چہرے نہیں،نظام کوبدلو

:Share

تبدیلی کاسلسلہ توجاری وساری رہتاہے۔اسی کانام زمانہ ہے۔ پانی ٹھہرجائے توجوہڑبن جاتاہے۔چلتاہواپانی ہی صاف اور شفاف ہوتاہے۔سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی کا نام ہے۔اس کے بندمضبوط ہونے چاہئیں۔ورنہ طالع آزمااس بندمیں شگاف کرنے میں کسی قسم کی مروت کامظاہرہ نہیں کریں گے۔ اوپر کی سطح پر تبدیلیاں ہی تبدیلیاں ہیں اورنیچے؟ کیااب بھی وہی ہم اور وہی غم ہوں گے۔ چہرے بدلنے سے کبھی مقدرنہیںبدلتے۔تبدیلی کاعمل جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات وجذبات اسی طرح سلگتے رہیں گے۔مہنگائی کے ایشو پرانہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اورتھکے ہوئے ہیں۔ حالات و واقعات نے انہیں اس قدر ٹچی بنادیاہے کہ سوئی کی آواز بھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔ اس کے لئے موجودہ سرکارکو عوام کے لئے ”کاروبار” کرنا ہوگا پھر کہیں جاکر ان کابازار چلے گا۔ ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں۔ مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں ، ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ ہررات کوشب برأت سمجھنے والوں کویادوں کی بارات کاکیاپتہ ،انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہوجائے تو وہ آنکھ بند کرنے سے ہی توبہ کرلیں۔ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگران کے ضمیر سو رہے ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کے لئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیر جاگتی رہتی ہے۔
بہت سے خواتین وحضرات کوآنکھوں کی”چہل قدمی” کابڑا شوق ہوتاہے’انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں۔اسی شوق چشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگاجاتے ہیں۔ دوسروں کے گھروں میں”نظراندازی” کرنے والوں کو اپنی چادروچاردیواری کے اندربھی دیکھناچاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پر کیا گزرتی ہے۔ من کاویسے بھی دھن سے کیارشتہ ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں،یہ بھرگیا توبہت سے سیلاب جسم کوڈبودیں گے۔ سیاست میں یہی سیلاب،سونامی بن جاتے ہیں۔ پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدارکے بغیر نہیں رہ سکتے اور اسلام آباد ان کے بغیر نہیں رہ سکتا،ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑا ہاتھ ہے ۔ کہاجارہاہے کہ آمریت کے کسی نئے طوفان کے لئے تشدد کو ہوا دی جارہی ہے۔ جب تک سمجھوتے دل سے نہیں ہوں گے ،اس کے لئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کرلیں،کاغذ کو راہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بار ہوتی ہے اوراس کے بعدسمجھوتے ہی چلتے ہیں،جب تک جان ہے ،جہان داری تونبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہارجیت چلتی رہتی ہے۔ جیتنے والوں کویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے۔آئے دن کوئی ماں اپنے معصوم بچوں سمیت خود کوٹرین سے کٹواکر ہمارے سسٹم کو کاٹ کررکھ دیتی ہے ۔ہمارے یہاں توزندہ لوگوں کاحساب نہیں لیاجاتا،مرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔
صرف اگراپنی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لئے سخت فیصلے کریں گے تولوگوں کاری ایکشن بھی اسی طرح کاسخت ہوگا۔فیصلے توتاریخ میں کچھ اس قسم کے بھی رقم ہوئے ہیں۔ جب سکندرمرزاپشاورکے ڈپٹی کمشنر تھے توان دنوں وہاں ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ایک جلوس نکالاگیا۔ سکندرمرزا نے جلوس کومنتشر کرنے کے لئے پولیس تک طلب نہیں کی بلکہ اس کے راستے میں ٹھنڈے شربت کی سبیلیں لگائیں،گرمی کاموسم تھا، جلوس کے شرکاء جی بھرکراپنی پیاس بجھاتے رہے۔ شربت میں جمال گوٹہ ملایاہواتھا۔ پھرایک روز جب ڈاکٹر خان صاحب وزیربن گئے توسکندر مرزانے بیورو کریسی کونصیحت کی کہ ”ڈاکٹر صاحب کوخوش رکھنے کاخیال رکھاکرو،اس شخص نے ساری عمر جیل کی ہوا کھائی ہے یاپولیس کے ڈنڈے ،ہم اسے بڑی مشکل سے گھیرگھارکر حکومت میں لائے ہیں۔ اب اسے’’گڈلائف‘‘کاایساچسکا لگاؤکہ وہ اس پنجرے سے باہر نہ نکل سکے۔” سکندرمرزا کے ری پبلکن پارٹی کے خواب کی تعبیر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں ہی ہوئی۔
جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کے پنجرے کی اسیرہوئی،اس کے نتیجے میں خلقت صرف حقیر ہوئی۔ عوام نے موجودہ سرکار کوبڑی تمناؤں کے ساتھ چناہے۔ صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،عوام کے علم میں سب کچھ ہے۔ اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں،عوام کو دئیے گئے ریلیف سے ہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔ انسان کے جذبات ناقابل تسخیرہوتے ہیں۔مگریہ بھی تو سوچیں کہ ان کے دردکے فاصلوں کو کیسے کم کرنا ہے ۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل ودماغ کے درمیان دشمنی لگادیتے ہیں۔ایسے میں دل اپنا نہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں۔ سرکارکادعویٰ ہے کہ پہلی بار پیارے پاکستان کوجمہوریت ملی ہے ، یہ واقعی مل گئی ہے، لوگ توتب مانیں گے۔
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں
میں صحرا تھا سمندر ہوگیا ہوں
صحرامیں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی دیتا،جس کی مرہون منت آنکھیں امیدسے ”تربتر” رہتی ہیں۔امیدکسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے۔ بصورت دیگر انجام اس عمارت کی طرح کاہوتاہے جولمحوں میں مسمارہوجاتی ہے۔امیدکوبارودکے ساتھ ساتھ ”نمرود” سے بھی بچاناہوتاہے کیونکہ یہ زندگی کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے۔ یہ وہ سورج ہے جورات کوبھی روشن رکھتاہے۔امیدٹوٹ گئی توسمجھو کہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔اب بھی یہی کہاجارہاہے کہ ملکی معیشت کے لئے مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔بجلی کے اضافی بلوں کے ذریعے دن دیہاڑے جوڈاکہ ڈالاگیاہے اس کے مجرموں کوکیفرکردارپہنچانے میں لیت ولعل سے کیوں کام لیاجارہاہے؟ اوپرتبدیلی آگئی ہے کیا،جونیچے اسی طرح کے سخت فیصلے ہوں گے؟ گستاخی معاف!اس کامطلب تویہ ہوا کہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں