تاریخی سہویا…….!

:Share

برصغیر کی تقسیم جیسی زمینی حقیقت کے بعد اب تاریخ کو جھٹلانے یا ان حقیقی خاکوں میں جھوٹ وبد نیتی کا رنگ بھر کر تاریخی واقعات کی شکل بگاڑ کرنئی نسل کو گمراہ کرکے اقبال سے بد ظن کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے چاند پر تھوکا واپس اپنے منہ پر گرتا ہے۔سات دہائیوں کے گزرنے کے بعداقبال پر پنڈت نہرو کے اس بے جا الزام کوکیوں دہرایا جا رہا ہے کہ ”اقبال اپنی زندگی کے آخری دور میں سوشلزم کے زیرِ اثر تصورِ پاکستان سے دستبردار ہو گئے تھے۔ کیا ان الزامات سے زمینی حقائق بدل سکتے ہیں کہ دوبارہ ایسا اکھنڈ بھارت قائم ہوجائے جہاں ہر روز کشمیر اورگجرات جیسی قیامتیں مسلمانوں پر ڈھائی جائیں!اقبال جنہوں نے پاکستان جیسی ریاست کا خواب دیکھا ‘ان کو اس الزام میںآخر کیوں ملوث کیا جا رہاہے؟اور ایک ہی وقت میں بھارت اور پاکستان میں ایسا بے ڈھنگا راگ کیوں سنائی دے رہا ہے؟آئیے تاریخ کے جھروکوں سے حقائق کی دنیا میں جھانکتے ہیں!
پنڈت جی اپنی کتاب”دی ڈسکوری آف انڈیا” جو انہوں نے ۱۹۴۴ء میں قلعہ احمد نگر کے زنداںمیں بیٹھ کر رقم کی تھی’اس کتاب میں انہوں نے
بطور شاعراور مفکراقبال کے فیضان کی تحسین فرمائی ہے مگر اقبال کو خراجِ تحسین کرتے وقت وہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ اقبال ”ایک شاعر’عالم اور فلسفی تھے اور پرانے جاگیرداری نظام سے وابستہ تھے۔” پنڈت جی مزید لکھتے ہیں کہ:
“اقبال پاکستان کے اوّلین حامیوں میں سے تھے لیکن ایسا معلوم ہو تا ہے کہ انہوں نے اس تجویز کی لغویت اور ان خطرات کو محسوس کر لیا تھا جو اس تجویز میں مضمر ہیں۔ایڈورڈ تھامسن نے لکھا ہے کہ ایک ملاقات کے دوران اقبال نے ان سے یہ کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں صدر کی حیثیت سے پاکستان کی حمائت کی تھی مگر ان کو یقین تھا کہ یہ تجویز مجموعی طور پر ہندوستان اور خصوصاً مسلمانوں کیلئے مضر ہے۔شائد انہوں نے اپنا خیال بدل دیاتھایاا پہلے اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت تک اس نے کوئی اہمیت حاصل نہیں کی تھی۔ان کا عام نظریہ زندگی پاکستان یا تقسیمِ ہند کے اس تصور کے ساتھ جو بعد میں پیدا ہو’ہم آہنگ نہیں تھا۔آخری عمر میں اقبال کا رحجان اشتراکیت کی طرف بڑھتا گیا۔ سوویت یونین کی زبردست کامیابی نے ان کو بہت متاثر کیااور ان کی شاعری کا رخ بدل گیا”۔
پنڈت نہرو کا یہ الزام سراسر غلط ہے ‘ان کا یہ الزام لاعلمی پر نہیں بلکہ بد نیتی پر مبنی ہے جن لوگوں نے اقبال کی شاعری ‘فلسفہ اور سیاست کا سرسری سے بھی کم مطالعہ کیا ہے وہ بھی اس صداقت کی گواہی دیں گے کہ جاگیرداری نظام کا اقبال سے بڑا دشمن ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا ۔پنڈت جی سے سب سے بڑا تاریخی سہو یہ ہوا کہ وہ بھول گئے کہ ان کی کتاب سے
تین برس پہلے قائد اعظم کے دیباچہ کے ساتھ قائد اعظم کے نام اقبال کے خطوط شائع ہو چکے تھے’یہ انگریزی کتاب یقینا پنڈت جی کی نظر سے گزر چکی ہو گی’اس کتاب میں شامل ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کا وہ طویل خط بھی شامل ہے جس میں پنڈت جی کی ”بے خدا سوشلزم”کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ مسلمان تو رہے ایک طرف ‘خود ہندو معاشرہ بھی ”بے خدا سوشلزم”کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔پنڈت جی کی سوشلزم کو رد کرتے وقت اقبال نے قائد اعظم کو بتایا ہے کہ اگر اسلامی شریعت کی دورِ حاضر کے معاشی نظریات کی روشنی میں ازسرِ نو تفسیر کی جائے تو مسلمان عوام کی روٹی روزگارکا مسئلہ بہتر طور پر حل ہو سکتا ہے۔مسلمان کو غربت کے عذاب سے نجات دلانے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی الگ قانون ساز اسمبلی ہواور یہ اسمبلی متحدہ ہندوستان کی بجائے ایک الگ خود مختار مملکت میں ہی قائم کی جا سکتی ہے۔اس خط کے مندرجات زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ:
اوّل:اقبال جواہر لال نہروکی ”بے خدا سوشلزم” پر اسلام کے اقتصادی نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔
دوم:اسلام کے اقتصادی نظام کو عہدِجدیدکے سیاق و سباق میں نافذکرنے کیلئے جداگانہ مسلمان مملکت کا قیام ضروری ہے۔
سوم:اپنی وفات سے فقط چند ماہ پہلے وہ قائد اعظم کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ قیامِ پاکستان کوکل ہند مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنا لیں۔
چہارم:اس خط کے آخر میں وہ قائد اعظم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ وقت نہیں آ پہنچا جب ہمیں کھل کر قیامِ پاکستا ن کو اپنی منزل قرار دے دینا چاہئے؟
پنڈت جی دانستہ طور پر اقبال کی وفات سے تین ماہ پیشتر میاں افتخارالدین کے ہمراہ جاوید منزل میں علامہ اقبال سے جو ملاقات کی تھی’اس ملاقات کی خوشگوار یادوں کا یہ واقعہ بیان کرنا کیوںمناسب نہیں سمجھا ‘لیکن اسے ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب”اقبال کے آخری دوسال”میں بیان کر دیا ہے۔محترم بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
”پنڈت نہرو اس زمانے میں زور شور سے سوشلزم کا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے’انڈین نیشنل کانگرس کے دو اجلاسوں کے وہ صدر رہ چکے تھے اور دونوں مرتبہ اپنے خطباتِ صدارت میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے تمام مصائب کا علاج سوشلزم ہے لیکن کانگرس کے بڑے بڑے لیڈروں میں کوئی شخص بھی اس بارے میں پنڈت نہرو کا معاون یا ہم خیال نہیں تھا بلکہ سردار پٹیل’راج گوپال اچاریہ اور ستیہ مورتی نے تو علی الاعلان پنڈت نہرو کے اس عقیدے سے اختلاف کا اظہارکیا تھا۔دورانِ ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے پنڈت نہرو سے پوچھاکہ سوشلزم کے بارے میں کانگرس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں؟ َپنڈت جی نے جواب دیا کہ ‘نصف درجن کے قریب’۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’تعجب ہے ‘خود آپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیالوں کی تعداد صرف نصف درجن ہے ‘ادھر آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہونے کا مشورہ دوں’تو کیا میں دس کروڑ مسلمانوں کوچھ آدمیوں کی خاطر آگ میں جھونک دوں؟’۔اس پر پنڈت جی خاموش ہو گئے ۔”
اسی ملاقات میں ایک اور ناگوا واقعہ بھی پیش آیاتھا اور پنڈت جی نے اس کوبھی قوم کو بتانا مناسب نہیں سمجھا’ہاں البتہ بٹالوی صاحب نے بیان کر دیا ہے:
“ابھی ان دو عظیم المرتبت انسانوں کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ یکایک میاں افتخارالدین بیچ میں بول اٹھے کہ ڈاکٹرصاحب!آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے؟مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں’اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔ڈاکٹر صاحب لیٹے ہوئے تھے ،یہ سنتے ہی غصے میں آ گئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے اور انگریزی میں کہنے لگے’تو اچھا،یہ چال ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں،میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں اور میں تو ان کا معمولی سپاہی ہوں۔”اس کے بعد ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہو گئے اورکمرے میں تکدر آمیز سکوت طاری ہو گیا۔پنڈت نہرو نے فوراً محسو س کر لیا کہ میاں افتخار الدین کے دخل در معقولات نے ڈاکٹر صاحب کو ناراض کر دیا ہے اور اب مزید گفتگو جاری رکھنا بے سود ہے چنانچہ وہ اجازت لیکر رخصت ہو گئے۔
حیرت یہ ہے کہ انہوں نے ان ناقابلِ فراموش یادوں کو تو آسانی سے فراموش کر دیا مگر ایڈورڈ تھامسن کی گپ شپ کو ناقابلِ تردید تاریخی صداقت کا درجہ دے دیا ۔ ایڈورڈ تھامسن آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے استاد تھے اور تاریخ ہند سے بھی علمی شغف رکھتے تھے۔وہ دو مرتبہ برطانیہ کے اخبار مانچسٹر گارڈین کے نامہ نگا ر کے روپ میں بھی برٹش انڈیا تشریف لائے تھے ۔ گاندھی،رابندر ناتھ ٹیگور،راج گوپال اچاری،سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو کے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے جہاں وہ ہمیشہ مسلم لیگ کی مخالفت میں سرگرم رہتے تھے،وہاں کانگرس کی پرجوش وکالت کو کوئی موقعہ بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
جس روایت کا سہارا لیکر پنڈت جی نے اقبال پر الزام تراشی کی ہے وہ ایڈورڈ تھامسن اور علامہ اقبالکی زبانی گفتگو پر مبنی ہے۔ ایڈورڈ تھامسن موصوف کا یہ بیان قائد اعظم کے نام اقبال کے متذکرہ بالا خطوط کی دستاویزی شہادت کے ساتھ ساتھ اقبال نہرو ملاقات کے مندرجہ بالااحوال و مقامات کی بنیاد پر جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔اقبال آخر دم تک اپنے تصورِ پاکستان کو قیامِ پاکستان کی صورت میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں سرشار رہے۔قائد اعظم کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت میں سرگرمِ عمل رہے اور اسلامیانِ ہند کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ میری زندگی کی دعائیں مانگنے کی بجائے محمد علی جناح کی طویل زندگی کی دعائیں مانگو’صرف جناح ہی قوم کی کشتی کو ساحل ِمراد تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نہ معلوم یہ باتیں پنڈت جی کے ذہن سے کیوں محو ہو گئی تھیں یا انہوں نے ان باتوں کو ناخوشگوار اور اپنی سیاسی آئیڈیالوجی کی تردید سمجھ کر اپنی کتاب میں درج کرنا کیوںمناسب نہیں سمجھا:

نگاہ بلند،سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کیلئے

ور اس کی وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ علامہ اقبال ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ میرے نبیۖ کا یہ مبارک فرمان ہے کہ تم میں بہتروہ شخص ہے جس کے اخلاق بہترین ہیں۔اسی لیے نظریاتی اختلاف کے باوجود علامہ اقبال اور پنڈت نہرو کے درمیان ہمیشہ باہمی احترام کے تعلقات قائم رہے ۔ پنڈت نہر ونے۱۹۳۳ء میں لندن کی گول میز کانفرنس میں مسلمان مندوبین کے طرزِ فکرو عمل کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ گاندھی جی کے اس رویہ کی حمائت میں پنڈت جی کی لب کشائی پر اقبال حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ اقبال اس کانفرنس میں شریک تھے مگر نہرو شریک نہیں تھے۔کانگرس کی نمائندگی گاندھی جی نے کی تھی۔گاندھی جی نے واپسی پر کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر مسلمانوں کے تمام مطالبات کو قبول کر لیا تھا مگر سیاسی رجعت پسندی کی بناء پر مسلمانوں نے کانفرنس کو ناکام بنا دیا۔نہرو نے گاندھی جی کی باتوں میں آکر مسلمان مندوبین کے خلاف ایک انتہائی سخت سیاسی بیان داغ دیاچنانچہ علامہ اقبال نے گاندھی جی کے اس الزام کی تردید میں جواہر لال نہروکو جوخط تحریر کیااس میں علامہ کا اخلاق ملاحظہ فرمائیں::
“میں پنڈت جواہر لال نہرو کے خلوص اور صاف گوئی کی ہمیشہ سے قدر کرتا رہاہوں۔مہاسبھائی معترضین کے جواب میں جو تازہ ترین بیان انہوں نے دیا ہے اس سے خلوص ٹپکتا ہے اور یہ چیز آج کل کے ہندوستانیوں میں کم یاب ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں جو گول میز کانفرنسیں لندن یں منعقد ہوئی ہیں ان میں شریک ہونے والے مندوبین کے رویہ کے متعلق پنڈت جی کی تحقیق کی بنیاد کسی تعصب پر مبنی ہے۔” اس خوش گمانی کے اظہار کے بعد علامہ اقبال نے اصل حالات کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایاکہ”گاندھی جی نے مسلمانوں کے مطالبات کو ذاتی طور پر ماننے کا عندیہ تو دیا تھا مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ اس بات کی حتمی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کانگرس کی مجلسِ انتظامیہ بھی ان مطالبات کو تسلیم کر لے گی’ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ کانگرس انہیں ان مطالبات کے سلسلے میں مکمل اختیار دینے کیلئے کبھی بھی رضامند نہیں ہو گی’گویا عملاً گاندھی جی نے مسلمانوں کے تمام مطالبات کو رد کردیا تھا،مسٹر گاندھی جی کی دوسری غیر منصفانہ شرط یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے مخصوص مطالبات کی حمائت ترک کر دیں مگر مسلمانوں نے اچھوتوں کی حمائت سے دستبرداری سے انکارکرکے گاندھی جی کو ناراض کردیاتھا”۔چنانچہ اپنے اس خط میں انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ:
“اپنے زبانِ زدِ عام سوشلسٹ خیالات کے پیشِ نظر پنڈت جواہر لال نہرواس انسانیت کش شرط کی کیسے حمائت کریں گے؟کم از کم انہیں یہ زیب
نہیں دیتاکہ وہ مسلمانوں کو سیاسی معاملات میں رجعت پسندی کا الزام دیں ۔اس صورت میں میں وہ لوگ جو ہندوؤں کے فرقہ پرستانہ مقاصد کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ‘اس نتیجے پر پہنچنے میں حق بجانب ہونگے کہ پنڈت جی فرقہ وارانہ فیصلے کے خلاف ہندو مہاسبھاکی جاری کردہ مہم میں ایک سرگرم رکن ہیں”۔
مسلمانوں کے خلاف پنڈت جواہر لال نہرو کا دوسرا الزام یہ تھاکہ مسلمان ہندوستانی قومیت کے مخالف ہیں۔اس کے جواب میں علامہ اقبال نے فرمایا
“اگر قومیت سے ان کی مراد یہ ہے کہ مختلف مذہبی جماعتوں کو حیاتاتی معنوں میں ملا جلا کر ایک کر دیا جائے تو پھر میں ہی اس نظریہ قومیت سے انکار
کا مجرم ہوں۔میں پنڈت نہرو سے ایک سیدھا سا سوال کرنا چاہتا ہوں ،جب تک اکثریت والی قوم دس کروڑکی اقلیت کے کم سے کم تحفظات کو جنہیں وہ اپنی بقاء کیلئے ضروری سمجھتی ہے نہ مان لے اور نہ ہی ثالث کا فیصلہ تسلیم کرے بلکہ واحد قومیت کی ایسے رٹ لگاتی رہے جس میں صرف اس کا اپنا ہی فائدہ ہے ،ہندوستان کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟اس سے صرف دو صورتیں نکلتی ہیں،یا تو اکثریت والی ہندوستانی قوم کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مشرق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے برطانوی سامراج کی ایجنٹ بنی رہے گی یا پھر ملک کو مذہبی’تاریخی اور تمدنی حالات کے پیشِ نظر اس طرح تقسیم کرنا ہوگاکہ موجودہ شکل میں انتخابات اور فرقہ وارانہ مسئلہ کا سوال ہی نہ رہے”۔
پنڈت نہرو کے جواب میں دیا گیا علامہ اقبال کا یہ بیان یقینی طور پر پنڈت جی کی نظروں سے گزرا ہوگا ‘اس بیان میں روزِ اوّل تا آخر اقبال کا ترقی پسند ،وسیع النظراور انسان دوست مسلک نمایاں ہے۔یہ بیان تصورِ پاکستان کی نفی سے نہیں بلکہ اثبات سے عبارت ہے۔ایسے میں پنڈت جی کا یہ کہناکہ ۱۹۳۰ء کے بعد اقبال اپنے تصورِ پاکستان سے دستبردار ہو گئے تھے ‘دیانت داری پر مبنی نظرنہیں آتابلکہ تاریخی حقیقت پر تعصب کی چادر ڈالنے کے مترادف ہے۔آئیے مستند تاریخی حوالوں سے کچھ اور پوچھتے ہیں:
جب پنڈت نہرو نے ”ماڈرن ریویو”(کلکتہ)میں دنیائے اسلام کی صورتحال پر تین مضامین میں وطنیت اور لا دینیت کے فروغ کا خیر مقدم کیا تھا تو اس کے جواب میں اقبال نے بھی ”ماڈرن ریویو”(کلکتہ)ہی میں پنڈت جی کی فکری گمراہی کو راست فکری میں بدلنے کا سامان کیا۔اپنے طویل مضمون کے آغاز میں اقبال نے برملا کہا:
میں اس بات کو پنڈت جی اور قارئین سے پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتاکہ پنڈت جی کے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کا ایک دردناک ہیجان پیدا کردیاہے ۔جس انداز میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے ایک ایسی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے جس کو پنڈت جی سے منسوب کرنامیرے لئے دشوار ہے۔وہ اپنے دل میں مسلمانانِ ہند کے مذہبی اور سیاسی استحکام پسند نہیں کرتے ۔ہندوستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کو کچل ڈالاہے اس بات کو گوارا نہیں کرتے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں میں احساسِ خود مختاری پیدا ہو۔”
قارئین !ذرا غور فرمائیں کہ اقبال کا یہ تجزیہ کہ ”پنڈت جی کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کو کچل ڈالا ہے ”وقت نے بہت جلد سچ ثابت کر دکھایا’جب پنڈت جی کے دل میں برصغیر کی زندگی کے ٹھوس حقائق کا احساس جاگ اٹھاتو مولانا ابو الکلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بھی
ٹھوس حقائق یعنی قیامِ پاکستان کی حقیقت کو قبول کرنے کا مشورہ دینے لگے۔مولانا آزاد نے اپنی تصنیف”انڈیا ونزفریڈم میں اس بات کاذکریوں
” فرمایاہے:

“After a few days Jawaharlal came to see me again. He began with a long
Preamble in which he emphasized that we should not indulge into wishful
thinking, but face reality. Ultimately he came to the point and asked me to give
give up opposition to partition.”

اسلامیانِ ہند نے۱۹۴۶ء کے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے پنڈت نہرو اورگاندھی جی کے سیاسی خواب پرستوں کو زندگی کے جن حقائق کا احساس دلایا تھا ‘اقبال نے برسوں پہلے پنڈت جی کو ان حقائق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ”سیاسی تدبر کا تقاضہ یہ ہے کہ زندگی کے حقائق سے فرارکرنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے پنجہ آزما ہوا جائے۔”اپنے زیرِ نظر مضمون میں بھی علامہ اقبال نے جداگانہ مسلمان قومیت کے سوال پر دوٹوک انداز میں اظہارِخیال کیا تھا ۔اقبال نے اسلامیانِ ہند کے سیاسی مسلک پر ان الفاظ پر روشنی ڈالی تھی:
“اسلام سے اس وقت تصادم ہوتا ہے جب کہ وہ ایک سیاسی تصور بن جاتی ہے اور اتحاد انسانی کا بنیادی اصول ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام شخصی عقیدے کے پس منظر میں چلا جائے اور قومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصر کی حیثیت سے باقی نہ رہے،جدا گانہ مسلمان قومیت کا سوال صرف ان ممالک میں پیدا ہوتا ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور جہاں قومیت کا یہ تقاضہ ہے کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا دیں۔جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیدا کر لیتا ہے کیونکہ یہاں اسلام اور قومیت عملاًایک ہی چیز ہے۔میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامیانِ ہند کسی ایسی سیاسی تصوریت کا شکار نہیں بنیں گے جو ان کی تہذیبی وحدت کا خاتمہ کر دے گی ‘اگر ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو جائے تو ہم اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ مذہب اور حب الوطنی میں ہم آہنگی پیدا کر لیں گے”۔
علامہ اقبال کا یقین ِکامل بالکل درست نکلا’اسلامیانِ ہند نے بالآخرمتحدہ ہندوستانی قومیت کے سیاسی تصور کو غلط ثابت کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان قائم کرلیا ۔ ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہو گئی اور یوں پاکستان میں اسلام سے عشق اور وطن سے محبت میں کوئی تضاد باقی نہ رہا۔اب ہمارا دین اسلام ہے اور ہمارا وطن دارلسلام ہے اور دوسری طرف آپ پنڈت جی کی صداقت کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ساری دنیا کے سامنے انہوں نے تحریری طور پر اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیں گے لیکن خود ہی اپنی تحریر سے منحرف ہوگئے اور اس وعدہ خلافی نے ان کی ساری شخصیت کا بھرم طشت ازبام کردیا ہے۔علامہ کا یہ شعر کتنا حسبِ حال ہے!

اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
رہے نام میرے رب کا جو حق سچ ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں