رب سے زیادہ کوئی داناوحکیم نہیں

:Share

مشاہدہ یہ بتاتاہے کہ جن ملکوں میں موت کی سزائیں بحال ہیں وہاں سنگین جرائم بہت کم ہیں۔امریکاجیسے ملک میں موت کی سزائیں دیے جانے کے عرصے کے دوران قتل کی وارداتوں کی شرح میں ۲۶٪کمی آئی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ سزائے موت ایک ڈیٹرنٹ ہے۔اب بھی امریکامیں سزائے موت پرکلی پابندی نہیں۔تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد پاکستان کے تمام ریاستی ادارے متفق الرائے ہیں کہ ان سزاؤں پرعملدرآمدہونا چاہئے۔مقام تاسف یہ ہے کہ پشاورایسے لرزہ خیزسانحے کے بعد بھی بزعم خویش لبرل اور ماڈریٹ کہلوانے کے شوقین معدودے چنددانشوراور فارن اسپانسرڈ این جی اوزسزائے موت پرعملدرآمدپرسے پابندی اٹھانے کے فیصلے کے حوالے سے تحفظات کااظہارکررہی ہیں ۔ حیرت کامقام یہ ہے کہ ان دانشوروں اورمذکورہ این جی اوزکے عہدیداران کے سرپرست اورمغربی ممالک میں آج بھی پھانسیاں دی جارہی ہیں۔امریکامیں سزائے موت دینے کے پانچ طریقے :زہریلاانجکشن لگانا،بجلی کے جھٹکے دینا،فائرنگ اسکواڈ،پھانسی اورزہریلی گیس سے ہلاک کرناآج بھی رائج ہے۔ پاکستان کاہمسایہ دوست چین جواس وقت دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بن چکاہے ، اس کے ہاں توکرپشن کے الزام میں بھی مجرم کوفائرنگ اسکواڈکے حوالے کردیاجاتاہے اوراس کی لاش کووارثوں کے حوالے کرنے سے پہلے ان گولیوں کامعاوضہ بھی وصول کیاجاتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ ان دانشوروں کے مربی امریکانے صدام حسین کوایک خوشی کے تہوارکے موقع پرپھانسی کی سزادی۔ان کے دوبیٹوںکوگولی مارکرہلاک کردیا گیا ،اسامہ بن لادن کوبغیرمقدمہ چلائے گولی مارکر سمندر کے حوالے کردیاگیا۔ اگر اسامہ اورصدام امریکی حکام کی نظرمیں دہشتگردتھے اورانہیں سزادیناجائزتھاتوپاکستانی عوام اورریاستی اداروں کے نزدیک انسانی جانوں سے کھیلنے والے دہشتگردوں کوسزائے موت سے کیوں ہمکنارنہیں کیاجاسکتا؟
ان دانشوروں کامسئلہ یہ ہے کہ ان کی سوچ مستعارہے اورجہاں تک این جی اوزکاتعلق ہے تووہ امریکااورمغرب کے دیئے گئے ہرایجنڈے کوآسمانی صحیفے کی الوہی آیات تصورکرتی ہیں ۔اس کے برعکس قوم کااس پراتفاق رائے پایاجاتاہے کہ نہ صرف بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے دہشتگردوں کوتختۂ دارپرلٹکایا جائے بلکہ ٹارگٹ کلنگ کے وہ مجرمان جو درجنوں قتل کااعتراف کرچکے ہیں اوراعلیٰ عدالتیں ان کوسزائے موت کا حکم سناچکی ہیں،ان کوبھی بلاتاخیراپنے منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی تاخیرروانہیں رکھنی چاہئے اوران سے محض یہ رعائت نہ برتی جائے کہ ان کاتعلق کسی سیاسی گروہ سے ہے، تاکہ ان کے مؤیدین اورمعاونین کے حوصلے پست ہوں۔یہ درست ہے کہ حکومت کواس مشکل عمل کو انجام دیتے ہوئے جہاں یورپی یونین کادباؤکاسامناکرناپڑے گاوہی یہ سیاسی گروہ بھی اپنے تحفظات کی بناء پرامن عامہ کے مسائل پیداکرنے کی دہمکیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے اوریقینا بیرون ملک پاکستان کے مخالف عناصراہل یورپ کوپاکستان پر پابندیاں عائدکروانے میں سرگرم بھی ہوگئے ہیں مگراب وقت آگیاہے کہ مفادات اور مصلحتوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ملک وقوم کے مفادکے تحفظ کویقینی بنایاجائے۔آرمی چیف اورصدرِمملکت نے جن دہشتگردوں کی موت کے پروانے پردستخط کئے ،انہیں انجام تک پہنچانے میں کسی تامل سے کام نہیں لیناچاہئے لیکن قانون وانصاف کے تقاضے ہرقیمت ملحوظ خاطررکھناضروری ہیں۔ سزائے موت پرعملدرآمدکے فیصلوں کااطلاق اس طرح ہوناچاہئے کہ شہریوں کو انصاف ہونے کی خبرہی نہ ملے بلکہ انصاف ہوتاہوادکھائی دے۔اس ضمن میں دہشتگردوں کے ردعمل ،دہمکیوںاورگیدڑبھبھکیوں کوخاطرمیں نہیں لانا چاہئے ۔ انہوں نے پہلے ہی کون سی کسر اٹھارکھی ہے۔موت کے تمام سزایافتہ مجرموں کوبلاامتیازان کے انجام تک پہنچایاجائے جس کے وہ حقدارہیں۔
درپیش صورتحال میں ضروری ہوگیاہے کہ اظہار،غیض وغضب اورگریہ وزاری سے اوپراٹھ کرحقائق پرگہری نظررکھی جائے اورغوروخوض اورتدبرسے کام لیاجائے ۔ایک اہم اور بنیادی سوال دہشتگردی کوجڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی خاطرہماری انٹیلی جنس نیٹ ورک اوراس کی کارکردگی کے حوالے سے اٹھتاہے۔امریکامیں نائن الیون کاایک واقعہ ہوا، انہوں نے دیگراقدامات کے علاوہ اپنے انٹیلی جنس نظام کویکسرتبدیل کردیااورنائن الیون جیساواقعہ آج تک دوبارہ رونمانہ ہوا۔غورکیجئے کہ یہاں اب تک کتنے نائن الیون ہوچکے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں جی ایچ کیوپرقبضے کے سرغنہ کوبعد خرابی وانتظارکے بعداب جاکرتختۂ دارپرلٹکایاگیاہے ،اس کے علاوہ کراچی نیول ڈاکیارڈیااس نوعیت کے حوالے سے حساس ترین مقامات پرخوفناک حملے،جنہوں نے ہربارسیکورٹی آپریٹس کوہلاکررکھ دیاگیا۔پشاور،کوئٹہ اورکراچی کے ہوائی اڈوں پردہشتگردوں کی پھیلائی ہوئی تباہی کے واقعات جی ایچ کیوکے علاوہ کئی دوسرے حساس درجے کی اہمیت رکھنے والے مراکزپردہشگردوں کے جان لیواحملے ہوئے۔بنوں جیل کوتوڑدینے اورملزموں و مجرموںکواپنے ساتھ بھگالے جانے والے واقعات رونماہوئے۔انٹیلی جنس ادارے انہیں وقت سے پہلے بھانپ لینے یاان کی پیشگی اطلاع پانے میں ناکام کیوں ہوئے؟کیااس پرغورکی ضرورت محسوس کی گئی کہ انٹیلی جنس نظام میں کون سا بنیادی نقص پایاجاتاہے ۔سانحہ پشاورمیں بھی یہ کوتاہی اظہرمن الشمس ہے۔
یوں تو’’نیکٹا‘‘کوفعال کرنے کے ارادے اوراعلانات باربارسننے میں آتے ہیں لیکن معاملہ ہمیشہ کھٹائی میں پڑجاتاہے۔عام درجے کی توجیہات سے قطع نظر اس کا حقیقی سبب کیاہے کیاکوئی قوم کواس سے باخبرکرنے کی زحمت کرے گا؟ایک اوراہم اورتوجہ طلب بات یہ ہے کہ اچھے اوربرے طالبان کی بے معنی اورفضول سی تقسیم سے قطع نظر پورے خطے میں دوطرح کے طالبان پائے جاتے ہیں۔ایک افغان طالبان جن کی ساری کاروائیاں اپنے ملک میں غیرملکی افواج پرمرتکزرہیں۔پاکستان میں واقع تنصیبات یا لوگوں پران کاہاتھ قطعی نہیں اٹھااوریہاں پاکستان میں سارا تھیٹر تحریک طالبان پاکستان اوراس کے حواریوں نے لگایا۔اس تنظیم کی قیادت پہلے بیت اللہ محسود کے پاس تھی ۔ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسوداس کاسربراہ بنا۔وہ بھی ۲۰۱۳ء میں ڈرون حملے کی نذرہوگیا۔پھر۲۰۰۹ء میں سوات آپریشن کے بعدافغانستان میں فرارہوجانے والے ملا فضل اللہ کے پاس اس کی کمان آئی،یہ سب پاکستانی ہیں۔تحریک طالبان کا۲۰۰۷ء سے پہلے اس کاکوئی وجودنہیں تھا۔بظاہریہ خبرعام ہے کہ تنظیم کے قیام کااعلان لال مسجدکے آپریشن کے بعدکیاگیالیکن اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس گروہ کوطالبان کانام دیکرٹرائیکا(امریکا،اسرائیل اوربھارت)نے جہاں افغان طالبان کی کاروائیوں کودنیابھر کی نظروں میں بدنام کرناتھاوہی پاکستان کی سلامتی کے خلاف ایک منظم سازش مقصود تھی۔آخرپاکستانی طالبان کاماہانہ کروڑوں روپے کابجٹ ،جدیدترین اسلحے کی بہتات اوروائرلیس کاجدیدترین نظام کس نے فراہم کررکھاہے؟فوجی ترجمان کے مطابق ضربِ عضب آپریشن کے دوران دہشتگردوں کے ٹھکانوں سے برآمدہونے والے جدیداسلحے کی مقدارآئندہ پندرہ سال تک لڑنے کیلئے کافی تھی،میلوں لمبی زیرِزمین سرنگوں کی تعمیرپرخرچ ہونے والاسرمایہ اورتکنیکی امدادکس نے فراہم کی؟؟
ایک مشہورامریکی کالم نگارنے تواپنی رپورٹ میںیہاں تک لکھاہے کہ امریکااوراس کے حواریوں کے جنگی اخراجات افغانستان کی جنگ سے کہیں زیادہ پاکستان کوتوڑنے کیلئے غیراعلانیہ جنگ پرصرف ہوئے ہیں لیکن وہ ابھی تک اس سازش میں کامیاب نہیں ہوسکے۔کیاآج تک کسی نے ان معاملات کی تحقیق کرنے کی زحمت گوارہ کی ہے کہ کراچی سے افغانستان کو روانہ ہونے ڈھائی ہزارسے زائدامریکی کنٹینر راستے میں کہاں غائب ہوگئے، سابق امریکی سفیرحسین حقانی نے چودہ ہزار امریکی بلیک واٹرکے ایجنٹوں کوپاکستان کے ویزے کیوں جاری کئے، ان میں کل کتنے ایجنٹ آج تک پکڑے گئے اورکتنے آج بھی پاکستان کی سرزمین پرموجودہیں ،حسین حقانی جوپاکستان کی اعلیٰ عدالت سے ضمانت پرملک سے فرارہوگیا،ان ضامنوں کے ساتھ قانون نے اب تک کیاکاروائی کی،پاک افغان سرحدپرروزانہ تقریباًپچیس سے تیس ہزارتک افرادکابغیرویزے کے داخل ہونا کون سے عالمی قانون کے تحت جاری وساری ہے؟؟؟
آپ ان دہشتگردوں کی بیخ کنی کیلئے ایکشن پلان کیلئے کتنی ہی آئینی ترامیم کرکے فوجی عدالتوں کومیدان میں لے آئیں ،یہ ایک جزوقتی حل توہوگا لیکن یہ مسئلہ کلی طورپر اسی وقت حل ہو گا جب آپ ربِّ کائنات کے حکم کے مطابق یہاں صرف قرآن کونافذکریں گے ۔کیاہم ختمی الرسل ۖ کے اس ارشاد عالی کوبھول گئے کہ جب ان سے ایک خاتون کی سفارش کی گئی تو انہوں نے فرمایاکہ ”قسم ہے مجھے اس رب کی جس کے قبضے میں محمدۖ عربی کی جان ہے کہ اگراس کی جگہ فاطمہ بن محمد(ۖ)بھی ہوتی تومیرایہی فیصلہ ہوتا،یادرکھوتم سے پہلے قومیں اسی لئے ہلاک ہوگئیں کہ ان کے امراء کیلئے الگ قانون ہوتاتھااورمساکین کیلئے الگ قانون”۔آج پاکستان کے گھمبیرمسائل کابھی صرف یہی حل ہے ۔
یادرکھیں میرے رب سے زیادہ کوئی داناوحکیم نہیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں