کشمیر میں آگ و خون کا کھیل مسلسل کھیلا جا رہا ہے ہر روز بھارتی درندے بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کر رہے ہیں۔ خواتین کی عزتوں سے کھیلا جا رہا ہے مگر کہیں سے بھی اس ظلم کو روکنے کے لیے با مقصد کوششیں ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ مسلمان آج بے عمل ہے مگر مسلمان قوم نے کبھی بھی کفر کے آگے ہتھیار نہیں پھینکے آج ہمارے لیڈر اپنی سیاست بچانے کیلئے اغیار کے آگے گھٹنوں کے بل گرے پڑے دکھائی دے رہے ہیں مگر عوام کی آنکھوں میں جلتے شعلے کسی وقت بھی بھڑک سکتے ہیں جنت نظیر کشمیر کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی کہ اس میں رہنے والے پچھلی کئی صدیوں سے اپنے حقوق کے لیے کوشاں ہیں اس جنت نظیر کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہی رہی مگر یہاں قبضہ دوسرے مذاہب کا رہا لیکن جب سے متعصب اورمسلمانوں کے قاتل قصاب مودی نے اقتدارسنبھالاہے ،انتہاء پسندہندوؤں کونہ صرف مسلمانوں کوبلکہ بھارت میں بسنے والی ہر اقلیت کومارنے کاگویالائسنس مل گیاہے۔
پچھلی سات دہائیوں سے چھ لاکھ ہندوفورسزنے مقبوضہ کشمیرمیں ظلم وستم کاجوسلسلہ شروع کر رکھاہے ،مودی کے اقتدارمیں آتے ہی وہ ایسابے لگام ہوگیاہے کہ ابھی حال ہی میں کٹھوعہ جموں کے ایک مندرمیں تین دن تک ایک معصوم آٹھ سالہ بچی آصفہ کے ساتھ ظالم اورسفاک ہندوؤں نے نہ صرف اجتماعی زیادتی کاارتکاب کیابلکہ بعدازاں پتھروں سے اس کے سرپرضربیں لگاکرتڑپا تڑپاکرماردیاگیااورانسانیت سوزبے حیائی کایہ عالم کہ جموں میں متعصب ہندوجماعت بی جے پی نے اپنے دوہندووزیروں کی معیت میں ان بدکاروں کی رہائی کیلئے باقاعدہ ایک ریلی نکالی۔ خود مودی کی بے اعتنائی اوربے حسی کایہ عالم کہ جب اس دلدوزواقعے پرساری دنیاسے لعنت ملامت کاسلسلہ شروع ہواتوواقعے کے ۹۳دنوں کے بعدمودی نے اس ظالمانہ واقعہ پرتوجہ دی لیکن حیرت اوراضطراب تواس بات پرہے کہ عالمی ضمیرابھی تک محوخواب ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تنازع کشمیرکاحل خطے اورپھراقوام متحدہ کی سلامتی کیلئے ناگزیراہمیت کاحامل ہے۔پاکستان روزِ اوّل سے ہی کشمیرکاحل اقوام متحدہ کی قراردادں کے مطابق حل کرنے کا خواہاں ہے لیکن بھارت مقبوضہ کشمیرمیں پرامن اورمعصوم بے گناہ کشمیریوں کوبدترین ریاستی تشددکا نشانہ بنارہاہے۔پاکستان سمیت عالمی میڈیانے متعددمرتبہ عالمی برادری کی توجہ مظلوم کشمیریوں پرہونے والے ہولناک مظالم کی طرف دلوائی لیکن اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے کونوں پرجوں تک نہیں رینگ رہی۔بھارتی گجرات میں مسلمانوں کابہیمانہ قتل عام کرنے والے مودی قصاب نے دہلی کے تخت تک پہنچنے کاایساراستہ ہموارکیاکہ اب وہ بھارت میں موجوداقلیتوں پرظلم وستم ڈھاکراورمقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کاقتل عام کرکے ۲۰۱۹ء میں مزیدپانچ سال کیلئے اقتدارکے حصول کیلئے کوشاں ہے۔
بھارتی فوج مقبوضہ کشمیرمیں ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کوشہیدکرچکی ہے جس میں اکثریت نوجوانوں اورخواتین کی ہے۔بھارتی فوج نے جنسی تشددکوبطورجنگی ہتھیارکے استعمال کرنا شروع کردیاہے جس کاثبوت کشمیرمیں گیارہ ہزارسے زائدخواتین کاقابض بھارتی فورسزکے ہاتھوں زیادتی کانشانہ بنناہے۔صرف اسی پراکتفانہیں بلکہ بھارتی درندے معصوم کشمیری بچیوں کوبھی زیادتی کانشانہ بنارہے ہیں۔رواں سال جنوری میں آٹھ سالہ معصوم آصفہ کوزیادتی کانشانہ بنانے کے بعدپہلے توریاستی اداروں نے اس مکروہ فعل کوبزور طاقت دبائے رکھااورحکمراں جماعت کے غنڈے ملزمان کے حق میں مظاہرے کرتے رہے بلکہ نریندرمودی اورمقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے بھی ملزمان کوبچانے کی سرتوڑ کوششیں بھی کیں لیکن جب عوامی ردّ ِ عمل شدت اختیارکرگیاتومودی سرکارکو بہ امرمجبوری اس کاتذکرہ محض اس لئے کرناپڑاکہ دولت مشترکہ کی کانفرنس میں شرکت کیلئے برطانیہ آنا ایک مجبوری تھاجہاں یقیناً اس گھناؤنے جرم کی کالک ان کاپیچھاکررہی تھی۔
مقبوضہ کشمیرکے عوام پرآئے دن نت نئے مظالم ڈھائے جارہے ہیں لیکن برہان وانی کی شہادت کے بعدنوجوان نسل نے جس طرح بھارت کولوہے کے چنے چبوائے ہیں ،وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اب بھی نہ صرف کشمیری نوجوان نسل اپنی جانوں کی قربانیاں دیکرکشمیرکی تحریک آزادی ٔکو کامیابی سے ہمکنارکرنے میں کوشاں ہے بلکہ بھارت کی دیگرریاستوں سے مسلم نوجوانوں کی بھی عملاً کشمیرکی مسلح جدوجہدآزادی میں شرکت کی اطلاع نے بھارتی قابض فورسزکوحواس باختہ کردیاہے ۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں ہوجائی ضلع کے رہائشی چوبیس سالہ قمرالزمان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ ان کے ہاتھ میں بندوق ہے اور عنوان میں انہیں ڈاکٹر ہریرہ کے کوڈ سے متعارف کرکے انہیں حزب المجاہدین کا رکن بتایا گیا ہے۔ آسام کے ایک آسودہ حال خاندان سے تعلق رکھنے والے قمردراصل گزشتہ برس جولائی سے گمشدہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی مسلح تصویر کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی والدہ شاہدہ خاتون نے کہا ہے کہ یہ ان ہی کا بیٹا ہے، جو۱۲سال قبل امریکا سے انگریزی میں اعلی ڈگری حاصل کرکے لوٹے تھے۔ قمر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ تین سال قبل وہ ملبوسات کی تجارت کے لیے کشمیر گیا تھا لیکن گزشتہ برس سے گمشدہ ہے۔ آسام کے پولیس افسر پلب بھٹہ چاریہ نے کہا ہے کہ انہوں نے جموں کشمیر پولیس کو مطلع کیا ہے، تاہم ابھی تک کشمیر پولیس نے اس بات کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم پولیس کے ایک اعلیِ افسرنے نام مخفی رکھنے پر بتایاکہ کچھ اشارے ملے ہیں، لیکن مکمل معلومات کے بعد ہی اس کی سرکاری طور تصدیق کی جائے گی۔ اس سے قبل مارچ میں جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع میں مسلح تصادم میں سالہ توفیق احمد مارے گئے، جن کی شناخت تیلنگانہ ریاست کے رہائشی کے طور ہوئی۔ دس سال قبل بھی ایک بھارتی مسلم نوجوان یہاں ایک تصادم میں مارا گیا۔گزشتہ تین سال سے کشمیر میں مسلح شورش کی نئی لہر کے بعدقمرالزمان اور توفیق جیسے بھارتی مسلم نوجوان کشمیر کی مسلح تحریک میں شامل ہورہے ہیں۔ پولیس اور فوج نے پہلے ہی اس پر تشویش کااظہارکیاہے۔
مبصرین کاکہناہے کہ بھارت کی سیاست پربی جے پی کے غلبے اوراس کے بعدمسلمانوں کے ساتھ ہوئی زیادتیوں نے بھارتی مسلمانوں میں انتقامی جذبہ پیدا کیا ہے ۔مصنف اور کالم نویس پی جی رسول کہتے ہیں “یہ بہت سنگین صورتحال ہے۔ ابھی تو بھارتی مسلمان کشمیر میں اپنا غصہ دکھا رہے ہیں، اگر خدانخواستہ وہ بھارتی دوسری مسلح تحریکوں جیسے نکسلیوں یا ماو نوازوں کے ساتھ مل گئے تو غضب ہوجائے گا۔ کشمیر کو مسلح تشدد کے لیے زرخیز رکھنے میں بھارت کی نئی پالیسیوں کاعمل دخل ہے۔اگر کشمیر میں حکومت ہند سنجیدہ امن عمل شروع کرتی اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرتی تو یہ جگہ میدان جنگ نہیں بنتی۔ بھارتی مسلم نوجوانوں کا تشدد کی طرف مائل ہونے کا رحجان ابھی بہت سست ہے، تاہم بھارتی مسلمانوں میں بھی اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ یہاں کے اکثر حلقے اس رجحان کے لیے حکومت کی خالص سیکورٹی پالیسی کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کہتے ہیں کشمیریوں کو مارنا اور ان کے قتل میں ملوث فوجیوں کو تمغے دینا نئی پالیسی ہے۔ اور اس پالیسی کو میڈیا میں قومی مفاد کہا جارہا ہے۔ کشمیر میں بھی مسلمان ہیں۔ یہ سب بھارتی مسلمان دیکھ رہا ہے، اسے عدم تحفظ کا احساس ہے اور وہ سمجھتا ہے کشمیر کے بعد اس کی باری ہے۔ ظاہر ہے نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور پھر کشمیر میں تشدد کا ماحول ہے وہ یہاں اپنے جذبات کا اظہار کرنے آجاتے ہیں۔
لیکن افسوس تواس بات کاہے کہ ۵۷/اسلامی ممالک نے بھارت کے ظلم وستم پرچپ سادھ رکھی ہے جبکہ اوآئی سی پہلے ہی لمبی تان کر سورہی ہے۔ رہی بات اقوام متحدہ کی تواس نے بھی چندروزقبل یہ کہہ دیاہے کہ بھارت ان کی ثالثی قبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہے گویااقوام متحدہ نے یہ کہہ کرپلو جھاڑلیاہے کہ آج کے بعد ہماری ان منظورشدہ قراردادوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں گویایہ اقوام متحدہ نے خودہی اپنی بے توقیری کااعلان کردیا ہے یاپھراپنی منافقت کااظہارکردیاہے،جس کے بعدعالمی امن کیلئے کئی خطرناک پہلوابھرکرسامنے آگئے ہیں۔
بھارت بڑی عیاری وچالاکی سے مسئلہ کشمیرکوخودہی اقوام متحدہ میں لیکر گیاتھا۔اسے اس بات کااندازہ ہوچکاتھاکہ وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اس مسئلے کوطول دے سکتاہے۔ ۲۱/اپریل ۱۹۴۸ءکوبرطانیہ،بلجیم،کینیڈا،کولمبیااورامریکاکی قراردادوں پراقوام متحدہ نے استصواب رائے کیلئے منتظم مقررکرنے کی منظوری دی لیکن اقوام متحدہ نے استصواب رائے کیلئے کوئی نمائندہ مقررنہیں کیا۔ابھی حال ہی میں وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ سے کشمیرکیلئے نمائندہ خصوصی مقررکرنے کامطالبہ کیاتھا۔نمائندہ مقررکرنے کامقصدماسوائے اس کے کچھ نہیں کہ کشمیریوں کی حالت زار کوبہتربنانے اوراقوام متحدہ کوان کے بارے میں آگاہ کرتارہے لیکن اقوام متحدہ اس پربھی لیت ولعل سے کام لے رہی ہے حالانکہ اقوام متحدہ نے افغانستان کیلئے نمائندہ خصوصی مقررکئے رکھا۔اگرایساہی نمائندہ کشمیرکیلئے بھی مقررہوجائے توبھارتی فوج نے کشمیریوں پرجوعرصۂ حیات تنگ کر رکھاہے اس سے انہیں نجات مل جائے گی لیکن اقوام متحدہ اس جانب توجہ دینے کوہی تیارنہیں۔
کشمیرکامسئلہ ستربرس سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرحل طلب ہے جبکہ کشمیرکے بعداس سے ملتے جلتے مسائل جب اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آئے تواسے فوراًحل کردیاگیا۔ سوڈان کامسئلہ بھی مسئلہ کشمیرکی طرح تھالیکن اس میں بنیادی فرق صرف یہ تھاکہ وہاں عیسائی لوگ آزادی مانگ رہے تھے جس پرعالمی برادری فوراً بیدارہوگئی اورسوڈان کی تقسیم کا اعلان کردیاگیا۔سوڈان ۱۹۵۶ءمیں آزادہواتھاجبکہ اس کی تقسیم کا اعلان۲۹ جولائی۲۰۱۱ء کوکردیاگیا۔مشرقی تیمورنے نومبر۱۹۷۵ء میں پرتگال سے آزادی حاصل کی لیکن انڈونیشیاکے قبضے میں جانے کے بعدمشرقی تیمور کے لوگوں نے علیحدگی کیلئے اقوام متحدہ کے دروازے پردستک دی جس پراقوام متحدہ نے ایکشن لیااور۲۰مئی۲۰۰۲ء کومشرقی تیمورعلیحدہ ہو گیا۔ مشرقی تیموراورسوڈان کے ساتھ مقبوضہ کشمیرکی مماثلت پائی جاتی ہے ان دونوں میں جس طرح انسانیت کاقتل عام ہوا،اس سے کہیں زیادہ بدترین طریقہ کشمیرمیں جاری ہے۔
بھارت یہاں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہاہے جس کی عالمی سطح پرکوئی شنوائی نہیں ہورہی،آخرعالمی برادری کوکشمیرمیں اس قدربیدردی سے بہتاہواخون کیوں نظرنہیں آتا؟بھارتی درندہ صفت فوج یہاں ہزاروں خواتین کی عزتیں پامال کرچکی ہے ،کئی ماؤں کے لخت جگر، بہنوں کے بھائی اورہزاروں کواتین کے سروں کے سہاگ چھن چکے ہیں لیکن اقوام متحدہ نے اپنی آنکھیں بندکررکھی ہیں۔افسوس تواس بات پرہے کہ انسانی حقوق کاڈھونڈورا پیٹنے والی تنظیموں نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیارکررکھی ہے۔پیلٹ گنوں کے آزادانہ استعمال سے سینکڑوں نوجوان بچے ،بچیاں اپنی بینائی سے محروم اورہزاروں شدیدزخمی ہوچکے ہیں لیکن نجانے کیوں اقوام متحدہ مذمت کاایک لفظ تک کہنے سے ہچکچارہی ہے۔ آخراقوام متحدہ اپنے تشکیل کے مقاصدکوکیوں فراموش کررہی ہے اوراپنے کن آقاؤں کوخوش کرنے کیلئے ان کی لونڈی بن کر انسانیت کے ان مجرموں کی پشت پناہی کررہی ہے ۔
آرمی چیف جنرل قمرباجوہ نے ۱۳۷ویں لانگ کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈسے خطاب میں اقوام عالم پرواضح کیاہے کہ اگرآپ اس خطے میں امن و
سکون چاہتے ہیں تومسئلہ کشمیرحل کرنا ہوگا۔پاک فوج نے خطے میں امن وامان قائم کرنے کیلئے لازوال مال وجان کی قربانیاں دی ہیں اورتمام چیلنجز کامنہ توڑجواب دیکرملک میں امن وامان قائم کیاہے اوراب بھی مسلسل بہادری کے ساتھ اپناکرداراداکررہاہے ۔ اب اگردشمن اوچھے ہتھکنڈوں سے امن کوخراب کرنے کی کوشش کرے گاتواسے منہ کی کھاناپڑے گی کیونکہ پاک فوج نے جو قربانیاں پیش کی ہیں وہ انہیں ہرگزضائع نہیں ہونے دے گا۔بھارت بلوچستان ،کراچی اورملک کے دیگرحصوں میں شرپسندوں کی سرپرستی کرکے ایک بارپھرخطے میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہاہے،اس کامقصدصرف مسئلہ کشمیرسے توجہ ہٹانااورمظلوم کشمیریوں کی حمائت سے دستبردارکراناہے۔یہ بھارت کی خام خیالی ہے ،ہم کشمیریوں پرہونے والے مظالم پرکبھی بھی خاموش نہیں رہ سکتے۔پاکستان یہ سازش کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دے گالہنداوقت آگیاہے کہ عالمی برادری آگے بڑھے اورمسئلہ کشمیرکوحل کرکے برصغیر میں پائیدارامن کیلئے مثبت کرداراداکرے اوراس طرح کہ ماضی کی اپنی کوتاہیوں کابھی ازالہ کر دے۔