کشمیرایک جیتاجاگتامسئلہ

:Share

اس خطے میں میڈیاکے توسط سے جس قدر”امن کی آشا”کے نام پرلوگوں کودھوکہ دینے کی کوششیں کی گئیں اس کے بعدہوناتویہ چاہئے تھاکہ امن کی دیوی کاچہرہ دلوں میں بس جاتا لیکن اس کاکیاعلاج کیاجائے کہ امن کی دیوی کاداغدارچہرہ چھپایانہ جاسکا۔دراصل تنازع کشمیرکوجس قدرنظر اندازکیاجاتاہے یہ اسی قدرابھرکرسامنے آجاتاہے اوراپنے وجودکا ایسا احساس دلاتاہے کہ میڈیاکے نفسانفسی کے عالم کے باوجودسب سے زیادہ نمایاں ہوجاتاہے۔دورنہ جائیں ،صرف ایک ہی دن(۲۶مارچ) کو بھارتی وزیرخارجہ سے لیکر ننگ انسانیت مودی اورپاکستان سے حافظ محمد سعید صاحب نے بیک وقت تنازع کشمیرکاذکرکرکے ساری دنیاکوپھرسے خبردارکردیاہے کہ اس کی وجہ سے صرف اسی خطہ کا نہیں بلکہ عالمی امن بھی تباہ وبربادہوسکتاہے۔ حافظ سعید صاحب کاکہناہے کہ ”اگرمودی بھارت کاوزیراعظم بن گیاتوکشمیرجلدہماراہوگا” جبکہ مودی نے اپنے بھاشن میں بڑے تکبرکے ساتھ بھاشن دیا ہے کہ ”مسئلہ کشمیر۶۰دنوں میں حل کردوں گا”جبکہ بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید کاوہی گھساپٹابیان کہ”مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے امریکایاکسی دوسرے ملک کی ثالثی ہرگز قبول نہیں ” ۔
۲۴مارچ ۲۰۱۴ء کوہیگ پولینڈ میں ”نیوکلیر سیکورٹی سمّٹ میں وزیراعظم میاں نوازشریف نے امریکاپرزوردیاکہ وہ مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے کسی تیسری قوت کوثالثی قبول کرنے کیلئے بھارت کوآمادہ کرنے میں اپناکرداراداکرے ۔وزیراعظم نے جان کیری سے گفتگوکرتے ہوئے کہا”ہم جب بھی مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہیں توبھارت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا‘‘ ۔ بعدمیں وزیراعظم کے ہمراہ میڈیاکے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے کہاکہ”ہم تنازع کشمیرکے حل کیلئے وزیراعظم کے فارمولے کی تائید کرتے ہیں اور ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے میں پرعزم ہیں”۔
امریکی ٹریک ریکارڈ کوسامنے رکھتے ہوئے اگرچہ بعیدازقیاس لگ رہاہے لیکن جان کیری کے دل میں رحم کی کوئی رمق موجودہوتووائٹ ہاؤس میں اس اہم ایشوپربحث شروع کرسکتے ہیں ۔ کاش! امریکاکی سمجھ میں یہ حقیقت آسکتی کہ عالمی تنازعات حل کرانے میں اس پرکتنی بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے اوراگروہ اپنے قول وفعل کے تضادات کوترک کرکے اپنی منصبی ذمہ داریوں کوسمجھتے ہوئے دنیاکے دیرینہ حل طلب مسائل کی طرف بھرپورتوجہ کے ساتھ ان کے حل کی طرف قدم اٹھاتاتویہ نہ صرف مظلوم قوموں کامطالبہ ہے بلکہ مظلوم قوموں میں امریکاکی انصاف ترازی کا ڈنکابھی بج جاتا لیکن دیرینہ تنازعات اپنی جگہ ،امریکانے توگزشتہ ایک عشرے کے دوران میں نت نئے تنازعات پیداکرکے پوری دنیا کو آگ میں جھونک دیاہے۔
دنیاکے دیرینہ حل طلب مسائل میں مسئلہ کشمیراورمسئلہ فلسطین سرفہرست ہیں جہاں نصف صدی سے زائدعرصے سے بھارت اوراسرائیل آگ اورخون کاکھیل جاری رکھے ہوئے ہیں اورامریکا سمیت پورایورپ اس کھیل کامدت مدیدسے نظارہ کررہے ہیں۔ہرامن پسنددردمندذی شعور شخص سوچ رہاہے کہ یہ سفاکانہ کھیل کب تک جاری رہیں گے؟تنازع کشمیر کا آسان حل یہ ہے کہ اس مسئلے کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانادنیاکے بڑی طاقتوں کی بین الاقوامی اوراخلاقی ذمہ داری ہے۔اقوام متحدہ نے ریاست جموں و کشمیرکے ڈیڑھ کروڑ سے زائد عوام کو استصواب رائے کاحق دلانے کاوعدہ کررکھاہے،یہ حق دلانے میں اقوام عالم کواپنادامن نہیں چھڑاناچاہئے ۔جموں وکشمیرکے مسئلے پربین الاقوامی مداخلت کی درخواست خودبھارت اقوام متحدہ لیکر گیا تھا اور سلامتی کونسل نے رائے شماری کے ذریعے سے کشمیریوں کواپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کاحق دلانے کیلئے جو قرارداد منظور کی اس کی حمائت میں اقوام عالم کواپنی منافقت ترک کردینی چاہئے ۔اقوام عالم کے محض تماشائی کا کرداراداکرنے کی وجہ سے بھارت انتہائی بے توقیری کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیر رہاہے بلکہ صاف طورپروہ ان قراردادوں سے منحرف ہو گیا ہے ۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے پرمختلف ادوارمیں کئی قراردادیں بھی منظورکیں۔ایک مرحلے پر تو ناظم رائے شماری کا تقرر بھی ہوگیاتھالیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس عالمی ادارے کے کسی بھی فیصلے پرعملدرآمدنہیں ہوسکا۔پاکستان کی مختلف حکومتوں نے اپنے انداز میں مسئلے کے حل کیلئے کبھی براہِ راست اورکبھی بالواسطہ بھارت سے رابطے کئے جونتیجہ خیزثابت نہیں ہوسکے۔
وزیراعظم میاں نوازشریف اپنے پچھلے دورِ اقتدارمیں تو مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے سخت کوشاں تھے لیکن مشرف نے تومسئلہ کشمیرکاحلیہ تک بگاڑدیا جس سے یہ اہم بین الاقوامی مسئلہ کھٹائی میں پڑگیا۔اب ایک عشرے کے بعدنوازشریف کواقتدارملاہے اورانہوں نے مسئلہ کشمیرکے تنازع کے حل کے بارے میں بات شروع کردی ہے لیکن کشمیری عوام اس تذبذب میں بھی مبتلاہیں کہ اگرکشمیرکے مسئلے کوحل کئے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت شروع کردی گئی تو یہ بھارت کی خواہش پوری کرنے کے مترادف ہوگا۔مسئلہ کشمیرکے بارے میں امریکاسے رابطہ کرنادرست قدم کی طرف پیش رفت ہے لیکن پاکستان کوبھی بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کیلئے مسئلہ کشمیرکواولیت دینی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیرحل نہیں ہوجاتااتنی دیرتک اس خطے میں پائیدارامن کاخواب کبھی شرمندۂ تعبیرنہیں ہوسکتا۔اس مسئلے پر ماضی میں بھی کئی چھوٹی بڑی جنگیں ہوچکی ہیں،جنگ بندی لائن پردونوںافواج میں کشیدگی کسی بڑے سانحے کاموجب بھی بن سکتی ہے۔کشمیری عوام اب بھی مسلسل اپنے حق خود ارادیت کیلئے بے پناہ جانی ومالی قربانیاں دے رہے ہیں۔پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ ایک اہم اور لازمی فریق کی حیثیت میں بھی اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتااس لئے کوئی بھی حکومت مسئلہ کشمیرسے پہلوتہی کرکے اپنے اقتدارکوقائم نہیں رکھ سکتی۔یہی وجہ ہے کہ نوازشریف نے بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش کے باوجودمسئلہ کشمیرپرعالمی مداخلت یاکسی تیسرے فریق کی دخل اندازی کامطالبہ کیاہے۔
مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے تیسرے فریق کی مداخلت کی جوتجویزپیش کی گئی ہے بھارت اگرچہ پہلے کی طرح اس کومستردکرچکاہے مگرہرغیر جانبدار اورعدل پسندشخص اسے صائب قراردے گا کیونکہ اگردوفریق اپنے مؤقف پرقائم ہوں توتیسرافریق ہی ثالث بالخیرکاکرداراداکرسکتاہے ۔پاکستان کی تجویزقابل عمل بھی ہے اورخوش آئندبھی۔ تیسرے فریق نے صرف یہ کردارنبھاناہے کہ بھارت کواقوام متحدہ کی قراردادوں پرعملدرآمدکیلئے دباؤ ڈالناہے اس حوالے سے امریکاکوبھارت پراپنااثرورسوخ استعمال کرناچاہئے تاکہ اس دیرینہ اور خطرناک مسئلے کے حل کے بعد اس خطے میں امن کومستحکم کیاجاسکے،بلاشبہ امریکااس پوزیشن میں ہے کیونکہ اس وقت وہ بھارت کی مکمل سرپرستی کررہاہے اورکئی اہم معاملات میں بھارت کامددگار بھی ہے۔اکتوبر٢٠١٣ء میں بھی بارک اوباماکے ساتھ میٹنگ سے قبل ان سے مسئلہ کشمیرمیںمداخلت کی بات کی تھی تاہم بھارت قطعی طورپر بیرونی ثالثی کے حق میں نہیں۔بھارت کاہمیشہ سے مؤقف رہاہے کہ کہ شملہ معاہدہ کے تحت کشمیرسمیت دوطرفہ بات چیت کے ذریعے سے حل کئے جائیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیرکوئی دوطرفہ سرحدی تنازع نہیں بلکہ تسلیم شدہ بین الاقوامی تنازع ہے جس کی پشت پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ۱۸قراردادیں موجودہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت ہی تنازع کشمیرکواقوام متحدہ میں لیکرگیاتھا اوراب یہ بھارت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل میں
سنجیدگی کامظاہرہ کرے۔لیت ولعل اورہچکچاہٹ کسی مسئلے کاحل نہیں ہے بلکہ تمام مسائل آمنے سامنے بیٹھ کرہی حل ہوسکتے ہیں۔بھارت کی مسلسل ہٹ دھرمی اورحقیقت سے فرار کی کوششیں افسوسناک ہیں جس کے نتیجے میں پورے برصغیرمیں غیریقینی صورتحال برقراررہے گی جو خود بھارت کے مفادمیں بھی نہیں لہندایہ مسئلہ حل کرنے کیلئے اسے تمامتروسائل بروئے کارلانے چاہئیں کیونکہ بھارت بھی زیادہ دیرتک اپنی ترقی و خوشحالی کی رفتارکواس مسئلے کے تناظرمیں یرغمال بنائے رکھنے کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
بھارت کواس حقیقت کاادراک کرناچاہئے کہ کشمیرایک جیتاجاگتامسئلہ ہے جس سے انکار کرنا دن کورات کہنے کے مترادف ہے ۔اگرکشمیرمعمولی مسئلہ ہوتاتواس مسئلہ پرتین خوفناک جنگیں نہ ہوتیں اورنہ ہی لاکھوں کشمیریوں کوخون نذرانہ پیش کرناپڑتا،نہ ہی یہاں سینکڑوں بستیاں اجڑتیں۔ اگریہ کوئی معمولی مسئلہ ہوتاتویہاں سات لاکھ فوجیوں کی تعیناتی عمل میں نہ لائی جاتی اوربھارتی فوج کی جارحیت اوربہیمانہ کاروائیوں سے یہاں کے ۷۰۰میدان گزشتہ ۲۴سال کے دوران میں قبرستان میں تبدیل نہ ہوچکے ہوتے۔حقیقت جھٹلانے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی اوربھارتی حکمرانوں کے بطلان اورہٹ دھرمی سے کوئی بھی مثبت نتیجہ برآمدہونے کی توقع عبث ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیرایک عالمی مسئلہ ہے اور پوری دنیا تسلیم کرچکی ہے کہ اس کے حل ہی سے علاقائی امن کے تقاضے پورے کئے جاسکتے ہیں۔ بھارت کوخلوص کے ساتھ قدم آگے بڑھانے چاہئے لیکن اگروہ اس مسئلے کے حل کیلئے میاں نواز شریف کی سعی کے مطابق پیش قدمی نہیں کرتاتوامریکاکوازخودذمہ داری نبھانی چاہئے۔امریکا کا فرض بنتاہے کہ وہ بھارت کواس بات پر مجبور کر دے کہ وہ کشمیریوں کوموجودہ گرداب سے نکالنے کیلئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیرمیں رائے شماری کرائے۔ایساکرناخودامریکاکے مفادمیں بھی ہوگا کیونکہ جب بھارت اورپاکستان کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہوگاتوخطے میں امن قائم ہوجائے گا،تجارت کیلئے یہ خطہ جتنی بڑی عالمی منڈی ہے اس سے اقوام عالم پوری طرح آگاہ ہے۔
تنازع کشمیرکے حل سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کوحاصل ہوگا۔اس وقت کشمیرمیں جوبھارتی فوج تعینات ہے اس کے جوانون اورافسروں میں ڈیپریشن ،اعصابی تناؤ، خود کشیاں اور ذہنی امراض خطرناک حدوں کوپہنچ چکے ہیں۔تازہ ترین جائزوں کے مطابق مقبوضہ کشمیرمیں جبراًمامورپوری دنیامیں خودکشی کرنے والی نمبرون فوج بن چکی ہے ۔بروقت چھٹی نہ ملنے اور اپنے گھروں سے سالہاسال دوررہنے والے ایسے علاقے جہاں فوجی کو ہروقت اپنی موت دکھائی دے رہی ہو،کے باعث بھارتی فوج ذہنی امراض کے شکاربن رہے ہیں۔بروقت علاج معالجے کی سہولتیں نہ ملنے کے باعث ہرسال ان کی خودکشیوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہورہاہے۔
شمالی کشمیرکے گاؤں صفاپورہ ضلع گاندربل میں تعینات بھارتی قابض فوج ۱۳راشٹریہ رائفلز کیمپ میں ۲۶اور۲۷فروری کی درمیانی رات ایک بجے کے قریب اس وقت موت کے سائے چھاگئے جب کیمپ گھن گرج کے ساتھ گونج اٹھا۔کیمپ میں موجودفوجی سمجھے کہ کشمیری مجاہدین نے حملہ کر دیاہے جس پروہ حسبِ سابق دبک کربیٹھ گئے ۔گولیوں کی تڑاک پٹاک تھم جانے کے بعدکیمپ میں موجود فوجی اہلکاراوران کے افسریہ دیکھ کر ششدررہ گئے کہ ان کے اپنے ہی ۶ فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پڑی تھیں جبکہ ایک زخمی فوجی کراہ رہاتھا اور ہچکیاں لیتے ہوئے دھیمی آواز میں کہہ رہا تھاکہ اپنے ہی ساتھی نے ہم پرہلہ بول دیا ، پہلے اپنے ساتھیوں کو گولیوں سے بھون دیااوربعدازاں خودکشی کرلی۔
مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ جس میں ایک اہلکارنے اپنے ہی پیٹی بندساتھیوں کوہلاک کرکے اپنے آپ کاخاتمہ کرلیا بلکہ گزشتہ دو عشروں کے دوران میں مقبوضہ کشمیرمیں ایسے بیسیوں واقعات ہوچکے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان واقعات میں کمی کی جائے ہرسال اضافہ ہی ہوتا جا رہاہے ۔دراصل بھارتی فوج کوکئی اقسام کے امراض نے گھیررکھاہے جن میں ڈیپریشن اوراعصابی تناؤ اورذہنی امراض ،بڑے پیمانے پرکرپشن،بدانتظامی اور بداخلاقی کابھی رحجان شامل ہے۔کئی خوفناک مسائل کی وجہ سے گزشتہ دس برسوں میں ہزاروں فوجیوں نے حالات سے تنگ آکرخودکشی کرلی۔ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج میں ۵۶.۳۸٪ذہنی مریض ،۸.۹٪شدیددباؤ کاشکار جبکہ ۱۷.۹۴٪ شراب کے سہارے زندگی گزاررہے ہیں۔
سرینگرمیں تعینات بھارتی فوجیوں کاکہناہے کہ اپنے اہل خانہ سے دورطویل عرصے تک تعیناتی کی وجہ بھارتی فوجی تیزی سے مایوسی اورنفسیاتی مسائل کاشکارہورہے ہیں۔بھارتی وزیردفاع اے کے اینتونی نے بھارتی پارلیمان کے ایک اجلاس میں کچھ عرصہ قبل روح فرسارپورٹ پڑھ کرسنائی کہ ۲۰۰۵ء کے بعدسے بھارتی فوج میں خودکشی کے ۷۸۰واقعات رونماہوچکے ہیں اوران میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہاہے ۔۲۰۰۷ء میں ۱۴۲/فوجیوں نے اپنے افسروں کے ناروارویے اورحالات سے تنگ آکرخودکشی کی۔۲۰۰۸ء میں یہ تعداد۱۵۰/تک جاپہنچی ۔بعض انتہائی اقدامات کے باعث ۲۰۰۹ء میں یہ تعدادکسی حدتک کم ہوئی اوراس سال ۱۱۱/فوجیوں نے خودکشی کی لیکن۲۰۱۰ء میں یہ تعدادپھربڑھ کر۱۳۰ تک جاپہنچی جبکہ جولائی ۲۰۱۱ء تک(جب یہ رپورٹ تیارکی جارہی تھی)۷۰ فوجی خودکشی کرچکے تھے ۔ بھاری وزیر دفاع نے یہ انکشاف بھی کیاکہ خودکشی کے اس عمل کوروکنے کی تمام کوششوں کے باوجوداس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔خودکشی کرنے والے ان افرادمیں سنیئر اورجونیئر سب سپاہی شامل ہیں کیونکہ۴جولائی ۲۰۱۲ء کی رپورٹ کے مطابق سریاکانت ورماجو۵۰سالہ سنیئرفوجی افسرتھااوربھارتی فوج میں آرمی ویلفیئر بورڈ کے پروگرام کوارڈینیٹر جیسے اہم عہدے پرفائزتھا،اس نے گلے میں پھنداڈال کرخودکشی کرلی۔یہ بھارت کودرپیش فوجی مسائل کی ایک ہلکی جھلک ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ تنازع کشمیرخودبھارت کیلئے سنگین ترین مسئلہ ہے جس کے حل کی کوئی بھی سبیل اختیارکرنے میں اس کااپناہی فائدہ ہے۔
برسبیل تذکرہ ایک اہم معاملے کی طرف توجہ دلانابھی بہت اہم ہے کہ راقم کوکشمیری بزرگ رہنماء جناب سید علی گیلانی صاحب سے اکثرٹیلیفون پربراہِ راست گفتگوکی سعادت اورنیاز مندی حاصل ہے ۔ کشمیر اور برصغیرکے معاملات پران کے پندونصائح اور سیر حاصل تبصروں سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ مل جاتاہے ۔حالیہ افسوسناک واقعہ کی طرف جب میں نے اشارہ کیاتوانہوں نے نہائت تفصیل سے انکشاف کیا کہ دورانِ علالت دہلی میں دوکشمیری پنڈت مودی کی طرف سے ملنے کی درخواست لیکر آئے ۔پہلے توانہوں نے ملنے سے انکارکردیالیکن دوسری مرتبہ مودی سے نہ ملنے کی تفصیلاً وجوہات بتاکرمعذرت کردی کہ گجرات میں بے گناہ مسلمانوں کے خون میں ملوث افرادسے ملنادراصل ان مسلمانوں کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہوگا۔محترم گیلانی صاحب کی یہ سیاسی بصیرت ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کواس سے آگاہ کیاکہ کل کلاں اگرنریندرمودی اقتدارمیں آ کرانکشاف کرتے توقوم یقیناًاپنے رہنماء سے یہ سوال کرتی کہ آپ نے اس ملاقات کوخفیہ کیوں رکھا؟اس معاملے میں جناب گیلانی صاحب نے کسی کانام بھی نہیں لیالیکن بیانات کی حدتک ایسی بدمزگی پیداہوئی کہ یقیناً دشمنوں نے گھی کے چراغ روشن کئے لیکن گیلانی صاحب کی بائیکاٹ کی اپیل پرقوم نے جس طرح لبیک کہایقینا یہ ان کے صبروعزیمت کاصلہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں