Pakistan: At A Dangerous Juncture

پاکستان:خطرناک موڑپر

:Share

مودی نے گذشتہ دنوں ریاست گجرات میں پاکستان کی سرحدکے نزدیک”دیسا”میں ایک فضائی اڈے کاسنگِ بنیادرکھاہے جسے ملک کے فضائی دفاع کیلئے اہم قراردیاجارہاہے۔نیافضائی اڈہ شمالی گجرات کے بنس کانٹھاضلع میں واقع ہے اوریہ آئندہ برس دسمبرتک فضائیہ کیلئےپوری طرح تیارہوگا۔مودی نے فضائی اڈے کاسنگ بنیادرکھتے ہوئے کہاکہ یہ ملک کی سلامتی کیلئےایک موثرمرکزکے طورپراُبھرے گا۔”بین الاقوامی(پاکستانی)سرحدیہاں سے صرف130کلومیٹردورہ ے۔ہماری فورسزبالخصوص فضائیہ دیسا میں موجودمغربی سرحد پرکسی بھی چیلنج کاجواب زیادہ موثرطریقے سے دے سکیں گی۔”

دفاعی تجزیہ کارراہل بیدی کے مطابق’یہ اڈہ ایک تواحتیاطی اقدام کے طورپربنایاجارہاہے،دوسرامودی،انڈیاکی’فارورڈپالیسی‘کو آگے بڑھارہے ہیں۔وہ ایک جارحانہ پالیسی دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انڈیابھی کافی حاوی ہے اورپیچھے رہنے والانہیں ہے۔اس میں مودی صاحب کا”براواڈو”بھی شامل ہے۔”یہ گجرات کاپانچواں فضائی اڈہ ہے۔اس کے علاوہ ریاست میں بڑودہ،جام نگر،بھج اورنالیا(کچھ)میں انڈین فضائیہ کے بڑے اڈے ہیں۔ان میں کچھ اوربھج کے اڈے ڈیسا کی طرح پاکستان کی سرحدکے نزدیک واقع ہیں۔راہل بیدی کے خیال میں پاکستان پراس کاکوئی خاص اثرپڑنے کی توقع نہیں ہے۔وہ اپنے پہلےکے فضائی اڈوں کو بڑایااپ گریڈکرسکتے ہیں۔

دیساکافضائی اڈہ جدیدترین ٹیکنالوجی اورآرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فضائی سازوسامان سے لیس ہوگا۔یہ اڈہ4519ایکڑاراضی پرتعمیر کیاجارہاہے۔یہ زمین فضائیہ کے پاس پہلے سے تھی اوراس وقت وہاں20نگرانی کے ٹاورزبنے ہوئے ہیں جبکہ اس اراضی کے گرد22کلومیٹردیواربھی بنی ہوئی ہے۔راہل بیدی کے مطابق “اٹل بہاری واجپائی کے دورمیں اس منصوبے کوشروع کرنے کی کچھ بات ہوئی تھی لیکن اس پراجیکٹ پرکام کاآغاز ہونے سے قبل ہی اُن کی حکومت چلی گئی جس کے بعد20سال تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔مودی جب دوبارہ اقتدارمیں آئے توایک سال پہلے انہوں نے اس فضائی اڈے کیلئے1000کروڑروپے کابجٹ مختص کیا تھا۔فضائیہ کے ذرائع کے مطابق اس اڈے کودومرحلوں میں تیارکیاجائے گا۔پہلے مرحلے میں جنگی جہازوں کیلئےرن وے، متوازی ٹیکسی وے، لوپ ٹیکسی ٹریک اورفائٹرسکوارڈن ڈیسپرسل ایریاوغیرہ بنائے جائیں گے۔دوسرے مرحلے میں جدید ٹیکنیکل کنٹرول عمارت اور فضائیہ کے عملے کیلئےرہائشی عمارتیں تعمیرکی جائیں گی اوریہ منصوبہدسمبر2023ء تک مکمل ہوجائے گا۔

ڈیسافضائی اڈہ گجرات کے بھج ضلع میں واقع نالیااورراجستھان پھلودی فضائی اڈے کے درمیان عسکری لحاظ سے جوخالی جگہ تھی اسے پُر کرے گا۔ماہرین کے مطابق دیساایک فارورڈ بیس ہوگااورنہ صرف پاکستان میں جیکب آباداورجنوبی علاقوں میں واقع فضائی اڈوں سے کسی حملے کی صورت میں پہلی دفاعی دیوارکاکام کرے گابلکہ کسی ٹکراؤکی صورت میں حیدرآباد،کراچی اورسکھراس کے حملے کی حدودمیں ہوں گے۔میڈیامیں فضائیہ کے ماہرین کے حوالے سے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ مستقبل میں گجرات یاجنوب مغربی سیکٹر یعنی مہاراشٹریااس سے بھی آگے کسی بڑے حملے کی صورت میں اسے پاکستان کے خلاف کارروائی کیلئےاستعمال کیاجا سکے گا۔راہل بیدی کاکہناہے کہ’ڈیساکافضائی اڈہ اٹیک بیس نہیں بلکہ دفاعی اڈہ ہوگا۔یہاں مگ-29اورانڈیا میں بنائے گئےلائٹ ایئرکمبیٹ تیجس طیارے مامورکیے جائیں گے۔انڈیاکاجومین اٹیک طیارہ ہے وہ راجستھان کے جودھپورفضائی اڈے پررکھاگیاہے جس کایہاں اس بیس تک پروازکاوقت پانچ سے چھ منٹ ہے۔

یہ فضائی اڈہ گجرات میں احمدآباد،بھاؤنگراوربرودہ جیسے شہروں اوراس اطراف میں ایک کھرب ڈالرسے زیادہ مالیت کے صنعتی خطوں کے تخفظ کے پیش نظربھی بنایاجارہاہے۔”ڈدیسابیس کی تعمیرکی ایک اہم وجہ جام نگرکی تیل ریفاںنری کاتحفظ ہے۔ریلائنس نام کی تیل صاف کرنے والی یہ دنیاکی سب سے بڑی فیکٹری ہے۔اگریہ کسی حملے کی زدميں آتی ہے توانڈیابہت بڑی مشکل میں پڑجائے گا۔اس کے تحفظ کیلئےیہ اڈہ اہم ہے۔”

دوبرس قبل لداخ میں چین سے ٹکراؤکے بعدانڈیابڑے پیمانے پراپنی فضائیہ کوجدیدبنانے میں مصروف ہے۔انڈین فضائیہ کے بیشتر جنگی جہازروس سے آتے تھے۔ان میں مِگ21،مگ29اورسخوئی جنگی طیارے قابل ذکرہیں۔ان میں سب سے پرانے جنگی جہاز مگ21ہیں۔اب رفتہ رفتہ ان جہازوں کی جگہ رفال، میراج،جیگواراوردوسرے نئے جنگی طیارے حاصل کیے جارہے ہیں۔انڈین فضائیہ کے مطابق اس وقت اس کے پاس مجموعی طورپر1645طیارے ہیں جن میں632فائٹرجیٹ،438ہیلی کاپٹر،250ٹرانسپورٹ طیارے اور304تربیتی جہازشامل ہیں۔

حال میں انڈیانے ملک میں تیارکیے گئےلائٹ کمبیٹ جنگی جہاز”تیجس”اور”پرچنڈ”ہیلی کاپٹرکوانڈین فضا‏ئیہ میں شامل کیاہے۔ مستقبل میں یہ بڑی تعدادمیں فضائیہ میں شامل کیے جائیں گے۔اس وقت انڈیاکے پاس31فائٹرسکواڈرن موجودہیں۔آئندہ دس برس میں ان کی تعدادبڑھاکر 42 سکواڈنز تک پہنچانے کاہدف ہے۔فضائیہ کی جدت کے ساتھ ساتھ آئندہ برسوں میں مزیدفضائی اڈے اور سرحدوں کے نزدیک نئی ہوائی پٹیاں بھی تعمیرکرنےکامنصوبہ ہے۔

کسی سیاسی جماعت کواس کی پرواہ نہیں کہ ملک دفاعی طورپرکس قدرسنگین خطرات میں مبتلاہوگیاہے اورہماری اقتدارکی جنگ اب بھی زوروں پرہے۔ پہلےعمران خان کاحقیقی آزادی مارچ ایک ماہ تک زیربحث رہامگر26نومبرکوراولپنڈی میں عمران خان نے پنجاب اورخیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی دہمکی دیکرسب کو حیران کردیا۔عمران خان کی جانب سے پاکستان میں قبل ازوقت عام انتخابات کامطالبہ کرنے والے اس مارچ کوعوامی پذیرائی مل رہی تھی۔اس کو دیکھ کرتمام سیاسی ماہرین یہ اندازہ لگارہے تھے کہ عمران خان یاتودارالحکومت اسلام آبادمیں بڑی انٹری کریں گے یاپھرہزاروں لوگوں کے ساتھ غیرمعینہ مدت کے دھرنے پربیٹھ جائیں گےلیکن اس اعلان سے نہ صرف سیاسی ماہرین بلکہ سیاسی مخالفین بھی دنگ رہ گئے۔انہوں نے غصے سے بھری طویل تقریرکے بعداپنی جماعت کو اس کرپٹ نظام سے الگ اورتمام اسمبلیوں سے خودکوالگ کرنے کااعلان کردیا۔تمام اسمبلیوں سے دستبرداری کااعلان توکیاتاہم اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوئی تاریخ نہیں دی اورکہاکہ وہ پنجاب اورخیبرپختونخوامیں اپنے وزرائے اعلیٰ اور پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کریں گے۔

اب عمران خان اپنی پارٹی اوراتحادکے رہنماؤں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔انہوں نے پنجاب اورخیبرپختونخوادونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ان ملاقاتوں کے بعدعمران کادعویٰ ہے کہ سب نے متفقہ طورپر انہیں اسمبلی تحلیل کرنے کا حتمی فیصلہ کرنے کااختیاردیاہے۔اگر حکمران اتحادنے جلد ازجلدپاکستان میں عام انتخابات کے انعقادکااعلان نہ کیا توصوبائی حکومتیں کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہیں۔ پاکستان میں اگلے عام انتخابات اکتوبر2023میں ہونے ہیں لیکن عمران خان فوری نئے انتخابات کرانے کے مطالبے پرڈٹے ہوئے ہیں۔ان کاکہناہے کہ پاکستان میں موجودہ حکومت کے اقتدارمیں رہنے کی کوئی اخلاقی بنیادنہیں۔حکمران جماعتیں بارباریہ بات دہرا رہی ہیں کہ جب تک عمران خان کارویہ اوربات کرنے کاانداز درست نہیں ہوگاان کے مطالبات پرکوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔ حکومت نے یہ بھی واضح کردیاہے کہ عمران خان اوران کی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ پیشگی شرائط کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔

اس کے بعدعمران کے رویے میں نرمی کے آثارگزشتہ ہفتے سے ہی آنے لگے۔اس سے پہلے وہ اپنے مطالبے پرکوئی سمجھوتہ کرنے کوتیارنظرنہیں آتے تھے ،مخالفین سے کسی قسم کی بات چیت کے موڈمیں بھی نہیں تھےلیکن ایک انٹرویو میں عمران نے واضح طورپرکہاتھاکہ وہ اس حکومت کوجواب دینے کیلئےصرف چند دن دیں گے،وہ ہرقیمت پرمارچ سے پہلے الیکشن کروانا چاہتے ہیں۔مخالفین کے مطابق لانگ مارچ کی ناکامی عمران خان کوصاف نظرآرہی تھی جس کے بعدانہوں نے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی دھمکیاں دے دی۔ بقول راناثنااللہ نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ عمران خان نے مینڈیٹ کی توہین کی تمام حدیں پارکردی ہیں تاہم پی ڈی ایم حکومت آئینی نظام کے مطابق کام جاری رکھےگی اورجوبھی صورتحال سامنے ہے اس کاسیاسی حل نکالے گی۔

آئینی دائرہ کارکے اندررہتے ہوئے ہم اگلے انتخابات کوجتنی دیرہوسکے ملتوی کریں گے۔ہم نہیں چاہیں گے کہ ہمارااتحادصرف دو صوبوں کے انتخابات میں شامل ہو۔ثنا اللہ کے بیان کامطلب ہے کہ عمران خان کاکوئی بھی مطالبہ پورانہیں ہوگا۔اگراسمبلی تحلیل ہوگئی تودونوں صوبوں میں حکومت ان کی ہوگی۔

پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی اپنے استعفے جمع کراچکے ہیں مگرقانونی کارروائی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی منظوری زیرالتواہے۔استعفوں کی منظوری ہررکن کوذاتی طورپرسپیکرکے پاس جاکرتصدیق کرنی ہوتی ہے۔حکمران اس ساری صورتحال میں انتظار اوردیکھوکی حکمت عملی اپنارہے ہیں۔عمران خان اس بات پرنظررکھے ہوئے ہیں کہ اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں ان کے پاس کیاراستے ہوں گے؟پی ڈی ایم کے تمام حلقوں کویقین ہے کہ عمران اسمبلی تحلیل کرنے جیساکوئی قدم نہیں اٹھانے والے،اگروہ ایساکرتے ہیں تواس سے نمٹنے کیلئےسیاسی آپشن بھی ان کے ساتھ تیارہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ ان کی نظریں راولپنڈی پرجمی ہوئی ہیں۔وہ نئی قیادت(یعنی نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر)کی طرف سے کسی اشارے کے منتظرہیں لیکن اب وہ اس معاملے کوکسی بھی طرح غیرمشروط طورپرحل کرنے کیلئےبے چین ہیں۔اگرخیبر پختونخوااورپنجاب میں اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں توان صوبوں میں نئے انتخابات وفاق میں الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوں گے جس پرتحریک انصاف کواعتراض ہوسکتاہے۔ان کاکہناہے کہ اس معاملے پر عمران کی اپنی پارٹی کے اندرہی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔پارٹی کے ایک طبقے کولگتاہے کہ حکومت تحلیل کرنے کافیصلہ زیادہ نقصان دہ ہوسکتاہے اورعمران خان کی بجائے اتحادی جماعتیں بیک فٹ پرہیں۔

پی ڈی ایم کے لوگ پہلے کہہ رہے تھے کہ اگرعمران قبل ازوقت انتخابات چاہتے ہیں توان کی پارٹی کے لوگ صوبائی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں۔اب جب عمران نے ایساکرنے کااعلان کیاہے توپی ڈی ایم والے کہنے لگے کہ ہم ایساہرگزنہیں ہونے دیں گے۔گویا یہ لوگ بھی کنفیوژہیں۔عمران کی پارٹی اورحکومت کے نمائندے بیک ڈوربات چیت میں مصروف ہیں۔عمران خان کی پارٹی کے بعض رہنماؤں نے اشارہ دیاہے کہ وہ اس گفتگوکے نتیجے کےمنتظرہیں۔ اگر حکومت مئی میں بھی انتخابات کرانے پررضامند ہو جاتی ہے توپھرصوبائی حکومتوں کوتحلیل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ساتھ ہی کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ عمران خان نے اپنی ساکھ بچانے کیلئےصوبائی حکومتوں سے علیحدگی کااعلان کیاہے کیونکہ انہوں نے اپنے مطالبات کی تکمیل کیلئےجوکچھ کرناتھاوہ کیالیکن اس سب کے باوجود انہیں کچھ نہیں ملا۔تاہم ان کے مسلسل احتجاج کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔اس بنیادپراگلے الیکشن میں ان کے جیتنے کے امکانات کافی بڑھ گئے ہیں لیکن ان کااسمبلیوں سے واک آؤٹ کرنے کامطالبہ نظرنہیں آتا۔یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ حکومت کی توقعات کے برعکس عمران اگرصوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کافیصلہ کرتے ہیں توپھرکیاہوگا،یہ کہنامشکل ہے۔کیا مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ اسلام آباد میں مستحکم رہ سکے گی؟

ماہرین کے مطابق ایسے حالات سے نمٹنے کیلئےبہت سے آپشنزموجودہیں۔اس میں خیبرپختونخوااورپنجاب کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ صوبوں میں گورنرراج کے نفاذجیسے آپشنزشامل ہیں۔پی ڈی ایم اس کام کومکمل کرنے کیلئےپہلے ہی زرداری کومقررکرچکی ہے اوروہ اپنے سیاسی رابطوں کیلئے جانے جاتے ہیں۔ زرداری آزادارکان کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطے کررہے ہیں تاکہ انہیں اپنے حصارمیں لے کرپی ٹی آئی کے سارے منصوبے کوناکام بنایاجاسکے۔

خیبرپختونخوا اورپنجاب میں حکومت کی تحلیل کامطلب ہے کہ پاکستان میں اسمبلی کی66فیصد نشستیں خالی ہوجائیں گی اوربظاہرسیاسی بحران مزیدبڑھے گا۔حکومت ایسی صورتحال سے آسانی سے نمٹنے کادعویٰ توکرتی ہے مگراس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچنے کاخدشہ موجودرہے گا۔اگرایساہواتواس کی وجہ سے پیداہونے والا معاشی بحران پاکستان کی موجودہ حکومت کو جھکنے پرمجبورکردے گا۔پاکستان میں جاری عدم استحکام کے باعث آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تاخیرہوسکتی ہے۔ قرض کی اگلی قسط کے حوالے سے یہ بات چیت نومبرمیں ہی ہونی تھی لیکن سیاسی عدم استحکام کے باعث دیگربین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی مالی امداد دینے سے قبل آئی ایم ایف کی جانب سے گرین سگنل کے منتظرہیں۔لہٰذا اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے توموجودہ نظام کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ پاکستان کیلئےسب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کوکوئی ریلیف نظرنہیں آرہااوراس صورتحال میں سرکاری اداروں پرعام لوگوں کااعتمادبھی ڈگمگاتاہوانظرآرہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں