شیخ عبد العزیزمفتیِ اعظم سعودی عرب نے مسجد نمرہ میں حج کے موقع پربڑی دردمندی سے امت مسلمہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا:آج امت مشکل دور سے گذر رہی ہے۔ اسلامی ممالک کے سربراہان عوام کی خیرخواہی اور آسانیاں پیدا کریں۔ حکمران عوام کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے اقدامات کریں جبکہ علما کو چاہیے کہ تقویٰ اور اخلاص اختیار کریں۔مفتی اعظم سعودی عرب نے مسجد نمرہ میں حج کے موقع پر ایک دعا بھی کی جس پر آمین کہتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔”اے خدا ہمارے حکمرانوں کو اچھا کردے”۔صدرِپاکستان بھی حج کی سعادت کیلئے عرفات میں موجودہیں،یقینا انہوں نے بھی اس دعاکے جواب میں آمین کہاہوگامگر ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ ۔پچھلے ٦٦برس سے کشمیراورفلسطین کی آزادی کیلئے حرمین میں دعائیں ہورہی ہیںلیکن یوں لگتاہے کہ ہماری دعا اور بددعا ایک ہوگئی ہے۔ تاریخ انسانی میں سب سے اچھے حکمران ہمارے تھے اب شائد سب سے برے حکمران بھی ہمارے ہوں ۔چند مشنیات کو چھوڑ کر اب تو کوئی اچھا مسلمان حکمران نظر ہی نہیں آتا۔ہمارے حکام اور عوام کے دل و دماغ میں مطابقت نہیں۔
چندبرس پہلے جنرل حمید گل برطانیہ تشریف لائے توچند پروگرام ان کے اعزازمیں منعقدکئے گئے جس کی میزبانی کافریضہ میرے ذمہ تھا۔انہوں نے حاضرین مجلس کو بتایا کہ ناروے ان دنوں جس کے قانون کے تحت ایک ماڈل مملکت وجود میں لائی گئی ہے اسے عمرز لاء(حضرت عمرکا قانون) کہتے ہیں اوریہ اس وقت دنیاکی سب سے بڑی فلاحی ریاست ہے۔میں نے جنرل صاحب کو بتایا کہ مجھے ناروے حکومت کی انسانی حقوق پرمنعقد ایک کانفرنس میں شمولیت کاموقع ملاتواس وقت ناروے کی وزیر اعظم ایک عورت تھی جس نے اسٹیج پربیٹھنے سے پہلے تمام غیر ملکی مہمانوں کے پاس آ کر ان سے ہاتھ ملایا۔ اتفاق سے پولیس چیف عورت بھی ان کے ہمراہ تھی جس سے اگلے دن اس کے دفترمیںمیری ملاقات بھی ہوئی۔ ایک دبلی پتلی سمارٹ نازک سی خاتون تھی۔ اس کے پاس قانون کی طاقت تھی۔طاقت کا قانون تو ہم نالائقوں کے پاس بھی ہے۔میں نے سوچا ہی تھا کہ یہ مجرموں پر قابو کس طرح پاتی ہوگی،اس نے کہا کہ پچھلے چھ سال سے پورے ناروے میں کسی تھانے کے اندر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ اس نے میرے سامنے پورے ملک کے تھانوں کی فہرست رکھ دی کہ آپ جہاں چاہو ہمارے بندے تمہیں لے جائیں گے۔
جدید برطانوی ڈرامہ نگار برنارڈشا نے کہا کہ اگر حضرت عمر دس سال اور حکومت کرلیتے تو پوری دنیا کے لوگ مسلمان ہو چکے ہوتے۔برصغیر میں ہندو لیڈر گاندھی مسلمان دشمنی میں منفرد تھا کہ اس نے مسلمانوں کے لئے قیام پاکستان کے بعد مرن برت بھی رکھا تھا۔وہ مسلمانوں اور ہندوئوں کو ایک ملک میں رکھنا چاہتا تھا۔ ۱۹۴۶ء میں صوبائی خود مختاری کے بعد اس نے اپنی ہندو ریاستوں کے حکمرانوں سے کہا تھا کہ تم اس طرح حکومت کرنا جیسے حضرت عمر نے کی تھی۔حضرت علیؓ کا زمانہ افرا تفری اور ہنگاموں کا تھا مگر انہوں نے ایک اچھا ماحول بنانے کی کوشش کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علیؓ صاحب سیف و قلم،حکمت اور حکومت کے رازوں سے بخوبی واقف تھے لیکن انتہائی شورش کے باوجودرعایاکے کسی فردکی حق تلفی نہ ہونے دی۔
ناروے میں انسانی حقوق کی کانفرنس میں برملاان مغربی قوتوں کاذکرہورہاتھاجوعراق ، افغانستان ،فلسطین اورکشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی میں نہ صرف شریک تھیں بلکہ مصلحت کی بناء پر اپنا کردار ادا کرنے سے گریزاں تھیں۔ جس وقت اس کاذکرہورہاتھا تو وہاں ایک بہادر اور غیور غریب مسلمان حکمران ایرانی صدر احمد نژاد موجود تھے۔وہ سب مسلمانوں کے امریکہ مخالف جذبات کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔چند مرلوں کے مکان میں رہنے والا سادہ اور آسودہ مزاج حکمران دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔اس وقت میں یہ بھی دعا کر رہا تھا کہ اے خدا سارے حکمرانوںکو صدر احمدی نژاد جیسا کردے۔کسی نے حضرت علیؓ سے حضرت عمر کے زمانے کی بات کی تو آپ نے فرمایا کہ ان کے مشیر ہم تھے اور ہمارے مشیر تم ہو۔ مسلمان حکمرانوں کو ان کے خوشامدی مشیروںاور نالائق وزیروں نے برباد کیا۔ملوکیت نے مسلمانوں کی تاریخ کو تاریک کردیا۔حضرت علیؓ کی اولاد نے ملوکیت کے خلاف جدوجہد میں قربانیوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ ملوکیت اور آمریت نے ہمیں برباد کر دیا۔
چین کے سب سے بڑے لیڈر ماؤزے تنگ کی بات یاد آتی ہے۔جس ملک کے حکمران امیر ہوں گے قوم غریب ہوگی۔ جس قوم کے حکمران غریب ہوں گے وہ ملک امیر ہوگا۔کیا یہ سوچ محسن انسانیت پیغمبر عالمۖ سے مستعار نہیں لی گئی کہ آپ نے فرمایا کہ اے خدا میرا جینا مرنا غریبوں کے ساتھ کر اور مجھے قیامت کے دن غریبوں کے ساتھ کر اور مجھے قیامت کے دن غریبوں کے درمیان اٹھا اور آپ ۖ نے فرمایا مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ میری امت کے لوگ غریب ہو جائیں گے۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ وہ امیر ہو جائیں گے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومتیں ۱۲۷/ارب ڈالر ہضم کر گئیں غیر ملکی قرضے ملتے رہے لوگ غریب ہوتے رہے اور حکمران امیر ہوتے رہے۔ صرف کرپشن ظلم اور لاقانونیت میں ترقی ہوئی جبکہ یورپ نے جنگ عظیم کے بعد۱۳/ارب ڈالر کے امریکی قرضے سے بے مثال تعمیرنو کی۔ ہم نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو بھی خطرے میں ڈال دیاہے۔
سب سے زیادہ امریکی امداد مشرف دور میں گم ہوئی اوررہی سہی کسرزرداری ٹولے نے پوری کردی ۔ایسے میں مفتی اعظم کی دعا کس قدر دلنشیں اور برمحل ہے۔ان کا سارا خطبہ مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ حج جیسا اجتماع کسی قوم میں نہیں تو پھر یہ شان و شکوہ ہمارے دشمنوں کو لرزہ براندام کیوں نہیں کردیتا۔ہماری عبادات ایثار اور ضبط نفس کی بہترین تربیت ہیں ہم نے انہیں رسومات بنا دیا۔ تو پھر ہمارے اندر تبدیلی کیوں نہیں آتی۔ ہماری زندگیاں تبدیل کیوں نہیں ہوتیں۔ پوری دنیا میں مسلمان ہی ذلیل و خوار کیوں ہیں۔پوری دنیا میں ایک بھی غیر مسلم نہیں جسے دہشت گرد کہا گیا ہو،
نماز روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
کوئی پوچھ سکتاہے مفتی اعظم سے کہ شاہ فیصل کے بعد سعودیوں میں کوئی ایسا حکمران پیدا ہوا ہے جس نے امریکی وزیر خارجہ کسنجر سے صحرا میں ایک خیمے کے اندر ملاقات کی تھی جس کے باہر اونٹنی بندھی ہوئی تھی اور اس کے دستر خوان پر صرف کھجوریں تھیں۔ فاسق کمانڈوپرویز مشرف کابھی دعویٰ تھا کہ سات بار خانہ کعبہ کے دروازے میرے لئے کھولے گئے اور میں نے وہاں اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ گریہ اعزاز ہے تو اس راز کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی ۔یہ سعادت انہیں اس لئے ملی کہ وہ ایک مسلمان ملک کے حکمران تھے اور کیا پرویزمشرف کو معلوم تھا کہ مسلمان حکمران کے اوصاف کیا ہوتے ہیں۔ صدر پرویز مشرف کو اس کریڈٹ کی کریڈیبلٹی بھی ثابت کرنا چاہئے تھی۔کیا انہیں پتہ ہے کہ اللہ اکبر کے کیا معنی ہیں۔کیا انہوں نے مسلمان دشمنی سے اپنے دوست ظالم امریکہ کو کبھی منع کیا ؟ظالم اور حاکم ایک ہی کردار میں کیوں ڈھل چکے تھے؟ خانہ کعبہ میں داخل ہونے والے پہلے ایمان کا چراغ اپنے سینے میں جلاتے تو پھر اس کی کوئی تاثیر و جود میں وجد کرتی۔ ہم یورپ کے لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں مگر
برطانوی وزیر اعظم تین کمروں کے فلیٹ میں رہتا ہے۔ ایک مرتبہ ٹونی بلیئرکے بچے کو قانون کی خلاف ورزی پر پکڑا گیا تو وزیر اعظم خود تھانے میں
جاکر پیش ہوا۔خدا رب العالمین ہے اور قرآن کا مخاطب انسان ہے جس نے اچھی باتوں پر عمل کیا وہ سرخرو ہوا۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں۔
اب کیا ہے ہمارا حکمران ہر وقت اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتا ہے جو حکمران آزادی کے ساتھ باہر سڑک پر نہ نکل سکتا ہو وہ عوام کو کیا تحفظ دے گا۔ حضرت علیؓ نے فرمایاتھاکہ موت میری محافظ ہے۔ ہمارا حکمران خود موت سے بچنے کے لئے لوگوں کو موت کے حوالے کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔عجیب حیرت ہے مایوسی ہے۔جس ملک کا صدر اور وزیر اعظم ہونے پر ہمارے حکمرانوں کو فخر ہے مجھے اس ملک کا محکوم ہونے پر شرمندگی ہے۔زندگی دو بلائوں کے درمیان پھنس گئی ہے۔ شرمندگی اور درندگی۔یہ دھڑکا ہمیں چھوڑتا ہی نہیں کہ اب کیا ہوگا۔ ہمارا کیا بنے گا۔کہتے ہیں معاشرہ ٹھیک ہو تو حکمران بھی ٹھیک ہوتے ہیں۔یہ بھی کہتے ہیں کہ حکمران ٹھیک ہو تو معاشرہ ٹھیک ہوتا ہے۔ہم کب ٹھیک ہوں گے ۔اطاعت وہی کرسکتے ہیں جو بغاوت بھی کرسکتے ہوں
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
کیا ہم منافق ہیں۔ بے بسی اور بے حسی مل کر ہم پر ٹوٹ پڑی ہے۔ہمیں نہ حاکم بننا آیا اور نہ محکوم بننا آیا۔ شیکسپیئر کا ایک کردار کہتا ہے کہ سیزر اس لئے بھیڑیا بنا ہوا ہے کہ ہم بھیڑیں بن چکے ہیں۔پتہ نہیں ہمارے وزیراعظم نوازشریف صاحب اوران کے منظورِ نظر اسحاق ڈارصاحب کومفتی اعظم کی دردمیں ڈوبی آوازسنائی بھی دی ہے کہ نہیں کہ اسلامی ممالک کے سربراہان عوام کی خیرخواہی اور آسانیاں پیدا کریں!
Load/Hide Comments