”کچھ نہیں بچے گا”

:Share

اسلام آبادکے کسی خوبصورت علاقے کی رنگارنگ مارکیٹ میں سرشام نکل جائیں،لاہور کے گلبرگ اورڈ یفنس میں رات گئے تک آبادایم ایم عالم روڈکے ریستورانوں میں گھومیں ، بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز اورمالز کے ائرکنڈیشنڈ ماحول کاچکرلگائیں، کراچی میں کلفٹن کاپل اترتے ہی اردگرد آباد دنیاکی رنگینیوں کوملاحظہ کریں۔آپ کویہاں ایک اورہی دنیا آباد ملے گی۔
سخت گرمی کے عالم میں ائرکنڈیشنڈ کاروں کے بندشیشوں سے جھانکتی ہوئی، ٹھیک اس دروازے پراترتی جہاں صرف چندقدم اٹھانا پڑیں اور دروازے کے دوسری جانب ویساہی موسم سرد موسم ان کاانتظارکررہاہوجیساوہ گاڑی کے کے اندرچھوڑ کرآئے تھے۔ اس دنیامیں آبادلوگوں کے معمولات پرمیرے ملک کے عام انسانوں پرآنے والی کسی آفت ، پریشانی یاافتاد کاکوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ جس ہوٹل میں کھاناکھارہے ہوتے ہیں وہاں اگر لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی چلی جائے توایک لمحے کے توقف کے بغیرسارے کاسارا نظام جنریٹرپرچلاجاتاہے اور ان نازک اندام لوگوں کوچندقطرے پسینہ گرانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرناپڑتی۔ ان لوگوں کے گھرکسی بڑے جنریٹر یاپھر’’یوپی ایس‘‘یعنی بغیرتوقف بجلی کی فراہمی والی مشینوں سے آراستہ ہوتے ہیں تاکہ رات گئے اگربجلی چلی جائے تو کہیں ائرکنڈیشنڈ بندہونے کی وجہ سے نیندمیں خلل نہ آجائے۔
میرے ملک کی یہ مخلوق گزشتہ چند سالوں میں اس قدربڑھی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اگرکہیں کسی مزار پرمفت کھاناتقسیم ہورہاہویاپھرکسی نے کوئی خیرات کرنی ہو،آٹا یاکپڑے تقسیم کرنے ہوں تو ایک ہجوم وہاںاکٹھاہوجاتا،لائن لگتی یاپھر ضرورت مند لوگ اس خیرات کی آمد کاگھنٹوں انتظار کرتے۔لیکن اب ان بڑے ہوٹلوں میں بنی انتظارگاہوں میں آپ کو لوگ انتظار کرتے ہوئے نظرآئیں گے کہ کب میزخالی ہوتویہ لوگ اندرجاکرکھانے سے لطف اندوز ہوسکیں۔ بعض دفعہ تویہ لوگ گاڑی میں ایک ہوٹل سے دوسرے اوردوسرے سے تیسرے کی جانب سفرکرتے رہتے ہیں اورگھنٹوں انہیں مناسب ہوٹل میں جگہ میسر نہیں آتی۔ ان لوگوں کاانتظار،تردداورجگہ نہ ملنے پر پریشانی ویسے ہی ہوتی ہے،جیسے کھانا مفت مل رہاتھااور وہ وقت پر نہیں پہنچ سکے اوران کے حصے میں خیرات نہ آسکی ،ان لوگوں کے مسئلے بھی عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔آج کل کو ن سا فیشن چل رہاہے۔ کون کون سی برانڈ کی قمیضیں اور دیگر ملبوسات مارکیٹ میں آئے ہیں۔ موبائل کا کون ساماڈل آج کل نیاہے اوراسے کہاں سے خریداجاسکتاہے ۔گاڑی کونسی آرام دہ ہے اوراس میں کون سی نئی چیزیں ڈال کرجاذب نظربنادیاگیاہے۔ کون سی نئی فلم مارکیٹ میں آئی ہے۔ کس قسم کی میوزک البم مقبول عام ہے۔ کنسرٹ کہاں ہورہاہے اوراس کی ٹکٹیں یاپاس کہاں سے مل سکتے ہیں۔ ہالی وڈ نے کونسی فلم ریلز کی ہے اور اس کی اصل ڈی وی ڈی کہاں میسرہوگی۔
آپ ان لوگوں کی محفلوں میں جانکلیں تویوں لگے گاجیسے اس ملک میں کوئی دکھ، پریشانی’ مصیبت یاآفت نہیں ہے۔ کوئی اپنے تازہ ترین بیرونی سفر کے قصے سنارہاہوگا اور پھر واپسی پراپنے ملک کی بدتہذیبی،عام آدمی کی جہالت اوروسائل کی کمی، ٹریفک کے بے ہنگم پن پرتبصرہ کرے گا اور ساتھ ایک سیاسی قسم کابیان بھی جاری کر دے گاکہ ہم سب چور ہیں،ہم اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہیں۔ان کی محفل کی دوسری بڑی تفریح غیبت اور سیکنڈل ہوتے ہیں۔یہ سکینڈل کسی کی نوکری میں ذلت سے لے کراس کی گھریلوزندگی اورمعاشقے تک چلے جاتے ہیں۔گالف کے میدانوں سے گھوڑوں کی ریس اورسٹاک ایکسچینج کے اتارچڑھاؤ ان کے موضوعات ہوتے ہیں ۔یہ لوگ اخبارات کے بھی وہی صفحات زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں جہاں کوئی ایسی خبرنہ مل سکے جن سے ان کا فشارخون بلندہوجائے،ان پر پژمردگی چھاجائے یاان کی پرسکون زندگی میں بے اطمینانی آنے لگے۔
یہ لوگ گزشتہ سالوں میں میرے ملک کے کونے کونے میں کیوں نظر آنے لگے۔ کیا ہم اچانک بہت امیرہوگئے۔ ہم پرہن برسنے لگا۔ہم نے ترقی کی منازل طے کر لیں۔ نہیں، دراصل آج سے چھ سال پہلے تک ہم پرایک بینکار نے ٨سال تک حکومت کی اور اپنا یہ منحوس کاروباری خونی دھندہ پاکستانیوں کی رگوں میں اتارکر چلا گیا جوابھی تک جاری وساری ہے۔ بنک کاایک ہی اصول ہوتا ہے کہ اس کاسرمایہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچے تاکہ اسے سود کی رقم وصول ہوسکے۔ کارخانے اورملیں تونہ لگیں لیکن اس ملک کے خواب دیکھنے والے اورامیر بننے یاامیروں کی طرح زندگی گزارنے کاشوق اور لگن رکھنے والوں کے لئے قرض کا دروازہ کھول دیاگیا۔ قرض لو اور گاڑی خریدو،فریج خریدو، ائرکنڈیشنڈ خریدو اور پھراپنی محدود آمدنی میں سے پیٹ کاٹ کرسود سمیت قسطیں اداکرو۔ جوپیٹ کاٹنے کی اہلیت ہی نہ رکھتا ہو وہ بے ایمانی سے،رشوت سے اورکسی بھی ناجائز ذریعے سے اس معیارزندگی کابوجھ اٹھائے جووہ اٹھانے کے قابل نہیں تھی مگرقرض کی فراہمی نے اس پر راستہ کھول دیا۔
لیکن ان سب لوگوں میں خواہ وہ بنیادی طورپرصاحب حیثیت ہوں یااب نقلی ثروت اور قرض سے اس صف میں آکھڑے ہیں۔ایک بات مشترک ہوگئی ہے ۔یہ عام آدمی کے دکھ درد،آلام اورپریشانی سے بہت دور ہوگئے ہیں۔انہیں اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ گاؤں، محلوں اور کوچوں قریوں میں بجلی جاتی ہے توکیا قیامت برپاہوجاتی ہے۔ آٹا مہنگا ہوتا ہے تو کتنے فاقے آتے ہیں۔ نوکری نہ ملے توکیسے بچوں کوسکول سے اٹھاناپڑتاہے۔ نالیوں کی صفائی نہ ہوتومچھرکیسے کاٹتے ہیں اور کونین کی گولی کتنے کی ملتی ہے۔ انہیں تصورتک نہیں ہوپاتاکہ لوگ معاشی پریشانی کی وجہ سے خودکشی بھی کرتے ہیں اور اپنے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ بھی لگادیتے ہیں۔یہ لوگ ان سب دکھوں اور پریشانیوں اورلوگوں کی مصیبتوں سے بے بہرہ ہوٹلوں میں کھانوں کی خوشبوؤں میں رچے ہوتے ہیں۔پلازوں میں خریداریاں کررہے ہوتے ہیں اور محفلوں میں خوش گپیاں۔ لیکن تاریخ ایسے ماحول کو”وقت کے تمسخر” کا نام دیتی ہے اور ملکوں ملکوں یہ کہانی بیان کرتی ہے کہ جب ایک خاص طبقہ بہت زیادہ امیر اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے لگے اوردوسری جانب انتہائی غربت وافلاس ہو تو پھر بس ایک چنگاری لگنے کی دیر ہوتی ہے۔کسی حکمران کے منہ سے تضحیک کاکوئی فقرہ نکلا، کسی نے کہا”روٹی نہیں ملتی توکیک کیوں نہیں کھاتے” یاپھر ”دال نہیں ملتی تومرغی کھایاکرو” بس یہ چنگاری غربت کی دھوپ میں جلے ہوئے انسانوں کے ڈھیر میں آگ لگادیتی ہے۔یہ بس چند لمحے سلگتی ہے اورایک دم دھماکے سے سارا کھیت جل اٹھتاہے۔ایک نوجوان بے بس ماں نے اپنے نوزائیدہ بچے اورتین سال کی بچی کو اپنے ہاتھوں سے تیسری منزل سے اچھال کرخودبھی ان کے پیچھے کودکر خوفناک خونی موسم کاآغازکردیاہے۔ ان لمحوں کو روکنے کیلئے خدارا کچھ کرو وگرنہ……..بات ان دھرنوں سے آگے برھ گئی توکچھ نہیں بچے گا!

اپنا تبصرہ بھیجیں