سپہ سالارکاکامیاب دورۂ چین

:Share

پاکستان میں نئی منتخب حکومت کوابھی آئے ہوئے چندہفتے ہی ہوئے تھے کہ 9ستمبر2018ء کو برطانوی اخبارفنانشل ٹائمزنے عمران خان کے ایڈوائزر برائے کامرس عبدالرزاق داؤدکے سی پیک کے بارے میں منسوب ایک بیان نے قوم کوتشویش میں مبتلاکردیاکہ خطے میں چین کے تعاون سے سی پیک پراجیکٹ جوایک عالمی گیم چینجرکی شکل اختیارکرنے جارہاہے،نئی حکومت اس کے بارے میں دوبارہ غورکرے گی۔یادرہے کہ 5 ستمبر کوامریکی وزیرخارجہ مائیک پمپیونے بھارت جاتے ہوئے اسلام آبادمیں چندگھنٹے کادورۂ کیاجن سے عمران خان کے فون پرمتنازعہ کال کابھی کافی چرچارہا۔امریکی وزیرخارجہ کے دورے کے ٹھیک دودن کے بعد 7ستمبر کو چین کے وزیرخارجہ وانگ یی دودن کے دورے پراسلام آباد پہنچے جن کا پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے چک لالہ ائیربیس پر استقبال کیاجس پرمسلم لیگ ن کے سینیٹرمشاہدحسین جوپاک چائنا کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں،نے سخت ردّ ِ عمل اورتنقید کااظہارکرتے ہوئے پروٹوکول کاخیال رکھنے کاکہا۔ نئی حکومت کے اس روّیے نے پاکستانی عوام کے دلوں میں شکوک وشبہات پیداکردیئے لیکن پاکستانی فوج کے سپہ سالارکے حالیہ تین دن چین کے انتہائی کامیاب دورۂ نے وہ تمام شکوک و شبہات دورکرنے میں کافی مددکی جس میں سی پیک،انسداددہشتگردی کی جنگ سمیت کئی دیگراہم امورزیرغوررہے۔
جب سے سی پیک پرعمل شروع ہواہے،بھارت اوربعض مغربی ممالک بشمول امریکااسے سبوتاژ کرنے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں۔فنانشل ٹائمز میں رپورٹ شائع کی گئی جس میں وزیراعظم کے مشیرتجارت عبدالرزاق داؤدکے حوالے سے کہاگیاکہ پاکستان کی نئی حکومت سی پیک منصوبے پر نظرثانی کرنے کیلئے فی الحال ایک سال کیلئے عملدرآمدروکناچاہتی ہے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ معاملہ اتناسنجیدہ ہے کہ پاکستان اور چین دونوں ملکوں نے فوری طورپراس کی تردیدکی تھی۔چینی وزارتِ خارجہ نے توصاف صاف کہہ دیاتھا کہ سی پیک کے حوالے سے مشاورت کے ذریعے پاکستان کے معاشی اورسماجی ترجیحات کوترجیحات کواوّلیت دی جائے گی۔درحقیقت دونوں ملکوں نے منصوبے پرعملدرآمد بڑھانے پراتفاق کیا اوردفاع وسیکورٹی سمیت تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات مزیدمستحکم کرنے کافیصلہ کیاہے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے برطانوی اخبارکی رپورٹ کی واضح انداز میں تردید کی تھی صرف اتناہی نہیں بلکہ پاکستان کے دفترخارجہ نے بھی واضح کردیاتھاکہ پاکستان منصوبے پرکامیاب عملدرآمد کیلئے پر عزم ہے۔
چینی وزیرخارجہ کے دورے کے دوران باہمی مذاکرات میں سی پیک تعاون کومزیدشعبوں تک توسیع دینے پراتفاق ہوااورپاکستان کی نئی سیاسی قیادت نے واضح کیاتھاکہ سی پیک حکومت کی قومی ترجیح ہے۔شعبہ صنعت وتجارت نے برطانوی اخبارمیں ان سے منسوب انٹرویوکی وضاحت کرتے ہوئے کہہ دیاکہ انٹرویوکے کچھ حصے سیاق وسباق سے ہٹ کرپیش کئے گئے ہیں ۔مسلم لیگ ن کے تین سینٹرزنے اس معاملے پربحث کیلئے سینیٹ میں تحریک التواپیش کردی لیکن وزارتِ تجارت نے فوری طورپرتحریری طورپراس کانوٹس لیتے برطانوی اخبارکے مضمون کی تردیدکردی ہے۔
موجودہ حالات میں جب امریکاسمیت چندمغربی ممالک نہ صرف سی پیک منصوبے بلکہ پاک چین تعلقات کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں ایسے حالات میں چینی وزیر خارجہ کے پاکستانی دورے کے فوری بعدآرمی چیف جنرل قمرباجوہ کے دورۂ چین کوخصوصی اہمیت حاصل ہے جبکہ موجودہ حکومت کوریاستی امورچلانے کیلئے وسائل کی ہی اشدضرورت ہواورمالی وسائل کی حالت اتنی مخدوش ہوکہ ہم اپنی زندگی کی بقاء سے مربوط وسائل یعنی ڈیم بنانے کیلئے بھی وسائل نہ ہونے کی بناء پرعوامی معاونت حاصل کرنے کیلئے مجبورہوگئے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے فنڈریزنگ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صاف الفاظ میں واضح کردیاکہ بھاشاڈیم حکومت نہیں عوام کی مددسے بنائیں گے کیونکہ حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں۔اپنے بچوں کامستقبل محفوظ بنانے کیلئے عوام کویہ بوجھ خوداٹھاناپڑے گا۔
علاوہ ازیں وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی افغانستان کے دورۂ پرگئے جہاں ہم جانتے ہیں کہ امریکا اپنی ٹانگ ضروراڑائے گااوربھارت کوبھی شاہ محمود قریشی کے دورۂ افغانستان اورافغان چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ کی جانب سے مثبت بیانات نے بھارتی قیادت کوپریشان کردیاہوگااوروہ بھی منفی سرگرمیوں میں مصروف ہوگی، ایسے حالات میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کادورۂ چین اور اپنے ہم منصب علاوہ چین کی دیگرسیاسی قیادت بشمول چینی صدرکے ساتھ ملاقاتیں بہت ہی اہمیت کی حامل رہیں اورعوام نے آرمی چیف کے اس دورے کو بڑی تحسین کی نگاہوں سے دیکھاکہ فوجی سپہ سالارنہ صرف ملکی سرحدوں کی حفاظت کیلئے شب وروزکام کررہے ہیں بلکہ ملکی سلامتی کیلئے سی پیک جیسے اہم منصوبے کیلئے بھی انتہائی مثبت کردار اداکررہے ہیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ گوادرسے کاشغرتک ون بیلٹ ون روڈکے چینی ویژن کاحصہ ہے۔اس کے تحت چین پاکستان میں 60/ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کررہاہے۔چین نے یہ سرمایہ کاری ایسے حالات میں شروع کرنے کااعلان کیاجب سابقہ وزیراقتصادی منصوبہ بندی احسن اقبال کے بقول کوئی دس روپے بھی لگانے کوتیارنہیں تھا۔منصوبے پر عملدرآمدسے نہ صرف پاکستان میں انفراسٹرکچربہترہوگابلکہ تجارتی سرگرمیاں بھی تیزہوں گی اورعوام کی معاشی حالات میں انقلاب آئے گا۔نتائج کے اعتبارسے یہ پاکستان ہی نہیں پورے خطے کیلئے فی الواقع گیم چینجرثابت ہوگا۔ اس امرمیں شک نہیں کہ یہ امیدیں صرف تصوراتی نہیں بلکہ حقائق پرمبنی ہیں۔سی پیک منصوبہ حقیقی معنوں میں پاکستان کیلئے گیم چینجرثابت ہوگا اورنہ صرف پاکستان بلکہ اس پورے خطے کامقدربدل کررکھ دے گا اورسی پیک کے اثرات پاکستان کے ساتھ دیگرملکوں پربھی پڑیں گے اوروہاں بھی بہتری آئے گی،جہاں تک اس منصوبے کی مخالفت کاتعلق ہے توامریکااوربعض مغربی ممالک تواس منصوبے کی مخالفت کرہی رہے ہیں لیکن اس خطے میں اس منصوبے کی سب سے زیادہ مخالفت بھارت کررہاہے۔اس نے علی الاعلان سی پیک کی مخالفت کیلئے ایک خصوصی سیل اور ڈھائی سوملین ڈالر مختص کررکھے ہیں اوراس کام میں اسے امریکااوراسرائیل کی خصوصی حمائت اورمددبھی حاصل ہے کیونکہ وہ سی پیک کی مخالفت کیلئے بھارت کومکمل طورپرسپورٹ کررہے ہیں۔جہاں تک چینی کمپنیوں کوملنے والی مراعات کاتعلق ہے توجوبھی ملک کسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرتاہے تواس طرح کی مراعات لیتاہے تاہم منصوبے پروقتاًفوقتاً جائزہ لیتے رہناچاہئے اوراگرکوئی غلطی یاغلط فہمی پیداہوجائے توباہمی مشاورت سے ازالہ کیاجانا چاہئے۔
سی پیک کی کامیابی کااندازہ اس سے لگالیں کہ16فروری 2018ء کواقتصادی امور ڈویژن نے ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی سی پیک میں دلچسپی بڑھنے لگی ہے اور انہوں نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 81ارب 54 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جس میں سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو 53ارب 54کروڑ69 لاکھ روپے، بجلی کے منصوبوں کیلئے واپڈا کو 23ارب 14 کروڑ روپے اور پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کو ایک ارب 97 کروڑ روپے دیئے گئے ۔ذرائع کے مطابق سول ایوی ایشن ڈویژن کو91 کروڑروپے، انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈویژن کو75 کروڑروپے اورآزادکشمیر حکومت کو51کروڑ روپے کے فنڈز موصول ہوئے ہیں۔اس دوران قومی صحت کے منصوبوں کو 23کروڑ روپے، گلگت بلتستان حکومت کو 17 کروڑ روپے، سیفران اور فاٹا کو 13 کروڑ روپے، خزانہ ڈویژن کو3کروڑروپے،ریونیو ڈویژن کوایک کروڑروپے کے فنڈزموصول ہوئے ۔ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں غیر ملکی ذرائع سے 162ارب روپے ملنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
یادرہے کہ بھارت کے دشمن رویے کے باوجود20دسمبر2016 ء کواس وقت پاکستان کے سدرن کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نےکوئٹہ میں ایک تقریب سےخطاب میں انڈیا کو پیشکش کی تھی کہ وہ ایران اورافغانستان اورخطے کے دیگرممالک کی طرح سی پیک میں شامل ہواوردشمنی ختم کرے۔اس سے اگلے دن چینی دفترِخارجہ کی ترجمان ہوا چن سے پوچھا گیاکہ کیا پاکستان اور چین کے درمیان انڈیاکواس منصوبے میں شامل کرنے پرکوئی مشاورت ہوئی ہے توان کاکہناتھاکہ”میں نے ان رپورٹس کودیکھاہے،میں سوچ رہی ہوں کہ کیاانڈیا پاکستانی جنرل کی اس پیشکش کو خیر سگالی کے طورپر لے گایانہیں۔اقتصادی راہداری منصوبے میں پاکستان کی جانب سے انڈیا کوشمولیت کی پیشکش پراس کاردِعمل کیاہوگا تاہم وہ چاہتی ہیں کہ تیسرے فریق کوپاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں متعارف کرنے کے امکانات پرفیصلہ پاکستان سے مشاورت اورہم آہنگی کی بنیادپرہوجبکہ پاکستان کواندرونی طورپرسیاسی سطح پراور بلوچستان میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کی بناپراس منصوبے کے حوالے سے بہت سی مشکلات کاسامنابھی کرناپڑرہاہے۔ہمارے لیے پاک چین اقتصادی راہداری باہمی تعلقات کے فریم ورک کی بنیاد ہے جومختلف شعبوں میں دو طرفہ طورپرطویل المدتی تعاون اورترقی پرمرکوزہے۔ اس منصوبے سے نہ صرف دونوں ملکوں میں معاشی اورسماجی ترقی ہوگی بلکہ اس کاعلاقائی تعلقات،امن،استحکام اورخوشحالی میں بھی کردارہوگا۔سی پیک چائنابیلٹ اورشاہراوں کے منصوبوں کی جانب ایک کھلی پیش قدمی ہے،یہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں ہے بلکہ مستقبل کی ترقی کیلئے مواقع فراہم کرنے کاایک بہترین منصوبہ ہے”۔
لیکن بھارت نے اپنی ازلی دشمنی کامظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان اورچین کی اس فراخدلانہ پیشکش کاجواب بھی یہ کہہ کرٹھکرادیاکہ سی پیک میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی شمولیت پر انڈیا کواعتراض ہے اوریہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات میں شامل ہےجبکہ چین جوہری سپلائر گروپ ، این ایس جی میں انڈیا کی شمولیت اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر پر پابندی کی راہ میں حائل ہے۔یاد رہے کہ انڈین وزیرِ خارجہ سشما سوراج اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات میں اقتصادی راہداری منصوبے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی شمولیت پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھاجس کوچینی وزیرخارجہ نے مستردکردیاتھا۔ایران کی سرکاری نیوزایجنسی ارنا کے مطابق چین کے سفیرسن ویڈونگ نے ایران کوسی پیک میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔22ستمبر 2016ءمیں ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہاربھی کیا تھا۔
تاہم برطانوی اخبارفنانشل ٹائمزنے اپنے تئیں متنازع رپورٹ شائع کرکے دودوست ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرنے کی جومذموم کوشش کی ہے،وہ بھارت اورمغربی ممالک میں پنپنے والی ان سازشوں کاحصہ ہے جن کامقصدایک طرف اس عظیم اقتصادی منصوبے کاناکام بنانااور دوسری جانب پاک چین دوستی میں دراڑیں ڈالناہے ۔یہ توبہت ہی اچھاہواکہ دونوں ممالک نے اس کافوری طورپرنوٹس لیتے ہوئے ہرقسم کے شکوک وشبہات کی تردیدکرکے اس سازش کے غبارے سے نہ صرف ہوانکال دی بلکہ اس غبارے کوپھاڑدیااوراس کے ساتھ ہی جنرل قمرباجوہ کے چین کے بروقت کامیاب دورے سے دوستی اورمراسم میں مزید پختگی پیداہوگئی ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کے دلوں میں اس سازش کے بعد اگرکوئی منفی خیال آیابھی تھا،وہ بھی نہ صرف دورہوگیابلکہ تعاون کی کئی اورراہوں کاراستہ بھی کشادہ ہوگیاہے۔
جہاں تک اس منصوبے کے مثبت اثرات کاتعق ہے تویہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے علاوہ ساری دنیاکے ممالک کیلئے ہی اقتصادی ترقی کادروازہ کھولنے کاسبب بنے گا، یہی وجہ ہے کہ افغانستان ایران اوردیگرممالک نے بھی اس میں شامل ہونے کی خواہش کااظہارکیاہے۔نئی منتخب حکومت کو چاہئے کہ چین کے ساتھ مربوط تعلقات قائم رکھنے اورحکومتی سطح پرمتعلقہ وزراء اوردیگرسیاسی وثقافتی وفودکوچین کادورۂ کراتی رہے۔اس قسم کے سفارتی دورے باہمی تعلقات مضبوط بنانے اوردشمن کی منفی سرگرمیاں خاک میں ملانے کے ناگزیراہمیت کے حامل ہوں گے۔ اس قسم کے دورے تعلقات مضبوط بنانے پرحکومتی مفادات میں اضافے کے ساتھ ساتھ سابقہ حکومت کی قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک کا احیاء کریں اور منصوبے کی کامیابی میں کسی قسم کی کوئی بھی رکاوٹ حائل نہ ہونے دیں کیونکہ مستقبل کی زیادہ امیدیں اب سی پیک کی تکمیل ہی سے وابستہ ہے جس کے خلاف دشمن نے توزہریلاپروپیگنڈہ کرناہی ہے جبکہ بعض ناعاقبت اندیش اہل وطن بھی اپنی لفاظی سے معمورزبان میں اپنی اوقات ظاہر کرنے کے شوق فضول ہی میں قومی مفادات کے منافی گفتگومیں مصروف رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں