ہم سمجھتے ہیں جس کاچرمی بٹوانوٹوں سے بھراہواہواوراس میں ترتیب سے مختلف رنگوں کے کریڈٹ کارڈ سجے ہوں،وہ ہو تا ہے خوش قسمت۔ شاندارلشکارے مارتی نئی نکورگاڑی اور وردی پہناہواشوفرگاڑی کے آگے اورپیچھے،کھلی گاڑیوں میں شعلہ اگلنے کوتیار چمک داربندوقیں تھامے مستعدگارڈز،ہٹوبچو کاشور،اورپھر جب صاحب اتریں توکھٹ سے دروازہ کھولنے والااورفرمانبردارسرجھکائے ملازم،بہت بڑامکان جس کے آہنی پھا ٹک پر مسلح چو کیداراورمکان کے ہرکونے کی خبرلیتے متحرک کیمرے ، قیمتی سیل فونز، ہردم مختلف سُروں سے اپنی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے،ڈیل اورکاروباری ڈیل پلا ٹوں کے سودے، ڈھیرساری چیک بکس اورموٹے موٹے رجسٹرجن کے صفحات لین دین کے ہندسوں سے سیاہ ہوں پھر بہت بڑی سی لمبی میزجس پرہرطرح کی نعمتیں سجی ہوں،معدنی پانی کی سر بمہربوتلوں کی قطار’ اشتہا انگیزخوشبوؤں سے مہکتاخواب ناک ماحول،نازک سے قیمتی برتنوں سے سجادسترخوان،سفیدنیپکنزاورپھرلین دین کی باتیں کرتے ہوئے لذتِ کام ودہن کی آزمائش،ایسے ہوتے ہیں خوش قسمت۔ خاک بسرلوگ ایسوں کو دیکھ کرخوش قسمت سمجھتے ہیں،ان جیسابننے کی تگ ودومیں ہلکان اورآزردہ رہتے ہیں۔ وہ خودکوبدقسمت سمجھتے ہیں اورآہیں بھرتے ہیں،امیری،غریبی ہم نے معیاربنالیاہے خوش قسمتی کا،خوش نصیبی کا۔
’’انسان کاخیال امیرہوتووہ خوش نصیب ہوتاہے اوراگرخیال غریب ہوتودولت کی ریل پیل میں بھی بد نصیب‘‘۔ انسان کے لیے سامانِ تعیش وآسائش ضرورت بن کے رہ جاتے ہیں اوردوسرے کے لیے رشتہ جاں اورتارِنفس کی بقاء سے زیادہ کوئی اہم ضروت نہیں ہوتی ۔ انسان حریص ہے،ناشکراہے،ظالم ہے،مسافرخانے میں ہمیشہ آباررہنا چاہتاہے،قبرستان میں کھڑے ہوکراپنے ہمیشہ رہنے کابے بنیاد دعویٰ کرتاہے۔وہ جانتاہے کہ اس دنیامیں جوآیااسے واپس جاناپڑتاہے،پھردعویٰ کیا؟ قیام کیاپھرجبری رخصت،اگرٹھہرنامقدم ہوتورخصت کی کیاضروت!اوراگر جانا ضرورت ہوتوٹھہرنے کے منصوبے بے معنی ہیں۔اگرظاہری مرتبے قائم رہ جائیں توانسان اندرسے قائم نہیں رہتا۔باہرسے خطرہ نہ ہوتوبدن کی چہاردیواری اندرسے گلناشروع ہوجاتی ہے انسان اپنے بوجھ تلے آپ ہی دب کررہ جا تاہے۔ وہ اپنے آپ کو خواہشات کی دیواروں میں چنواتارہتا ہے اورجب آخری پتھراس کی سانس روکنے لگتا ہے توپھروہ شورمچاتاہے کہ اے دنیاوالو!کثرت،خواہشات سے بچو،کثرت سہولت سے گریز کرو،مال کی محبت سے پرہیزکرو،کثرتِ مال تمہیں غافل کردے گی۔
مال ودولت کے سہارے حکومتیں کرنے والے بالآخر کارندامتوں اوررسوائیوں کے حوالے کردیئے گئے ۔ دولت عز ت پیدا نہیں کرتی،وہ خوف پیداکرتی ہے اور خوفزدہ انسان معززنہیں ہوسکتا۔غریبی محتاج رہنے کی وجہ سے خالق کے درپر سرنگوں رہتی ہے اوریوں غریبی قربِ حق کاایک قوی ذریعہ ہے۔اس کامطلب یہ نہیں کہ انسان غریب ہوجائے یااسے غریب ہی رہنے دیاجائے۔ایک سماج میں امیر اورغریب کے درمیان جتنا فاصلہ بڑھتاجائے گا،اتنی ہی سماج میں کرپشن بڑھے گی۔ وہ معاشرہ تباہ ہوجائے گاجہاں غریب کونظراندازکردیاگیا۔غریب ہی امیر کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ غریب سائل ہے اورامیر سخی نہ ہوتواسے بخیل ہونے کی سزادی جائے گی۔غریب حقدارہے اوراگراس کواس کاحق نہ دیاجائے توحق غصب کرنے والے کوعذاب میں گرفتارکردیاجائے گااورعذاب کی انتہائی شکل یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل سے دولتِ تسکین نکال لی جائے گی اور یوں ایک امیر انسان پیسے کی فراوانی کے باوجودپیسے کی شدت میں مبتلاہوکرایک اذیت ناک زندگی گزارنے پرمجبورہوگا۔ امیرآدمی کاخوف غریب کے خوف سے زیادہ ہوتا ہے۔غریب کے پاس توپھربھی اچھازمانہ آنے کی امیدہوسکتی ہے لیکن امیر کے لیے برے زمانے کے آجانے کاخوف ہمیشہ سرپرتلواربن کرلٹکتارہتاہے۔ہم دیکھتے ہیں پیسہ نہیں بچاسکتا بدنامیوں سے، بے عزتیوں سے،دشمنوں سے، موت سے،پھرپیسہ کیاکرتاہے؟صرف نگاہ کوآسودہ کرتاہے اوریہ آسودگی دل کو مردہ کردیتی ہے،بے حس بنادیتی ہے اورآدمی کثرتِ مال کے باوجودتنگی خیال میں مبتلا ہو کر اذیت ناک انجام سے دو چار ہو جا تا ہے۔
خدا اُس وقت سے بچائے جب مظلوم اوربے زبان خطرہ گویائی کے طلسمات شروع کردے ۔ یہ خطرہ ایوانوں میں زلزلہ پیدا کرسکتاہے،اس سے پہلے کہ غریب آپے سے باہرہواُس کی غریبی کوٹالنے کی کو شش کی جائے اُس کاخیال رکھاجائے بڑے بڑوں کی بڑی بڑی خدمت کرنے کے بجائے غریبوں کی چھوٹی چھوٹی ضرورت پوری کردی جائے۔ان کے کچن سے بھی دھویں اورخوشبوئیں اٹھیں۔ان کے دسترخوانوں پربھی اللہ کاشکرادا کرنے کامو قع موجودہوناچاہئے۔ غریب کوخدا کے لیے صرف نصیحت اوردواسے کلمے نہ پڑھاؤ،اس کا دکھ بانٹو ،اُس کاغم بانٹو۔اگرغریب کومفت دوائی نہ ملی توتمہارے بڑے بڑے ہسپتال بیمار ہوجائیں گے، تمہارے خزانوں میں کیڑے پڑجائیں گے،دیمک لگ جائے گی ۔ ابھی وقت ہے کہ سوچاجائے، سمجھاجائے،ہوش کیاجائے۔غریب قیمتی سرمایہ ہے بشر طیکہ اسے غریب نہ رہنے دیاجائے۔ کیاہورہاہے ہمارے آس پاس!آپ اور میں روزدیکھتے ہیں کسی غریب کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں اوراس کی معصوم بچی مرجا تی ہے اورپھروہ اس کے کفن کے لیے بھیک مانگتاہے ہم سب مرگئے ہیں کیا؟ ہاں ہم زندہ ہی کب تھے؟پاکستان کی تاریخ میں اتنابڑاسانحہ ہواکہ فوج کاسپہ سالاربھی تڑپ کرپکاراٹھا کہ ان ظالموں نے”ہمارے دل پرحملہ کیا ہے”پوری قوم یکجاہوگئی اورسارے سیاستدان بھی اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوروزیراعظم کوبھی اعلان کرناپڑاکہ” تم اس زمین پرکہیں بھی چھپ جاؤ لیکن ہم ایک ایک کوڈھونڈکر اپنے بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کاحساب لیں گے”۔تمام سیاسی رہنماء سرجوڑکربیٹھ گئے کہ قوم کویقین دلایاجائے کہ آئندہ کوئی ایساسانحہ نہیں ہونے دیاجائے گا،ایسے بہیمانہ حملوں کے تدارک کیلئے نئے سرے سے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیاگیا،دہشتگردی کے مجرموں کو کیفر کردارپہنچانے کیلئے ان کومنطقی انجام تک پہنچانے کی ابھی کوششیں شروع ہی ہوئی تھیں کہ انہی سیاستدانوں کاتضاد سامنے آناشروع ہوگیاکہ صرف دہشتگردی کے مجرمان کوپھانسی کے گھاٹ تک پہنچایاجائے ۔یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ قوم اب مزیدکسی بھی تماشے کی ہرگزاجازت نہیں دے گی اس وقت بھی جو جماعتی سیاست سے بالاترہوکرنہیں سوچے گاقوم خوداس کابڑابے رحمانہ احتساب کرے گی!
اسرائیل بھی ایک نظریاتی ریاست ہے جس کاکوئی تحریری آئین نہیں ماسوائے کہ ”تورات”ریاست کاآئین ہوگااورآج دنیاکے تمام معاملات پراس کی حکمرانی ہے لیکن مجھے حیرت اس بات پرہورہی ہے کہ کسی کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے نہیں آیا کہ ربّ کریم نے اس خطے کے مسلمانوں کوانگریزاوربرہمن کی غلامی سے نجات ہمارے اس وعدے پرعطافرمائی تھی کہ ہم اس معجزاتی ریاست جوستائیس رمضان المبارک کی شب وجودمیں آئی کہ یہاں بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی کانظام نافذکیاجائے گالیکن ہم مسلسل٦٩ سالوں سے اپنے کئے گئے وعدے سے روگردانی کرتے چلے آرہے ہیں۔ شریعت کے نام پراختلاف رائے ہوسکتاہے لیکن قرآن پرسب کااتفاق ہے اورقرآن کایہ حکم ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔ عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعدگورنراور صدرکے پاس بھی مجرم کومعاف کرنے کاکوئی حق نہیں۔جزاوسزاکاسارااختیار قرآن میں واضح کردیاگیا ہے۔ضربِ عضب کی مکمل کامیابی کیلئے یہاں بلاتاخیر قرآن کوآئین بنانے کااعلان کرناہوگا۔
یہ جناب علی عثمان ہجویری کس وقت یادآگئے!آپ اپنے چندساتھیوں کے ساتھ حج کے سفرمیں تھے۔ایک آدمی کوقافلے کا امیربنادیاگیا۔ راستے میں لٹیروں نے قافلے کوروک لیااوراپنے سردارکے روبروپیش کردیا۔ سردارنے کہا:جوکچھ ہے نکالو۔سب نے جوکچھ تھاوہ اس کے سامنے رکھ دیا۔سردارنے پوچھا:تم نے سب کچھ پیش کردیاہے؟ سب نے کہا:ہاں اب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔سردارنے کہا:ان سب کی تلا شی لو۔ تلاشی لینے پرامیرقافلہ کے پاس خفیہ جیب سے کچھ اشرفیاں برآمد ہوئیں۔ ڈاکوؤں کے سردارنے کہا:اسے قتل کردیاجائے۔جناب ہجویری نے مد اخلت کی اورکہا:یہ نہیں ہوسکتا،وہ ہمارے امیرقافلہ ہیں، ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔ جاہل،اجڈ، وحشی ڈاکوؤں کے سردارنے کیسی عجیب بات کہی،بولا ”یہ کیسے ہوسکتاہے کہ سچے آدمیوں کاامیرجھوٹاہو!”سالارِکارواں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صادق ہو،امین ہو،جھوٹے سالاروں نے ہی توملت کابیڑہ غرق کررکھاہے۔ خالقِ کائنات کی بھی ایک عدالت ہے جہاں سب کوحاضرہوناہے اور وہاں ہم سب کواپنے اعمال کی جوابدہی میں کوئی رعائت نہیں ملے گی۔یادرکھیں کہ میرے رب سے تو کوئی بھی نہیں جیت سکتا ۔
Load/Hide Comments