۱۹۹۰ء میں افغانستان میں بری طرح شکست کھانے کے بعدجب سوویت یونین کاشیرازہ بکھرگیاجس سے امریکادنیاکی واحدسپرطاقت بن گیالیکن جن ملکوں (پاکستان و افغانستان)کے توسط سے اس کویہ مرتبہ ملا،اس نے اپنی سرشت کے مطابق سب سے پہلے انہی کواپناہدف بناتے ہوئے نقصان پہنچانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اوراس نے یہ ثابت کردیاکہ امریکاکی دوستی اس کی دشمنی سے بھی بدترہے۔جونہی واحدسپرطاقت کانشہ دوآتشہ ہوا تواس نے فوری طورپردنیاکی سیاست اورجغرافیے میں تبدیلیوں کیلئے ”نیوورلڈ آرڈر”جیسامنحوس پروگرام کوبالجبرنافذکرنے کیلئے جارحیت کاآغاز کردیاتاکہ کوئی بھی قوت اس کے مدمقابل نہ آسکے۔سب سے پہلے ایک منظم پروگرام کے مطابق اکتوبر۲۰۰۱ء میں نائن الیون کوجوازبناکر افغانستان پروحشیانہ جارحیت کاآغازکیااوران تمام عناصرکوختم کرنے کی کوشش کی گئی جن کوامریکااپنے مدمقابل سمجھ رہاتھا۔
اس کے بعدامریکانے اپنی خفیہ ایجنسیوں کی بے بنیادمعلومات کوبہانہ بناکرکہ عراق کے پاس دنیاکوتباہ کرنے کیلئے مہلک ہتھیارموجودہیں، مشرقِ وسطیٰ کے ایک خوبصورت اورترقی یافتہ تہذیب یافتہ اورتیل سے مالامال ملک عراق پرحملہ کردیامگرآج تک امریکانہ صرف اس الزام کوثابت نہیں کرسکابلکہ اس کے سیکرٹری خارجہ کولن پاؤل کواقوام متحدہ میں اپنے اس جھوٹ کے پلندے اور سابقہ بیان پرشرمندگی اورمعافی کااعتراف بھی کرنا پڑالیکن عراق اورافغانستان کوکھنڈرات میں تبدیل اورلاکھوں افرادکوہلاک کرنے کے باوجودابھی تک وہاں تشددکاسلسلہ بندنہیں ہوسکااورآئے دن تشددکے مختلف واقعات میںسینکڑوں افرادکاہلاک ہوناایک معمول بن گیاہے اوردونوں ممالک کی معیشت آج مکمل طورپرانتہائی خستہ حال ہوچکی ہے جبکہ عراق کے تیل سے مالامال ہونے کے باوجوداس کے اپنے شہری زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدراوبامامیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ کہ آج امریکاپہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہے یعنی امریکانے اپنی سلامتی کویقینی بنانے کیلئے دنیاکی سلامتی کو غیریقینی صورتحال سے دوچارکردیاہے جس کااندازہ گزشتہ ہفتے معروف امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ کی شائع کردہ ایک رپورٹ سے لگایاجاسکتاہے جس میں اس بات کاانکشاف کیاگیاہے کہ امریکانے پاکستان میں ڈرون حملوں،یمن ،افغانستان اورافریقہ میں جاری سی آئی اے کے خفیہ آپریشنزاورایرانی ایٹمی پروگرام کو ناکارہ بنانے کیلئے ۶.۱۲/ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ پاکستان میں مبینہ بائیولوجیکل وکیمیکل لیبارٹریزاورایٹمی ہتھیاروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کیلئے بھی سی آئی اے بھاری رقوم خرچ کررہاہے اوردیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کوامریکی خفیہ نگرانی کی فہرست میں ترجیحی سطح پررکھاگیاہے۔رپورٹ کے مطابق امریکاکوپاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق ہے اس لئے پاکستان سے متعلق خفیہ نگرانی کے نیٹ ورک کوپہلے سے کہیں زیادہ وسیع کیاگیاہے۔
۳ستمبرکودفترخارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ پرردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے عدم ِ پھیلاؤ کے مقصد پرسختی سے عمل پیرا ہے اوراس سلسلے میں پاکستان کی پالیسی ضبط اورذمہ داری کی ہے۔ مذکورہ رپورٹ امریکی اخبارنے امریکی ایجنسی سی آئی اے اوراین ایس اے کے سابق اہلکارایڈورڈ اسنوڈن سے حاصل کردہ سی آئی اے کے متعلق ”سیاہ بجٹ”پرمشتمل۱۷۸صفحات کی دستاویزات کی بنیادپرشائع کی جس میں امریکی سلامتی سے متعلق پروگرام کی تفصیلات موجودہیں۔رپورٹ کے مطابق سولہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کاسالانہ بجٹ ۶.۵۲بلین انٹیلی جنس ایجنسیوں کاسالانہ بجٹ ۶.۵۲بلین ڈالرہے جس میں ۷.۱۴بلین ڈالرکی رقم سی آئی اے پرخرچ ہوتی ہے جبکہ سی آئی
اے کانصف بجٹ ہیومن انٹیلی جنس کے حصول پرخرچ کیاجاتاہے۔ان سولہ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ایک لاکھ ۷ہزار۲۵ملازمین کام کررہے ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کابھی انکشاف کیاگیاہے کہ سی آئی اے اوراین ایس اے دشمن ممالک کے کمپیوٹرنیٹ ورک کوناکارہ بنانے کیلئے ہیک کرتی ہیں ،ان میں چین، روس،ایران ، اسرائیل اورکیوباکے ممالک شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۴ء کے بعدسی آئی اے کاسالانہ بجٹ۸.۱۰بلین ڈالرکے قریب ہے۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی کمانڈوزنے خلاء میں موجودہ سیٹلائٹ کی مددسے پاکستان میں موجوداسامہ بن لادن کومارنے کادعویٰ کیا۔واضح رہے واشنگٹن پوسٹ کی شائع کردہ یہ رپورٹ ایڈورڈ سڈون کی فراہم کردہ معلومات کی بنیادپرتیارکی گئی ہے۔ ایڈورڈسڈون امریکی خفیہ اداروں میں کمپیوٹراسپیشلسٹ تھاجوسی آئی اے اوراین ایس اے کیلئے کام کرتاتھا۔ایڈورڈ سڈون نے مئی ۲۰۱۳ء میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے متعلق بہت سے رازافشاء کئے تھے اوردنیاکے لوگوں کی خفیہ نگرانی کوغیراخلاقی قراردیاتھاجس کے بعدوہ امریکی ایجنسیوں کے خوف سے امریکاکوچھوڑکر ہانگ کانگ سے کئی دوسرے ملکوں میں چھپتاپھررہاہے اوراب اس نے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے جبکہ روس نے امریکی مخالفت مول لیتے ہوئے ایڈورڈسڈون کی سیاسی پناہ کی درخواست قبول کرلی ہے۔
ایڈورڈسڈون نے اخلاقی جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے دنیاکوکوامریکی پالیسیوں سے آگاہ کیاکہ امریکااپنی سلامتی کوممکن بنانے کیلئے ہرقسم کی قانونی اوراخلاقی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ایڈورڈسڈون کے امریکا خفیہ ایجنسیوں سے متعلق رازافشاء کرنے کے بعدجرمنی میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کی پالیسیوں کوبہت تنقیدکانشانہ بنایاگیا اور جرمنی نے امریکاسے سردجنگ میں کئے جانے والاجاسوسی کامعاہدہ ختم کردیا جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خودمغربی ممالک میں امریکی انٹیلی جنس کاروائیوں کو تنقید اور مخالفت کاشدیدسامناہے۔ابھی حال ہی میں جرمن میگزین نے اس بات کابھی انکشاف کیاہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر اور۸۰ممالک کے سفارت خانوں کی خفیہ جاسوسی کی کی ہے ۔ میگزین کے مطابق گزشتہ برس امریکی ایجنسی این ایس اے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرمیںویڈیوکانفرنسنگ سسٹم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرامریکاپر اقوام متحدہ کی جاسوسی کے الزامات ثابت ہوگئے تویہ امریکااوراقوام متحدہ کے درمیان اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی جس کے مطابق امریکااقوام متحدہ کی جاسوسی کرنے کاکوئی حق نہیں رکھتااورجاسوسی ثابت ہونے پرامریکی خفیہ کاروائیاں غیرقانونی شمار کی جائیں گی۔میگزین کے مطابق این ایس اے نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے ساتھ ساتھ امریکامیں قائم یورپی یونین کے سفارتخانے کی بھی جاسوسی کی ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکاپوری دنیاکے مواصلاتی نظام کی جاسوسی کرتاہے جس میں لوگوں کے آن لائن ڈیٹااورٹیلی فون کالزکی نگرانی کی جاتی ہے۔ابھی حال ہی میں امریکامیں عام کی جانے والی ایک عدالتی دستاویزسے یہ بھی معلوم ہواہے کہ امریکی قومی سلامتی کی ایجنسی این ایس اے نے غیرقانونی طورپرسالانہ امریکیوں کی ۵۶ہزارکے قریب ذاتی ای میلزجمع کی تھیں جو صارفین کی پرائیویسی کے حقوق کی سراسرخلاف ورزی ہے۔
۱۰/اگست ۲۰۱۳ء میں جاری ہونے والی جرمن جریدے کی رپورٹ کے مطابق امریکی قومی سلامتی سے متعلق خفیہ ایجنسی این ایس اے نے بیرونِ ممالک اپنے جاسوسی پروگرام میں یورپی ممالک کوسرِ فہرست رکھاہواہے جبکہ چین،روس ،ایران پاکستان اورشمالی کوریاکی نگرانی سب سے اہم ہدف قراردیاہے۔امریکی اہداف میں فرانس،جرمنی اورجاپان کی نگرانی کودرمیانے درجے میں رکھاگیاتھا۔۲ستمبر۲۰۱۳ء کوعالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے نے برازیل اورمیکسیکو کے صدورکی بھی خفیہ نگرانی کی تھی اوران کے آن لائن ڈیٹاتک رسائی حاصل کی تھی۔مذکورہ معلومات عام ہونے کے بعدبرازیل کی حکومت کی جانب سے امریکاکے اس عمل کی شدیدمذمت کی گئی۔اس تمام صورتحال کوپیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکی حکومت وانتظامیہ اپنے مفادات کوتحفظ دینے کیلئے نہ تواپنے شہریوں کے حقوق کاخیال رکھتی ہے اور نہ ہی دنیاکے کسی قوانین کی پرواہ کی جاتی ہے۔امریکااپنی من گھڑت اطلاعات کی بنیادپر افغانستان اورعراق کووحشیانہ ظلم وستم کی جنگی کاروائیوںکانشانہ بناچکاہے اوراب دنیاکی دوسری اقوام کی ذاتی زندگی کوبھی اجیرن بنارہاہے جس کے نتیجے میں امریکی پالیسیاں دنیاکی سلامتی پرایک سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔
Load/Hide Comments