علامہ اقبال نے ملّتِ اسلامیہ کیلئے جو سب سے بڑا کارنامہ سر انجام دیا وہ اس کے ملی تشخص کی حفاظت اور احساس کو بیدار کرنا ہے۔وہ ہندوؤں کی چال کو ‘جو متحدہ قومیت کی صورت میں پروان چڑھ رہی تھی ‘بھانپ گئے تھے’چنانچہ وطنیت کے عنوان سے ان کی مشہور نظم ١٩٠٨ء میں شائع ہوئی تھی’جس میں وہ فرماتے ہیں:
اس عہد میں مے اور ہے جام اورہے
ساقی نے بناء کی روش لطف وستم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
(نظم وطنیت (وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے)(صفحہ۱۶۰بانگ درا
وہ اپنے مشہورخطبہ الہ آباد میں فرماتے ہیں:
“اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا جس سے مسلمانانِ ہند کی تا ریخ حیات متاثر ہوئی۔اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدریج متحد ہو کر ایک متمیز ومعین قوم کی صورت اختیار کرتے ہیں اوران کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعورپیدا ہوجاتا ہے۔حقیقت میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں شائد ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے’اس لئے کہ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کارفرما ہے ۔”
علامہ اقبال فرماتے ہیں :لیکن آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کیلئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو اس امر سے مایوس نہیں ہو گیا کہ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسانی کو نسل و وطن کی قیود سے آزاد کر سکتی ہے جس کا عقیدہ یہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔اسلام کی تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے ‘اسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جا سکتا……..یہ ایک زندہ اور عملی سوال ہے جس کے صحیح حل پراس امر کا دارومدار ہے کہ ہم لوگ آگے چل کر ہندوستان میں ایک ممتاز اور متمیز تہذیب کے حامل ہو سکیں”۔”کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی نصب العین کے تو برقراررکھیں لیکن اس کے نظامِ سیاست کی بجائے ان قومی نظامات کو اختیار کریںجن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا؟”
”میں نہیں کہتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کیلئے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غور کرنے کیلئے آمادہ ہوگاجو کسی ایسے وطن یا قومی اصول پر ہو جو اسلام کے اصول اتحاد کی نفی کرنے پر مبنی ہو۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو آج مسلمانانِ ہند کے سامنے ہے”۔”………مجھے یہ اعلان کرنے میں مطلق تامل نہیں کہ اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار تصفیہ کے ماتحت اس ملک میں مسلمانوں کو آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی نہیں دریغ کریں گے”۔
“میری خواہش ہے کہ پنجاب’صوبہ سرحد’سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے ‘مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمالی مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم ریاست قائم کرنا پڑے گی”۔”اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے”۔”اسلامی قانون کے طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر اس نظامِ قانون کوعملی جامہ پہنایا جائے تو کم از کم ہر فرد کے معاشی حقوق کا تحفظ ہو سکتا ہے لیکن اس ملک میں شریعت اسلامی نظام کا نفاذ اوراسکی توسیع ایک آزاد مسلم مملکت یا چند مملکتوں کے بغیر ناممکن نہیں تو دوسری طرف صرف خانہ جنگی ہے”۔
“میری رائے میں اسلام کا مستقبل بہت کچھ پنجاب کے کسانوں کی آزادی پر انحصارکرتاہے تو پھر نوجوانوں کی حرارت کو مذہب کی حرارت کے ساتھ مل جانا چاہئے تاکہ زندگی کی دمک بڑھے اور ہماری آئندہ نسلوں کیلئے عمل کی ایک نئی دنیا پیدا ہو”۔”ہندوستان میں مختلف اقوام اور مختلف مذاہب موجود ہیں ‘اس کے ساتھ ہی اگرمسلمانوں کی معاشی پستی اوران کی بے حد مقروضیت(بالخصوص پنجاب میں)اور بعض صوبوں میں ان کی اکثریتوں کا خیال کر لیا جائے تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ مسلمان جداگانہ انتخابات کیلئے کیوں مظطرب ہیں”۔وہ خطبہ ختم کرتے ہوئے فرماتے ہیں::
”ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام کے مطالعے سے سیکھا ہے ‘یہ ہے کہ صرف اسلام ہی تھا جس نے آڑے وقتوں میں مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا نہ کہ مسلمان’اگر آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیل سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرِ نو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت وبربادی سے محفوظ ہو جائے گا”۔”میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کررہا ہوں ”۔”مسلم ہندوستان کیلئے ان مسائل کے حل کو ممکن بنانے کی خاطر ملک کی تقسیم کے ذریعے سے بڑی مسلم اکثریت کے واسطے ایک یا زیادہ مسلم مملکتوں کی فراہمی ضروری ہے۔کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ اس قسم کے مطالبے کا وقت آ گیا ہے ‘جواہر لال نہرو کی ملحد اشتراکیت کا شائد یہی بہتر جواب ہے جو آپ دے سکتے ہیں”۔”پس یہ امر کسی طرح بھی نامناسب نہیں کہ مختلف ملتوں کے وجود کا خیال کئے بغیر ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کریں”۔
اجلاس منعقدلاہور ۲۱مارچ ۱۹۳۱ءمیں نیشلزم پر ان کا تبصرہ حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے:
“میں نیشلزم کے خلاف ہوں جیسا کہ یورپ میں اس سے مفہوم لیا جاتا ہے’اس لئے نہیں کہ اس تخیل کو ہندوستان میں نشوونما پانے کی اجازت دے دی گئی تو اس سے مسلمانوں کو کم مادی فائدہ پہنچے گا۔میں اس لئے اس کے خلاف ہوں کہ میں اس کے اندر ملحدانہ مادیت کے جراثیم دیکھتاہوں ۔ میرے خیال میں یہ جدید دور کی انسانیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے ‘حب الوطنی صحیح طور پر ایک قدرتی نیکی ہے اورانسان کی اخلاقی زندگی میں وہ خاص درجہ رکھتی ہے تاہم جو چیز دراصل اہمیت رکھتی ہے وہ انسان کا عقیدہ ہے ‘اس کی تہذیب ہے’ اس کی تاریخی روایات ہیں’یہی وہ چیزیں ہیں کہ جن کیلئے انسان کو زندہ رہنا چاہئے اور جس کیلئے انسان کو اپنی جان تک قربان کر دینی چاہئے”۔
”ہمارا مطمع نظر بالکل صاف ہے اوروہ یہ ہے کہ آنے والے دستور میں اسلام کیلئے ایسی پوزیشن حاصل کریں جو اسے ملک میں اس کی قسمت کی تکمیل کے مواقع بہم پہنچائے۔اس مطمح نظر کی روشنی میں قوم کی ترقی کرنے والی قوتوں کا جگانے اور ان قوتوں کو جواب تک خوبیدہ پڑی ہیں منظم کرنے کی
ضرورت ہے ۔زندگی کی لو دوسروں سے قرض نہیں لی جا سکتی ‘ اسے خود اپنی روح کے اندر روشن کرنے کی ضرورت ہے”۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
میں ”ملت فیضاپر اک نظر”میں حضرت علامہ اقبال نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت اس طرح کی:
“مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے ‘ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراکِ زبان’ نہ اشتراکِ وطن’نہ اشتراکِ اغراض اقتصادی ہے بلکہ ہم لوگ اس برادری میں جو جنابِ رسالتِ مآبۖنے قائم فرمائی تھی’اس لئے شریک ہیں کہ مظاہرِ کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے اور جو تاریخی روایات ہم سب کو ترکہ میں پہنچی ہیں وہ بھی سب کیلئے یکساں ہیں۔اسلام تمام مادی قیود سے بیزاری ظاہر کرتا ہے……اسلام کی زندگی کا انحصار کسی خاص قوم کے خصائص مخصوصہ وشمائل پر منحصر نہیں ہے غر ض اسلام زمان و مکان کی قیود سے مبرا ہے۔”
“اسلام کی حقیقت ہمارے لئے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر ہے ۔اسلام میں قومیت کا مفہوم خصوصیت کے ساتھ چھپا ہوا ہے اورہماری زندگی کا تصور اس وقت تک ہمارے ذہن میں نہیں آسکتا جب تک کہ ہم اصولِ اسلام سے پوری طرح باخبر نہ ہوں’بالفاظِ دیگر اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ‘جو نسبت انگلستان کوانگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے ‘وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے’اسلامی اصول یا ہماری مقدس روایات کی اصطلاح میں خدا کی رسی جوں ہی ہمارے ہاتھ سے چھوٹی اور ہماری جماعت کا شیرازہ بکھرا۔”حضرت علامہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نئی نسل کیلئے تعلیمی سہولتوں کے فقدان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“ہم کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ہماری قوم کے نوجوانوں کی تعلیمی اٹھان اسلامی نہیں ہے تو ہم اپنی قومیت کے پودے کو اسلام کے آبِ حیات سے نہیں سینچ رہے ہیںاوراپنی جماعت میں پکے مسلمانوں کا اضافہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایسا نیا گروہ پیدا کر رہے ہیں جو بوجہ کسی اکتنازی یا اتحادی مرکز کے نہ ہونے کے اپنی شخصیت کو کسی دن کھو بیٹھے گا اور گردوپیش کی ان قوموں سے کسی ایک قوم میں ضم ہو جائے گاجس میں اس کی بہ نسبت زیادہ قوت و جان ہو گی۔”آل پارٹیزمسلم کانفرنس کے فروری۱۹۳۱ء کے اجلاس میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے فرمایا:
“جس دین کے تم علمبردار ہو وہ فرد کی قدروقیمت تسلیم کرتا ہے اور اس کی تربیت کرتا ہے تاکہ وہ دنیا میں کچھ خدا اور انسان کی خدمت میں دے ڈالے ‘اس کے امکانات ابھی تک ختم نہیں ہو ئے ہیں ‘وہ اب بھی ایسی نئی دنیا پیدا کر سکتا ہے جہاں انسان کا معاشرتی درجہ اس کی ذات’رنگ ‘اس کے کمائے ہوئے ”ڈویڈنڈ”کی مقدار سے متعین نہ ہوتا ہو بلکہ اس زندگی کے مطابق قائم کیا جاتا ہو جسے وہ بسر کرتا ہے’جہاں غرباء مال داروں پر ٹیکس عائد کرتے ہوں’جہاں انسانی سوسائٹی شکموںکی مساوات پر قائم نہ ہو بلکہ روحوں کی مساوات پر جہاں ایک اچھوت بادشاہ کی لڑکی سے شادی کرسکتا ہو ۔ان تمام اقتباسات سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ حضرت علامہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ایک علیحدہ قوم تصور کرتے تھے اور اسی بنیاد پر وہ ایک علیحدہ خطہ چاہتے تھے جسے وہ اسلامی ریاست کا نام دیتے تھے ۔کوئی ذی ہوش انسان اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ یہ ساری جدوجہد اسلام ہی کے نام پر تھی۔وہ ملتِ اسلامیہ کو ان محدود حصوں میں قوم سمجھنے کیلئے تیار نہ تھے اور یہی چیز انہوں نے مسلمانوں کو سکھائی ‘وہ فرماتے ہیں:
اپنی ملت پر قیاس’اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیۖ
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری (مذہب ص ۲۴۸بانگ درا)
اقبال جہاں جہاد کا درس دیتا ہے وہاں اس نے اجتہاد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور اس خطے میں اقبال واحد شاعر ہے جس نے صرف مسلمانوں کیلئے
نہیں بلکہ نیچی ذات کے ہندوؤں کیلئے بھی آواز اٹھائی ہے:
آہ شودرکیلئے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے (نانک ص۲۳۹ (بانگ درا)
اس لئے آج چوراہے میں بیٹھے ٹی وی کے دانشور یہ کہتے ہیں کہ اقبال رجعت پسند شاعر تھا دراصل وہ اقبال کا نام استعمال کرکے اپنے چھوٹے قدکو نمایاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ پاکستان اور قائد اعظم دونوں اقبال کی دریافت ہیں اس لئے جو اقبال کو نہیں مانتا وہ شوق سے پاکستان میں تو رہے لیکن اسے پاکستانی کہلوانے کا کوئی حق نہیں۔