میں بہت بولتاہوں۔سب لوگ میرا منہ تکتے رہتے ہیں۔میں کسی کوموقع ہی نہیں دیتاکہ وہ بھی کوئی بات کرے۔ لوگوں کوگرفت میں لینے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ میں یہ بھی نہیں دیکھتاکہ میرامخالف کون ہے۔ بڑاہے،چھوٹا ہے،مردہے،عورت ہے،بچے ہیں۔ بس بلاتکان بولتا رہتاہوں۔ ہاں میں نے بہت مرتبہ پڑھا ہے ”جوخاموش رہاوہ نجات پاگیا ” لیکن میں نے اس پرکبھی عمل نہیں کیا۔ شاید کرہی نہیں سکتا۔ خود پسندی اوراپنی فوں فاں میں مگن،اپنے خیالات کااسیراور اپنی چرب زبانی پر نازاں۔
ایک دن میرے ایک بہت ہی پیارے بابے نے مجھ سے ایک عجیب سی بات کی’’دیکھ پگلے توبہت بولتاہے۔ محفل کودیکھ کربات کیاکر۔جس نے دیکھانہیں اُسے کیا دکھانا۔ ہنساکر، ہنسایا کر۔ لیکن ہربات ہرایک سے نہیں کرنی۔دیکھ توآنکھیں،کان کھلے اوراپنی زبان بندرکھ۔ تنہائی سے بات کر،محفل میں خاموش رہ،اکیلے میں محفل سجا اورمحفل میں تنہا ہوجا۔‘‘
”واہ ،واہ کیا بیکارسی بات کی آپ نے،اچھا،کوئی کام کی بات بتایا کریں۔ خوامخواہ کی بات” میں نے انہیں خاموش کردیا۔
”او ٹھیک ہے،ٹھیک ہے پگلے، تیرا اچھا بھی راہ پرآئے گا۔”
کتنی بدنصیبی ہے، میں اب تک گمراہ ہوں۔کتنی عجیب سی بات ہے،میں کچھ نہیں جانتااورجاننے کادعوے دار ہوں۔ میں اپنے جہل کوعلم کہتاہوں، چرب زبانی کو ذہانت، مکاری کو اخلاص،ہوس کومحبت،چالاکی کو ہنر،دھوکے کوکمال،کراہت کوجمال،اداکاری کوہتھیارسمجھتا ہوں۔میں ڈرا ہوا ہوں،سہماہواہوں،خوفزدہ ہوں لیکن خودکوبہت بہادر سمجھتاہوں ۔ میری نیت کچھ اورہے اورعمل کچھ اور۔میں صرف اپنی محبت میں گرفتار ہوں اورخود کوآزادسمجھتاہوں۔ میں اپنے نفس کی پیروی کرتاہوں اورسمجھتاہوں کہ میں رب کابندہ ہوں۔
میں رب سے محبت کادعویٰ کرتااورمخلوق کے لئے آزاربنارہتاہوں۔ میرا رونا مکرکا رونا ہے۔ میرے آنسو فریب ہیں۔میری ہمدردی دکھاواہے۔ میرا ایثار تجارتی ہے۔ میرا خلوص بازاری ہے۔ میں مجسم فنکاری ہوں۔ تاجراورنراتاجر، جوجمع تفریق کرتارہتاہے،مکروفریب کی دنیاکا باسی،ہوس نفس کاپجاری۔میں کسی کے کام نہیں آتا اور توقع رکھتاہوں کہ لوگ میرے حضور دست بستہ کھڑے رہیں۔ میں سب کے حقوق غضب کرکے بھی اپنے حقوق کاطلبگارہوں۔میں دوسروں کو ان کے فرائض یاددلاتا رہتا ہوں اور اپنے فرائض کو بھول گیاہوں۔
میں نے نصیحت کرنے کاآسان کام اپنے لئے منتخب کرلیاہے اور اس پرعمل کرنے کا مشکل کام مخلوق کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔ میں کالم اس لئے نہیں لکھتا کہ اس سے خلق خدا روشنی پائے۔میں یہ اس لئے لکھتاہوں کہ مجھے اس سے شہرت مل جائے،اور ناموری کامجھے چسکا لگ گیاہے۔ میں چاہتاہوں کہ لوگ میری بات سنیں چاہے میں ان کی کوئی بات بھی نہ سنوں۔ میں اوروں کوآئینہ دکھاتارہتاہوں اورکوئی مجھے آئینہ دکھائے تو منہ سے جھاگ اڑانے لگتاہوں۔اب توالیکٹرانک میڈیامیں بھی میری شکارگاہ قائم ہوچکی ہے جہاں میری بے مہارگفتارکی بندوق بلاتامل مخالفین کے سروں کانشانہ لیکرچیتھڑے اڑانے میں ایک لذت محسوس کرتی ہے ۔اس کے باوجودمیں اس عوام سے توقع رکھتاہوں کہ مجھے راست گو دانشورسمجھتے ہوئے مجھے اپنی محفلوں میں مہمان خصوصی کے طورمدعوکریں جہاں میں لوگوں کویہ درس دیتا ہوں کہ تم کواس ملک نے کیادیاجبکہ میں نے تواپناحق اس ملک اورمعاشرے سے بزورطاقت چھیناہے۔ہے ناں عجیب سی بات!
میں خودکوبہت باعلم اورلوگوں کومجسم جہل سمجھتاہوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب میں کسی تقریب میں جاؤں توسب لوگ میرے احترام میں کھڑے ہوجائیں اوراگرکوئی میرے پاس اپنا دکھ بیان کرنے آئے تومیں مصروفیت کوخود پراوڑھ کراسے چلتاکردوں۔معصوم ومظلوم انسانوں کے چہروں پراداسی ناچ رہی ہو،بھوک نے انہیں بنجر بنادیاہو،وہ دربدر خاک بسرہوں مگرمیں اپنی دانش وری کا کما ل د کھارہاہوں اورپھربھی انسانیت کے دکھوں کاپرچارک بناہواہوں۔ وہ رت جگے کررہے ہوں اور میں چین سے سوتارہوں۔ وہ اپنے جائز کاموں کے لئے خوارہورہے ہوں اور میرے ایک فون پرسارے کام ہوجائیں۔ وہ دھوپ میں لائن لگاکرکھڑے ہوں اور میں اندر جاکر افسر سے چائے پی کراپناکام کروا لوں۔ عجیب سی بات ہے ناں۔
میں سیمینار پرسیمینار سجائے چلاجارہاہوں۔ منرل واٹر پیتاہوں۔ یخ بستہ پنج و ہفت ستارہ ہوٹلوں میں طعام وقیام کرتاہوں۔ لگژری گاڑی میں سفرکرتا ہوں اور روناروتا ہوں مفلوک الحالوں کا۔میں نے آج تک فاقہ نہیں کیا اور فاقہ زدوں کادکھ لکھتاہوں۔میں نے غربت دیکھی تک نہیں اور غریبوں کاہمدرد بناپھرتاہوں۔جمہوریت کے نام پر پریس کی آزادی کاخوب فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے بخئے ادھیڑکراس معصوم عوام کے دلوں میں ہمدردی کی جوت جگاتاہوں لیکن درپردہ اپنی جبینِ نیازانہی کے حضور جھکاکر اپنے سارے کام کرواتاہوں۔ حکومت وقت کے خلاف میرے الفاظ نرے لفظ ہیں،بے روح لفظ۔میں لایعنی تحقیق میں لگارہتاہوں۔ میں زندہ مسائل کونظرانداز کرکے اپنے قاری کو فضول مباحث میں الجھائے رکھتاہوں۔ اس لئے کہ کہیں اصل مسائل کی طرف اس کی توجہ نہ چلی جائے اوروہ اس انسان کش نظام کے خلاف اٹھ کھڑا نہ ہو۔ عجیب ہوں ناں میں۔
میں خوددوغلاہوں اور، اوروں کومنافق کہتاہوں۔ میں نے اپنے ضمیر کا سودا کرلیا ہے، میرے اندرسے بدبوکے بھبکے اٹھ رہے ہیں اور میں اوپرسے خوشبو لگائے پھرتا ہوں ۔ میں اپنے اندر کے انسان کوسولی دے چکاہوں۔ میں خوبصورت لباس میں درندہ ہوں۔ میں صرف خود جینا چاہتاہوں۔ مجھے لوگوں سے کوئی سروکارنہیں ہے۔ مجھے اپنا پیٹ بھرنا ہے، مجھے بھوکوں، ننگوں ،ناداروں،مفلسوں سے کیا لینادینا۔
میں زرداروں کے آگے بچھاجاتاہوں اورکوئی نادار سلام کرے تومجھے ناگوار گزرتا ہے۔ میں سماجی بہبود کے کام اس لئے نہیں کرتاکہ مجھے یہی کرنا چاہئے بلکہ اس لئے کرتاہوں کہ میری واہ واہ ہو۔ میں اپنی تعریف سن کرنہال ہوتارہتاہوں۔میں نے بھی سوچ لیاہے کہ جس ملک نے مجھے یہ ساری راحتیں اورنعمتیں عطاکی ہیں،اب ایک قدم اورآگے بڑھ کر میں بھی ان انقلابیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑاہوکررونمائی کاشرف حاصل کروں۔ میں نے فیصلہ کرلیاہے کہ اپنی زبان وقلم کے توسط سے ان کے گلے کاہاربنوں جواس عوام کوآزادی کے نام پرانقلاب کی نویدسنارہے ہیں۔
لیکن میں یہ بھول گیاہوں کہ اصل کوبقاہے۔ جعل سازی کبھی پنپ نہیں سکتی۔ بار آور نہیں ہوسکتی۔کوئی انقلاب نہیں لاسکتی۔ سفرکیلئے جیٹ طیارہ ،سینکڑوں کنال کا گھر ،لاکھوں روپے کے یومیہ اخراجات،گھرکے دالان میں کروڑوں روپے کی گاڑیوں کاایک اسکواڈہروقت تیار،درجنوں اسلحہ بردارمحافظوں کی قطار،ان حالات میں گلے سڑے نظام کی پیوندکاری کب تک کی جاسکتی ہے؟ آخر اس انسان کش نظام کوفنا ہوجاناہے ، مجھے بھی اور ان انقلاب کے داعیوںنے بھی۔سب اپنی اپنی قبر کاپیٹ بھریں گے۔ موت ہمارے تعاقب میں ہے اور ہم جینے کے لئے منصوبے بنارہے ہیں۔میں بندۂ رب نہیں بندۂ نفس ہوں۔
عجیب ہیں ناں ہم سب!
کچھ بھی تونہیں رہے گا یا رو۔ بس نام رہے گااللہ کا۔
اجل سے خوفزدہ،زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
کہ جی رہے ہیں میرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
یہ عجزِ خلق ہے یا قاتلوں کی دہشت ہے
رواں دواں ہیں ہتھیلی پہ سر دھرے ہوئے لوگ
Load/Hide Comments