“کراچی میں دہشت گردی،۲۴افرادہلاک،دولڑکوں کوسفاکی سے قتل کرکے پیٹ چاک کردیئے گئے،۳عورتیں ہلاک،پولیس افسر کاقتل، ہیڈ کانسٹیبل فائرنگ سے ہلاک،پولیس کی بکترگاڑی پرشدید فائرنگ،چارافرادکی بوری بندلاشیں،دونوجوانوں کی برہنہ لاشیں،پولیس مقابلے میں چارافرادہلاک……..الامان الحفیظ!
یہ صرف ایک دن کے اخبار میں پہلے صفحہ کی سرخیاں اورصرف سندھ کے ایک شہر کراچی کے مخصوص علاقوںمیں قتل وغارت گری کی ایک بھیانک اور دہشت ناک تصویر ہے ۔ یہ صرف ایک دن کی اتفاقی خبریں نہیں بلکہ اب تو ہرروز اس قسم کی شرمناک اوردردناک خبریں پہلے صفحے کی جلی سرخیوںمیں پڑھنے کوملتی ہیں اورکوئی دن ایسا نہیں جب درجن بھر انسانی جانیں اورمعصوم عصمتیں ہمارے ہی ہاتھوں پامال نہیں ہوتیں۔ ہر روزاس قسم کی خبروں سے ملک کے تمام اخبارات بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔اب تو پچھلے ڈھائی سال سے مسلسل ہر روزقیامت کامنظر دہرایاجارہا ہے اورنگاہیں ایسی خبریں پڑھ کردل تھام کررہ جاتی ہیں۔ایک وقت ایسا بھی تھاکہ اگرکہیں قتل ہوجاتاتوبڑے تعجب کے ساتھ اس غیر معمولی واقعے کوموضوع گفتگو بناکرتوبہ واستغفار کیا جاتا تھامگراب آئے دن ان خبروںنے ایسا بے حس کر دیا ہے کہ ان کوغیروں کے سرتھوپ کرخود کو بری الذمہ قرار دیکر اپنے ضمیرکادلاسہ اور تسلی دے کر دوبارہ سلا دیا جاتاہے۔
اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی غیر مسلموں نے مسلمانوں کی قوت کوپارہ پارہ کیاہے انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان صوبائی ،لسانی ،نسل ورنگ اورعلاقائی فتنوں کو پھیلاکر اپنے مقاصد حاصل کئے ہیں۔سقوط” مشرقی پاکستان”کاالمیہ ابھی کل کی بات ہے۔وہاں بھی انہی فتنوں کو ہوا دے کر مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت پرایسا کاری وار کیا گیاکہ امت مسلمہ ابھی تک ندامت کے ساتھ اپنے زخموں کوچاٹ رہی ہے حالانکہ یہی قوم ۱۹۴۷ءمیں پورے عالم اسلام کو متحد کرنے کے لئے سروں پر کفن باندھ کراٹھی تھی مگر آج اپنے ہی گھر کی شکست وریخت کودیکھ کر بدحواس ہو کر اغیار کی طرف دیکھ رہی ہے۔ہمارے ازلی دشمن تو پہلے ہی ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کرکے اس بات کے منتظر ہیں کہ کب خاکم بدہن دنیاکے نقشے سے اس پاک سرزمین کانام مٹ جائے۔
مسلمانوں کو کھلم کھلاتعصب کے نام پراپنے مقاصدکیلئے آلۂ کاربنانا بہت مشکل ہے اسی لئے دشمنوں نے پھر وہی طریقہ استعمال کیا ہے جو کبھی اندلس اورغرناطہ میں استعمال کیا تھا جس کی تحقیق کے لئے کشمیری پنڈت ”ڈی پی دھر” کئی ماہ اسپین میں رہ کر ان حالات کامطالعہ کرتا رہااورپھربعد میں دنیا بھرکی تمام بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیوں کے اشتراک سے ہمارے ایک بازو کوہم سے کاٹ دیااوراس کے بعد طے کرلیاگیاکہ باقی ماندہ ملک میں بھی اپنے کارندوں کے ذریعے اس عمل کو جاری وساری رکھا جائے گاجب تک پورے مقاصد حاصل نہ کر لئے جائیں۔اس لئے کراچی میں اب خون و آگ کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے بدقسمتی سے ہمارے ہی بھائی بندوں کوآلۂ کار بناکرہمارے ملی وجود کو نیست ونابود کرنے کی سازش کو بڑی تیزی سے آگے بڑھایا جا رہاہے ۔ایسے حالات پیداکر دیئے گئے ہیںکہ خود ہی ایک طبقے سے قتل وخون جیسا ظلم کرواکے،اسی کو مظلوم بناکرمنافرت کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے اوراب منافرت کی یہ آگ اس قدر بھڑک چکی ہے کہ اب اس کو بجھانے کے لئے کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔
عصبیت کا یہ رحجان اس خطے کے عوام کا اصلی اورفطری جذبہ ہرگز نہیں ہے۔نصف صدی قبل پوری دنیاکھلی آنکھوں سے قیام ِ پاکستان کے موقع پر اس بات کا مشاہدہ کر چکی ہے کہ مقامی لوگوں نے کس کشادہ دلی ،خندہ پیشانی اورمحبت واخوت کے ساتھ مہاجرین کو گلے لگایا تھااورتقریباًچاردہائیاں باہمی محبت اورخوشگواری میں گزرگئیں۔مقامی اورمہاجرین کے رشتے ناطوں نے تمام جھگڑوں کو تقریبا ً ختم کردیا تھا اوراس شہرکوعروس البلاد بناکر ملک بھر سے آئے ہوئے تمام علاقوں کے لوگوں نے اس کی خوبصورتی اورحرمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی لیکن بدقسمتی سے اس وطن عزیز کو شروع سے لیکر آج تک کوئی مخلص اور محب وطن حکمران نہ مل سکے جس کی بناء پر آج یہ نوبت آگئی ہے کہ تمام محب وطن شب وروز وطن کی سلامتی کے لئے اپنے رب کے حضور گڑگڑاکردعائیں مانگ رہے ہیں۔
ملک عزیز کے سادہ لوح لوگوں کو دشمنوں کی چالوں نے اس طرح گھیررکھا ہے کہ اب وہ ہر خوش آواز نعرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔وہ دشمن کی اس چال کو سمجھ نہیں سکے کہ لڑائی مقامی اورمہاجر کے درمیان نہیںبلکہ ظلم اورانصاف کے درمیان ہے،بددیانتی اوردیانت داری کے درمیان ہے ،حقوق کے حصول اور عدم حقوق کے درمیان ہے،خداکے خوف اور آخرت کی فکر سے بے نیاز سیاست دانوں، حکمرانوں اور عوام کے درمیان ہے ۔جب تک ملک میں ایسے ظالم اوربدکردار لوگ حکمران طبقہ اورسیاست دانوں میں موجود رہیں گے اس ملک میں خیر اورفلاح کاکوئی کام نہ ہو سکے گا ۔پچھلی نصف صدی عوام کواسلام، نظریہ پاکستان ، قومی اتحاد،نظام مصطفی کے نفاذ کے نام پر جو دھوکے دیئے گئے ہیں اس کی وجہ سے آج اسلامی وحدت کے خالی وعظ سناکر اس عصبیت کی تحریک کواب ٹھنڈاکرنامشکل بلکہ ناممکن ہوگیاہے اس لئے جب تک عوام کی بنیادی شکایات کاازالہ کرکے انہیں عدل و انصاف کا عملی یقین نہیں دلایا جائے گااس وقت تک مفسد عناصرحقوق کے نام پرتعصب کے جذبات کو ہوا دیتے رہیں گے اور یہ رویہ بالآخرملک وملت کی تباہی کاباعث بن کررہے گا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ کے بالخصوص اورملک بھر کے بالعموم بااثر، سنجیدہ،دردمند اورمحب وطن سرجوڑ کرایسی امن کمیٹیاں بنائیں جومثبت طورپرباہمی اخوت ومحبت ، یکجہتی اورتعاون کی فضا پیداکریں اورایسا ماحول پیداکریں کہ مقامی حضرات مہاجروں کے اورمہاجرقوم مقامی حضرات کے حقوق کیلئے آوازاٹھائیں نہ کہ آج جس طرح مہاجرایم کیوایم کی شکل میں۱۸نکات پرمشتمل اپنے مطالبات منوانے کیلئے موجودہ حکومت سے بات چیت کررہی ہے اورحکومت جواب میں ۲۱نکات کی فہرست ایم کیوایم سے بزور طاقت منوانے میں مصروف ہے۔اس میں شک نہیں کہ ایم کیوایم کے نکات نمبر۳/۴/۹/۱۰/۱۳/اورنمبر۱۱کاپہلاحصہ غیرضروری ہیں اورمعاملات سلجھانے میں رکاوٹ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح حکومت کے نکات ۶/۱۷/اور۲۰مذاکرات کی ناکامی کاسبب بن سکتے ہیں ۔ ویسے بھی ملک کی سلامتی کے لئے حکومت کو کشادہ دلی کااظہار کرتے ہوئے معمولی مطالبوں کواپنی اناکامسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔
ایک طرف ملک کی وزیراعظم جائز مطالبات کوتسلیم کرنے کااعلان کرتی ہیں،دوسری طرف ان کی حکومت کے وزیرداخلہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ گویاانہوں نے مذاکرات کو ناکام کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فی الفور اپنے وزاراء کو سختی کے ساتھ اس بات کا پابند کرے کہ وہ کشادہ دلی کے ساتھ اپوزیشن کے تمام سیاستدانوں کااحترام کریں،کسی بھی قسم کی الزام تراشی سے اجتناب کریں۔ حکومت نے جو پہلی دفعہ اپنے تمام سیاسی ارکان کوجودہشت گردی اوردوسرے خطرناک الزامات کے مقدمات میں ملوث تھے بری کردیاتھا،اب ایسی ہی تحریک دوبارہ چلاکرایم کیوایم کے بے گناہ لوگوں کورہاکرناچاہئے۔اسی طرح ایم کیوایم کی حب الوطنی کاتقاضہ ہے کہ ہندوستان جیسے مکار دشمن کے بے گناہ کشمیریوں پرمظالم توڑے جانے پرکھلم کھلا مذمت کرے اوریہ بات علی الاعلان واضح کرے کہ ہم مکاردشمن کی ہرچال کوناکام بنا دیں گے۔اس طریقے سے امید ہے کہ انشاء اللہ پھروہی محبت اوراخوت کی فضالوٹ آئے گی جس کا دلکش نظارہ قیام پاکستان کے وقت ہواتھا۔