دشمن کے میزائل دفاعی نظام کوناکام بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ایم آئی آروی میزائل میں کئی وارہیڈزہوتے ہیں جوایک ساتھ مختلف اہداف کوبھی نشانہ بناسکتے ہیں جبکہ ایم اے آروی میں صرف ایک وارہیڈہوتاہے لیکن یہ ہدف تک پہنچنے سے پہلے اپنی دشمن کے دفاعی نظام کوکنفیوژکرنے کیلئے اپنی سمت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ پاکستان کے یہ سب سے بہترین صلاحیتوں کےمیزائل ہیں جس میں بتدریج مزیداپ گریڈیشن ہورہی ہے ۔امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان سمیت چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سمیت اورکئی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرتے ہوئےدعویٰ کیاہے کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئےآلات اورٹیکنالوجی کی فراہمی میں ملوث ہیں جبکہ پاکستان نے اس امریکی اقدام کو’سیاسی‘ اور ’جانبدارانہ‘قراردیاہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملرنے12/ستمبر2024ءکوپریس بریفنگ میں کہاکہ”امریکامہلک ہتھیاروں کے پھیلاؤمیں ملوث نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کرکے بین الاقوامی عدم پھیلاؤکے نظام کومضبوط کرنے کیلئےپرعزم ہے،پاکستان کے طویل فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں امریکاکے خدشات کئی سالوں سے”واضح اورمستقل”ہیں اس لئے آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ(اے ای سی اے)اورایکسپورٹ کنٹرول ریفارم ایکٹ (ای سی آراے)کے تحت چین کے تین اداروں،ایک چینی شخصیت اورایک پاکستانی ادارے پربیلسٹک میزائل کے پھیلاؤکی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندیاں عائد کررہاہے۔پاکستانی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس(این ڈی سی)کو شاہین تھری اورابابیل میزائل سسٹمزاورممکنہ طورپر اس سے بھی بڑے سسٹمز کیلئے راکٹ موٹرزکی جانچ کیلئےآلات کی خریداری کے سلسلے میں بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فارمشین بلڈنگ انڈسٹری (آرآئی اے ایم بی) بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اوران کی ترسیل میں ملوث اور ان کے ساتھ مل کرکام کررہی ہے جس کی بناء پرچین کی دیگرکمپنیوں “ہوبئی ہواچانگدا انٹیلیجنٹ ایکوپمنٹ،یونیورسل انٹرپرائز ،ژیان لونگدے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ اورپاکستانی کمپنی انوویٹیو ایکوئپمنٹ بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں جبکہ امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے چینی شخص کانام لووڈونگی ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی مخالفت امریکی پالیسی کاحصہ رہی ہے حالانکہ پاکستان امریکاکاطویل المدت سے شراکت داررہاہے تاہم اب بھی کچھ معاملات میں دونوں ممالک کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں”جہاں ہمارے درمیان اختلاف ہوگا،توہم اپنی قومی سکیورٹی کی خاظران اختلافات پرعمل کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے”۔دنیاجانتی ہے کہ ماضی میں بھی امریکااپنے مفادات کے حصول کیلئے دباؤ ڈالنے کیلئے شک کی بنیادپرایسے کئی الزامات لگاکر ایسی فہرستیں بناتارہتاہے جبکہ خطے میں اپنے نئے غلام مودی کووسیع بنیادوں پرٹیکنالوجیزوپرزہ جات اورسول ایٹمی کلب کی تمام مراعات عنائت کرکے خوداپنی دہرے معیار پربھی کاربندہے۔
دنیاجانتی ہے کہ انڈیااوراسرائیل جوعدم پھیلاؤکے اصولوں پرسختی سے عمل پیراہونے کاجھوٹادعوی کرتے ہیں لیکن وہ امریکاکی ناک کے نیچےجدید فوجی ٹیکنالوجیزکی فراہمی کے معاملے میں ہمیشہ لائسنس کی شرائط نظراندازکرچکے ہیں جبکہ دوہرے معیاراورامتیازی رویہ عالمی عدم پھیلاؤ کے خلاف کام کرنے والی حکومتوں کی ساکھ کونقصان پہنچاتے ہیں،فوجی عدم توازن میں اضافہ کرتے ہیں اوربین الاقوامی امن وسلامتی کوخطرے میں ڈالتے ہیں۔
اس سے قبل امریکانے رواں برس اپریل میں چین کی تین اوربیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر2023میں پاکستان کوبیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مزید کمپنیوں پراسی طرح کی پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس کے علاوہ دسمبر2021میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ طورپرمدد فراہم کرنے کے الزام میں26نومبر2021ءکو13پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔پاکستان کاوہ میزائل پروگرام جوحالیہ امریکی پابندیوں کانشانہ بن رہاہے،وہ کیاہے؟اس میں کون کون سے میزائل شامل ہیں اورامریکاکوان سے کیاخدشات ہیں؟آج ہم یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کی زدمیں آنے والاپاکستانی میزائل پروگرام آخرہے کیااورحالیہ امریکی پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کوکیسے متاثرکرسکتی ہیں۔
پاکستان کاوہ میزائل پروگرام جس کا تذکرہ امریکی خارجہ کے اعلامیے میں کیاگیااس میں میڈیم رینج یادرمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بلیسٹک میزائل شاہین تھری اورابابیل شامل ہیں جو “ملٹیپل ری انٹر وہیکل”یاایم آروی میزائل کہلاتے ہیں۔عالمی ماہرین کامانناہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل ہیں۔پاکستان نے 2017میں ابابیل میزائل کاپہلاتجربہ کرنے کے بعدگذشتہ برس18/اکتوبر 2023کو بھی زمین سے زمین پردرمیانی فاصلے تک مارکرنے والے ابابیل میزائل کی ایک نئی قسم کاتجربہ کیا تھاجس کے بعدرواں برس23مارچ کوپاکستان ڈے پریڈکے موقع پرپہلی مرتبہ اس کی نمائش کی گئی۔
کینبراآسٹریلیاکی نیشنل یونیورسٹی میں سٹریٹیجک اورڈیفینس سٹڈیزکے مطابق یہ جنوبی ایشیامیں پہلاایسامیزائل ہے جو2200 کلو میٹرکے فاصلے تک متعددوارہیڈزیاجوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتاہے اورمختلف اہداف کونشانہ بناسکتاہے۔دفاعی ماہرین کے مطابق ابابیل میزائل تین یااس سے زائدنیوکلیئروارہیڈزیاجوہری ہتھیارلے جانے کی صلاحیت رکھتاہے۔یہ ایم آروی میزائل سسٹم ہے جودشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈکو شکست دینے اوربے اثرکرنے کیلئےڈیزائن کیاگیاہے۔اس میزائل میں موجودہروارہیڈایک سے زیادہ اہداف کونشانہ بنا سکتاہےتاہم اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ میزائل ایسے ہائی ویلیواہداف،جوبیلسٹک میزائل ڈیفنس(بی ایم ڈی)شیلڈسے محفوظ بنائے گئے ہوں،کے خلاف پہلی یادوسری سٹرائیک کی بھی صلاحیت رکھتاہے۔
ایم آروی میزائل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرہدف کے قریب پہنچنے پران کے خلاف مخالف سمت میں میزائل ڈیفنس شیلڈیا بیلسٹک میزائل سسٹم موجودہوتووہ انہیں کنفیوژکرسکتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ایک فاسٹ بالرگیندکوسوئنگ کرتاہے جس میں وہ بیٹسمین کے ڈیفنس کوتوڑنے کیلئےاپنی رفتار کے ساتھ سوئنگ اورسیم پربھی انحصارکرتاہے۔ایم آئی آرویزمیزائل میں کئی وار ہیڈزہوتے ہیں جوآزادانہ طورپرپروگرامڈہوتے ہیں اورآزادانہ طور پرہی اپنے اپنے اہداف کی جانب جاتے ہیں اورہرایک کافلائٹ پاتھ یعنی فضائی راستہ مختلف ہوتاہے۔انڈیا تقریباً ایک دہائی سے بھی زائدعرصے سے بلیسٹک میزائل سسٹم پرکام کررہاہے اوروہ ناصرف اس کے تجربات کرتے رہتے ہیں بلکہ عوامی سطح پراس کے بارے میں بات بھی کرتے ہیں۔
انڈیانے حال ہی میں پہلے ایم آروی میزائل اگنی فائیوکاایک سے زائدوارہیڈزکے ساتھ تجربہ کیاہے۔یہ انٹرکونٹی نینٹل بیلسٹک میزائل ہے جس کی رینج کم ازکم5000-8000کلومیٹرہے ، اس کے علاوانڈیا کا”اگنی پی”بھی ایم آروی ہے جس کی رینج 2000 کلومیٹر تک ہے جبکہ پاکستانی ابابیل کی رینج محض2200 کلومیٹرہے اوریہ پوری دنیامیں سب سے کم رینج تک مارکرنے والاایم آروی ہے لیکن امریکاکوپاکستان کااپنے دفاع میں یہ میزائل جرم لگتا ہے حالانکہ ابابیل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کیلئے ڈیزائن کیاگیاہے لیکن اب امریکا کو2021سے شاہین تھری میزائل جس کی رینج 2740 کلومیٹرہے،اس سے بھی تشویش ہے۔
دراصل ابابیل شاہین تھری میزائل کی اگلی جنریشن ہے۔شاہین تھری کے تجربے کے وقت نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیرلیفٹیننٹ جنرل(ر)خالد احمد قدوائی نے ایک بیان میں کہاتھا کہ”یہ میزائل صرف اورصرف انڈیاکامقابلہ کرنے کیلئےبنایاگیاہے اوراس کامقصد انڈیامیں اہم سٹریٹجک اہداف (خاص طورپرانڈمان اورنیکوبارجزیروں اورمشرق میں وہ مقامات جہاں ان کی نیوکلئیرسب میرین بیسز تعمیرکی جارہی ہیں)کونشانہ بناناہے تاکہ انڈیا کوچھپنےکیلئےکوئی جگہ نہ مل سکے اوریہ غلط فہمی نہ رہے کہ انڈیامیں ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ کاؤنٹریاپہلی سٹرائیک کیلئے اپنے سسٹمزچھپاسکتے ہیں اورپاکستان ان مقامات کونشانہ نہیں بناسکتا”۔
انڈیاکے وزیردفاع رجنات سنگھ سمیت انڈین عہدیدارکئی مواقع پرایسے بیانات دیتے آئے ہیں جن میں یہ اشارہ دیاگیاہے کہ”انڈیانے ایسی صلاحیتیں حاصل کرلی ہیں جواسے پاکستان کے خلاف قبل ازوقت حملہ کرنے کے قابل بناتی ہیں”۔سپرسونک براہموس میزائل جونیوکلئیرہتھیارسے لیس ہےاور اس کے علاوہ انڈیابہت سے ایسے سسٹمز بنارہاہے جوپہلی سٹرائیک کیلئے زمین،فضااور سمندرسے بھی لانچ ہوسکتے ہیں۔یادرہے کہ2022ءمیں ایک براہموس میزائل پاکستان میں آگراتھاجس کے بارے میں انڈین وزارت دفاع کی جانب سے کہاگیاتھاکہ پاکستان کی حدودمیں گرنے والابراہموس میزائل حادثاتی طورپرانڈیاسے فائرہواتھا۔اس لئے یہ عین ممکن ہےکہ”انڈیابراہموس کوپاکستانی سٹریٹجک فورسزاورکمانڈاینڈکنٹرول کے خلاف روایتی کاؤنٹرفورس (پہلی)سٹرائیک کیلئے استعمال کرکےانڈیا یہ دعویٰ کرسکتاہے کہ ہم نے تومحض روایتی حملہ کیاہے لیکن اس طرح کی روایتی سٹرائیک کوپاکستان کی طرف سے پہلاجوہری حملہ تصورکیاجائے گا”۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ کسی ایسے حملے کوروکنے اورجوابی کاروائی کیلئے پاکستان مکمل طور پرتیارہواوریہ اسی صورت ممکن ہے اگرپاکستان دشمن کودکھانے کیلئےاپنی صلاحتیوں کااظہار کرتارہےاور اسی مقصدسے پاکستان نے شاہین تھری اور ابابیل جیسے نیوکلئیروارہیڈزبنائے ہیں اوران کی نمائش کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکاکوان میزائلوں پرکیاتشویش ہے۔امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان میں الزام عائدکیاگیاہے کہ”آرآئی اے ایم بی نے شاہین تھری اورابابیل میزائل سسٹمزاور”ممکنہ طورپر اس سے بھی بڑے سسٹمز”کیلئےڈائیامیٹرراکٹ موٹرزکے ٹیسٹ اورآلات کی خریداری کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کام کیا ہے”۔”ممکنہ طورپراس سے بھی بڑے سسٹمز”کامطلب یہ ہو سکتاہے کہ اسی میزائل کی اگلی جنریشن پرکام ہورہاہے۔ابابیل کاپہلاٹیسٹ جنوری2017میں ہواتھااوراس کے بعدابابیل کادوسراتجربہ چھ سال بعدگزشتہ برس اکتوبر2023میں ہوا،اوران چھ سالوں کے دوران این ڈی سی میں اس ٹیکنالوجی پرمسلسل کام ہوتارہاہے۔امریکا سمجھتاہےکہ شاہین تھری توپہلے سے آپریشنل تھالیکن ابابیل کے دوسرے تجربے کے بعدجب مارچ میں اسے پریڈمیں دکھایاگیاتو اس کے بعدشاہین تھری اورابابیل زیادہ نظروں میں آئے کیونکہ اس نمائش کامطلب تھاکہ پاکستان اس مرحلے تک پہنچ چکاہے جہاں اس پرریسرچ اور ڈویلپمنٹ مکمل ہوچکی ہے اورابابیل اب آپریشنل ہے۔امریکی تشویش کی اصل وجہ یہ وہ خدشہ ہے کہ پاکستان اس کے زیادہ سے زیادہ صلاحتیوں والے ورژن پرکام کررہاہے۔
امریکی تشویش کی ایک اوروجہ ابابیل تھری سٹیج میزائل سسٹمزبھی ہیں اورموبائل لانچروالاسسٹم ایک بہت اہم صلاحیت ہے کیونکہ کسی بھی سرپرائز حملے کی صورت میں یہ سسٹم ناصرف بڑی آسانی سے مختلف مقامات پرکیموفلاج کیے جاسکتے ہیں بلکہ انہیں باآسانی ایسی جگہ بھی لے جایاجاسکتاہے جہاں دشمن کوان کاپتہ نہ چل سکے۔ماہرین کامانناہے کہ کوئی بھی تھری سٹیج میزائل سسٹم،زیادہ رینج والے سسٹم کی بنیادبن سکتاہے۔
ابابیل کے پہلے اوردوسرے ٹیسٹ کے درمیان چھ سال کاوقفہ اس بات کاثبوت ہے کہ پاکستان اب مقامی طورپراس ٹیکنالوجی پرکام کررہاہے۔ امریکا کے مطابق اگرچین سے ہی ساری ٹیکنالوجی لے رہے ہوتے توچھ سال کاانتظار کیوں کرتے؟یقیناً اس سسٹم میں کوئی ایسی نئی ڈویلپمنٹ ہوئی ہے جس نے امریکی تشویش میں اضافہ کیاہے کہ شایدپاکستان مزید صلاحیتیں حاصل کررہاہے اور مستقبل میں ان نیوکلئیرصلاحتیوں والے میزائلوں کے بہتر ورژن زیادہ بڑے وارہیڈزلے جاسکتے ہیں اورابابیل شاید تین سے زیادہ وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت حاصل کرلے۔یادرہے اپریل میں ان سسٹمز کے موبائل لانچرزپرپابندیاں لگائی گئی تھیں۔امریکا کی جانب سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ میں کہاگیاتھاکہ بیلاروس میں قائم مِنسلک وہیل ٹریکٹرپلانٹ نے پاکستان کوبیلسٹِک میزائل پروگرام کیلئےخصوصی گاڑیوں کے چیسس فراہم کیے ہیں۔
امریکی پابندیوں میں پاورفل راکٹ موٹرز کا بھی تذکرہ ہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ امریکاکو ابابیل کی طویل رینج کے علاوہ پاکستان کے سپیس پروگرام پربھی تشویش ہے۔یادرہے اپریل کی فیکٹ شیٹ میں چین کی گرانپیکٹ کمپنی لمیٹڈپرالزام عائدکیاگیاتھا کہ یہ کمپنی پاکستان کی خلائی تحقیق کےادارے “سپارکو”کے ساتھ مل کرراکٹ موٹروں کی جانچ پڑتال میں معاون آلات کی فراہمی میں ملوث پائی گئی ہے اورمزیدیہ بھی الزام لگایاگیاتھاکہ یہی کمپنی پاکستان کوبڑی راکٹ موٹرزآزمانے کیلئےپرزے فراہم کرتی رہی ہے۔امریکاکوفکرہے کہ پاکستان اپنامقامی سپیس لانچ وہیکل نہ بنالےاورپاکستان پہلے سے2047سپیس پروگرام کاوژن رکھتا ہے۔نیوکلئیرڈیٹیرنس کیلئےسپیس پروگرام میں صلاحیتیں حاصل کرنابہت اہم ہیں جوآپ کوہدف کودرست نشانہ بنانے اوردفاعی نگرانی وغیرہ کے قابل بناتاہے۔اس طرح پاکستان فوجی اورسویلین مقاصد کیلئےاپنا سپیس وہیکل لانچ کرکے اپنےانٹرکونٹی نینٹل بیلسٹک میزائل کوفائرکرنے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔
حالیہ پابندیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ 70کی دہائی سے جاری ہے جب انڈیا کے میزائل پروگرام (جس کیلئےوہ روسی اور کئی دوسرے ذرائع سے مددحاصل کررہاتھا)کے جواب میں پاکستان نے اپنامیزائل پروگرام شروع کیااورہمیشہ سے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رہے۔چین اورپاکستان کی کمپنیوں اورافرادپرلگائی گئی ان پابندیوں کادونوں ملکوں پرکوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ پاکستانی ادارہ نیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس(این ڈی سی) میزائل ٹیکنالوجیزکیلئےمغرب پرانحصارنہیں کرتالہندااس پرکوئی فرق نہیں پڑے گا۔شمالی کوریا کی مثال آپ کے سامنے ہے،جس پرکتنی پابندیاں لگیں مگران پرکوئی اثرنہیں ہواجبکہ پاکستان کامیزائل پروگرام تومکمل طورپرمقامی ہے،اس کاانحصارمقامی وسائل اورمہارت پرہے اوریہ امریکی پابندیوں سے قطعاًمتاثرنہیں ہوگا۔
اس طرح کے امریکی اقدامات افسوسناک ہیں اورسب سے اہم بات یہ کہ یہ علاقائی تزویراتی حقائق سے جدا ہیں جیسے کہ ملک کی حفاظت وسکیورٹی اور انڈین میزائلوں کی بڑھتی ہوئی بین البراعظمی حدودجوعلاقائی اورعالمی امن،سلامتی اوراستحکام کیلئے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں ایم ٹی سی آر(میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم)کابھی ذکرہے،یہ میزائل ٹیکنالوجی کی برآمدپر کنٹرول رکھنے والے ممالک کاگروپ ہے۔اس حوالے سے پاکستان اورچین دونوں نے ایم ٹی سی آرپردستخط نہیں کیے مگراس کے بغیربھی چین اورپاکستان دونوں اس کاپاس کرتے ہیں اورکوئی ایسا سسٹم برآمدنہیں کیاگیاجس کی رینج300کلومیٹرسے زیادہ ہومگر اس اقدام کی تعریف کرنے کی بجائے یہ کہاجاتاہے کہ پاکستان اورچین آپس میں تعاون کررہے ہیں۔اگرمسئلہ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہے تودوسری طرف انڈیاکاسارامیزائل پروگرام روس کے تعاون اورمددسے بناہے اوراب امریکااور اس کے اتحادی اس کی برملامددکررہے ہیں جن میں اسرائیل سب سے بڑامعاون ہے۔اس کی مثال انڈیاکابراہموس میزائل ہے،جب ابتدا میں روس سے یہ ٹیکنالوجی لی گئی تواس کی رینج290کلومیٹرتھی مگراب انڈیااسے 800 کلو میٹرتک لے جاچکاہے اوراسرائیل کی مددسےاس کے ہائپر سانک ورژن پر بھی کام ہورہاہے مگر یہاں ایم ٹی سی آرکی بات نہیں کی جاتی۔
یادرہے ایم ٹی سی آرمیں300کلومیٹرسے زیادہ رینج والے میزائل کی برآمدپرپابندی ہے اور500کلوسے زیادہ کے وارہیڈزکی بھی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت انڈیاکااگنی فائیوجس کی رینج 5000-8000کلومیٹرہے اوریہ تین سے پانچ اورشایداس سے بھی زیادہ وار ہیڈزلے جانے کی صلاحیت رکھتاہے اورانڈیاایٹمی آبدوزوں پرلگانے کیلئےبھی اس کے ورژن تیارکررہاہے جبکہ پاکستان کے پاس توکوئی ایٹمی آبدوزنہیں ہے،پاکستان کی کوششیں جنوبی ایشیا میں سٹریٹیجک استحکام برقراررکھنے کیلئےہیں اورپاکستان کے تحمل کی تعریف کرنے کی بجائے اس پرپابندیاں عائدکرنے سے امریکاکااپناچہرہ داغدارہوا ہے۔
پاکستان کاانڈیاکے جواب میں تیار کی گئیں ٹیکنالوجیز سے امریکاکوکوئی مسئلہ تو نہیں ہونا چاہیے تاہم اصل بات یہ ہے کہ امریکا کے نزدیک انڈیا”کواڈ” کاسب سے اہم رکن ہے۔اس نے امریکی اورمغربی ممالک کے تعاون سےمغربی ممالک کے ہرتھنک ٹینک میں اپنے لوگوں کوشامل کررکھاہے جومقامی عوام اورحکومتوں کی رائے عامہ بنانے پربہت اثررکھتے ہیں۔یاد رہے”کواڈ”چار ممالک کاگروپ ہے جس میں انڈیا،آسٹریلیا،جاپان اورامریکا شامل ہیں ۔امریکا کی مختلف بین الاقوامی مقامات پرجیوسٹریٹیجک دلچسپیاں ہیں جیسے یوکرین روس،مشرقِ وسطیٰ اورتائیوان چین وغیرہ کی صورتحال ہے اوراسی باعث اس نے مختلف جگہوں پر ان ملکوں سے مختلف وعدے کررکھے ہیں اورجنوبی ایشیاکے خطے میں چین کے اثرورسوخ کوکم کرنے کیلئے “کواڈ” بنایاہے۔
چین کے ساتھ کشیدگی بھی پاکستان کے میزائل پروگرام پرپابندی کی ایک بڑی وجہ ہے۔امریکی پابندیوں کامحوربنیادی طورپر پاکستان کی بجائے چینی کمپنیاں ہیں،تاکہ بیجنگ کومجبورکرکے اس پرمعاشی دباؤڈالاجائے۔کیاٹرائیکا(امریکا،اسرائیل،انڈیا)اس میں کامیاب ہوسکیں گے جبکہ زمینی حقائق اس خطے سے امریکاکوبے دخلی کابڑاواضح پیغام دے چکے ہیں!