برابری کیسے کرسکتے ہیں؟

:Share

جوں جوں اقوام متحدہ کے اجلاس کی تاریخ قریب آرہی ہے بھارتی میڈیاکی جانب سے من موہن سنگھ اورنوازشریف کی ملاقات کوسبوتاژکرنے کی کوششیں عروج پر پہنچ رہی ہیں جبکہ پاکستانی میڈیاکی جانب سے اب کنٹرول لائن پرہونے والی اشتعال انگیزیوں کی خبروں کوبھی دانستہ نشرنہیں کیا جا رہا البتہ بھارتی الیکٹرانک میڈیاابھی تک دہائی دے رہاہے۔ سب جانتے ہیں کہ بھارتی سیاستدان اگلے انتخابات کی مہم جوئی کیلئے جنگ کی فضا کو زندہ رکھناچاہتے ہیں تاکہ اپنے ووٹروں کوپاکستان کا ہوا دکھا کرانتخابی مہم میں کامیابی حاصل کی جائے بالخصوص بی جے پی کے نریندرمودی جومسلمان دشمنی میں ہراخلاقی وقانونی حدودکوپھلانگ چکے ہیں،ان کی سیاست کامحورہی مسلم دشمنی پرمبنی ہے جبکہ پاکستان کے نئے منتخب حکمران نوازشریف ہر مرتبہ دوستی کاپیغام بھیج کراب مایوس ہوتے جارہے ہیں۔
کنٹرول لائن پراب بھی بھارتی اشتعال انگیزیوں کاسلسلہ جاری ہے اور پاکستان کی جانب سے آگ کے شعلے بھڑکانے کی ہرکوشش ناکام بنائی جارہی ہے۔اب بھی پاکستان میں دہشتگردی کیلئے بھارت افغانستان کے خفیہ کیمپوں میں دہشتگردوں کوتربیت فراہم کررہاہے۔اب مزیدانکشاف ہواہے کہ بھارت لندن اوردبئی میں پاکستان مخالف عناصر کو امداد فراہم کررہاہے ۔برطانیہ میں زیرتعلیم بلوچ نوجوانوں کوبھارتی ہائی کمیشن لندن میں قائم خفیہ سیل میں ہدایات فراہم کی جاتی ہیں۔گزشتہ چندہفتوں سے بھارتی ہائی کمیشن میں چند ایسے سفارتکاروں کوبھارتی وزیرخارجہ نے تعینات کیاہے جواس سے قبل کابل میں خفیہ ایجنسی”را”کے ساتھ منسلک تھے۔ان سفارت کاروں کو”کورناموں”سے لندن میں بھارتی سفارتی مشن میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔یہ سفارت کار بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کی بھرپورمالی امدادکے ساتھ ساتھ پاکستان میں تخریبی کاروائیوں پربھی اکساتے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کے کوئٹہ اوردیگرشہروںمیں ایسے عناصرسے بھی رابطے ہیں جودہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں ۔ان عناصر میں شامل بعض فردآزادانہ طورپرپاکستان سے دبئی اور لندن کے علاوہ جنوبی افریقہ میں بھی آتے جاتے ہیں۔
پاک فوج اورخاص طورپرآئی ایس آئی کے خلاف زہرآلودموادکی اشاعت اورتقسیم کاکام بھی لندن ہی میں کیاجاتاہے جس پرتمام سرمایہ مبینہ طور پر بھارتی ہائی کمیشن کے خفیہ سیل سے اداکیا جاتا ہے ۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کوجوازبناکرمن گھڑت خبریں برطانوی پرنٹ میڈیاکو فراہم کی جاتی ہیں اورچندجعلی لکھاریوں کے ذریعے سے برطانوی اورامریکی میڈیامیں پاکستان مخالف مہم شروع کی گئی ہے۔اس کے علاوہ عالمی تنظیموں کوگمراہ کن دستاویزی فلمیں بھی فراہم کی جاتی ہیںجن میں بلوچستان میں ہونے والی کاروائیوں کوریاستی جبروتشددکانام دیاگیاہے۔باغی نوجوان بلوچوں کو زہر آلودموادکی فراہمی اورمالی وسائل کے علاوہ جنوبی افریقہ اوردبئی جانے کیلئے سفری دستاویزات بھی فراہم کی جاتی ہیں،مختلف ناموں سے مختلف ملکوں کے پاسپورٹ جاری کرائے گئے ہیں۔ان تمام تر کاروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را”اپناکرداراداکررہی ہے۔مغربی سفارتی مبصرین کے مطابق گوادرمیں چین کی موجودگی نہ صرف بھارت بلکہ بعض مغربی قوتوں کوبھی انتہائی ناگوارگزری ہے،دوسری جانب آزادبلوچستان کے نام سے گمراہ کن لٹریچر سفارتی ،پارلیمانی،سیاسی اورعسکری حلقوں میںتقسیم کیاجارہاہے جس میں فرضی نام دیئے گئے ہیں۔
بھارتی حکمران یاحزب اختلاف کے شدت پسندپاکستان کے خلاف زہرپھیلانے کاجوسلسلہ شروع کئے ہوئے ہیںاس کے خلاف بھارتی رائے عامہ بھی اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے لگی ہے۔ہندی روزنامہ ”جن ستا”کے مطابق لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے بارہویں جماعت کے طالب علم آدتیہ ٹھاکرنے انڈیانیوزٹی وی چینل کے ایک پروگرام سے دکھی ہوکر وازارتِ خارجہ کوخط لکھتے ہوئے حکومت کو اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹی وی چینل ہمسایہ ممالک کے خلاف نفرت کاپرچار کرتے ہیں۔یہ پروگرام پاکستان میں پولیوکے مسئلے سے متعلق تھا۔بظاہر ایک سنگین مسئلے پر بحث پربنائے گئے اس پروگرام کا عنوان ”لنگڑا پاکستان ” رکھا گیا تھا۔پوراملک پاکستان کے بارے میں(بھارتی میڈیامیں پائے جانے والے)لگے بندھے تصوارت ،جامدسوچ،اہانت میز ریمارکس اور سنسی خیزمثالوں سے بھرا ہوتاہے۔رپورٹر(یامیزبان)پورے پروگرام میں پاکستان کو”دنیاکوتباہ کرنے کے خواب دیکھنے والا”قراردیتارہا”بم کاکیاکروگے پاکستان، کھاؤ گے ؟ ” اور ”دو بوند سے مت ڈرو پاکستان”جیسے جملوں سے پاکستان کیلئے نفرت روزِ روشن کی طرح واضح تھی۔
آدتیہ ٹھاکرنے انڈیانیوزٹی وی چینل کاخاص حوالہ دیتے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے حوالے سے نفرت پرمبنی رویہ عام ہے۔ہم پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات توچاہتے ہیںمگران کے حوالے سے پیہم نفرت کاپرچاربھی کرتے رہتے ہیں۔آدتیہ ٹھاکرنے مطالبہ کیاہے کہ نفرت کے پرچار پرپابندی عائدکی جائے۔بہت سے لوگ ایسے گھناؤنے پروگراموں سے تنگ آکرچینل بدل دیتے ہیں۔آدتیہ ٹھاکر نے ایک ذمہ دارشہری کی حیثیت سے اپنی رائے کا اظہارمناسب جانا۔پاکستان کیلئے نفرت کی یہ کوئی واحدمثال نہیں ہے۔بھارت میں کہیں بھی بم دہماکہ ہو جائے توکسی بھی تحقیقات کے بغیراورشواہدپیش کرنے کی زحمت اٹھائے بغیرپاکستان کے سرانجام منڈھ دیاجاتاہے۔یہ معاملہ اس حدتک فطری ساہوگیاہے کہ ہم اس کی غیراخلاقی حیثیت اورحماقت کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے ۔
یہ کام صرف وہی چینل نہیں کرتاجس کانام آدتیہ ٹھاکرنے اپنے خط میں کیاہے اگرآدتیہ ٹھاکرسرکاری ٹی وی اور”دوردرشن”کاپروگرام ”پاکستان رپورٹر”دیکھے تواسے فوری دوبارہ وزارتِ خارجہ کوخط لکھنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے گی۔ایسا لگتاہے کہ اس پروگرام کونشر کرنے کابنیادی مقصدصرف یہ بتاناہے کہ پاکستان جاہلوں اور دہشتگردوں سے بھراہواملک ہے اوراس کے مقابلے میں بھارت جنت ہے ۔ پاکستان کواسٹیریو ٹائپ بنانے میں دوردرشن کے اس پروگرام کابھی اہم کردارہے اورچونکہ یہ سرکاری ٹی وی چینل کاپروگرام ہے ، اس لئے شر انگیزی کی نشاندہی کئے جانے کی صورت میں یہ پروگرام بند کرنے میں حکومت کوبظاہرکوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے مگرنشریات کے حوالے سے بھارتی سیاسی قیادت کی پالیسی شائد یہی ہے کہ پاکستان سے نفرت کابازارگرم رہے۔
پاکستان سے نفرت بھارت کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے جوہرآنکھ بخوبی دیکھ رہی ہے ۔اس نفرت کاپہلاشکار موہن داس گاندھی تھے ۔نتھورام گوڈسے نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عدالت میں جوبیان دیاتھااس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ وہ ( نتھورام گوڈسے)مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے کی بنیادپرہی نہیں بلکہ پاکستان کے قیام میں مرکزی کرداراداکرنے پر نہروکے ساتھ ساتھ گاندھی جی کوسزادیناچاہتاتھا۔گوڈسے کاکہناتھاکہ گاندھی کوپاکستان بنانے کے جرم کی سز ادینے کاکوئی قانونی راستہ نہیں تھا،اس لئے وہ انہیں قتل کرنے پرمجبورہوا۔اسے پورایقین تھاکہ گاندھی جی کے قتل کے بعد ہی بھارتی فوج پاکستان کے ارادوں کومکمل طورپرناکام بنانے کے قابل ہوسکے گی۔کہاجاتاہے کہ نتھورام گوڈسے کے بیان سے عدالت میںموجودلوگ اس قدرمتاثرہوئے کہ ان سے رائے لی جاتی تووہ گوڈسے کوباعزت بری کرنے کا مشورہ دیتے۔آج بھی کسی سے اس قتل کے بارے میں رائے طلب کی جائے توسننے کوملے گاکہ گاندھی جی نے ٥٥کروڑروپے پاکستان کودینے کیلئے بھارتی حکومت کو مجبور کیا تھاجس کی سزاکے طورپرنتھورام گوڈسے نے انہیں قتل کیا۔
گاندھی جی کے قتل کودرست سمجھنے والا طبقہ تب سے اب تک بھارت میںپایاجاتاہے۔ان کی نظرمیں گاندھی مہاتمانہیں بلکہ پاپاتماتھے۔نتھورام
گوڈسے کوقاتل کہنے پربراماننے والے آج بھی تعلیمی اداروں اورسیاسی جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں پربراجمان ہیں،گاندھی کے قتل کاایک سبب بھی ایک ایساواقعہ ہے جسے وہ سیاق وسباق کے ساتھ یاد نہیں رکھنا چاہتے ۔درسی کتب میں گاندھی کوسچائی اورعدم تشدد کا علمبرداراورانسانیت کی اعلیٰ ترین اقدارپریقین رکھنے والی شخصیت کی حیثیت سے توپیش کیا جاتاہے مگرکبھی ان کے سیاسی نظریات اور تصورات کے بارے میں کچھ بھی بیان نہیں کیاجاتا۔یہی سبب ہے کہ طلبہ و طالبات کوکچھ اندازہ ہی نہیں کہ گاندھی کے سیاسی نظریات کیاتھے؟اس لئے وہ کبھی ان پر غور یا بحث نہیں کرتے اورانہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ گاندھی کوقتل کیوںکیاگیا؟نئی نسل کوگاندھی کے سیاسی نظریات سے آگاہ کرنے کیلئے دہلی یونیورسٹی نے حال ہی میں ایک مکمل پرچہ متعارف کروایاہے۔طلبہ وطالبات سے کہاجاتاہے کہ وہ اپنے اورگاندھی کے حالات کاموازنہ کریںاوریہ سوچیں کہ اگروہ گاندھی کی جگہ ہوتے توکیاکرتے؟
گاندھی کی زندگی کے اہم ترین واقعات میںایک ان کاقتل بھی ہے۔انہیں قتل تونتھورام گوڈسے نے کیامگرحقیقت یہ ہے کہ اسے قتل کی دعوت خودگاندھی نے دی!کیاگاندھی پراس سے قبل کوئی قاتلانہ حملہ نہیں ہواتھا؟اورکیاگاندھی کواس کااندازہ نہیں تھاکہ پاکستان کواس کے حصے کے مالیاتی وسائل دینے کی حمائت کرنے اوراس کیلئے تادم ِمرگ بھوک ہڑتال کرنے کی پاداش میں انہیں قتل بھی کیا جا سکتا ہے ؟ شدیدترین خطرات ظاہرہونے پر بھی گاندھی نے مسلمانوں اورپاکستان کی طرف جھکاؤ کے متعلق اپناسیاسی امیج بدلنے کی کوشش نہیں کی جبکہ اس جھکاؤکی حقانیت کے متعلق بھی بہت کچھ لکھاجاسکتاہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی صفائی میں کوئی بیان کیوں نہیں دیا۔ مسلمانوںاورپاکستان کے بارے میں گاندھی کے فیصلے سے نئی نسل کوبے خبررکھنے کاتعلیمی اورسیاسی مقصد کیاہے؟کیاحکومت یہ پیغام نہیں دے رہی کہ ہروہ قدراوراصول بے مصرف ہے جس کیلئے کوئی اپنی زندگی نچھاورکرنے کرنے پرآمادہ ہو؟ ایسی اقدارکی کسوٹیاں کچھ اورہیں جواس موضوع سے پوری طرح تعلق نہیں رکھتیں لہنداان سطور میں یہ بحث مقصودبھی نہیں۔
گاندھی کے قتل کوپاکستان سے نفرت کی انتہاکہاجاسکتاہے۔معروف ہندی قلم کاراپوروآنند لکھتے ہیں : میں بچپن سے پاکستان کوبیت الخلاء سنتاآیا ہوں۔جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہو انہیں تضحیک کی بناء پرپاکستان یامنی پاکستان قراردیاجاتاہے جس طرح سزائے موت سب سے بڑی سزاہے بالکل اسی طرح کسی بھی بھارتی کیلئے سب سے بڑی گالی یا توہین یہ ہے کہ اسے پاکستانی کہہ دیا جائے۔یہ ہماری سماجی نفسیات کاایسارنگ ہے کہ چھ سات سال کے بچے کوبھی معلوم ہے کہ کسی سے نفرت کے اظہارکاسب سے ہلاکت خیز طریقہ یہ ہے کہ اسے پاکستانی قراردیاجائے۔مسلم بچوں سے ایسے جانے کتنے ہی قصے سنے ہیں کہ ہندوطلبہ نے تذلیل کرنے کی غرض سے انہیں پاکستانی کہا،لفظ پاکستانی گالی کیوں ہوا؟پاکستانی کہے جانے پر کوئی بھارتی مسلمان کیون برامانے؟یہ سوال فطری ہونا چاہئے مگرہے نہیں۔کوئی یہ نہیں پوچھتاکہ ”پاکستانی”اسم نکرہ یامعرفہ۔قریباً ایک سال قبل آشیش نندی کاایک مضمون پڑھ کر مجھے ایسالگاکہ پاکستانی کہے جانے پر شرم کی بجائے فخرمحسوس ہوناچاہئے۔
’’اب تک چارمرتبہ فوج نے پاکستان میں اقتداراپنے ہاتھ میں لیاہے مگر پاکستانی قوم نے اپناسرنہیں جھکایا اورحکومت کاطریقہ کارتبدیل ہونے کے
باوجود اپنی فوج سے محبت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ کسی بھی فردیاقوم کاکردارجانچنے کیلئے یہ بھی دیکھناچاہئے کہ اس میں محبت کرنے کی لگن اور سکت کس قدرہے۔پاکستان سے واپس آنے والے ہربھارتی باشندے سے میں نے یہی سناہے کہ پاکستانیوں نے بانہیں پھیلاکراس کاخیر مقدم کیا اورجب معلوم ہواکہ وہ بھارت سے آئے ہیں تو کپڑوں کے پیسے لینے سے بھی انکارکردیا۔پاکستان سے آنے والا ہر بھارتی جیسے اپنادل وہیں چھوڑ آتا ہے مگرکیاایساہی تجربہ اوراحساس بھارت میں گھوم پھرکرواپس جانے والے پاکستانیوں کابھی ہوتاہے؟بھارت کاپوراسفران کیلئے شک بھری نظروں کاسامناکرنے،ہوٹل والوں کی طرف سے کمرہ دینے سے انکاراورایسی ہی دوسری ذلتوں سے عبارت ہوتاہے۔بھارت میں عام پاکستانیوں کو ناپسندیدہ عناصر کی طرح برداشت کیاجاتاہے اورایسا لگتاہے جیسے ایساکرکے انہیں جلدازجلد دوبارہ پاکستان کی طرف دھکیلنا مقصود ہو ۔ہربھارتی باشندہ ایک بارپاکستان سے ہوکرآنے کے بعد باربار وہاں جاناچاہتاہے لیکن اگرکوئی مجبوری نہ ہوتوشائدہی کوئی پاکستانی دوسری باربھارت آنا پسند کرے۔ان تمام باتوں سے بھارت کے بارے میں کیامعلوم ہوتاہے اورپاکستان کی کیسی تصویرذہن میں ابھرتی ہے؟جومحبت کے جذبے سے عاری محض قوم پرست بھارتی ہیں وہ ایک عام پاکستانی کی برابری کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘

میری نظر میں وہی سر ہے عامر
زمانہ کاٹ تو ڈالے مگر جھکانہ سکے

اپنا تبصرہ بھیجیں