دسمبر2017ءمیں پاکستان کی کچھ اہم شخصیات خاموشی سے سعودی عرب گئیں۔کچھ دن بعد سعودی حکومت کی طرف سے بھیجاگیاایک طیارہ لاہورایئرپورٹ پر موجودتھا۔یہ طیارہ خصوصی طورپرسا بق وزیراعظم نوازشریف اوران کے بھائی،اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو سعودی عرب لے جانے آیاتھا۔ سعودی خاندان کے شریف خاندان سے رابطے ہوئے اور دونوں بھائی2جنوری2018ءکوشاہی طیارے پرسوارہوکرسعودی عرب روانہ ہوگئے۔ان دنوں نوازشریف ایک اقامے کی بنیادپر سپریم کورٹ کے عدالتی حکم سے وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوچکے تھے۔ان کی اہلیہ بیمارتھیں اورانہیں اقتدارسے بے آبرو کرکے نکالے جانے کابہت رنج تھا۔ نواز شریف پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانات دے رہے تھے۔ملک میں آئندہ عام انتخابات قریب آرہے تھے،لہٰذاسول ملٹری تصادم کاسڑکوں پرآنے کاخطرہ بھی تھا۔اسی خطرے کوٹالنے کیلئےشریف برادران کوسعودی شہزادے محمد بن سلمان نے اپنے ہاں بلایاتھا۔
جب نوازشریف اقتدارمیں تھے توانہوں نے یمن کے معاملے پرازخودکوئی فیصلہ کرنے کی بجائے معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیااوربعد میں سعودی حکومت کو اپنی مسلح افواج بھیجنے سے انکارکیاتھا۔اس پس منظرمیں سعودی حکومت بھی نوازشریف کے اقتدارکے آخری دنوں میں ان سے خوش نہیں تھی۔ مگرپاکستان کے اندرایک پیدا ہوتے تنازعے کوٹالنے کیلئے شہزادہ محمد بن سلمان میدان میں تھے۔شہزادے سے ملاقات میں نوازشریف کوپیشکش کی گئی کہ وہ برطانیہ چلے جائیں اورپارٹی اموربھائی کے حوالے کردیں،ان کے تمام عدالتی مسائل حل ہوجائیں گے۔
مجھے نوازشریف کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا کہ شہزادہ محمدبن سلمان کی پیشکش کے جواب میں نوازشریف نے اپنی سیاسی مجبوریوں کاتذکرہ کیااور شکریہ کے ساتھ انکارکردیا۔یہ ملاقات ختم ہوئی تواس کے بعدنوازشریف اورشہبازشریف شہزادے کے خصوصی طیارے پرمدینہ گئے،جہاں انہوں نے روزہ رسولؐ پر حاضری دی اوروطن واپس آگئے۔اس دورے کے بعد نوازشریف احتساب عدالت اسلام آبادکے چکرلگانے لگے اورکچھ عرصے بعدجب ان کی اہلیہ کلثوم نوازکی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تووہ مریم نوازکے ہمراہ لندن چلے گئے۔احتساب عدالت سے سزاکااعلان ہواتوپاکستان میں کلثوم نوازکی بیماری کوسیاسی رنگ دے دیا گیا،اس پرنوازشریف نے بیٹی کے ہمراہ وطن واپسی کافیصلہ کرلیا۔
اسی دوران ایک سرکاری افسرملاقات کیلئےشہبازشریف کے لاہورمیں واقع گھرپہنچ گئے۔شہبازشریف کوکہاگیاکہ نواز شریف کوبرطانیہ رہنے کیلئےکہاجائے،ان کے تمام مسائل حل کرلیے جائیں گے۔ظاہرہے یہ وہی حل تھاجوشہزادہ محمد بن سلمان پہلے ہی دونوں بھائیوں کوپیش کرچکے تھے۔شہبازشریف نے بڑے بھائی کو دوبارہ کی گئی پیشکش سے آگاہ کیامگر بڑا بھائی عدالت کی آوازپربیماراہلیہ کوبرطانیہ میں چھوڑکربیٹی کے ہمراہ لاہورآدھمکااوردونوں باپ بیٹی نے گرفتاری دے دی اورجیل چلے گئے۔اس کے بعدجوکچھ ہواسب تاریخ کاحصہ ہے۔
ظاہرہے ہرکڑے وقت میں پاکستان کی مالی امدادکرنے والے سعودی عرب کواس پیشکش کونظراندازکرنے کارنج ضرورہواہو گا۔اس موقع پرشہزادہ محمدبن سلمان نے جو کرداراداکرنے کی کوشش کی تھی اس میں بظاہران کی نیک نیتی شامل تھی۔ جسے سیاسی مجبوریوں کے تحت نظراندازکیاگیا۔دراصل نوازشریف کے اقتدار سے نکلنے کی ایک وجہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں کمزوری بھی تھی۔سعودی عرب یمن کے بارے میں نوازشریف سے مایوس ہوا جبکہ متحدہ عرب امارات کے دل میں ایکسپو2020ءکروانے کیلئےپاکستان کی طرف سے خودپرترکی کوبرتری دینے اوراسے ووٹ دینے کا دکھ تھا۔ ایک طرف سعودی شہزادہ محمد بن سلمان تھے تودوسری طرف ان کے قریبی دوست متحدہ عرب امارات میں ابوظہبی کے ولی عہد محمدبن زید۔دونوں کودنیا بھرمیں ایم بی ایس(محمدبن سلمان)اورایم بی زیڈ(شہزادہ محمد بن زید) کے طورپرجاناجاتاہے۔نوازشریف کااقامہ متحدہ عرب امارات نے جاری کیاتھا،اگراس وقت نوازشریف اورمتحدہ عرب امارات میں رابطہ ہوجاتایاغلط فہمیاں دورہوجاتیں توشاید اقامے کی قانونی حیثیت بھی متنازع ہوجاتی مگرایساکچھ نہ ہوالیکن اس سارے واقعے سے ایک بات ضرورواضح ہوئی کہ سعودی عرب اورشہزادہ محمدبن سلمان نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان کے اندرکے معاملات میں دلچسپی اورآگہی ضرور رکھتے ہیں۔ان کی پاکستانیوں سے گہری وابستگی ہے اوروہ پاکستان میں کسی تنازعے میں اپناکرداربھی اداکرتے ہیں۔
نوازشریف کے بعداب عمران خان ملک کے نئے وزیراعظم ہیں۔عمران خان نے وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھایاتوملک کوسب سے پہلے معاشی بحران کاسامناتھا۔ اس معاشی بحران اورکڑے وقت میں مددکیلئےسعودی عرب نہ صرف کھل کرسامنے آیابلکہ اس نے پاکستان کی گرتی معیشت کوسہارادینے کیلئےفوری طورپر تین ارب ڈالرکمزورمعیشت میں غیرملکی ذخائرکی مدمیں رکھے۔ظاہرہے اس سارے معاملے میں سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ شہزادہ محمدبن سلمان کابڑا کلیدی کردارتھا۔
شہزادہ محمدبن سلمان جب عالمی سیاسی افق پرنمودارہوئے تودنیابھرمیں وہ ایک بہترتاثرکے ساتھ سامنے آئے انہوں نے سعودی عرب کے اندرمثبت تبدیلیاں متعارف کروائیں۔انہیں دنیابھرمیں سراہاگیاتاہم جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پرانہیں کڑی تنقیدکابھی سامنارہا۔
سعودی عرب اورشہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے سیاستدانوں سے ہی نہیں اصل فیصلہ سازوں سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔وزیراعظم نوازشریف ہوں یا عمران خان،سعودی عرب کے پاکستان سے تزویراتی تعلقات ہیں جوذاتی دوستی سے مبرا ہیں۔بہرحال اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض معاملات میں ذاتی تعلقات اورشناسائی بھی ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ بحیثیت ملک ہماری جیب خالی ہے لیکن ہمارے پاس ایٹم بم ہے اورمستعدفوج بھی۔ سعودی عرب کوجب بھی پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے،ہماری حکومتیں اورریاستی ادارے سب سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اسی سلسلے کی ایک مثال ہیں۔
اس پس منظرمیں شہزادہ محمدبن سلمان کا17فروری2019ءکودوروزہ دورہ پاکستان انتہائی اہم رہا۔ان کی پاکستان آمدپر پاکستان کی کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں نے تہنیتی بیانات دیے۔سعودی شہزادہ محمدبن سلمان کادورہ پاکستان ایک ایسے ماحول میں ہوا،جب چارپانچ اہم ترین معاملات پاکستان کوگھیرے ہوئے تھے۔اوّل یہ کہ پاکستان ایک شدید معاشی بحران کاشکارتھا،دوم،پاکستان افغان طالبان اورامریکاکے درمیان مذاکرات کوحتمی شکل دینے میں مصروف تھااورسوم،بھارتی مقبوضہ کشمیرکے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حالیہ حملے کے بعدبھارت ایک بارپھرپاکستان پراس حملے کی ذمہ داری عائد کرکے محدود نوعیت کے حملوں کی سوچ بچارکررہاتھا۔ایران میں بھی ایک حملہ ہوچکاتھا،جس کاپاکستان پرالزام عائدکیا گیاتھا۔ ظاہرہے سفارتی سطح پرپاکستان اس ساری صورتحال سے خاموشی سے نمٹ رہاتھا۔
بظاہریہ تمام امورالگ الگ تھے مگرمیر ے ذاتی خیال میں یہ سب موضوعات کسی نہ کسی حوالے سے سعودی عرب سے جڑے ہوئے تھے۔شہزادے کی آمد کے بعدسعودی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ 20؍ارب ڈالرکے ابتدائی معاہدے کیے گئے۔جس سے فوری طورپرپاکستانی معیشت کی بہتری اورسرمایہ کاروں کیلئےماحول کے سازگارہونے کی امیدبندھی۔
وزیراعظم اورسعودی شہزادے کے درمیان گرم جوش تعلقات کی بناپروزیراعظم کی درخواست پرسعودی عرب کی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی رہائی بھی عمل میں لائی گئی۔پتاچلاہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سزایافتہ قیدیوں کے تبادلے کامعاہدہ بھی تیارکرلیاگیا۔اس دورے میں پاکستان نے سعودی شہزادے کے عالمی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات کواستعمال کرنے کیلئے کیابات چیت کی،اگرچہ ابھی تک اس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔تاہم یہ ضروردیکھاگیاکہ سعودی عرب کے شہزادے نے بھارت کے دورے کے دوران اپنے وزیرخارجہ کے ذریعے پاکستان سے محبت کے حوالے سے ایک واضح موقف اختیارکیا۔بھارت نے سعودی شہزادے کادورہ مکمل ہونے کے بعد26فروری کوپاکستان کی فضائی حدودکی خلاف ورزی کی اوراگلے روزپاکستان نے بھارتی طیارے مارگرانے کے ساتھ ساتھ بھارتی پائلٹ بھی حراست میں لیا۔
اس سارے ماحول میں متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والی مسلم ممالک کی تنظیم کے اجلاس سے پاکستان نے توبھارت کومدعو کرنے کے خلاف احتجاجی طورپراس اجلاس سے بائیکاٹ کااعلان کیامگراس اجلاس کے بعدجاری اعلامیے میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بھارتی پائلٹ کوچھوڑنے یارہاکرنے کے اقدام کوسراہاگیا۔یہ سب کچھ سعودی بیک ڈور کردار کے بغیرممکن نہیں تھا۔پلوامہ کے پس منظرمیں پاکستان میں افغان طالبان کے مذاکرات تونہ ہوئے لیکن دونوں ممالک کے درمیان امن کیلئےسعودی عرب اورامریکاسمیت کچھ پس پردہ رابطے ضرورہوئے جس کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کے خطرے کوٹالاگیا۔یہ واقعی بہت بڑی کامیابی تھی۔
سعودی شہزادے کے دورے سے دوتین باتیں واضح ہوگئیں۔اوّل یہ کہ سعودی عرب اورپاکستان کی موجودہ حکومتوں کے مستقبل قریب میں مل کرچلنے کی راہ ہموارہوئی،دوسرایہ بات کھل کرسامنے آئی کہ عالمی فورمزپرسعودی عرب اب پاکستان کی بھرپورحمایت کرے گا،تیسرایہ کہ اس دورے نے پاکستان کے اندر موجودہ حکومت کومستحکم کرنے میں بھی اہم کردارادا کیا۔اس دورے میں عمران خان بطوروزیراعظم ایک مضبوط رہنماکے طورپرسامنے آئے۔
اس دورے نے پاکستان کیلئےجہاں معاشی سطح پرکچھ امیدیں قائم کی ہیں وہاں پاک بھارت تنازعے کے بعدمعاشی سطح پر سعودی عرب کی معاونت کی امیدبھی سامنے آئی ہے۔اگرپاکستان سعودی عرب سے قریبی تعلقات رکھتے ہوئے بھارت،ایران اور افغانستان سے تعلقات میں بہتری لے آتاہے تویہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔سعودی عرب سے تعلقات کامطلب بالواسطہ امریکا سے تعلقات بھی ہے۔
مودی کی بھاری اکثریت سے کامیابی پرعمران خان نےتہنیتی پیغام بھیج کراقوام عالم کوپاکستان کی طرف سے امن پسندی کا جوپیغام بھیجا،مودی حکومت کی طرف سے اس کافی الحال مثبت جواب نہیں آیاکیونکہ مودی نے اپنی انتخابی مہم ہی پاکستان دشمنی پرچلائی تھی جس کی وجہ سے مودی کی حلف برداری کی تقریب میں عمران خان کودعوتملنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتااوردوسری طرف وزیرستان میں دشمن قوتوں کی طرف سے ایک انتہائی خطرناک کھیل شروع کردیاگیاہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں ہماری افواج کی قربانیوں سے امن واپس لانے کے نتائج کوسبوتاژکرنے کی کوششیں جاری ہیں۔تاریخ شاہدہے کہ امریکاجب بھی کسی ملک سے رخصت ہورہاہوتاہے وہاں اپنی ناکامیوں کاملبہ پڑوسی ممالک پرڈال کرجاتاہے اوریہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کابدلہ وزیرستان میں حالیہ شورش کی شکل میں سامنے آرہاہے۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمیں سعودی عرب سے تعلقات کومزیدفروغ دے کرمکمل طورپراستعمال کرناہوگامگراس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم باقی ممالک سے آنکھیں بندکرلیں۔تعلقات کے باہمی فروغ کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرونی حالات کوبہتربناناہوگااوروہ اقدمات کرناہوں گے جن کے باعث بھاری قربانیوں کی قیمت پرامن کے کامیاب حصول کوگزندنہ پہنچے اورملکی سیاسی جماعتوں کواختلافات بھلاکرقومی یکجہتی کامظاہرہ کرناہوگاجس کیلئے موجودہ حکومت کوپہل کرنے کی اشدضرورت ہے۔
Load/Hide Comments