سیکولرازم کاجنازہ

:Share

پہلی مرتبہ حجاب میں لپٹی ہوئی چارممبرخواتین نے پوری جرأت کے ساتھ ترک پارلیمنٹ میں داخل ہوکر پچھلے ۹۰سال سے جاری تاریک سیکولر نظام میں ایک زلزلہ طاری کردیاہے۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں تمام وہ افرادجوخودکوسیکولرسمجھتے ہیں،انتہائی ناراضگی کااظہارکرنے لگتے ہیں جب سیکولرازم کاترجمہ لادینیت یابے دینی سے کیاجاتاہے بلکہ ہمارے اسلامی معاشرے میں تمام وہ افرادجوخودکوسیکولرسمجھتے ہیں،انتہائی ناراضگی کااظہارکرنے لگتے ہیں جب سیکولرازم کاترجمہ لادینیت یابے دینی سے کیا جاتاہے بلکہ الٹاالزام لگاتے ہیں کہ سیکولرازم کایہ مطلب ہرگزنہیں۔ سیکولرازم کے معنی تویہ ہیں کہ ”حکومت اپنے وضع شدہ اصولوں میں اپنے تمام امورمیں آزادہو،مذہب کوحکومتی امورمیں کوئی دخل حاصل نہ ہو
اورنہ حکومت کسی مذہبی اصول ،قانون یاہدایات کوجوابدہ ہو،اسی طرح حکومت کی حاکمیت کے تحت تمام لوگ عقیدہ اورفکراپنانے اورکوئی عبادت کرنے میں اپنے مذہبی رسومات کے حوالے سے آزادہوں ۔ حکومت کوکوئی حق نہ ہوکہ ذاتی عبادت اورمذہبی رسومات میں مدا خلت کرے۔
اسلامی ممالک میں بسنے والے لوگ سیکولرازم کی تعبیرلادینیت اوربے دینی کرتے ہوئے اس لئے ٹھیک ہیں کہ یہ دین کے حوالے سے اسلام کوماننے سے انکاراور باالفاظ دیگر یہ نہ اسلامی نظام ہے اورنہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کی کوئی رہنمائی ہے،بس اسلام ایک مذہب ہے اورعبادت کے طریقے بتاتاہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسلام کودین کہاہے،مسلمانوں کیلئے اسے دین کے طورپرپسندفرمایاہے اوردین کی حیثیت سے اس کے ماننے کوان کی ذمہ داری قراردیاہے۔ سیکولرطبقہ سیکولرازم کے جومعنی بیان کرتاہے باوجوداس کے کہ یہ بے دینی کے مترادف ہے مگرغیرمسلم دنیامیں مقیم مسلمان اوراسلامی دنیاکے وہ مسلمان عوام جن پرظالم،جابراورگمراہ ڈکٹیٹرمسلط ہیںوہاں ایسا سیکولرازم نظام بھی غنیمت ہے جس میں کم ازکم عبادات اورمذہبی رسومات میں انہیں آزادی ہومگرافسوس دنیامیں جن ممالک کانظام سیکولرسمجھاجاتاہے،وہاں کے حکمران خودکوسیکولرسمجھتے ہیں اورسیکولر ازم کی مذکورہ بالا تشریح کرتے ہیں،انہوں نے کبھی بھی اس طرح کے سیکولرازم سے وفاداری نہیں نبھائی،ان کے قول وفعل میں بہت بڑاتضادہے اوروہ بہت بڑے جھوٹ اورفریب کا شکارہیں۔
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ غیرمسلم اقلیت میں ہوں یااکثریت میں ایساسیکولرازم مسلم اورغیرمسلم دنیامیں موجودہے جس سے یہ لوگ پورے خلوص سے مستفیذہوتے ہیں مگراس سیکولر ازم سے مسلمان استفادہ کریں،یہ ناممکن ہے۔مسلمانوں کی باری آتی ہے تویہ لوگ سیکولرازم کے تمام اصول پامال کرجاتے ہیں۔مسلمانوں پرایسے ظالمانہ اورجابرانہ فیصلے مسلط کئے جاتے ہیں جواسلام توکیاسیکولرازم کے اصولوں کے بھی سراسرمخالف ہوتے ہیں۔کچھ مغربی ممالک میں مسلمانوں کومسجدکی اشدضرورت ہوتی ہے اورباربارحکومتوں سے نئی مساجد کی تعمیرکامطالبہ کرتے ہیں مگر حکومتوں کی جانب سے انہیں پہلے تواجازت نہیں ملتی اوراگرملتی ہے توبھی انتہائی مشکل ہے۔ تعمیرکی اجازت کے ساتھ میناروں کی عدم ِتعمیر سمیت اور بھی حدودوقیودلگائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مساجدکی تعمیرتقریباًناممکن ہوجاتی ہے۔
مساجدپرمینارکی تعمیرصرف اس لئے ہوتی ہے کہ وہ دیگرعمارتوں سے ممتازہواورلوگوں کومعلوم ہوکہ یہ ایک عام عمارت نہیں بلکہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔کنکریٹ کایہ بے جان میٹریل کسی حکومت یاحکومتی روڈمیپ،کسی عقیدے اورفکرکی راہ میں کوئی خطرہ تونہیں بن سکتامگرپھربھی مسلمانوں کومساجدکی تعمیرکی اجازت نہیں دی جاتی اوراسی بہانے انہیں گرا دیا جاتاہے کہ بلندمیناروں کے وجودسے انہیں سیکولرمغربی افق مشرف بہ اسلام نظرآتاہے۔حکومتی سطح پرمیناروں کے انہدام سمیت تقریباً تمام مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اورتشددکی نئی لہریں اٹھنے لگی ہیں۔کئی مغربی ممالک میں مساجدکوخطرہ درپیش ہے،ان پرمسلسل حملے کئے جارہے ہیں،انہیں جلایاجارہاہے۔مساجدکی دیواروں پراسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزوال چاکنگ کی جاتی ہے،مسلمانوں کوروحانی تکلیف پہنچانے کیلئے خنزیرکاسریاگوشت پھینکاجاتاہے۔میناروں کے انہدام کے بعدسیکولرنظام سے بہرہ ورفرانس سمیت یورپ کے کئی ممالک میں مسلمان خواتین کے پردے اورسرڈھانپنے کوقانونی جرم قراردیاگیا، جوسرڈھانپتی ہیں انہیں ملازمتوں سے فارغ کردیا جاتا ہے ، شہروں میں ان کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔اسکارف پہننے والی خواتین پرحملوں میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے۔
مغربی دنیاانسانی آزادی اورمساوات کے بلندبانگ دعوے کرتی ہے مگربہ زبان حال وہاں رہنے والے مسلمانوں کویہ کہاجاتاہے کہ یہاں غلامی قبول کرنے میں آزادہو اگراپنے مذہب ، کلچر،تاریخ،طرزِ زندگی اورروایات پرقائم رہنے پراصرارکروگے تومغرب میں تمہیں باغی سمجھاجائے گا۔ یہاں تمہیں زندگی گزارنے کاحق حاصل نہیں ہوگااگرچہ یہ ان کا آبائی ملک ہی کیوں نہ ہو۔مختصر یہ کہ مغربی دنیاخودکوسیکولرکہتی ہے اورسیکولرازم کی تعریف یوں کرتی ہے کہ حکومت لوگوں کے مذہبی امور میں مداخلت نہیں کرے گی مگراسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے بات برعکس ہے ۔حکومت مسلمانوں کے تمام مذہبی امورمیں مداخلت کرتی ہے یہاں تک کہ مسلمان خواتین کے معاملات،کسی مذہبی تشخص اورمساجد کی تعمیر، ساخت اور ڈیزائن میں بھی مداخلت سے دریغ نہیں کیاجاتا۔
یہ نہ حقیقی سیکولرازم کاطریقہ ہے اورنہ تحریف شدہ عیسویت اپنے متبعین کواس بات پرابھارتاہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ مغربی لوگ نہ عیسائی ہیں اور نہ حقیقی معنوں میں سیکولرہیں بلکہ یہ سب نسل پرست اوراسلام کے دشمن ہیںاوراسلامی دنیامیں بھی سیکولرازم کے نام پرجابروظالم نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی زندہ مثال ترکی، مصراورکئی عرب ممالک ہیں۔پہلی جنگ عظیم کے بعدجب ۱۹۲۳ء کوکمال اتاترک نے عثمانی خلافت ختم کرکے ترکی میں حکومتی نظام کے طورپرسیکولرازم مسلط کردیا تو حکومتی نظام میں مذہبی رہنمائی کی بوبھی جرم سمجھا جاتا تھا،چاہئے تویہ تھاکہ عوام اپنااسلامی عقیدہ اوراسلامی تشخص رکھنے میں آزادہوتے اورشخصی زندگی میں اپنی دینی رہنمائی میں انہیں آزادچھوڑدیاجاتامگرایسانہ ہوسکا۔
کمال اتاترک کے سیکولرازم کاپہلاحملہ اسلام اوراسلامی شعائرپرتھا۔اس نے ترقی پذیرترکی بنیادرکھنے کے نام پرترکی تہذیب اورثقافت کوانتہائی بے رحمی سے پامال کیا۔یہ ترکی تاریخ کا انتہائی سیاہ باب سمجھاجاتاہے۔اسلامی شعائرکے خلاف اقدامات کاسلسلہ اذان پرپابندی سے ہوتاہوامسلمانوں کے دینی تشخص کے خاتمے ،مردوں کے سروں سے پگڑیاں وٹوپیاں اور عفت مآب خواتین کے سروں سے چادریں اتارنے تک طویل ہوتاچلاگیا۔ ۳۰ء اور۴۰ء کی دہائی میں ترکی کی مسلمان خواتین کے سروں سے جبری طورپر اسکارف اتارلیاگیا۔کسی حکومتی اداے میں خواتین کواسکارف پہننے کی اجازت نہیں تھی۔کمال ازم کے تسلط کے بعدسے آج تک ری پبلکن پیپلزپارٹی کے نام سے سیکولرتنظیم اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پر مغرب کی مالی اعانت سے چلنے والی این جی اوزکاکہناتھاکہ خواتین کی چادریں یابرقعے خواتین کا استحصال اوراس بات کی علامت ہے کہ خواتین ہر مردکوایسے جارح کی نظرسے دیکھتی ہیں جن کی نظروں سے اپنے سارے جسم کاچھپاناضروری ہے۔
مذکورہ سیکولرجماعت اوراین جی اوزکایہ نعرہ تھاکہ حجاب ترکی کی راہ میںایک بڑی رکاوٹ ہے مگرکمال اتاترک کی نئی ترکی میں دین کی دوری کے باعث معاشرے میں ہرخرابی اور برائی داخل ہوگئی۔شراب نوشی،سود،جوائ،زنا،رشوت،غبن،بدامنی،چوری ڈاکے اورحکومتی کرپشن اپنے عروج پرپہنچ گیاجس کی وجہ سے ترکی ہرلحاظ سے تنزلی کاشکارہوگیااورگرتے گرتے اس مقام پرپہنچ گیاکہ اسے ”مردِ بیمار”کہاجانے لگا۔ترکی کے باشعورعوام یہ سمجھ گئے تھے کہ کمال ازم نے ترکی کواپنے اسلامی تشخص اورقومی تشخص سے بے بہرہ کرنے کے ساتھ ہر طرح کی تنزلی کاشکارکر دیا،اس لئے یہاں کے عوام نے اپنی خوشی اوراپنے ارادے سے اسلامی رہنمائی سے قریب ہونے کاسفرنئے سرے سے شروع کردیا اورکئی رکاوٹوں کے باوجود منزل کی جانب تیزی سے آگے بڑھنے لگے۔
ترکی کی مسلمان خواتین اس سے بخوبی واقف تھیں کہ بے پردگی کے ساتھ بدکاری ملی ہوئی آتی ہے جس طرح زمانہ جاہلیت میں بے پردگی کی وجہ سے زنامعاشرے کاجزولاینفک بن گیاتھا اسی طرح موجودہ جاہلیت بھی خواتین کوبے پردہ کرکے ان کی عفت لوٹناچاہتاہے۔حجاب چھوڑنے کی وجہ سے خواتین کی حرمت اورعزت میں بہت زیادہ کمی آگئی ہے۔ گھریلونظام تباہ ہو کررہ گیاہے،خواتین گھروں اورمحفوظ چاردیواریوں سے نکلنے کے بعدمردوں کی جنسی خواہشات پوری کرنے کی بے وقعت اوربے اہمیت کھلونابن کررہ گئی ہیں۔ مغرب کی حقوق یافتہ اورحقوق کاتحفظ کرنے والی خواتین نے ان تمام برائیوں سے نجات پانے کیلئے اسلام قبول کرنے کاراستہ اپنا لیاہے ۔جوخاتون مسلمان ہوتی ہے وہ پھرسرسے اسکارف اتارنے کانام نہیں لیتی اورپوری جرأت سے کہتی ہے کہ وہ حجاب میں خودکوانتہائی محفوظ سمجھتی ہے۔اس طرح ترکی کی خواتین نے بھی اس حقیقت کاادراک کرلیاکہ حجاب ہی ان کی زندگی کااصل سرمایہ ہے،وہ سرمایہ جس سے محرومی کے باعث وہ سب کچھ سے محروم ہوگئی ہیں اس لئے اس کے حصول کیلئے انہوں نے ہرطرح کی قربانی دی۔
فطرت انسان کواپنے اصل اوربنیادپرلے جاتی ہے ۔۳۰ء اور۴۰ء کی دہائی میں تقریباًحجاب کامکمل خاتمہ ہوچکاتھامگرکچھ عرصے کے بعد ۶۰ء کی دہائی میں پھرایسی خواتین نظرآئیں جنہوں نے سروں پراسکارف اوڑھ رکھے تھے۔خوش قسمتی سے فطری احساسات پھرسے ان میں انگڑائیاں لینے لگے تھے جس کی قوت کی نشانی آج پارلیمنٹ میں نظرآئی۔ترکی پر مسلط شدہ سیکولرازم کے نتیجے میں سامنے آنے والی ساری بدبختیوں اورہرطرح کے تنزل سے نجات پانے کیلئے صرف خواتین ہی نہیں بلکہ ترکی کے اکثر مسلمانوں نے پھرسے اسلام سے قریب ہونے کاسفرکاآغازکیا،انتہائی دانش مندی سے آگے بڑھے اوروہ وقت آن پہنچاکہ ۱۹۷۰ء اور۱۹۸۰ء میں اسلام پسندوں کی بنیادرفاہ پارٹی کی شکل میں رکھ دی گئی۔ترکی کے عوام جو دائیں اوربائیں بازوؤں کی سیکولرجماعتوں کی خیانتوں،خودغرضیوں،لوٹ مار،رشوت،بداخلاقی،مظالم ،حکومتی بدنظمی اورکرپشن سے تنگ آئے ہوئے تھے،نے مختلف ادوارمیں اسلام پسندوں کواقتداردلانے کیلئے کوششیں شروع کردیں مگرافسوس ہربارترکی کی بے دین فوج نے نہ صرف یہ کہ اسلام پسندوں کوآگے آنے نہیں دیابلکہ اسلام پسند قائدین کو جیلوں میں ڈال کرتختۂ دارپرلٹکاگیا،یہاںتک کہ طیب اردگان اورعبداللہ گل کے ہاتھوں بننے والی اے پی کے یعنی انصاف وترقی پارٹی ۲۰۰۲ء میں اقتدارکوپہنچ گئی۔ گزشتہ حالات کوسامنے رکھتے ہوئے انہوں نے فوج سے کسی قسم کی نبردآزمائی سے دامن بچائے رکھا۔ملک کواقتصادی مشکلات سے چھٹکارہ دلایا،قومی خزانے کی حفاظت ، صحیح استعمال اورعوامی خدمت کوانہوں نے اپنانعرہ بنالیا۔اس نعرے کوعملی جامہ پہنانے کیلئے بہت اخلاص سے اپنی آستینیں چڑھالیں جس میں انہیں بڑی کامیابی بھی ملی۔
قومی خزانے کے لوٹ ماراوربے جااستعمال کامکمل خاتمہ کیاگیا،مرکزی شہروں اوراطراف میں پھیلتی ہوئی بدامنی کامکمل خاتمہ کیاگیا،جوئے کے سارے اڈے ختم کردیئے گئے، شہروں کی صفائی پربھرپورتوجہ دی گئی،نامناسب اقتصادی حالات سے ملک کونجات دلانے کیلئے فوری اوردورس اقدامات کئے گئے ،بیروزگاروں کوروزگاردلانے کیلئے مفیدپروگرام شروع کئے گئے جس کے نتیجے میں ملکی کرنسی کی عالمی منڈی میں قیمت بڑھتی چلی گئی۔ترکی کے ذمے واجب الاداقرضے اداکردئے گئے یہاں تک کہ معاشی خون چوسنے والے یہودی ادارے آئی ایم ایف کے تمام قرضوں سے بھی
ترکی کونجات مل گئی اورترکی اپنے پاؤں پرکھڑاہوگیا۔وہ ترکی جس کاشماردنیاکے کمزور ترین ممالک میں ہوتاتھااس نے اتنی ترقی کی کہ دنیاکی پہلی
۱۶معاشی قوتوں میں اس کاشمارہونے لگااوراب دنیاکے ۱۰طاقتورترین معیشتوں میں اس کاشمارکیاجاتاہے۔
طیب اردگان نے مخالفین اورتنقیدکرنے والے معترضین کوجوابات دینے اوران سے بحث کرنے میں وقت ضائع کرنے سے خودکومحفوظ رکھا مگر ۲۰۰۸ء اورپھر۲۰۱۱ء کے انتخابات میں انصاف وترقی پارٹی کوکامیاب کرواکے ترکی کے عوام نے اپنے عوامی فیصلے سے مخالفین کوعملی طورپرجواب دے دیا۔اس کے ساتھ ساتھ طیب اردگان نے اسلامی دنیاسے کٹے ہوئے ترکی کوپھرسے اسلامی دنیاسے جوڑنے اورملک کے اندراسلام کی نشاة ثانیہ اوراسلامی بیداری کیلئے جوکوششیں کیں، اس کی فہرست بہت طویل اوراس کے فوائد ہمارے سامنے ہیں جسے بیان کرنے کیلئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔ ملک کے اندراسلام کی نشاةثانیہ کی کوششوں کانتیجہ ہے کہ جس ترکی نے ۹۰سال پہلے حجاب پرمکمل پابندی عائد کردی تھی آج اسی ترکی میں پارلیمنٹ کی۴/ارکان حجاب کے ساتھ داخل ہوئیں۔یہ وہی پارلیمنٹ ہے جہاں سے صرف۱۴سال پہلے ایک خاتون رکن کوصرف اس لئے نکال دیا گیا تھا کہ اس نے اسکارف اوڑھ رکھاتھا۔اس وقت کے وزیراعظم بلندایجوت نے مذکورہ خاتون سے کہاتھا:”یہ حکومت کوچیلنج کرنے کی جگہ نہیں ہے،اس خاتون کواپنی حدودجان لینی چاہئیں”۔
یہ چاروں خواتین اس سال حج کے مقدس فریضے کی ادائیگی کیلئے حجازمقدس گئی تھیں۔اس سفرکے بعدان خواتین نے حجاب سر سے نہیں اتارے۔ ان میں سے ایک خاتون نے صحافیوں سے کہا:”میں اپنااسکارف کبھی بھی سرسے نہیں اتاروں گی کیونکہ دوپٹہ اوڑھنااوردیگرمذہبی رسومات کی ادائیگی میرے اورمیرے رب کے درمیان معاملہ ہے،مجھے امید ہے کہ تمام لوگ میرے اس فیصلے کااحترام کریں گے اوراپنے رب کی عبادت کیلئے میرے سامنے رکاوٹ نہیں بنیں گے”۔ترکی وزیراعظم طیب اردگان نے اس حوالے سے کہاکہ ایسا کوئی قانون نہیں جوخاتون کواسکارف کے ساتھ پارلیمنٹ میں آنے سے روکے،ہمیں اپنی بہنوں کے فیصلوں کااحترام کرناچاہئے کیونکہ یہ بھی پارلیمنٹ کی ارکان اورعوامی نمائندہ ہیں۔ دوسری طرف طیب اردگان نے یونیورسٹیوں میں طلبہ وطالبات کے ایک ساتھ رہنے پرپابندی عائدکردی اور حکومت انتہائی سختی سے اس عمل کی نگرانی بھی کررہی ہے۔
اپوزیشن پارٹی ریپبلکن پیپلزپارٹی کے سربراہ نے طیب اردگان کے اس فرمان پرناراضگی کااظہارکرتے ہوئے اس فرمان کی وضاحت مانگی ہے۔ پارلیمنٹ کے ایک سیکولر رکن نے کہاہے کہ انصاف وترقی پارٹی کی جانب سے ترکی کوراسخ العقیدہ اسلامی ملک بناے کی کوششیں انتہائی خفیہ مگر تیزی کے ساتھ جاری ہیں۔اب ایسالگتاہے کہ ترکی ایک اسلامی فلاحی حکومت کی منزل کی جانب اپناجاری سفربہت تیزی سے طے کررہاہے اوراس کی راہ میں حائل ساری رکاوٹیں ریت کے گھروندے ثابت ہو رہے ہیں۔یہ نہیں کہاجاسکتاکہ طیب اردگان نے ترکی میں اسلامی انقلاب برپاکردیا ہے یاوہ سیکولرنظامِ اورقانون میں بہت بڑی تبدیلیاں لے آئے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں آئین کی وجہ سے سیکولرازم کے مطابق اپناعمل کرناہر حکومت کی ذمہ داری ہے جس سے صرفِ نظرکی صورت کی میں فوج کوحکومت ختم کرنے کااختیارہوتا ہے ،اسی لئے طیب اردگان ہمیشہ خودکو سیکولرازم کاحامی قراردیتے ہیں یہاں صرف یہ کہنا ہی کافی ہوگاکہ ترکی میں گزشتہ ایک عشرے سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے کے ۷عشروں کی بہ نسبت بہت بہتری آئی ہے ۔سرپرجابرانہ آئین اور سیکولرفوج کی لٹکتی تلوار کے سامنے میں جتنی پیش رفت ہوئی ہے یہ بھی بہت کچھ ہے۔بہرحال وقت نے ثابت کردیاہے کہ ترکی میں سیکولرازم کاجنازہ بڑی دھوم دھام سے نکلنے کی تیاریاں عروج پرہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں