Is heartbreak necessary?

کیادل ٹوٹناضروری ہے؟

:Share

اس وقت قوم بالخصوص نوجوان نسل اورحساس افرادبڑے مایوس اوردل شکستہ نظرآتے ہیں لیکن میں سمجھتاہوں کہ دل کاٹوٹنا بھلاکوئی آسان بات تھوڑی ہے؟کیایونہی اس کی قیمت چکائی جاسکتی ہے؟دل دنیاکی واحدشے ہےجس کی قیمت ٹوٹنےکےبعدکئی گنابڑھ جاتی ہے،قیمت بڑھ جائےاورایسی بڑھے کہ آوازآئے“اَنَاعِنْدَالْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ”کہ ہم ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتے ہیں۔کیااس مقام کوحاصل کرنے والاکوئی للوپنجوہوسکتاہے ؟

دل ٹوٹے،کئی حصوں میں تقسیم ہواورتقسیم شدہ یہ پارچے تخت الہی بن جائیں،کیایہ یونہی ہوجائے گا؟؟دردنہ دکھ؟تکلیف نہ کوفت؟ پیڑنہ پنچائت؟غم نہ گھٹن؟آلام نہ مصائب؟واہ واہ واہ ۔مقام اورعہدے بھلایونہی مل جاتے ہیں؟اورپھریوں ملے عہدوں کی وقعت ہی کیا؟خواہ مخواہ ملے مرتبے کی حیثیت ہی کیا؟مل بھی جائے توایسے مقام کی اہمیت ہی کیا؟مقام کی وقعت ،حیثیت،اہمیت حتٰی کہ افادیت کااندازہ ہوتاہی نہیں،ہوہی نہیں سکتاجب تک کہ دردکی نیلی نیلی آگ میں تپ کرمحبت کامجسمہ عشق کے راستے سے ہوتے ہوئے دل کے ٹوٹنے تک کی منزل پرنہ پہنچ جائے۔دل ٹوٹناضروری ہے ،لازمی ہے،ناگزیرہے،کہ ٹوٹے دل ہی میں تو”اَنَاعِنْدَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ”کی صدائیں بلند ہوتی ہیں،تخت لگتاہے،بادشاہ بیٹھتاہے، فیصلے ہوتے ہیں،کتنوں کی قسمتوں کے فیصلے،مقدرکے فیصلے۔لہذادل ٹوٹتاہے توٹوٹنے دیجیے،ہنستے مسکراتے ٹوٹنے دیجیے۔ٹوٹاہوادل جوڑناسکھادے گااورجس دن آپ کو جوڑنا آگیانہ تو کچھ ایسا نہیں رہے گاجوآپ نہ کرسکیں،ٹوٹنے دیجیے دل،ٹوٹنے دیجیے۔

تاہم اس قیامت کاذکرکرنابھی ازحدضروری ہے کہ ہم نے ایسی حکومت کو بھی بھگتاہے جوکھلے عام عوام کے سامنے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ حکومت کے پہلے 100دنوں میں آئی ایم ایف کے منہ پر200/ارب ڈالرمارکران سے نجات حاصل کر لیں گے لیکن جب حکومت سنبھالی تواپنی کابینہ سے نیاترمیمی ایکٹ2021 برائے سٹیٹ بینک پاس کرکے ساراسٹیٹ بینک ہے آئی ایم ایف کے منہ پرماردیاگیاجوابھی تک غلامی کی چادرتلے کام کرنے پرمجبورہے۔اُس حکومت نے ملک میں سائنسی،علمی،زرعی اوردیگر علوم کی ترویج کیلئے کام کرنے کاوعدہ کیاتھالیکن کیااپنے دورِ حکومت کے پہلے یوم پاکستان23مارچ کوتقسیم ہونے والے ایوارڈ میں ان ترجیحات کومدنظررکھاگیا۔کیاکوئی ایک ایوارڈبھی علمی،سائنسی،زرعی یادیگرکسی ادارے کیلئے کام کرنے والے کسی ریسرچ اسکالرکوملا؟

ہماری قوم نےتوصدرِپاکستان عارف علوی کوریشم اورمہوش کواچھاناچنے گانے پراپنے دستِ مبارک سےصدارتی ایوارڈ سے نوازتے دیکھا۔اسی طرح درجن سے زائدڈوم میراثی افرادمیں ایوارڈ تقسیم کرکے قومی ایوارڈوں کی بے توقیری کردی گئی۔یادرہے کپتان نے عوام سے وعدہ کیاتھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کوریاست مدینہ بناؤں گا۔انہوں نے مولاناطارق جمیل کویہ ایوارڈ دیکر مدینہ کادامن نہیں چھوڑا۔مولاناطارق جمیل کاکم ازکم یہ فائدہ توضرورہے کہ ایوان اقتدارمیں لاہوری قادیانی شوکت عزیزہو،فاسق کمانڈوپرویزمشرف یاعمران خان،یہ سب کوتبلیغ کے نام پرسلام کرنے ضرور تشریف لیجاتے ہیں اورجب ملاقات کے بعد ایوان اقتدارسے باہرتشریف لاتے ہیں توانہیں اسلام اورپاکستان کےسچےخادم کاسرٹیفکیٹ دینااپنافرض منصبی سمجھتے ہیں ۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ہماری قوم کی یہ بدقسمتی بھی ملاحظہ ہوکہ جن سیاسی رہنماؤں کی گاڑیوں کے آگے پیچھے دوڑدوڑکر اس پرپھولوں کی پتیاں نچھاورکرتے تھے حالانکہ وہ عدالتوں میں اپنی بدعنوانی اورقومی دولت کوبے رحمی سے لوٹنے کے جرم میں پیش ہونے جارہے ہوتے تھے،وہ جب اقتدارمیں پہنچے توانہوں نے بھی “مارے کوماریں شاہ مدار”کے ہتھیارسے قوم کوذبح کرکے رکھ دیا۔ابھی کل کی بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مہنگائی کے ہاتھوں بلبلانے والی کروڑوں افرادکیلئے قومی خزانے سے رمضان الکریم کے ایک پیکج کااعلان ہواتوفوری طورپر آٹے کے تھیلے پرمیاں نوازشریف کی تصویرپرنٹ کرکے اسے آج کے دورکا”حاتم طائی”پینٹ کرنے کی کوشش کی گئی تومجبورومقہورعوام کواس تذلیل سے بچانے کیلئےعدالت کواس میں مداخلت کرناپڑگئی لیکن اس کے باوجوداپنے مہربان کومحض کروڑوں روپے اس پراجیکٹ کی تشہیرکیلئے عطاکردیئے گئے۔جب متعلقہ محکمہ کی ایماندار خاتون افسر نے اس حکم کوماننے سے انکار کیاتواس خاتون سمیت مزیددس افسارن کو”اوایس ڈی”کاپروانہ تھما دیاگیااورآنے والے متعلقہ افسرنے کروڑوں روپے کی واگزاری میں ایک لمحے کی تاخیرنہیں کی۔
ایک دوزخم نہیں جسم ہے ساراچھلنی
دردبے چارہ پریشاں ہے کہاں سےنکلے

حاجیوں کی تعدادکے لحاظ سے پاکستان دنیامیں دوسرے نمبرپراورعمرہ کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نمبرپرہے جبکہ دنیابھرمیں ایمانداری کے انڈکس کے مطابق پاکستان کا 160 نمبر ہے،ورلڈجسٹس پراجیکٹ کی سالانہ رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کوقانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر139ممالک میں سے130وا سے130ویں نمبرپررکھاگیاہے۔1500یونٹ کو500یونٹ لکھنے والارشوت خورمیٹرریڈر،خالص گوشت کے پیسے وصول کرکے ہڈیاں بھی ساتھ تول دینے والاقصائی،خالص دودھ کانعرہ لگاکرملاوٹ کرنے والادودھ فروش،بے گناہ کی ایف آئی آرمیں دومزید ہیروئین کی پڑیاں لکھنے والا انصاف پسندایس ایچ او،گھربیٹھ کرحاضری لگواکرحکومت سےتنخواہ لینے والامستقبل کی نسل کامعماراستاد،کم ناپ تول کرپورے دام لینے والادوکاندار،100روپے کی رشوت لینے والاعام معمولی ساسپاہی،معمولی سی رقم کیلئےسچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ ثابت کرنے والاوکیل،سوروپے کے سودے میں دس روپے غائب کردینے والابچہ،آفیسرکیلئے رشوت میں سے اپناحصہ لے جانے والامعمولی ساچپڑاسی،کھیل کے بین الاقوامی مقابلوں میچ فکسنگ کرکےملک کا نام بدنام کرنےوالا کھلاڑی،ساری رات فلمیں دیکھ کرسوشل میڈیاپرواہیات اورجھوٹ پرمبنی پروپیگنڈے کوآگے بڑھانے والااورفجرکواللہ اکبرسنتے ہی سونے والا نوجوان ،کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے دس لاکھ کی سڑک بنانے والاایم پی اے اورايم اين اے،لاکهوں غبن کرکے دس ہزار کے ہینڈ پمپ لگانے والاجابر ٹھیکدار،ہزاروں کاغبن کرکے چندسومیں ایک نالی پکی کرنے والاضمیر فروش کونسلر،غلہ اگانے کیلئےبھاری بھرکم سود پہ قرض دینے والا ظالم چودهری ، زمین کے حساب کتاب وپیمائش میں کمی بیشی کرکے اپنے بیٹے کوحرام مال کا مالک بنانے والا پٹواری اورریونیوآفیسر،ادویات اورلیبارٹری ٹیسٹ پرکمیشن کے طورپرعمرہ کرنے والے ڈاکٹر،اپنے قلم کوبیچ کرپیسہ کمانے والا صحافی ، منبررسول پربیٹھ کردین کے نام پرچندے اورنذرانے والےمولوی اورپیر صاحبان،جب ہرکوئی کشتی میں اپنے حصے کاسواراخ کررہاہوتو پھر یہ نہیں کہناچاہئے کہ فلاں کاسوراخ میرے سے بڑاتھا،اس لئے کشتی دوب گئی!ہم سب قصوروارہیں اورہر کوئی سوشل میڈیاکوبغیرتحقیق کےبے تحاشہ استعمال کرکے خودکوبری الذمہ سمجھتا ہےاس دورمیں اگرہم پرنئے اورپرانے پاکستان کی گردان کرنے والے سیاستدان مسلط ہیں،تویہ ہمارے اعمال کی سزا نہیں تواورکیاہے؟

لاس اینجلس کے ڈاکٹر ابراہام نے انسانی روح کاوزن معلوم کرنے کیلئے نزع کے شکار لوگوں پرپانچ سال میں بارہ سوتجربے کیے۔اس سلسلے میں اس نے شیشے کے باکس کا ایک انتہائی حساس ترازوبنایا،وہ مریض کواس ترازوپرلٹاتا،مریض کی پھیپھڑوں کی آکسیجن کاوزن کرتا،ان کے جسم کاوزن کرتااوراس کے مرنے کاانتظارکرتاتھا-مرنے کے فوراًبعد اس کاوزن نوٹ کرتا۔ڈاکٹر ابراہام نے سینکڑوں تجربات کے بعد اعلان کیاکہ انسانی روح کاوزن 21گرام ہے۔گویاانسانی روح اس21 گرام آکسیجن کانام ہے جو پھیپھڑوں کے کونوں،کھدروں،درزوں اورلکیروں میں چھپی رہتی ہے،موت ہچکی کی صورت میں انسانی جسم پروارکرتی ہے اور پھیپھڑوں کی تہوں میں چھپی اس21گرام آکسیجن کوباہردھکیل دیتی ہے،اس کے بعدانسانی جسم کے سارے سیل مرجاتے ہیں اور انسان فوت ہوجاتاہے۔ہم نے کبھی سوچاہے کہ یہ21گرام کتنے ہوتے ہیں؟؟21گرام مکئی کے 14چھوٹے سے دانے ہوتے ہیں ،ایک ٹماٹر،پیازکی ایک پرت،ریت کی6چٹکیاں اورپانچ ٹشوپیپرہوتے ہیں لیکن ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ21گرام کاانسان خودکوکھربوں ٹن وزنی کائنات کاخداسمجھتاہے۔یہ ہے مجھ سمیت سب انسانوں کی اوقات ۔

یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگرروح کاوزن21گرام ہے توان21گراموں میں ہماری خواہشوں کاوزن کتناہے؟اس میں ہماری نفرتیں،لالچ،ہیرا پھیری،چالاکی،سازشیں،ہماری گردن کی اکڑ، ہمارے لہجے کے غرورکاوزن کتناہے؟یہ21گرام کاانسان جوخودکو21گرام کے کروڑوں انسانوں کا حاکم سمجھتاہے،وقت کواپناغلام اورزمانے کواپناملازم سمجھتاہے اوریہ بھول جاتاہے کہ بس ذرا سی تپش،بس ذراسی ایک ہچکی ہمارے اختیارہمارے اقتدار ہماری اکڑ،غروراورچالاکی کی موم کوپگھلادے گی اورجب یہ21گرام ہوا ہمارے جسم سے باہرنکل جائے گی توہم تاریخ کی سلوں تلے دفن ہو جائیں گے اور21گرام کاکوئی دوسراانسان ہماری جگہ لے لے گا۔

ہائے یہ انسان !جومڑکراپنی ہی کمرکاتل تودیکھ نہیں سکتااوردعویٰ کرتاہے کہ میں زمین پرچلنے والے ہرکیڑے کودیکھنے کی صلاحیت رکھتاہوں۔یہ ہے ہماری اوقات……..!
﴿ایمان لانے والو! تم یوں دُعا کرو ﴾ اے ہمارے ربّ ! ہم سے بھول چُوک میں جو قصور ہو جائیں،ان پر گرفت نہ کرنا۔ مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال ، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔پروردگار !جس بار کو اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے ، وہ ہم پر نہ رکھ۔ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تُو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔آمین یارب العالمین

اپنا تبصرہ بھیجیں