”ثالث یاسہولت کار”

:Share

قدیم یونان کے لوگ رات کواپنی پگڑیاں،دستاریں اور ٹوپیاں دروازے پرلٹکادیتے تھے،ان کاخیال تھا عظمت کی دیوی رات کے وقت اپنے آسمانی مسکن سے نکلتی ہے، ایک ایک دستار، ایک ایک پگڑی اور ایک ایک ٹوپی کے پاس رکتی ہے اور اسے ان ٹوپیوں، ان پگڑیوں اوران دستاروں میں سے جوپسندآجاتی ہے وہ اپنی سونے کی چھڑی اس پررکھ دیتی ہے اورعظمت کی دیوی کی یہ چھڑی جس دستارکوچھوجاتی ہے اس دستار کا مالک زمانے میں عظیم ہوجاتاہے،اسے عزت، شہرت اور عظمت نصیب ہوجاتی ہے،۔اہل یونان کاایمان تھا یہ دیوی دنیامیں ایک بار ہرشخص کے دروازے پرجاتی ہے اور اگراس رات اس شخص نے اپنی دستار دروازے پر لٹکارکھی ہوتووہ اس کی دستار کواپنی چھڑی سے چھو دیتی ہے اوراگلی صبح جب وہ شخص اپنی دستار پہنتا ہے تودیوی کی عظمت اس کے سر،اس کے ماتھے میں نفوذ کرجاتی ہے اوریوں وہ شخص معتبرہوجاتاہے۔اہل یونان رات کے اس پل کوعظمت کالمحہ کہتے تھے اوران کاخیال تھایہ دنیا کاقیمتی ترین لمحہ ہوتاہے اور دنیاکے تمام خزانے مل کربھی اس ایک لمحے کی برابری نہیں کرسکتے۔
اہل روم کاخیال ان سے ذرا مختلف تھا،یہ لوگ سمجھتے تھے دیوتاؤں کادیوتا دنیاکے ہرانسان پرعظمت کاایک لمحہ اتارتاہے اورانسان اگر اس لمحے سے لپٹ جائے تووہ ستارہ بن جاتاہے،وہ انسانوں کی صف سے نکلتاہے،آسمان پر پرواز کرتاہے اورآسمان کے ستاروں کاحصہ بن جاتاہے اورپھرابد تک چمکتا رہتاہے،اہل روم کاخیال تھادنیامیں جولوگ اس لمحے کو کھودیتے ہیں وہ پتھربن جاتے ہیں اور دنیا کے تمام پتھروہ بدنصیب لوگ ہیں جنہوںنے عظمت کے لمحے کھودئیے تھے اورآسمانوں کے تمام ستارے وہ خوش نصیب لوگ تھے جوعظمت کے اس لمحے سے لپٹ گئے اورابدی ہوگئے لیکن عربوں کا خیال ان دونوں سے مختلف تھا۔ عرب سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ دنیاکے ہر انسان کوایک بار خیراورشرمیں سے کسی ایک کے انتخاب کاموقع دیتا ہے اور انسان اس لمحے جس کا انتخاب کرتاہے اس کا اختتام ہمیشہ اس پرہوتاہے۔ عربوں کاخیال تھامعاشرے میں جوشخص جتنابڑا ہوتاہے، قدرت اسے اتنی ہی کثرت سے خیراوراتنے ہی وسیع شرکے سامنے لاکھڑاکرتی ہے اور انسان اپنی اوقات ، مرتبے اور صلاحیت کے مطابق خیراورشرکا انتخاب کرتا ہے۔
میں ایک کم عقل دنیادار شخص ہوں لہٰذا میں نہیں جانتاعربوں کاتصوردرست تھا،اہل روم کاخیال صحیح تھایاپھراہل یونان درست سوچتے تھے لیکن مجھے اتنامعلوم ہے اللہ تعالیٰ قدرت یاآسمانی طاقتیں اپنے بندوں پرایسے لمحے ضروراتارتی ہیں جب ان کاایک فیصلہ انہیں عظیم یابدترین بنادیتاہے۔یہ وہ لمحہ اوریہ وہ فیصلہ ہوتاہے جب ایک شخص حضرت امام حسینؓ بن جاتاہے اور دوسرایزید،جب ایک شخص ٹیپو سلطان بنتاہے اوردوسرا میرصادق، جب ایک شخص اسامہ بن لادن بنتاہے اور دوسرا باراک اوباما، ایک ملا عمر بن جا تا ہے اور دوسرا حامد کرزئی ۔قدرت خیراورشر کے اس انتخاب دائیں اوربائیں کی پسند اورمنفی اور مثبت کے اس چناؤ کاموقع دنیا کے ہرشخص کو دیتی ہے اور اس ایک لمحے کافیصلہ انسان کی ذلت اورعظمت کا تعین کرتاہے، دنیا کے تمام بڑے عظیم اور شاندار لوگ اسی ایک لمحے سے نکلے ہیں اور دنیاکے تمام برے،بدبخت اور قابل ملامت اشخاص بھی اسی لمحے کی پیدوار ہیں۔
دنیا کا ہر انسان محض ایک انسان ہوتاہے لیکن یہ اس قیمتی لمحے کا وہ فیصلہ ہوتاہے جوہمیں اچھایابرا بناتاہے، جوہمیں پہاڑوں سے بلند، سونے سے قیمتی اور دیوتاؤں سے مضبوط بناتا ہے اور جوہمیں طبعی زندگی کے دائرے سے نکال کرتاریخ کاحصہ بنادیتاہے۔ یہ سقراط کا وہ ”انکار” ہوتاہے جو مرنے کے بعدبھی اسے پانچ ہزار سال تک زندہ رکھتاہے اورجواس کی زندگی کو دنیاکے آخری انسان کی آخری سانس تک پھیلادیتاہے۔آج مجھے وہ لمحات یادآرہے ہیںجب عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران میری چیف جسٹس افتخارچودھری سے ملاقات ہوئی تھی ۔ میں ان کے پاس اپنے ایک دوست کے ہمراہ حاضرہواتھا۔وہ میرے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آئے،اس ملاقات میں انہوں نے فرمایاتھا”اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اچھے فیصلے کرنے کی ہمت دیتاہے،وہ انہیں ڈٹ جانے کاحوصلہ دیتا ہے اورمجھے بھی اللہ تعالیٰ نے ۹مارچ۲۰۰۷ء کوایک ایساہی فیصلہ کرنے کاچانس دیا،میں نے یہ چانس ضائع نہیں ہونے دیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے استقامت بخشی اوراس استقامت کے نتیجے میں آج پورے پاکستان کے عوام میرے پیچھے کھڑے ہیں” میں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے عرض کیا”آپ اگر٩مارچ کوصدر مشرف کے سامنے انکار نہ کرتے توآپ بھی محض ایک جج ہوتے اورآج لوگ آپ کانام تک بھول چکے ہوتے۔” چودھری صاحب نے مسکراتے ہوئے میری بات سے اتفاق کیا۔
دنیاکاسب سے مشکل سوال حقیقت یاسچائی ہوتی ہے،کون سچاہے؟ کس کاموقف درست ہے اور کون سچائی پر ہے؟ یہ سوال آج تک انسان کو گمراہ کررہاہے لیکن اس کاجواب آج سے چودہ سوسال پہلے حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے دے دیاتھا اور یہ وہ شخص تھا جس کادل اور روح مسلمان اور بدن مشرک تھا چنانچہ جب اس کاانتقال ہوا تونبی رسالتۖ نے عرب کے ریگزاروں میں اس کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھائی تھی اورسینکڑوں صحابہ کرام نے نبی رسالتۖکے ساتھ مل کر اس کے لئے دعائے مغفرت کی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے مسلمان نجاشی کے پاس پناہ گزین ہوئے اورکفارمکہ نے ان لوگوں کوواپسی کے لئے نجاشی کے دربارمیں سفارت بھجوائی کفار مکہ نے نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کے خلاف ایک لمبی چوڑی تقریر کی۔ نجاشی نے اس تقریرکے بعدحضرت جعفرطیار کوجواب دینے کا موقع دیا۔ حضرت جعفرؓطیار کے خطاب کے بعد نجاشی نے ان سے چند سوال پوچھے۔ ان سوالوں میں ایک سوال تھا”تمہارے نبی کوماننے والے اوّلین لوگ کون تھے؟” حضرت جعفر نے فوراً فرمایا”یہ مکہ کے عام لوگ ہیں،ان میں غلام ہیں، مسکین ہیں اورمعاشرے کے محروم لوگ ہیں”نجاشی نے فوراً کہا”بے شک یہ نبی سچاہے‘‘۔
میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تھا تومیں نے حیرت سے سوچا تھانبوت کی سچائی کاعام لوگوں کے ایمان کے ساتھ کیا تعلق ؟بڑے عرصے بعد معلوم ہوا سچائی اللہ کی وہ نعمت ہے جوسب سے پہلے محروم،مسکین اور عام لوگوں تک پہنچتی ہے اور غریب اور محروم شخص کاخیال، اس کی پسنداور اس کی رائے ہمیشہ سچی ہوتی ہے۔ قدرت ہمیشہ محروم لوگوں کی آوازوں میں بولتی ہے اور دنیاکی ہراچھائی محروم طبقوں سے ہوکربالائی طبقوں تک پہنچتی ہے اور برائی ہمیشہ بالائی طبقوں سے زیریں طبقوں تک آتی ہے۔چنانچہ دنیاکے ہرنبی کوسب سے پہلے عام شخص نے تسلیم کیاتھا اورحضرت ابراہیم ہوں یا حضرت محمدۖ معاشرے کے بالائی طبقے سب سے آخر میں ان پرایمان لائے تھے،۔معلوم ہواعام انسان کی بات بھی غلط نہیں ہوتی اورجوحکمران عام انسان کی بات نہیں سنتا وہ کبھی عظمت کے تخت تک نہیں پہنچ پاتا۔
آپ بدقسمتی دیکھئے عظمت کی یہ دیوی عمران کے دروازے پرکھڑی رہی لیکن افسوس عمران نے یہ لمحہ کھودیا۔ عمران کے پانچ مطالبات پرجونہی
حکومت نے سرجھکایا توقدرت نے نہیں ایک بڑا انسان ،ایک عہدساز شخصیت بننے کا موقع دیا لیکن افسوس عمران صاحب نے عظمت کی چھڑی اپنی دستار تک نہ پہنچنے دی بلکہ اپنی بے جا ضداورتکبرکی بناء پرہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ موقع کھودیاہے۔یوں لگتاہے کہ آزادی مارچ اورانقلاب کی بڑھکیں مارنے والوں کا اس عارضی اقتدارکے حصول کیلئے ’’ڈوآرڈائی‘‘کاایجنڈہ بری طرح فلاپ ہوگیاہے اورابھی تک عمران خان سول نافرمانی اورسابقہ الیکشن کمیشن کے رکن محمدافضل کے بغیرثبوت کے لگائے ہوئے اندھے کنویں سے نکل نہیں پائے تھے کہ ایک مرتبہ پھرانہوں نے موجودہ حکومت
پربرملا بغیرکسی ثبوت کے ”آئی بی”کی طرف سے میڈیامیں ڈھائی سوکروڑکی خطیررقم کی تقسیم کاالزام لگاکر ایک نئے گڑھے میں چھلانگ لگادی
ہے۔
دوسری طرف میاں نوازشریف کی فیصلوں میں تاخیراورگومگوکی کیفیت ،دوستوں سے عدم تعاون اورضدکی پالیسی نے انہیں ہمدردوں سے دورکر دیاتھالیکن ان مشکل لمحات میں جس طرح انہیں ساری اپوزیشن،وکلاء تنظیموں اورسول سوسائٹی سے جوکمک حاصل ہوئی تھی وہ آرمی چیف کو ”ثالث یاسہولت کار”کی تشریح میں تاخیرکی وجہ سے کمزورہوگئی ہے اورلگ رہا ہے یہ لمحے ایک مرتبہ پھران سے روٹھ کرکسی اورخوش قسمت کی دستارکی تلاش میں ہیں۔ جس دن میاں صاحب نے سنجیدگی کے ساتھ اپنے کڑے احتساب کے بعد یکسوئی کے ساتھ اپنی موجودہ پالیسی کوقومی دھارے میں ڈھال دیا،ملک کواغیارکی غلامی سے نکالنے کاعزم کرلیا ، ان تمام مجبوریوں اور سمجھوتوں سے آزادہوکر آگے بڑھ گئے تو اس دن عظمت کاتاج ان کے سرپر ہوگا اوراگرمیاں صاحب نے بھی اگر،مگر چونکہ اور چنانچہ اور انتقامی مطالبوں میں یہ موقع کھودیا توتاریخ میں میاں نوازشریف ، آصف علی زرداری، عمران خان اور طاہر القادری کے ہمسائے ہوں گے اوران کے چہرے وقت کی گھاس اور عبرت کی ریت میں دفن ہوجائیں گے ۔ پاکستان کا عام شہری سچ اورصرف سچ جانتاچاہتاہے اوراپنی کھوئی ہوئی غیرت کی بحالی چاہتاہے اور جس کسی سیاسی رہنمانے عام انسان کی اس سچائی کو نہ پہچانا وہ ہماری آنکھ کے سامنے وقت کے قبرستان میں دفن ہوجائے گا اورجس نے آگے بڑھ کر عام انسانوں کی خواہشوں کاہاتھ پکڑلیا اس پرعظمت کے لمحے قربان ہوجائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں