب ممالک کے درمیان تعلقات بھی آسان نہیں رہے،خاص طورپران کے ساتھ جنہوں نے1948میں اسرائیل کی ریاست کے اعلان کے بعد بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کوخوش آمدیدکہا۔

لبنان کی خانہ جنگی اورفلسطینی عسکریت پسندوں اوراردنی بادشاہت کے درمیان جھڑپیں بعض اوقات خطے کی متضاد تاریخ کی یاد دلاتی ہیں لیکن مسئلہ فلسطین کئی دہائیوں سے عرب ممالک کیلئےمتحدہونے کاعنصر بھی تھا۔اس عرصے کے دوران اسرائیلی ریاست کو سابقہ نوآبادیاتی طاقتوں کی توسیع کے طورپردیکھاگیاجومشرق وسطیٰ سے دستبردارہوگئی تھیں لیکن اپنے مفادات کے تحفظ کیلئےاسرائیل کوایک ایجنٹ کے طورپرچھوڑدیاگیاتھاجن میں برطانیہ،فرانس اوراب امریکاشامل ہے۔

ماضی میں اسرائیل کے خلاف مصر،شام اوراردن جیسے ممالک نے جوجنگیں لڑی ہیں ان میں قومی مفادات کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کابھی دفاع کیاگیا ۔ تاہم وہ جنگیں اب ماضی کی بات ہیں۔مصراوراردن نے دہائیوں قبل اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔مراکش،متحدہ عرب امارات اوربحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے جبکہ چندسال پہلے تک خطے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کوناپسندیدگی سے دیکھا جاتاتھا۔سعودی عرب بھی7اکتوبرمیں غزہ اوراسرائیل کی جنگ کے آغازسے قبل اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کے قریب پہنچ چکاتھالیکن غزہ میں جنگ چھڑ جانے کی بناءیہ سفارتی طوفان فی الحال عارضی طورپررک گیاہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیامیں نازرین سینٹرفاراسرائیل سٹیڈیزکے ڈائریکٹرڈوویکس مین کے مطابق”کئی دہائیوں سے اورحالیہ تنازعہ کے آغازسے لیکرآج تک ہرعرب ملک نے اپنے اپنے مفادات کی پیروی کی۔وہ فلسطینیوں کی حمایت اوریکجہتی کی بات کرتے ہیں،اورایسانہیں کہ یہ جذبات حقیقی نہیں ہیں لیکن وہ اپنے قومی مفادات کودیکھتے ہیں”۔جبکہ اس خطے سے جڑے ہوئے کئی محقق اورتجزیہ نگاراب بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ عرب اورمسلم دنیا میں اب بھی عوامی رائے اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔

عرب ممالک کے عوام کے دل میں غزہ کے تباہ حال شہریوں کیلئےبہت ہمدردی ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینیوں کیلئےکچھ زیادہ کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیں،اورکم ازکم ردعمل دیتے ہوئے سفارت کاروں کوان کے ممالک سے نکال دیاجائے لیکن یہ اب تک نہیں ہوا۔

اس کی یقینی وجہ یہ ہے کہ عرب حکومتوں نے فلسطینیوں کوکافی عرصہ پہلے چھوڑدیاتھا۔یہ ایک ایساہیجان انگیزموڑتھاجس نے خطے کی پوری صورتحال کوبدل کررکھ دیا۔آج یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوگیابلکہ آج کے خونی مناظرکی بنیادوہ عوامی بغاوت ہے جس نے2010اور2012کے درمیان مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقاکوہلاکررکھ دیاتھااسے”عرب سپرنگ”کہاجاتاہے۔اس کے بعدسےصورتحال یکسرتبدیل ہوگئی اوران بغاوتوں کی ناکامی نے خطے کوعدم استحکام کاشکارکردیا۔بہت سے ممالک اب بھی خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے ہیں،جیسے یمن،شام یاعراق۔شام اورعراق جودوسیاسی نظریات کے حامل مرکزی اورطاقتورملک تھے اورامریکا کوچیلنج کرسکتے تھے،آج منظرنامے سے غائب ہوچکے ہیں۔لیبیانہ صرف غائب بربادکردیاگیا بلکہ معمرقذافی کودنیا بھرکے میڈیا کے سامنے جان بوجھ کراس طرح پیش کیاگیاکہ دیگرمسلم ریاستوں کے حکمرانوں کوبھی پیغام پہنچادیاگیاکہ اب تمہارے سامنے ہماری اطاعت کے سواکوئی چارہ کارنہیں۔مصر اقتصادی عدم استحکام میں جبکہ سوڈان خانہ جنگی میں پھنساہواہے۔دنیا کی پہلی ایٹمی ریاست پاکستان کوبھی مسلسل عدم استحکام کی طرف دھکیلاجارہاہے اوراندرونی دہشتگردی اورمعاشی عذاب میں مبتلاکردیا گیاہے تاکہ اس کوسنبھلنے کاموقع ہی نہ دیاجائے۔ اس معاملے میں سیاسی ابتری کیلئے سیاستدانوں اوراہم اداروں کے درمیان خطرناک حدتک فاصلے بڑھادیئے گئے ہیں اوراب یہ صحیح اوراصل دشمن کو جاننے کے باوجوداسی صیادکے پھندے میں اپنی بقاءڈھونڈرہے ہیں۔

اس مستقل بحران کی حالت میں عرب معاشرے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہوئے ایسی بے بس محسوس کررہے ہیں کہ ان کے پاس خودظالم آمریتوں میں زندگی گزارنے کے سواکوئی دوسراراستہ باقی نہیں بچا۔عرب دنیا افسوسناک حالت میں ہے،لوگوں کے پاس عزت کے ساتھ جینے کی آزادی یاصلاحیت یاآرزونہیں لیکن اس کے باوجود،فلسطینوں کے حق میں سماجی ردعمل حکومت کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتوررہاحالانکہ یہ بنیادی طورپرسوشل میڈیاپررہاہے۔

عرب سپرنگ کے بعدسے خطہ کے بہت سے ممالک کی سڑکیں ایسی سرگرمیوں کیلئے محدودہوگئی ہیں جہاں آمرانہ حکومتوں نے کبھی فلسطینیوں کے دفاع میں مظاہروں میں لوگوں کو مایوسی کااظہارکرنے کی اجازت دی تھی،وہیں آج انہیں خدشہ ہے کہ اس طرح کے مظاہروں سے کچھ اورہوجائے گابلکہ انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ ان کا حال بھی لیبیا، شام یاعراق جیسانہ ہوجائے جہاں شبینہ نان ونفق کیلئے وہاں کے عوام ترس گئے ہیں لیکن ان ہنگامہ خیزبرسوں میں صرف یہی چیزنہیں بدلی،جب لاکھوں لوگ عرب تیونس،مصر،لیبیا،شام،بحرین اور مراکش جیسے ممالک میں جمہوریت اورسماجی حقوق کامطالبہ کرنے سڑکوں پرنکل آئے تھے۔

عرب سپرنگ واقعی ایک زلزلہ تھااوراس نے بہت سے ممالک کے حالات اورترجیحات کوبدل کررکھ دیا۔کچھ پرانی حکومتیں ختم ہوگئیں اوردوسروں نے سوچاکہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہونے جارہاہے، اس لیے وہ گھبراگئے،دائیں بائیں دیکھااورتحفظ تلاش کیا۔ ایک طے شدہ پالیسی کے تحت عالمی استعماری طاقتوں نے ان تمام عرب ریاستوں میں زمین کوہموارکرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بزدلی کے کھلیانوں میں خوف کابیج بوکرایسی فصل کاشت کی کہ جس کے بعدان حکمرانوں کواس یقین کی فصل کاٹنے پرمجبور کردیاگیاکہ دراصل اسرائیل،خطے میں ان کاایسااتحادی ہے جوایران کے ایٹمی خطرے سے ان کی حفاظت کرسکتاہے۔گویاخطے میں ایک تیرسے کئی شکارکرنے میں کامیاب ہوگئے۔

عرب سپرنگ کے چندسال بعدہی جب ٹرمپ امریکی صدرتھے،امریکاکی ثالثی کے تحت بحرین اورمتحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کامعاہدہ کیا۔اس معاہدے میں بعدازاں مراکش اورسوڈان بھی شامل ہوئے تھے۔اس کے جواب میں امریکا کی جانب سے جواب دینے میں زیادہ دیرنہیں لگی اورواشنگٹن نے مغربی صحاراپرمراکش کی خود مختاری کوتسلیم کیا،جو کہ خودارادیت پرریفرنڈم کوناممکن بنادیتاہے۔جب ہم ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کودیکھتے ہیں توہمیں پتاچلتاہے کہ اس کے تحت اسرائیل نے انہیں ایسے نگرانی کے نظام بیچیے ہیں جویہ اپنے عوام کی خفیہ نگرانی کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

اسرائیلی کمپنی این ایس اوگروپ کے تیارکردہ پیگاسس پروگرام کااستعمال کرتے ہوئے جاسوسی کے مبینہ واقعات نے مراکش، متحدہ عرب امارات اوربحرین حتیٰ کہ سعودی عرب کوبھی متاثرکیاحالانکہ اس کے اسرائیل کے ساتھ سرکاری تعلقات نہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ریاض نے یہ پروگرام2017میں خریداتھااوراگلے سال استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعداس تک رسائی کھودی تھی۔ تاہم ولی عہدمحمدبن سلمان نے نیتن یاہوکوفون کیاجس کے بعدوہ اس سافٹ ویئرتک دوبارہ رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

قومی مفادات کے علاوہ ایک اورچیزجس نے عرب ممالک کومسئلہ فلسطین سے دوررہنے پرمجبورکیا،وہ تھااپنے اپنے ممالک میں اسلام پسندملیشاؤں کاعروج۔1967کی جنگ کے بعداور یاسرعرفات کی قیادت میں فلسطینی مزاحمت کی پہلی لہرکوقوم پرست تصور کیاجاسکتاہے مگرآج کی مزاحمت زیادہ ترمذہبی بنیادوں پرہیں۔جولوگ آج مسئلہ فلسطین کیلئےلڑرہے ہیں وہ بنیادی طورپراسلام پسندہیں،چاہے حماس ہویاحزب اللہ،جن کے تصورات اسلام سے آتے ہیں اوران کاسب سے بڑاہتھیار ہے شہادت جس سے امریکا، اس کے اتحادیوں سمیت اسرائیل برسوں سے کوشاں ہیں کہ اس جذبہ شہادت کو مسلمانوں کے دلوں سے ختم کیاجائے۔اسی لئے تقسیمِ ہندسے قبل ہی برطانیہ کی مدد سے خود کاشتہ پودہ قادیان میں لگا کراس کازہرمسلمان امت کے ایمان وایقان میں شامل کرنے کی اب تک کوششیں جاری ہیں اورپاکستان میں اس فرقہ کومنتخب اسمبلی میں آئینی اورمذہبی بحث کے بعدمشترکہ طورپر اقلیت قراردے دیاگیا اوراب اس پودے کی برطانیہ میں مسلسل آبیاری کی جارہی ہے۔

حماس کے اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ان ریاستوں کے حکمرانوں کوباورکرادیاگیاہے(اس وقت خطے کی کئی حکومتوں کے ساتھ تصادم میں حماس شامل ہے)یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بہت سی حکومتیں حماس کوایک خطرے کے طورپردیکھتی ہیں۔وہ حماس کواخوان المسلمون کے آخری گڑھ کے طورپردیکھتے ہیں جواب بھی قائم ہے اور یہ عسکری طورپرمضبوط ہے۔یہی وجہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کے صدرمرسی کی حکومت کاتختہ الٹ کراپنے ایجنٹ السیسی کونہ صرف لایاگیابلکہ سعودی عرب اور دیگرخطے کی عرب ریاستوں کوبھی اس تبدیلی کی مالی مدداور برملاحمائت کے فرمان کے احکام صادرکردیئے گئے اورآج تک اخوان المسلمون پرجوظلم کے پہاڑتوڑے جارہے ہیں،عالمی میڈیا بھی اس کی اشاعت سے اپنے آقاؤں کے بائیکاٹ کے احکام کی تعمیل میں مصروف ہے۔

اسرائیل ایک طرح سے حماس کوتباہ کرکے اپناگھناؤناکام کررہاہے۔حماس اورحزب اللہ کے ایران کے ساتھ روابط بھی عرب ممالک میں شکوک و شبہات کوجنم دیتے ہیں۔مثال کے طورپر خلیجی ریاستوں کیلئےایران اسرائیل سے بڑاخطرہ ہے۔جیساکہ میں پہلے ہی عرض کرچکاہوں کہ بہت سی عرب حکومتوں نے”اسرائیلی اورامریکی بیانیہ کواپنایاکہ یہ تحریکیں خطے میں ایران کے ہتھیار ہیں اوریہ فلسطینیوں کونظراندازکرتے ہوئے علاقائی امن کے منصوبے کوسبوتاژکرنے کیلئےبنائی گئی ہیں”۔

تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ یہ وہ بیانیہ ہے جسے عرب دنیا میں زیادہ ترسرکاری پریس نے بڑھاوادیا،ایک ایساخطہ جہاں شاید ہی کوئی آزادمیڈیاہو۔ پروفیسرولید قاضیہ کے مطابق”سعودی میڈیا کیلئےمثال کے طورپر،بنیادی تشویش فلسطینیوں کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ایران کس طرح خطے پرکنٹرول حاصل کررہاہے”۔اگرچہ اب حماس کوایران سے حمایت اورمالی معاونت حاصل ہے لیکن جب اس فلسطینی گروہ کا قیام ہواتھاتب اس کے متعددعرب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لیکن بعدازاں اب ان ممالک کواس تحریک کی بڑھتی طاقت سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

دل پرہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے ظلم وتشدد کے بعد جب ان کیلئےعرب ممالک نے اپنے دروازے بندکردیے تھے اورکوئی بھی انہیں اسرائیل سے لڑنے کیلئے ہتھیارنہیں دیناچاہتاتھاتووہ انہیں حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کیلئے ان کی مجبوری بنادیاگیاتوان کے پاس اپنے جان ومال کو بچانے کیلئے اس کے سوااورکیاچارہ کاربچاتھا۔یہی بات حزب اللہ اوردیگر گروپوں کیلئےبھی ہے جوایران سے حمایت حاصل کرتے ہیں لیکن فلسطینیوں کادفاع بھی کرناچاہتے ہیں۔جب ایران کوان کے حمایتی کے طورپرپیش کیاجاتاہے توعرب عوام اب تصویرمیں نہیں آتے اورمیرے خیال میں کچھ عرب تحریکیں ہیں جوحقیقی طورپرفلسطینیوں کی حمایت کرنے اوران کیلئےجان دینے کوتیارہیں جیسے کہ حزب اللہ،حوثی یمن اور عراق میں کچھ شیعہ تحریکیں۔

جیوسٹریٹیجک مفادات اورعرب ممالک کے بحران کے علاوہ مسئلہ فلسطین کوبھی وقت گزرنے کے ساتھ فراموش کردیاگیا۔وہ تصورات جوکبھی مشرق وسطیٰ کے دلوں کوگرماتے تھے، جیسے عرب قوم پرستی اب محض ماضی کی بازگشت ہیں۔خطے کی زیادہ ترنوجوان نسل فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتی ہے لیکن وہ تنازعات کی وجوہات اوراصل کونہیں جانتی کیونکہ یہ چیزیں اب سکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی ہیں۔آج معاشرہ حتیٰ کہ شناخت بھی گلوبلائزیشن کے ساتھ بدل چکی ہے۔

ایساہی کچھ نئے رہنماؤں کے ساتھ ہوا۔خلیجی ممالک میں مثال کے طورپر،سعودی عرب میں محمدبن سلمان جیسے لیڈروں کی پوری نئی نسل موجودہے، جوزیادہ ترمغرب میں تعلیم یافتہ ہیں، جوعرب نہیں اورفلسطین کوایک مسئلہ کے طورپرنہیں دیکھتے۔اب وہ برملاکہتے ہیں کہ”اب ان کی ترجیحات کے ساتھ ساتھ ان کے عزائم بھی مختلف ہیں”۔
وقت کرتاہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اپنا تبصرہ بھیجیں