15/اپریل2014ءکوامریکاکے تمام بڑے اخبارات بشمول نیویارک ٹائمز،واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ہیڈ لائنز میں یہ خبرشائع کی تھی کہ امریکا کے شہر نیویارک کی پولیس کے نئے کمشنرولیئم بریٹن نے مسلمانوں کی خفیہ نگرانی کرنے والے محکمے کوبند کرنے کا اعلان کیاہے۔ 2003ء سے امریکی حکومت اپنے شہریوں کی اورخاص طورپرامریکامیں بسنے والے مسلمانوں کی خفیہ نگرانی کرتی رہی ہے۔ڈیموگرافکس یونٹ نامی اس سرکاری پروگرام کاکام مسلمانوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا اوران کی حرکات وسکنات کی خفیہ طورپرنگرانی کرناتھا۔اس یونٹ کے اہلکارمسلمانوں کے رہائشی علاقوں میں جاکرلوگوں کی خریداری،ان کے کھانے پینے کی عادات، کام کاج،دلچسپیاں اورمشاغل سمیت ان کی نمازوعبادات کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کرتے تھے۔یادرہے کہ اس خفیہ یونٹ کے وجودکے بارے میں ہمیشہ سرکاری طور پرتردیدہوتی رہی،اس کابھانڈہ بیچ بازار پھوٹ گیااورخودکوسول لبرٹی(شہری آزادیوں)کا چمپئن کہلانے والاملک امریکابہادرکایہ چہرہ ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے آ ہی گیا۔
راقم السطوریہ خبرپڑھ رہاتھاتو آج سے چندسال پہلے رونماہونے والے واقعات نے ذہن وقلب کا گویا میرامحاصرہ کرلیا۔میرامعمول کا مشاہدہ یہ رہاہے کہ نمازجمعہ سے نمازی فارغ ہوتے ہیں تومسجدکے باہراوردالان میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے اظہار میں بڑے پرتپاک اندازمیں گلے ملتے نظرآتے ہیں۔ایمان واخوت کوجلا دینے کایہ خوبصورت اوردلکش منظرآنکھوں کوبہت بھلااور دل کی طمانیت کیلئے بڑافرحت بخش ہوتاہے،اس لئے نمازکے بعدکئی دوست آئندہ کے پروگرام بھی یہاں طے کرلیتے ہیں۔نمازجمعہ سے فراغت کے بعدابھی مسجد سے باہرنکلنے ہی والاتھا کہ ایک دوست نے کان میں سرگوشی کی کچھ دیرکیلئے رک جائیں آپ کی ملاقات کچھ ایسے دوستوں سے کرواتے ہیں کہ ان سے مل کرآپ کسی اوردنیامیں پہنچ جائیں گے۔استعجاب وتجسس کے ملے جلے جذبات میں میرے قدم وہیں کے وہیں جم گئے۔
تھوڑی دیربعدمیرے دوست کے ساتھ تین افرادتشریف لائے،ان افراد کے چہرے کسی خاص یقین کے ساتھ چمک رہے تھے اور نجانے کیوں دل ان کی طرف کھنچتاچلاگیا۔ سب ہی سے بغل گیرہوئے اورپہلاتعارفی کلمہ یہ سننے کوملا کہ یہ تمام مجاہد بدنام زماں گوانتاناموجیل کے ایکسرے کیمپ میں اپنی زندگی کے کئی سال گزارچکے ہیں۔ہم سب مسجدکے ایک کونے میں بیٹھ گئے اورمجھے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ گفتگوکاآغازکہاں سے کروں۔جب یہ برطانوی مسلمانوں کاپہلاگروپ رہاہوکر وطن لوٹ آیاتھاتومشہوراخبار گارڈین نے ان کے تاثرات پرمبنی تفصیلات شائع کی تھیں۔مہذب دنیاکے سب سے بڑے ملک کی انسانی حقوق کوپامال کرنے کی داستان جس نے بھی پڑھی،حیرت ومایوسی سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
خوبصورت تیکھے نقوش والاجمال الحارث،جس کاچہرہ خوبصورت داڑھی کے ساتھ کچھ زیادہ ہی حسین وجمیل لگ رہاتھا،نے میرے سوال کے جواب میں بتایاکہ اسے کیمپ میں روزانہ15گھنٹے اس طرح بیڑیاں لگاکرپنجرے میں بندرکھاجاتاتھاکہ اس کے اعضاحرکت تک نہ کرسکتے تھے۔گارڈزاورسٹاف کاقیدیوں کوجسمانی ایذا ئیں پہنچاناروزکامعمول تھا۔ذراغورکیجئے کہ ان قیدیوں کو نفسیاتی طورپرریزہ ریزہ کرنے کیلئے انکل سام کی ہدایات پرکن کن اوچھے حربوں کااستعمال عمل میں لایاجاتاتھا ؟کس طریقے سے ان کے انسانی حقوق پامال کئے جاتے رہے؟کتنے کرب میں ہوں گےاس کیمپ کے قیدی کہ جن کوجنیواکنونشن اوردیگربین الاقوامی قوانین کے تحت جو معمولی حقوق اورسہولیات حاصل تھیں،ان سے بھی انہیں محروم رکھاگیا۔
جمال ا لحارث کے ساتھی جمال الدین جس کاتعلق مانچسٹرسے ہے،انہوں نے مجھے بتایاکہ میں نے ایک دن انسانی حقوق کی اس قدرپامالی دیکھنے کے بعدکیمپ کی انتظامیہ سے مطالبہ کیاکہ ہم قیدیوں کوکم ازکم وہ حقوق ہی دے دیں جوامریکامیں جانوروں کو بھی حاصل ہیں مگربے سود۔انہوں نے مجھے مزیدیہ بھی بتایا کہ انہیں چالیس دفعہ بارہ بارہ گھنٹے کی تفتیش کاسامناکرناپڑاجس کے دوران ہرطرح سے موصوف کونفسیاتی دباؤسے زیرکرنے کی کوششیں کی گئیں۔ان کے تیسرے دوست حماد نے ظلم وستم کی وہ داستانیں سنائیں کہ مجھے اپناساراوجودگھومتاہوانظرآنے لگا۔حمادنے جب یہ کہا کہ جب ہم پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے،تو میں اپنے تصورکی دنیامیں کھوکرحضرتِ بلال اورحضرت خباب کی قربانیوں اورحق کی راہ میں جان نثاریوں کویادکرکے ان پر واری ہو نے لگتا۔مجھے اس بات پرشرم محسوس ہوتی تھی کہ میں اپنی تکلیف پرکسی کوبرابھلاکہوں،یقین کریں کہ میں ہرروزان جلادوں کاانتظارکرتاتھااورجب یہ جلاد ظلم وستم کے کوڑے برساتے ہوئے تھک ہار جاتے تھے تومجھے یوں محسوس ہوتاتھا کہ ابھی کسی وقت میں اب اپنے رب کے سامنے حاضرکیاجاؤں گااور میرے ان زخموں کی گواہی میرے رب کو خوش کرنے کیلئے شاید کافی ہوں گی۔
کیوباکاگوانتاموہویاخودامریکا،برطانیہ کی سرزمین،مسلمان ایک مشکوک کمیونٹی اوراسلام ایک مشکوک مذہب بن چکاہے۔11ستمبر کے حادثات کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک فسادی تحریک مسلسل چلائی جارہی ہے اورجس کوسرکاری اورغیرسرکاری دونوں سطحوں پرمسلم بیزارقوتوں کی پذیرائی حاصل ہے۔نائن الیون سے پہلے کھلے عام کسی مذہب یاشخص کے خلاف نفرت نہیں پھیلائی جاسکتی تھی مگراس معماتی حادثے کے بعد یہ سلسلہ نہ صرف جاری وساری ہے بلکہ اس کی ہلاکت آفرینیاں روزافزوں جاری ہیں جس کی تازہ ترین مثال کینیڈامیں پاکستانی خاندان کوایک یہودی نوجوان نے کچل کررکھ دیا۔اسی نفرت وعداوت کی بھٹی میں جلنے والے صلیبی اورصیہونی آئے دن اسلام اورمسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی بیان داغ دیتے ہیں کبھی خاکم بدہن پیغمبر اسلام ۖکے حوالے سے یہ سیاہ دل مفتن کارٹون شائع کرکے مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کر تے ہیں،کبھی امریکاکے ناہنجارپادری ٹیری جونزسرعام قرآن کریم کے ساتھ ابلیسی دست دارزی سے خود اپنے لئے دائمی آگ کاسامان جمع کرگیا،کبھی مسلمانوں کی مساجد پرگنبدوں پراعتراض کر کے ان پرپابندی عائد کراوئی،کبھی عفت مآب بیٹیوں اوربہنوں کے حجاب کو قانوناً منوع قرار دلوایااوربغیرکسی تکلف کے آئے دن مسلمانوں کودہشتگردی کے الزامات میں گرفتارکرکے،ان کی رسواکن تشہیرالیکٹرانک اور پریس میڈیامیں کرکے ایک طوفان کھڑاکردیاجاتاہے لیکن جب تحقیق وتفتیش کے بعد ملزمین پرکوئی جرم ثابت نہیں ہوتاتوخاموشی کے ساتھ ان کورہاکردیاجاتاہے اوروہی یک چشمی میڈیاان کی رہائی کودانستہ طورپرنشرنہیں کرتا۔
مغرب میں جیری فالویل سے لیکراین کولٹر(امریکی خاتون)تک آئے دن کوئی نہ کوئی مسلمانوں کے خلاف زہراگلتارہتاہے۔ ۔مسلمانوں کے سول رائٹس کایہ حال ہے کہ انہیں یقینی بنانے کیلئے آئے دن عدالتوں کی طرف رجوع کرناپڑتاہے۔دوہزارسے زائد مسلمان اب بھی امریکی قیدخانوں میں بندہیں، متعدد پراب تک کوئی مقدمہ قائم نہیں کیاجاسکااورکئی ایک ایسے بھی ہیں جن کواس بات کابھی علم ہی نہیں کہ ان کوکس جرم میں گرفتارکرکے جیل وزندان میں ڈال دیاگیاہے۔فلوریڈاکے ممتاز فلسطینی پروفیسرسمیع بھی جنہیں کسی زمانے میں وائٹ ہاؤس میں مدعو کیاجاتاتھا،کئی سال جیل میں رہے جہاں انہیں کسی بھی قانونی مشیرسے رابطہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔یہی معاملہ ملت کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے ساتھ پیش آیا۔بہرحال کسی نہ کسی ریڈیویاٹی وی اسٹیشن پرآئے روزایسی بے ہودہ کلامیاں کی جاتی ہیں جن کالب لباب اسلام مخالف اندھے جذبات کابے معنی غصہ اورمسلمانوں کی دلآزاری اورکردارکشی ہوتاہے۔کئی باربہت ہی سفلی قسم کے الزامات کاپلندہ نشرکرکے اپنے نامہ اعمال کوسیاہ ترکیاجاتاہے۔اس کے ردِّعمل میں مسلمانوں کومتعلقہ اداروں کو شکائتیں کرناپڑتی ہیں کہ یہ کیااندھیرنگری ہے،مثلاًایک الزام یہ بھی لگایا جاتاہے کہ مسلمان یہودیوں کوقتل کرناچاہتے ہیں۔
ایک مربوط اورمنظم مخالفانہ مہم ہے جو مسلمانوں کے خلاف پوری مغرب بالعموم اورامریکامیں بالخصوص چلائی جارہی ہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیایہ مہم اپنے اہداف حاصل کرپارہی ہے؟میرے خیال میں یہ ناروااورکاذبانہ مہم بعض جگہوں پرمقامی سطح پرتوشایدکامیاب ہوئی ہومگرمجموعی طورپراس مہم کے نتائج اس کے بنیادی مقاصدکے بالکل برعکس نکل رہے ہیں،وہ اس طرح کہ نائن الیون کے بعدتمام منفی پروپیگنڈے کی بدترین سونامی کے باوجودامریکامیں اسلام قبول کرنے والوں کی تعدادمیں چارگنااضافہ ہوا ہے۔اسلام کوجاننے اوراس کے متعلق پڑھنے والوں کی تعدادمیں ہوشربااضافہ ہواہے جس کااندازہ اسلام کے متعلق لکھی جانے والی علمی وفکری کتابوں کی اشاعت کے بعد فوراًسے پیشترمارکیٹ میں ان کی غیرمعمولی آمدنی سے لگ سکتاہے۔ایک عام امریکی بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے متعلق سوال پوچھتادکھائی دیتاہے،اس کے سامنے اسلام اگرچہ ڈارکیولائی شکل وصورت میں پیش کیاجاتاہے مگروہ حقائق کی ٹوہ میں قرآن،حدیث، تاریخ ، سیرت طیبہ ﷺ کے انبارکھنگالنے لگ جاتاہے تاکہ خودمطالعہ کی بنیاد پراسلام کے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ متوازن رائے قائم کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کی صحیح تصویراجاگرکرنے کے ضمن میں اس وقت ایسی ویب سائٹس کی تعدا میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے،جن کی وساطت سے اسلام کے بارے میں مستندکتب کے علاوہ دوسری سچی معلومات کاحصول ممکن ہواہے اورمتعددامریکیوں نے انٹرنیٹ ہی کی سہولت کے ذریعے اسلام کی ابدی وازلی روشنی تک رسائی حاصل کی ہے۔
مغرب کی اسلام مخالف زیربحث مہم اورنفرت پرمبنی پروپیگنڈے کاایک اورلازمی اورفطری نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے پہلی دفعہ اپنے آپ کو دعوتی اور سیاسی سطح پرمنظم کرناشروع کردیاہے۔آپ نے پہلی دفعہ دیکھاہوگاکہ امریکی اورمغربی ممالک کے انتخابات میں مسلمانوں نے اپنی اجتماعی سیاسی قوت کواستعمال کرنا شروع کردیاہے۔اس صورتحال میں سفیدفام امریکی اوربرطانوی نہایت متفکرہیں جوآبادی کے لحاظ سے بھی اپنی فیصلہ کن پوزیشن آہستہ آہستہ کھوتے جارہے ہیں۔رائے شماری کے اندازوں کے مطابق2030ءتک ان کی موجودہ اکژیت خاصی حدتک کم ہوجائے گی،ہسپانوی اورایشیائی لوگوں کی تعداد میں تین گنااضافہ ہوجائے گا۔ صرف ہسپانوی لوگ آبادی کاایک چوتھائی بن جائیں گے جن کی تعداد36ملین سے103ملین تک جاپہنچے گی اوران کاتناسب6۔12 فیصدسے4۔24فیصدتک ہوجائے گا۔یوں مسلمانوں کی عددی قوت بڑھ جائے گی۔یہ توتھی امریکاکی صورتحال،کیااسلام کے خلاف چلائی جانے والی اس مہلک وشیطانی مہم کوبین الاقوامی سطح پر بھی کوئی پذیرائی حاصل ہورہی ہے؟
اس کاجواب یہ ہے کہ کسی مقامی سطح پرتوشایدیہ مہم اسلام کاتاثراوراس کی اصل شکل(العیاذ باللہ )بگاڑنے میں کامیاب رہی ہومگر مجموعی طورپریہ مہم ناکام ہی ناکام ہے۔فرانس اورجرمنی میں عورتوں کے حجاب اوڑھ لینے کے معاملے پراس قدرشدید ردِّعمل ہوا کہ ان خواتین نے بھی اسکارف اوڑھنے شروع کردئیے جنہوں نے کبھی یہ تصوربھی نہیں کیاتھابلکہ سارے یورپ میں مسلمان خواتین نے تیزی کے ساتھ حجاب کواپناشعاربنالیاہے۔لاس اینجلس ٹائمزکی ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں مساجدکے میناراب کثرت سے دکھائی دیتے ہیں جہاں صرف ان چندسالوں میں میناروں والی مساجد میں تین گنااضافہ ہوگیاہے اورامریکامیں اب تک 5987مساجد تعمیرہوچکی ہیں۔حیرت انگیزبات تویہ ہے کہ2ہزارسے زائدمساجدنائن الیون کے بعدوجودمیں آئی ہیں جہاں اکثریت نو مسلم امریکی مسلمانوں کی ہے۔ایک سروے کے مطابق ایک عشرے میں 74فیصدمساجدکااضافہ ہواہے۔برطانیہ میں دوہزارسے زائد رجسٹرڈ مساجدہیں،جہاں مسلمان بچو ں اوربچیوں کی اسلامی تعلیمات کے علاوہ غیرمسلم افرادکوبھی اسلام کی معلومات اور لٹریچر فراہم کیاجاتاہے۔”نوائے حق کی مٹھاس دل میں اتررہی ہے دلیل بن کر”
امریکاکے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ کوہی دیکھ لیجئے،جہاں اسلام نہ صرف عوام میں تیزی سے پھیل رہاہے بلکہ اشرافیہ میں بھی16823/سفید فام اب تعداد میں تین گناہوچکے ہیں،برطانوی شہری دھڑادھڑاسلام قبول کررہے ہیں اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی شامل ہیں مثلاًسابق ہیلتھ سیکرٹری فرینک ڈابسن کے بیٹے احمد ڈابسن،بی بی سی کے سابق ڈائریکٹرجنرل لارڈبرٹ کے صاحبزادے یحیٰی برٹ جواسلام پرخاصی ریسرچ میں مصروف ہیں اور سابق برطانوی وزیراعظم ہربرٹ ایسکیوتھ جوپہلی جنگِ عظیم کے موقع پربرطانوی رہنماتھے،کی پڑپوتی ایماکلارک جوپرنس آف ویلزکیلئے ایک اسلامی باغ بھی ڈیزائن کرچکی ہیں۔اس کے علاوہ ایک سابق ڈپلومیٹ چارلس ایٹن کی اسلام کے متعلق محققانہ تحریریں برطانوی عوام کواسلام کے سمجھنے میں خاصی ممدومعاون ثابت ہورہی ہیں۔ایک نجی ٹی وی کی سابق میزبان کرسٹیان بیکراورسابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیرکی اہلیہ شیری کی بہن لورین بوتھ بھی اسلام قبول کرکے پاکستانی مسلمان سہیل کوزندگی کاساتھی بناچکی ہیں۔اس کے علاوہ ’’ارل آف یاربرو‘‘جولنکن شائرمیں28ہزارایکڑاراضی کے مالک ہیں،اسلام کی روشنی اوردائرہ ایمان میں آکراپنانام عبدالمتین رکھ چکے ہیں اورقرونِ اولی کے مسلمانوں کی وضع قطع سے خودکوسجارکھاہے۔ان ناقابل تردیدحقائق سے اندازہ ہوتاہے کہ اسلام کو پابند کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی جارہی ہیں،اسلاموفوبیاجیسے اصلاح کاجس قدرپروپیگنڈہ کیاجائےوہ نہ صرف ناکام ہورہاہے بلکہ اسلام کی نشرواشاعت میں اضافے کاسبب بن رہاہے۔”اتناہی ابھرے گاجتناکہ دبادوگے”۔
بابااقبال بال جبرئیل میں کیاخوب فرماگئے:
میری نوائے شوق سے شورحریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
حوروفرشتہ ہیں اسیرمیرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجودیروحرم کی نقشہ بند
میری فغاں سے رستخیزکعبہ وسومنات میں
گاہ مری نگاہ تیزچیرگئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تونے یہ کیاغضب کیامجھ کوبھی فاش کردیا
میں ہی توایک رازتھاسینۂ کائنات میں