Conflict Of Interest And The Cold War

مفادات کاتصادم اورسردجنگ

:Share

یوکرین پرروس کے حملے اورامریکاویورپ کایوکرین کواسلحے کی بھرپورترسیل نے دنیاکوایک بارپھربری طرح تقسیم کردیاہے۔دنیا بھرکے تجزیہ نگاراس بات پرمتفق ہیں کہ اب نئی سردجنگ بتدریج دنیاکے کئی ممالک کانقشہ تبدیل کردے گی اورعالمی طاقتوں کی رسہ کشی تیسری دنیاکی معیشتوں کودیوالیہ کی طرف دھکیل دے گی۔ان کایہ بھی کہناہے کہ جوامیدپرست تھے ان کے اچھے دن مزید دورہوگئے ہیں بلکہ اب خواب بنتے جارہے ہیں۔یوکرین پرروسی حملے کے بعددنیاایک بارپھرسردجنگ کے دورکے احیاءکے بارے میں سوچ سوچ کرپریشان ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعددنیاکوکم وبیش نصف صدی تک کشیدگی کاسامناکرنا پڑاتھا۔وہی کشیدگی اب عالمی سیاست میں درآئی ہے۔1991ءمیں سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ ہی سردجنگ بھی ختم ہوگئی تھی،تب بہت سی امیدوں نے جنم لیاتھا۔سوچاجارہاتھاکہ اب بڑی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی نہیں ہوگی اوردنیایک قطبی یعنی ایک سپرپاورہوگی جودنیاکوچلائے گی۔توقع یہ کی جارہی تھی کہ اب اچھی طرح چلائی جائے گی اورخیال تھاکہ بہت سے مسائل خودبخودحل ہوجائیں گے۔تب معروف سیاسی مفکرفرانسس فوکویامانے پیشگوئی کی تھی کہ اب سیاسی تفکرکاخاتمہ ہونے کوہے۔ان کااستدلال تھاکہ سیاسی فکرمکمل طور پرپنپ چکا ہےاورمغرب کی متعارفکرائی ہوئی لبرل ڈیموکریسی سیاسی ارتقاء کانقطہ عروج ہے۔

افسوس کہ ایساکچھ نہیں ہوا۔دنیاپرانے زخموں کیلئے مرہم تلاش کررہی تھی کہ اب ایسے نئے چندایسے مزیدزخم ایسے مل گئے ہیں جن کی شدت نے پرانے زخموں کادردبھی بڑھادیاہے۔ایسے میں سیمیوئل ہننگٹن نے تہذیبوں کاتصادم کاتصوردیا۔ان کااستدلال تھاکہ 20ویں صدیکے اواخراور21ویں صدی کے شروع میں مغرب اوراسلامی تہذیب کاتصادم ہوگا۔ہم نے تہذیبوں کے تصادم کی کیفیت کے ساتھ کئی عشرے گزارے ہیں۔فوکویامااورہننگٹن کے تصورات اب سردخانے میں ہیں اوراب ہم تیزی سے ایک سردجنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔چین کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں۔امریکانے سردجنگ کے معاملے کوسنجیدگی سے لیتے ہوئے”کواڈ”کے زیرِعنوان چار فریقی مذاکرات بھی کئے ہیں۔فریقین میں بھارت بھی شامل ہے جوخودخطے میں سپرپاوربننے کاخواب تودیکھ رہاہے لیکن ہرمرتبہ اس کی تعبیرنہ صرف اس کے خوابوں کوبری طرح منتشرکردیتی ہے بلکہ اس کے دفاعی بجٹ میں مزیداضافہ نے ملک میں غربت کی سطح میں خوفناک اضافہ کردیاہے۔

“کواڈ”کوسردجنگ کی خبردینے والی علامت کے طورپرلیاجارہاہے۔ یوکرین پرروسی حملے کے بعدایک بارپھرسب کچھ بدل گیاہے۔ عالمی سیاسی بساط پرنئی چالیں اپنے عروج پرہیں،سردجنگ میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتاجارہاہے۔بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سرد جنگ ختم ہی کب ہوئی تھی تاہم کچھ مدت کیلئے معاملات ذرابہتر ہو گئے تھے۔اب پھروہی کشیدگی اورتنگ دلی ہر طرف دکھائی دے رہی ہے۔بالفرض یوکرین میں جاری جنگ کل بندبھی ہو جائے مگراس جنگ نے عالمی سیاست کے چہرے پرجوتناؤ پیداکیاہے وہ آسانی سے ختم نہیں ہوگااوراس کے بعدجوکچھ بچے گااسی کانام سردجنگ ہوگا۔

روس سے یوکرین کاجھگڑابہت پراناہے۔پہلے زارکازمانہ اوراس کے بعدسوویت یونین اوراب روس ایک بارپھراپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی کیلئے کوشاں ہے۔ مغربی میڈیامسلسل یہ کہہ رہاہے کہ پوٹن خودکوعظیم ترروس کے شہنشاہ کے روپ میں دیکھناچاہتے ہیں۔ایک حالیہ خطاب میں انہوں نے باربارتاریخ کاذکر کیا۔ان کابھی یہ کہناتھاکہ یوکرین کی آڑمیں معاہدہ شمالی بحیرہ اوقیانوس(نیٹو)اس کی سرحدپرفوجی تعینات کرکےہتھیاروں کاڈھیرلگاسکتی ہے مگرامریکاکی مشکل اس سے کہیں بڑی ہے۔وہ عالمی سیاسی ومعاشی نظام کودرست کرنے کیلئے کئی عشروں سے کوشش کررہاہے مگرمعاملات الجھتے ہی جارہے ہیں۔ افغانستان سے انخلاء کے بعداب کوئی ایساایشونہیں رہااورنہ ہی کوئی پلیٹ فارم جہاں سے وہ اپنے حریفوں کاڈٹ کرمقابلہ کرسکے۔روس کے ساتھ شروع ہونے والی سرد جنگ اس کی خارجہ پالیسی کایہ مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ امریکا ایک زمانے سے چین کے معاملے میں اپنے تناؤکوسردجنگ کا رنگ دینے کی کوشش کررہا تھالیکن قرعہ روس کے نام نکلا۔

مگرکیایہ سردجنگ بھی پہلے جیسے رہے گی؟1949ءمیں اس وقت کے امریکی صدرہنری ٹرومین نے کہاتھاکہ ہم سوویت یونین کی توسیع روکنے کیلئے جوکچھ بھی کرسکتے ہیں،ضرورکریں گے۔اسے ٹرومین ڈاکٹرائن کانام بھی دیاگیاتھاجس کامقصددنیابھرمیں جمہوری کلچرکوفروغ دیکرزیادہ سے زیادہ جمہوری حکومتیں قائم کرنا تھا مگریہ سب کچھ دکھاواتھا۔حقیقت یہ ہے کہ امریکانے سوویت یونین کوقابومیں رکھنے کیلئےدنیابھرمیں جمہوریت کی بجائے آمریت کوزیادہ قبول کیاتھا۔امریکانے پسماندہ ممالک میں آمرانہ افراد کی کھل کرنہ صرف حمائت کی بلکہ جمہوری حکومتوں کاتختہ الٹ کراپنی مرضی کے افرادکیلئے اقتدارکاراستہ ہموارکیا۔ان کی نہ صرف کھل کرحمائت کی بلکہ مالی امدادبھی کی۔نیٹوکوبھی سوویت یونین کاسامناکرنے کیلئے تشکیل دیاگیاتھااورسردجنگ کے بعدبھی یہ تنظیم قائم رہی اورامریکی اشاروں پراس کی کاروائیاں بھی جاری رہیں۔

20ویں صدی کی سردجنگ اور21ویں صدی کی سردجنگ میں بہت فرق ہے۔20ویں صدی کی سردجنگ میں ایک طرف کیمونزم تھا اوردوسری طرف سرمایہ داری نظام۔سرمایہ داری نظام کھلے بازارکی معیشت پرمشتمل ہے مگرکیمیونزم میں ریاست تمام اثاثوں کی مالک ہوتی ہے اورلوحوں کی گزربسرکی ضامن ہوتی ہے۔پہلی سردجنگ دونظریات کے درمیان تھی۔سوویت یونین اورلبرل ڈیموکریٹ بلاک کی سیاسی ،سماجی اورمعاشی ترتیب بالکل الگ تھی۔سوویت یونین کادعویٰ تھاکہ اب کیمونزم ہی دنیاکامقدرہے کیونکہ لوگ زیادہ سے زیادہ مالی منفعت کے حصول کے چکرمیں بہت قتل وغارت دیکھ چکے ہیں۔دوسری طرف امریکااوریورپ کھڑے تھے جوبند معاشروں کے قطعی قائل نہیں تھے اورایسی دنیایقینی بنانے کیلئے کوشاں اوردعویدارتھے جس میں کوئی بھی غلام نہ ہو اوراپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں کلیتاًآزادہو۔سوویت یونین کی کوشش تھی کہ دنیابھرمیں کیمونسٹ حکومتیں قائم کرکے لوگوں کیلئے خوشحالی کاکوئی ایک معیار ضرورممکن بنایاجائے۔

سوویت یونین کے مقابل امریکااوریورپ تھے جواس بات کاپرچارکررہے تھے کہ دنیااگرترقی کرسکتی ہے توصرف اس صورت میں کہ ہرانسان کومعاشی جدوجہدکی آزادی دی جائے،بازاراورمنڈیوں پرکسی کاکنٹرول نہ ہو۔امریکااوریورپ کادعویٰ تھاکہ کھلے بازارکی معیشت اورجمہوریت پرمبنی سیاست ہی دنیاکا حتمی مقدرہے، اسی کوفوکویامانےتاریخ کاخاتمہ کہا۔سوویت یونین45سال میں ہانپنے لگا اور78سال کے بعدکیمونسٹ سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اوریوں دنیاایک بارپھر سرمایہ دارانہ نطام کی طرف مڑگئی۔اب امریکاو یورپ اورروس کے درمیان سردجنگ کاآغازہوگیاہے لیکن اس مرتبہ خطے کابہت ہی مضبوط معیشت کامالک “چین”ایک فیصلہ کن قوت کی طرف گامزن ہے۔اب یہ نکتہ قابل غورہے کہ دونوں فریق کھلے بازارکی معیشت کی علمبردارہیں اور اس کی واضح مثال چین میں دیکھی جاسکتی ہے جس کی روس بھی تقلیدکررہاہے،تواس کامطلب یہ ہواکہ اب جاری سردجنگ نظریات کاتصادم بالکل نہیں،ہاں مفادات کے تصادم ہی کوسردجنگ قراردیکرخوش ہولیجئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں