ہم سارے لاوارث لاشیں،کون ہمیں پہچانےگا

:Share

گدھ ہیں یہ سب۔ گدھوں کا راج ہے یہاں۔مردارخورگدھ…چلتی پھرتی لاشوں کو نوچنے والے گدھ۔ گدھ تو پھر لاشوں کو نوچتا ہے،یہ ایسے سفاک ہیں جو زندہ انسانوں کو پہلے چلتی پھرتی لاشوں میں بدلتے ہیں پھرانہیں نوچنے لگتے ہیں ۔یہ ہے سماج؟ کیا سماج ہے یہ!ہر بونے کااستحقاق مجروح ہوجاتا ہے یہاں۔ اورعوام…!وہ کب ہیں انسان …جی رہے ہیں کب! بس سانس آجارہی ہے۔اس ظالم اور مدقوق نظام ہی نے جیتے جاگتے انسانوں کو مدقوق کردیا ہے۔خون تھوک رہے ہیں وہ۔ چلتے پھرتے انسانوں کا قبرستان ۔ آئین،آئین کا راگ، تاراج ،تاراج کا کھیل…اوراس پررقص کرتے ہوئے مدہوش گدھ۔ یہ کیسادھوکہ ،ذاتی خزانہ بھراہوا ہے اوربھوک سے نڈھال ڈھانچوں کی تقدیر بدلنے کی تدبیریں ۔
بارود کی منحوس بو سے اٹا ہوا ہمارا ہر شہر،ہر گائوں۔خاک وخون میں نہائے ہوئے انسان۔سسکتی ہوئی انسانیت اورپھر اس پرمنرل واٹر سیل بند بوتلوںکاپانی پینے والے یہ ہمدرد،سردیوںمیں غریب عوام کے گھرمیں گیس مفقود،کھاناپکانے سے بھی قاصرلیکن اپنے محلات کاہرکونہ گرم، گرمیوں میں ٹھنڈے یخ کمروں میں واٹر بیڈ کے مزے لوٹنے والوں کوبجلی کی لوڈشیڈنگ کے اس عذاب کاکوئی اندازہ نہیں جس سے غریب ووٹردوچارہے۔
بڑی بڑی جہازی گاڑیوں میں سیرسپاٹا کرنے والے اورپھر مزیدبلٹ پروف گاڑیاں منگانے والے،انواع اقسام کے لذیذ کھانے اوراپنی بکواس کرنے کے ماہر ہمارے …ان کا پیٹ جہنم کی آگ ہی بھر سکتی ہے۔انسان کے روپ میں چلتے پھرتے خوب صورت درندے،عوام کی بوٹیاں تکہ کباب کی طرح اڑا رہے ہیں۔خیر ہی خیر ہے،سب ٹھیک ہے،ان دہماکوں میں ہر جگہ آگ اور خون کی بارش، ہر جگہ معصوم انسانوں کا قتل عام۔ذرا اس لہو کو دیکھئے…ایک رنگ کا ہے ناں، کسی کا بھی ہو!
آرمی پبلک اسکول کا١٣سالہ انس ممتاز جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کئی دوستوں کے ساتھ اپنی ماں کے خون آلودتڑپتے لاشے کودیکھا، خودبھی ان خونخوار درندوں کی گولیوں کانشانہ بنا،اب ہسپتال سے گھرواپس آگیاہے لیکن رات کوخواب میں وہی خوفناک مناظردیکھ کرچیخیں مارنا شروع کردیتاہے۔اس کاباپ ممتازماہر سرجن اس دن بڑی تندہی کے ساتھ زخمی بچوں کے علاج میں مصروف تھاکہ اچانک اس کااپنابیٹاخون میں لت پت اس کے سامنے لایاجاتاہے،اسے یہ بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ اس قیامت صغریٰ میں تمہاری وفاداربیوی بھی اس دنیاسے رخصت ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجودوہ اب تک دوسرے بچوں کی جان بچانے میں مصروف ہے۔وہ ابھی اپنے صدمے سے نکل کر اپنے بیٹے سے اس بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکا۔انس بہت زیادہ خوفزدہ ہے اور اسے ڈر ہے کہ شدت پسند پھر لوٹ آئیں گے۔ اس کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں پتا کہ یہ افواہ ہے یا سچ کہ پشاور میں چارسودہشتگردداخل ہوچکے ہیں۔مجھے گھر سے نکلتے ہوئے خوف آتا ہے ابھی سے ہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ شدت پسند واپس لوٹ آئیں گے۔وہ دہائی دے رہاہے کہ مجھے ان درندوں سے بچالیں۔
پندرہ سالہ علی نواز جس کی ٹانگوں اور بازوں پر پٹیاں بندھی ہیں،وہ بھی ان خوفناک مناظرکاچشم دیدگواہ ہے لیکن وہ اپنی عیادت کے لیے آنے والے افراداورانٹرویو کے لیے آنے والے صحافیوں سب کامسکراہٹ سے استقبال کرتے ہوئے کہتاہے کہ وہ جلددوبارہ اپنے اسکول جائے گالیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ اس کی کلاس کے تمام دوست تواب اس دنیامیں رہے۔اس کے گھروالے اس کے حوصلے کے سامنے ہارگئے ہیں اوریہ بتانے کی ہمت نہیں کہ اس کااپناسگابھائی جس کاہاتھ تھام کروہ ہر روزاسکول جاتاتھا،وہ بھی سفرِ آخرت پرروانہ ہوگیاہے۔ایسے درجنوں واقعات ہیں جومجھے سونے نہیں دیتے ۔ان بچوں اوران کے لواحقین کوکیابتاؤں کہ یہاں فیصلہ کرنے والے ابھی تک گومگوکی کیفیت میں مبتلاہیں۔اندربیٹھ کراتفاق کرتے ہیں کہ ملک کی سلامتی کیلئے اوراس ملک سے دہشتگردی کے ناسورکوختم کرنے کیلئے ہم سب ایک ہیں مگر جونہی ٹی وی کاکیمرہ دیکھتے ہیں توعجیب وغریب قانونی موشگافیوں کابہانہ بناکربیان داغنا شروع کردیتے ہیں۔خداکی پناہ!دوہفتوں سے زائدہوگئے ہیں اورہم ابھی تک ”اگر،مگریہ اوروہ”کی گردان سے باہرنہیں نکل پائے۔ہم کب تک اپنے شہداء کے خون سے بے وفائی کریں گے؟
بالآخرقوم اوراپنے ادارے کی بے چینی کے پیش نظرفوج کے سپہ سالارکوکہناپڑاکہ”خصوصی عدالتوں کا قیام فوج کی خواہش نہیں لیکن یہ غیر معمولی حالات کی ضرورت ہیں۔ حالات معمول پر آنے کے ساتھ ہی نظام(عدالتی نظام)واپس اپنی اصل حالت میں آجائے گا۔پہلی کل جماعتی کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں پرقائم رہناہوگا اور ہمیں سخت فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔آج کے فیصلے ہماری قوم کی قسمت کا فیصلہ کریں گے اور ہمیں ان پر عملدرآمد پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک نازک مرحلے میں ہے۔ ہم ضرور جیتیں گے، بطور ریاست اور معاشرے کے ہار کا تصور بھی نہیں کر سکتے”۔
ملک کودرپیش خطرات کاآئینہ دکھایاجاتاہے توبظاہر آہیں بھرناشروع کردیتے ہیں،سیمینار سیمینار کرتے ہیں۔سہارا بننے کی بجائے ٹانگیں کھینچتے ہیں ایک دوسرے کی۔ دوسرے کو دھکا دے کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسرے مر جائیں بس ہم زندہ رہیں، بس ہم ۔ ”میں ”کا منحوس چکر۔کیا لوگ ہیں ہم بھی، اسے سادگی نہیں عیاری کہتے ہیں۔اپنے پالن ہار سے بھی دھوکا،منافقت، جھوٹ اورریا کاری۔ہم انتظار کرتے ہیں اپنے رب کا،وہ بھی نیم دلی سے۔اس کی مدد کا،بے یقینی کے ساتھ۔ہمیں اس پر بھروسا ہی نہیں ہے۔اور میرا رب کہتا ہے پہلے تم اترومیدانِ کا رزار میں، پھر دیکھو تماشا، اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھو…پھر دنیا دیکھے گی کیسے اترتے ہیں فرشتے قطار اندر قطار۔پھر سج جائے گا یہ میدان لیکن پہلے تم۔
بس یہی سنتا ہوں اللہ خیر کرے کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ اور خدا بھی تو کہتا ہے تم اپنی مدد کرنے پر تُل جاؤ تب میں تمہاری مدد کو آؤں گا۔تم کچھ کردکھاؤ پھر فرشتے میں اتار دوں گا مدد کو،نصرت کو۔ تم سر سے کفن باندھو، موت کو للکارو،تمہیں زندگی میں دوں گا، ایسی زندگی کہ پھر تمہیں کوئی مردہ نہیں کہے گا۔ ارے ایسی زندگی جو موت کو بھی فنا کے گھاٹ اتار دے گی۔تم مجھ پر بھروسہ کرو۔ پھر میں تمہارا حامی و ناصر بنوں گا۔پہلے تم آؤ اپنی مدد پر،پھر دیکھومیں تمہارے چاروںطرف اپنے فرشتے کھڑے کر کے تمہیں محفوظ کروں گا۔تم پہلے آگ میں کودو۔ارے اس کوگلزار تومیں بناؤں گا۔کر کے تودیکھو،اٹھ کرتو دیکھو…لیکن پہلے تم کچھ کر دکھاؤ۔
اے میرے قوم!کیاکہوں یہ کیوں ہو رہا ہے یہ سب کچھ؟ ہمارے ٹیکسوں سے مزے اڑا رہے ہیں۔یہ اتنے سارے لوگ کس مرض کی دوا ہیں! اویارو،ذرا سوچو،کیوں نہیں سوچتے تم۔چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔کیوں نہیں سوچتے!کان میں روئی ٹھونس کر بیٹھے رہو گے!شتر مرغ کی طرح گردن ریت میں کب تک دئیے رکھو گے!سوچو…خدا کے لیے… … سوچو،کچھ کرو۔
سوداگروں نے فروخت کردیا،سب کچھ بیچ ڈالا ہے۔ہماری کوئی وقعت نہیں ہے۔ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔مردار ہیں ہم اور مردوں کی کوئی
نہیں سنتا۔ کیوں نہیں اس کے محرکات معلوم کرتے…کیوں اس پر نہیں سوچتے ؟یہ ہماری حفاظت کے دعویدار خودتو ہرطرح کے اسلحہ سے لیس محافظوں کے جلوکے بغیرایک قدم نہیں چل سکتے لیکن ہماری حفاظت کیلئے ابھی ایکشن پلان تیارہورہاہے!
ساراشہرہے مردہ خانہ، کون اس رازکوجانے گا
ہم سارے لاوارث لاشیں ،کون ہمیں پہچانے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں