آخری قسط
آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی دنیاکی چوتھی بڑی آف شور لاء فرم موساک فونسیکاکی افشاہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات میں آف شور (بیرونِ ملک)کمپنیوں اوراکاؤنٹس کاذکرباربارآیاہے۔آف شور اکاؤنٹس ہیں کیااوران کاکیسے استعمال کیاجاتاہے ؟آف شورکی اصطلاح ایسے بیرونی بینکوں کارپوریشنز،سرمایہ کاری اورکھاتوں کے بارے میں کہی جاتی ہے جوسمندرمیں واقع جزائرسے استعمال کئے جارہے ہوں ۔ایسی کمپنیوں واکاؤنٹس استعمال کرنے والوں کوحاصل سہولت کامقصدذرائع آمدنی دریافت نہ کرناہے۔ اس کاستعمال دومقاصدکیلئے کیاجاتاہے،جس کامقصد ٹیکسوں سے بچنااوردولت چھپاناہے۔قانونی طریقے سے بھی آف شورکھاتے کھولے اورکمپنیاں قائم کی جاسکتی ہیں جس کا مقصد ٹیکسوں کی کم شرح اورڈھیلے ڈھالے قواعدسے لطف اندوزہوناہے۔آف شوربینک اکاؤنٹس ودیگرمالی لین دین ،ٹیکسوں ومالی جانچ پڑتال سے بچنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں ۔کوئی بھی شخص یاکمپنی اس مقصدکیلئے شیل(غیرفعال)کمپنیوں کااستعمال کرتی ہے جن کے ذریعے ملکیت اورفنڈزکی معلومات کاچھپایاجاتاہے۔
آف شورکمپنیوںاورکھاتوں کیلئے پاناماکے من وبرموداجزائرکودنیاکی جنت سمجھاجاتاہے۔ہانگ کانگ اورسنگاپورکومڈآف شورکہاجاتاہے ۔دنیا بھر میں ایسے درجنوں چھوٹے مقامات ہیں جہاں ٹیکس کی شرح انتہائی کم ہے اوران کے پاس غیرملکی کمپنیوں کیلئے سرمایہ کاری وکاروباری سروسزمیں مہارت ہے۔منی لانڈرنگ پرنظررکھنے والے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطابق بیرونِ ملک قائم ہونے والی کمپنیوں اورٹرسٹس کے آف شوراکاؤنٹس،بزنس فنانس وٹیکس کے شعبوں کیلئے قانونی طورپر استعمال کرسکتی ہیں۔
عالمی ماہرین معاشیات نے پاناماپیپرزکی دستاویزات کے تفصیلی جائزے کے بعدکہاہے کہ آف شورلاء فرم موساک فونسیکاکے ذریعے محفوظ بنائی گئی خفیہ دولت کی مالیت۷۶۰/ارب ڈالرہے۔صرف ایک فرم نے ۲۴ہزارسے زائد آف شورکمپنیاں بنا کر دنیاکی کل دولت کی آٹھ فیصد کے مساوی رقم محفوظ بنائی ۔اطلاعات کے مطابق آف شورکمپنیوں کے ذریعے اسلحہ،منشیات کے سوداگروں کی دولت کی دھلائی کی گئی۔موساک کے ریکارڈ کے افشاکے بعددنیابھرکی حکومتوں نے اپنے شہریوں اوربااثرافرادکے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔یورپی ممالک نے اپنے بینکوں کے مالیاتی لین دین کی چھان بین شروع کردی ہے۔خفیہ دولت بیرونی ممالک میں رکھنے کی خفت سے دوچارعالمی رہنماؤں اور سیاستدانوں نے کچھ غلط نہ کرنے کاراگ الاپناشروع کردیا ہے۔موساک فونسیکاکے صارفین میں بھارت اورسویڈن کے شہریوں کی تعداد۵۰۰/۵۰۰ہے۔
روسی صدرولادی میر پیوٹن کے ترجمان دمتری پیسکووف کاکہناہے کہ عالمی میڈیاروس کی کامیابی سے گریزکرتاہے لیکن پیوٹن فوبیاکے باعث کچھ نہ ہونے کے باوجودکچھ بھی گھڑلیاجاتا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاناماپیپرزمیں امریکی محکمہ خارجہ سی آئی اے اوردیگرانٹیلی جنس اداروں کے سابق اہلکاروں کے نام بھی شامل ہیں۔آذربائیجان کے صدارتی ترجمان نے صدرکے بچوں کے آف شوراکاؤنٹس پرکہاکہ وہ بالغ شہری ہیں،ہرشخص کاروبار کاحق رکھتاہے لیکن اس کے باوجودیوکرائنی صدرنے تحقیقات مکمل ہونے تک اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیاہے۔یوکرائنی صدرپیٹروپور شینکونے اپنی آف شورجائیدادوں کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔یوکرائن کے وزیراعظم نے صدرکے خلاف تحقیقات کا اعلان کردیاہے ۔ اپوزیشن نے صدرکے مواخذے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ۲۰۱۴ء میں یوکرائن کے صدر نے روس کے حامیوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران اپناکنفکیشنری کا کاروباربیرونِ ملک منتقل کردیاتھا۔
افشادستاویزات کے مطابق سابق وزیراعظم بے نظیربھٹونے۲۰۰۰ء میں شارجہ میں پیٹروفائن زیڈسی نامی کمپنی بنائی جبکہ۷ستمبر ۲۰۰۱ء میں ایک آف شورکمپنی پیٹرولائن انٹرنیشنل انکارپوریشن بنائی تھی۔اس کمپنی کااداشدہ سرمایہ محض پچاس ہزارڈالرتھااورفی حصص قیمت ایک ڈالرتھی۔۲۸ ستمبرکوکمپنی کے ڈائریکٹراورشیئرہولڈرزکے طورپرنام اس وقت سامنے آیاجب موساک فونسیکاکی برطانوی شراکت دارکمپنی کوموساک فونسیکا نے پیٹرولائن انکارپوریشن کے۱۷ہزارشیئرزیعنی۳۴٪بے نظیربھٹوکے نام جبکہ۳۳/۳۳ ٪یعنی ساڑھے سولہ ہزارحصص بے نظیرکے قریبی ساتھی رحمان ملک اوربھانجے علی حسن جعفری کے نام جاری کرنے کیلئے کہا تھا۔پیٹروفائن ایف زیڈسی نامی کمپنی کے ڈائریکٹرزبھی یہی تین لوگ تھے اور یہاں بھی ان کے شیئرزاسی تناسب سے تھے۔ اسی مثلث نے اقوام متحدہ کی عائدکردہ پابندیوں کے ایام میں ”تیل برائے غذا”پروگرام کے تحت ساڑھے گیارہ کروڑڈالر اور ساڑھے چودہ کروڑڈالرمالیت کے ٹھیکے لینے کیلئے سابق عراقی صدرصدام حسین کوبیس لاکھ ڈالربطوررشوت دی تھی۔
امریکی فیڈرل ریزروکے سابق سربراہ پال والکرکے ذریعے کی جانے والی اقوام متحدہ کی خصوصی تحقیقاتی کمیٹی نے مشرف دور میں انکشاف کیاتھا کہ یہ رشوت پیٹروفائن ایف زیڈسی کے ذریعے دی گئی تھی۔پاکستان میں اس وقت کے نیب کاکہناتھاکہ آف شورکمپنی بے نظیربھٹوکی ملکیت ہے تاہم پیپلزپارٹی اوربے نظیرنے ان الزامات کی تردیدکرتے ہوئے اسے سیاسی سازش قراردے دیاتھا۔موساک فونسیکانے سیاسی طورپرحساس سمجھے جانے کے باعث بے نظیربھٹوکی ورجن آئی لینڈکی آف شورکمپنی پیٹرولائن انٹرنیشنل انکارپوریشن کوبطور کلائنٹس قبول کرنے سے انکارکردیاتھا۔ ادھر سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک نے اپنے ایک بیان میں پانامالیکس کوجعلی اورمن گھڑت قراردیتے ہوئے اسے ”را”کی سازش قراردے ڈالا کہ اس رپورٹ کامقصدبے نظیراوران کی ساکھ پہنچاناہے اوراس قسم کی جعلی رپورٹ۲۰۰۶ء میں بھی شائع ہوئی تھی مگراب واضح ثبوت سامنے آنے کے بعدبے نظیر بھٹو کی کمپنی میں سرمایہ کاری کااقرارکرلیاہے۔
پانامالیکس کے انکشافات کے بعدضروری ہوگیاہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کے دوران اپنی بے گناہی کا جوطرزِ عمل اختیار کیاہے اس کی واضح شفاف تحقیق ایسی ہو جس سے نہ صرف سای قوم بلکہ عالمی طورپربھی اس کی مثال دی جاسکے۔اپوزیشن جماعتیں یقیناپیالی میں طوفان برپاکرنے کیلئے شب وروزاپنے بیانات سے دباؤبڑھارہے ہیں اور عمران خان نے توایک مرتبہ پھران دنوں دوسری سیاسی جماعتوں کواپنے ساتھ شامل ہونے کی عملی دعوت دیکروزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ رائے ونڈکے سامنے دھرنادینے کاچیلنج دے دیاہے اورملک کے تمام تاجرانتہائی پریشان ہیں کہ بڑی مشکل سے ملکی معیشت ایک بہترسمت کی طرف گامزن ہورہی ہے اورکہیں ایسانہ ہو اس ملک کی صنعتی ترقی کاپہیہ نہ صرف جام بلکہ تنزلی کی جانب لڑھکناشروع ہوجائے۔
اس وقت ہرشخص کے ذہن میں یہ خدشہ ہے کہ آف شورکمپنیوں میں غیرقانونی،ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ اورچوری کادھن چھپاکررکھاجاتاہے ، اسی لئے دنیابھرمیں پانامالیکس میں افشاہونے والی تمام شخصیات کے خلاف تحقیقات کاعمل شروع ہو چکا ہے اوراب تک تین ممالک کے سربراہ اپنے عہدوں سے مستعفی بھی ہوچکے ہیں کہ ان لیکس نے دنیابھرکے افرادکی چھپائی ہوئی دولت کارازثبوتوں کے ساتھ طشت ازبام کردیاہے۔ان انکشافات کے بعدآسٹریلیا،ہانگ کانگ ،فرانس،یوکرائن اوردیگرکئی ممالک میں باقاعدہ تحقیقات کا آغازشروع ہوگیاہے۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون کواپنے آنجہانی والدکانام بھی پانامالیکس میں سامنے آنے پرشرمندگی کاسامناہے اوراپوزیشن بھی ان کے خوب لتے
لے رہی ہے جبکہ ڈیوڈکیمرون کاکہناہے کہ آف شورکمپنی سے تعلق ان کے والدکاذاتی مسئلہ تھا۔یہ انکشافات اس موقع پرسامنے آئے ہیں جب ڈیوڈ کیمرون اگلے مہینے عالمی لیڈروں کی کانفرنس کی میزبانی کرنے والے ہیں جس میں ٹیکس چوری اورخفیہ دولت کے خلاف لائحہ عمل بنایاجائے گا۔ برطانیہ میں حکومت پراپنے زیرانتظام جزائرآئسل آف مین ،جورنسی ،سیشلزوجرسی میں خفیہ دولت کاارتکازروکنے کیلئے سخت قانون سازی کیلئے دباؤ بڑھ گیاہے۔
پانامالیکس سامنے آنے پرآسٹریلیااورنیوزی لینڈنے باقاعدہ جدیدسائنسی اندازمیں تحقیقات کاآغازکردیاہے ۔آسٹریلیاکے ٹیکس حکام نے آٹھ سو شہریوں کے بارے میں تحقیقات شروع کردی ہیں۔نیوزی لینڈکی ٹیکس ایجنسی نے آف شورلاء فرم موساک فونسیکاکے وابستہ اپنے تمام شہریوں کولائن حاضرکرنے کے سمن جاری کردیئے ہیں۔قانونی ماہرین نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت چھپانے کوبہت بڑاجرم قراردیاہے۔ٹیکس ماہرین کاکہناہے کہ اگرکسی نے پاکستان میں ٹیکس ادانہیں کیااوررقم باہرلے گیاتو اسے قانون کی گرفت میں لیا جاسکتاہے۔مختلف ممالک میں مختلف قوانین ہیں،آف شور کمپنیاں عموماًان ممالک میں بنائی جاتی ہیں جہاں ٹیکس لاگونہیں ہوتا۔ آف شور کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کیلئے کالے دھن کو سفیدکرنے کیلئے بنائی جاتی ہیں،تاہم ان کی ملکیت چھپانابہت بڑاجرم ہے۔
پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت دن رات ملکی ترقی کیلئے غیرملکی سرمایہ کاروں کی منت سماجت کررہی ہے توپھران کی اپنی اولاداور دیگرسیاستدان اپنی دولت کوواپس لانے سے کیوں گریزاں ہیں۔انہیں فوری طورپرایک پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیناہوگی جس میں اپوزیشن کے ارکان کوشامل کرکے سپریم کورٹ سے اس سارے معاملے کی شفاف تحقیق کیلئے درخواست دیناہوگی جس کویہ اختیارہوکہ وہ عالمی فورنزک ماہرین کی امدادسے اس سارے معاملے کی شفاف تحقیق کرائے اوراس بات کا کھوج لگایاجائے کہ ملکی دولت کوان آف شورکمپنیوں میں کس طرح منتقل کیاگیااوراس کمیشن کویہ حق بھی دیاجائے کہ ثابت ہونے پریہ تمام دولت بحق سرکارضبط کرکے ملکی خزانے میں جمع کروائی جائے اوران تمام افرادکو ایسی کڑی سزادی جائے کہ آئندہ کسی کواس عمل کودہرانے کی جرأت نہ ہو۔
شنیدہے کہ وزیرعظم نوازشریف لندن میں موجودآصف علی زرداری سے اپنی مہربانیوں کےصلہ کی تمناکامطالبہ کریں گےلیکن اس مشکل سے نکلنے کاواحدراستہ یہی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کمیشن کوبتائیں کہ ان کے بچوں کے پاس اتنے اثاثے کہاں سے آئے ،پیسہ باہرکیسے گیااورباہرمنتقل کئے گئے پیسے پرٹیکس دیاگیایانہیں؟نواز شریف اگراس امتحان سے کامیاب اورسرخروہوکرنکل گئے توپاکستان کی تاریخ انہیں ایک مسیحاکے طورپریاد رکھے گی وگرنہ عقبیٰ وآخرت کی رسوائی سے پہلے اسی دنیاکااندھاتاریک غارنگلنے کیلئے تیارہے!